خیبر صهیون تحقیقاتی ویب گاه



امریکہ کے ذریعے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد، اسرائیل نے ابتدا میں اس اقدام کی تعریف کی اور امریکہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ لیکن ایران میں محسن رضائی کے ٹویٹ، دیگر فوجی افراد کے تبصروں اور صہیونی ریاست کو دھمکی دئیے جانے کے بعد، صہیونی وزرا نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے کینسٹ کی مٹینگ میں کہا ہے:قاسم سلیمانی کا قتل اسرائیلی کاروائی نہیں بلکہ امریکی کاروائی تھی اور اس کا ہمارے ملک سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن کیا حقیقت میں اسرائیل کا قاسم سلیمانی کے قتل میں کوئی کردار نہیں تھا؟

سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ، قومی سلامتی کمیٹی کے ترجمان ، سردار سعید قاسمی اور سید ہادی برہانی نیز دیگر ایرانی اسکالرز نے شہید قاسم سلیمانی کے قتل میں اسرائیل کے کردار کا جائزہ لیا۔ لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں جنرل سلیمانی کے قتل کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو ایران کے خلاف جنگ بھڑکانے کی تمنا رکھنے والے یہودی عناصر کے اکسانے پر مبنی قرار دیا ہے جن میں ان کے داماد کوشنر بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب سے موساد کے سابق نائب سربراہ "رام بن باراک" نے اس بارے میں اسرائیلی فوجی ریڈیو سے کہا:
"سلیمانی کا قتل اسی منصوبہ بند پیمانے پر ہے جس پر اسرائیل نے 2008 میں عماد مغنیہ کا قتل کیا تھا۔"
در حقیقت یہ ٹارگٹ کلنگ، اگرچہ ایک امریکی عمل تھا، لیکن اس کا فیصلہ اسرائیل کی جانب سے لیا گیا تھا۔ اس لیے کہ اس کارروائی سے سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا۔ لیکن مغربی ایشین خطے میں، داعش کے خاتمے اور عراق میں داخلی صورتحال کی ناکامی کے بعد امریکی صورتحال متزل اور زوال پذیر رہی ہے، لہذا ایسے حال میں ایسی کاروائی یقینی طور پر اس رجیم کے فائدے میں نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس قتل نے خطے میں اس کے اخراجات میں بھی اضافہ کیا اور دوسری طرف امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی ی پوزیشن کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔

202


این متن دومین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

زکات علم، نشر آن است. هر

وبلاگ می تواند پایگاهی برای نشر علم و دانش باشد. بهره برداری علمی از وبلاگ ها نقش بسزایی در تولید محتوای مفید فارسی در اینترنت خواهد داشت. انتشار جزوات و متون درسی، یافته های تحقیقی و مقالات علمی از جمله کاربردهای علمی قابل تصور برای ,بلاگ ها است.

همچنین

وبلاگ نویسی یکی از موثرترین شیوه های نوین اطلاع رسانی است و در جهان کم نیستند وبلاگ هایی که با رسانه های رسمی خبری رقابت می کنند. در بعد کسب و کار نیز، روز به روز بر تعداد شرکت هایی که اطلاع رسانی محصولات، خدمات و رویدادهای خود را از طریق

بلاگ انجام می دهند افزوده می شود.


این متن اولین مطلب آزمایشی من است که به زودی آن را حذف خواهم کرد.

مرد خردمند هنر پیشه را، عمر دو بایست در این روزگار، تا به یکی تجربه اندوختن، با دگری تجربه بردن به کار!

اگر همه ما تجربیات مفید خود را در اختیار دیگران قرار دهیم همه خواهند توانست با انتخاب ها و تصمیم های درست تر، استفاده بهتری از وقت و عمر خود داشته باشند.

همچنین گاهی هدف از نوشتن ترویج نظرات و دیدگاه های شخصی نویسنده یا ابراز احساسات و عواطف اوست. برخی هم انتشار نظرات خود را فرصتی برای نقد و ارزیابی آن می دانند. البته بدیهی است کسانی که دیدگاه های خود را در قالب هنر بیان می کنند، تاثیر بیشتری بر محیط پیرامون خود می گذارند.


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایران میں فلسطین کی تحریک ’جہاد اسلامی‘ کے نمائندے ناصر ابوشریف نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امت اسلامی کو صہیونی منصوبوں کے مقابلے میں کامیابی کی طرف رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ صہیونی منصوبے جو امت اسلامی کو پاش پاش کرنے کی غرض سے تیار کیے گئے ہیں۔
اسلامی انقلاب کا بھروسہ اسلام پر اور مغربی و صہیونی سازشوں کے مقابلے میں استقامت اور پائیداری پر ہے لہذا کامیابی اسلامی انقلاب کا مقدر ہے۔
شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ جو ہماری آخری ملاقات ہوئی اس میں انہوں نے کہا کہ قدس کی آزادی کے لیے جد و جہد عصر حاضر میں نہ صرف ایک ذمہ داری ہے بلکہ آزمائش کا ایک ذریعہ بھی ہے اور خداوند عالم امت کو اس کے حوالے سے مواخذہ کرے گا اور پوچھے گا کہ تم نے قدس کے لیے کیا کیا۔ جو لوگ اس آزمائش اور منزل امتحان میں کامیاب نہیں ہوں گے جہنم کی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ شہید سلیمانی نے اس ملاقات میں اس اہم نکتے پر زور دیا کہ قدس بہشت و دوزخ کو متعین کرنے کا ذریعہ ہے۔
میں ایک فلسطینی ہونے کے ناطے ملت ایران سے کہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی انقلاب کی حمایت ہماری ذمہ داری ہے چونکہ ایران اور اسلامی انقلاب تمام مستضعفوں اور مظلوموں کی امید ہے۔


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بین الاقوامی پابندیوں اور مقبوضہ فلسطین کے رہنے والے فلسطینیوں کی آبادی میں اضافہ نے اسرائیل میں ڈیموکریسی کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
ان تمام حالات کے باوجود، پناہ گزینوں کے حق واپسی کو نظرانداز کرنے اور امن کا منصوبہ پیش کرنے والی امریکی ڈیل کے قبول کرنے پر فلسطینی مجبور نہیں ہیں۔ بلکہ یہ سرزمین دھیرے دھیرے خود بخود ان کے قبضے میں واپس چلی جائے گی۔ صرف انہیں ایک دو نسلوں تک صبر کرنے کی ضرورت ہے یہاں تک کہ ’یہودی اسرائیل‘ نابود ہو جائے۔


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عراق میں اٹلی کے سابق سفیر نے کہا ہے کہ مغربی ایشیا میں ایران کے اسلامی انقلاب کو چالیس سال مکمل ہو چکے ہیں جبکہ اس کے خاتمے کی کوئی نشانی نظر نہیں آ رہی ہے۔
وہ مزاحمتی محاذ جس کا امریکہ مخالف ہے اور صہیونی ریاست جس کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے وہ ایران کی آئیڈیالوجی کے مطابق پروان چڑھ رہا ہے۔
ایران چونکہ کسی بھی قیمت پر مغربی طاقتوں کے آگے جھکنے کو تیار نہیں ہے اور اسرائیل- فلسطین کے درمیان صلح کے لیے امریکہ کے تجویز کردہ امن منصوبے کو تسلیم نہیں کر رہا ہے لہذا علاقے میں اس کا موقف اہم اثرات کا حامل ہے۔
امریکہ کے بدستور حکم سے جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد ان کے تشییع جنازہ میں غیر قابل تصور جم غفیر کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایرانی قوم امریکہ کی اس خام خیالی سے وں دور ہے کہ امریکہ ان کے لیے نجات دھندہ ہے۔
 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کچھ سال قبل صہیونی ریاست کو زبردستی جنم دیا گیا، اور زبردستی اس رژیم کی طاقت کو بڑھاوا دیا گیا اور ہمیشہ یہ کوشش کی گئی کہ اسرائیل کو نیل سے فرات تک قابض کریں۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی ریاست کے پرچم پر دو نیلے رنگ کی لیں ہیں جو نیل اور فرات کی علامتیں ہیں۔
وہ اسرائیل جو طے تھا کہ روز بروز بڑے سے بڑا ہوتا جائے گا وہ دن بدن چھوٹے سے چھوٹا ہوتا گیا۔ اس رژیم کو لبنان اور غزہ سے نکال دیا گیا اور آج وہ مجبور ہے کہ اپنے اطراف میں دیوار کھینچے۔ جبکہ یہ دیوار غیرقانونی ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
آج مزاحمتی محاذ اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ جب چاہے مقبوضہ فلسطین کے ہر نکتے کو نشانہ بنا سکتا ہے اگر چہ وہ کس قدر اسرائیل کے لیے اہمیت کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔
سید حسن نصر اللہ نے اپنی ایک دھمکی میں کہا تھا کہ ہم حیفا کے ’امونیا‘ مرکز کو بھی حملے کا نشانہ بنا سکتے ہیں اور اس مرکز کا دھماکہ صہیونیوں کے لیے ایٹم بم کے دھماکے سے کہیں زیادہ ہے۔ لہذا صہیونی ریاست اپنی سالمیت کو لے کر کافی خائف ہے۔
اگر تمام فلسطینی یک صدا ہو کر آواز بلند کریں اور اپنے گھر واپسی کا اعلان کر دیں تو یقینا صہیونی ریاست کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا۔ لہذا اسرائیل کی نابودی اسی میں مضمر ہے۔

حسین شیخ الاسلام کے ساتھ خیبر کی خصوصی گفتگو سے اقتباس


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ دستغیب تیسرے شہید محراب اور انقلابی مجتہد ہیں کہ لوگ عام طور پر انہیں استاد اخلاق اور اخلاقی کتابوں جیسے قلب سلیم اور گناہان کبیرہ وغیرہ کے مولف ہونے کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔
آپ کی ی سرگرمیوں میں اسرائیل اور صہیونیت کے خلاف جد و جہد واضح و آشکار نظر آتی ہے۔ انقلاب اسلامی سے قبل، ایران کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے پر آیت اللہ دستغیب نے پہلوی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے آپ کو گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا گیا۔ آپ کے اس عمل سے ہمیں دو پیغام ملتے ہیں؛ ایک یہ کہ کسی انسان کے اخلاقی اور معنی امور میں درجہ کمال تک پہچنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ ی دنیا سے بے خبر ہو اور مسلمانوں کے مسائل کی نسبت آگاہی نہ رکھتا ہو۔ دوسرا یہ کہ پہلوی حکومت کس قدر غیروں خصوصا اسرائیل کی غلام تھی کہ صہیونی ریاست پر معمولی اعتراض برداشت کرنے کی توانائی نہیں رکھتی تھی اور اعتراض کرنے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آتی تھی۔ (۱)
۱۔ یاران امام به روایت اسناد ساواک، ج ۱۰، ص ۱۱۸، ۱۴۶، ۲۴۸-۲۵۸، ۵۹۰-۶۳۱.
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ سید محمد قاضی طباطبائی جو آذربائیجان میں حضرت امام خمینی (رہ) کے نمائندے تھے پہلے شہید محراب ہیں کہ جنہیں انقلاب اسلامی سے قبل بھی متعدد بار شہنشاہی حکومت نے جلاوطن کیا۔ اسرائیل اور صہیونیت کے خلاف مجاہدت آپ کی خصوصیات میں شامل تھی جو آپ امام کی پیروی میں اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے انجام دیتے تھے۔
مثال کے طور پر عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ہوئی تیسری جنگ کے بعد آیت اللہ قاضی طباطبائی نے دیگر علماء کی طرح فلسطین کے مظلوم عوام کے لیے امداد اکٹھا کرنے کی انتھک کوشش کی۔ (۱)
۱۔ نیکبخت، رحیم و اسمعیل زاده، صمد، زندگینامه و مبارزات شهید آیت‌الله قاضی طباطبائی، ص۲۲۹.
 


خیبر صہیونی تحقیقاتی ویب گاہ: قاسم سلیمانی کو شہید کرنے کا منصوبہ در حقیقت اسرائیلی مفاد اور ضرورت کے تحت صہیونی لابی نے امریکہ پر تھونپا۔
صہیونی لابی امریکی حکمران طبقے میں گہرا اثر و رسوخ رکھتی ہے جس کی واضح دلیل خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل نواز پالیسیاں ہیں۔
صہیونی بہت آسانی سے امریکیوں پر اپنی رائے مسلط کر سکتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے ہر اس منصوبے کو ان پر تھونپ سکتے ہیں جو صہیونی ریاست کے مفاد میں ہو۔

تہران یونیورسٹی کے شعبہ عالمی مطالعات کے پروفیسر ڈاکٹر سید ہادی برہانی کے ساتھ خیبر کی خصوصی گفتگو میں سے اقتباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۲۰۲


امریکہ کے ذریعے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد، اسرائیل نے ابتدا میں اس اقدام کی تعریف کی اور امریکہ کی حمایت کا اعلان کیا۔ لیکن ایران میں محسن رضائی کے ٹویٹ، دیگر فوجی افراد کے تبصروں اور صہیونی ریاست کو دھمکی دئیے جانے کے بعد، صہیونی وزرا نے پریس کانفرنس میں کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے کینسٹ کی مٹینگ میں کہا ہے:قاسم سلیمانی کا قتل اسرائیلی کاروائی نہیں بلکہ امریکی کاروائی تھی اور اس کا ہمارے ملک سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن کیا حقیقت میں اسرائیل کا قاسم سلیمانی کے قتل میں کوئی کردار نہیں تھا؟

سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ، قومی سلامتی کمیٹی کے ترجمان ، سردار سعید قاسمی اور سید ہادی برہانی نیز دیگر ایرانی اسکالرز نے شہید قاسم سلیمانی کے قتل میں اسرائیل کے کردار کا جائزہ لیا۔ لاس اینجلس ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں جنرل سلیمانی کے قتل کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو ایران کے خلاف جنگ بھڑکانے کی تمنا رکھنے والے یہودی عناصر کے اکسانے پر مبنی قرار دیا ہے جن میں ان کے داماد کوشنر بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب سے موساد کے سابق نائب سربراہ "رام بن باراک" نے اس بارے میں اسرائیلی فوجی ریڈیو سے کہا:
"سلیمانی کا قتل اسی منصوبہ بند پیمانے پر ہے جس پر اسرائیل نے 2008 میں عماد مغنیہ کا قتل کیا تھا۔"
در حقیقت یہ ٹارگٹ کلنگ، اگرچہ ایک امریکی عمل تھا، لیکن اس کا فیصلہ اسرائیل کی جانب سے لیا گیا تھا۔ اس لیے کہ اس کارروائی سے سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا۔ لیکن مغربی ایشین خطے میں، داعش کے خاتمے اور عراق میں داخلی صورتحال کی ناکامی کے بعد امریکی صورتحال متزل اور زوال پذیر رہی ہے، لہذا ایسے حال میں ایسی کاروائی یقینی طور پر اس رجیم کے فائدے میں نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس قتل نے خطے میں اس کے اخراجات میں بھی اضافہ کیا اور دوسری طرف امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی ی پوزیشن کو بھی خطرے میں ڈال دیا۔

202


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ’’عرب اور مسلمان نجس حیوان کے مانند ہیں اگر وہ دیکھیں کہ تم ڈر گئے ہو اور ان کی حرکتوں پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کر رہے ہو تو تم پر حملہ کر دیں گے، لیکن اگر تم ان پر حملہ کرنے میں پہل کرو گے تو وہ فرار کر جائیں گے‘‘ ۔
یہ کوئی ایسے جملے نہیں ہیں جو غلطی سے کسی کتاب میں چھپ گئے ہوں بلکہ یہ جملے ان کتابوں میں لکھے ہوئے ہیں جو اسرائیل میں یہودی بچوں کو پڑھائی جاتی ہیں۔
عربوں، مسلمانوں اور دیگر اقوام کی نسبت صہیونی نسل پرستی کا یہ ایک نمونہ ہے۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ صہیونی پوری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹتے پھرتے ہیں کہ مسلمانوں اور عربوں کی درسی کتابوں میں یہودیوں کے خلاف مضامین موجود ہیں جس سے اسلامی ممالک میں یہودیت مخالف فضا پھیل رہی ہے۔
مقبوضہ فلسطین کے علاقے ’’المثلث‘‘ میں ’مرکز مطالعات تربیتی‘ کے سربراہ ڈاکٹر خالد ابو عصبہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں کے مسلمانوں اور عرب فلسطینیوں کے خلاف منفی افکار کی ترویج کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر ابوعصبہ کا کہنا ہے کہ وہ عربوں کا ایک شدت پسندانہ چہرہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں گویا کہ وہ انسان ہی نہیں ہیں وہ انسانیت اور تہذیب و تمدن سے وں دور ہیں اور عورتوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں۔ یہ چیز اس بات کا باعث بنتی ہے کہ یہودی بچے بچن سے ہی مسلمانوں کی نسبت نفرت اپنے دلوں میں لے کر بڑے ہوتے ہیں۔


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سید مجتبیٰ میر لوحی جو ’نواب صفوی‘ کے نام سے معروف ہیں کا ان مجاہد علماء میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک قیمتی لمحہ اسلام کی سربلندی اور دشمنان اسلام کے خلاف مجاہدت کی راہ صرف کر دیا۔ انہوں نے ’اسلام کے فدائی‘ نام سے ایک گروپ تشکیل دے کر اس کی رہبریت کا بیڑہ خود اٹھایا تاکہ باآسانی اور سرعت کے ساتھ اپنی انقلابی نہضت کو آگے بڑھا سکیں۔
نواب صفوی کی مجاہدانہ کاوشوں کے پیش نظر، بعض لوگ انہیں اسلامی بیداری کا باعث اور اسلامی حکومت کے نظریے کا بانی جانتے ہیں۔ آپ ہمیشہ مسلمانوں کے امور کو خاص توجہ دیتے تھے اسی وجہ سے مسئلہ فلسطین نے انہیں انتہائی متاثر کیا تھا۔
نواب صفوی ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے ۲۲ ستمبر ۱۹۴۸ کو فلسطین پر ناجائز قبضے کے خلاف اور فلسطینی عوام کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔ انہوں نے یہاں تک کہ اسرائیل کے خلاف جنگ کے لیے بعض لوگوں کے نام بھی لکھ لیے تھے لیکن حکومت وقت نے انہیں اس کام کی اجازت نہیں دی۔ علاوہ از ایں، انہوں نے اردن میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی فلسطین کانفرنس میں شرکت کر کے اپنی تقریر میں اس موضوع پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین ایک اسلامی مسئلہ ہے نہ عربی۔ نواب صفوی نے جن اسلامی ممالک کے دورے کیے ان میں مصر، شام، عراق، اور لبنان شامل ہیں انہوں نے اسلامی تنظیموں منجملہ اخوان المسلمین کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر کے انہیں اتحاد مسلمین کے لیے جد و جہد کرنے کی تاکید کی۔ (۱)
مرحوم نواب صفوی عدالت اور اعتدال پسندی مملو اپنے کردار کی کشش سے سامعین پر گہرا اثر چھوڑتے تھے۔ مثال کے طور پر محمد مہدی عبدخدائی جو ’اسلام کے فدائی‘ گروپ کے پسماندگان میں سے ہیں کا کہنا ہے: قاہرہ کی ’ملک فواد‘ یونیورسٹی میں ’’احمد ونیس‘‘ اور ’’احمد شاہین‘‘ (جو اسرائیل کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے تھے) کی برسی کے موقع پر منعقدہ کانفرنس کے دوران نواب صفوی کی تقریر یاسر عرفات جیسے افراد کی بیداری کا باعث بنی۔ (۲)
۱۔ http://wikifeqh.ir/سید مجتبی نواب صفوی.
۲۔ https://www.tasnimnews.com/fa/news/1394/10/28/973304.


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ بعثت انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ تاریخ کے عہدیدار حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر محسن محمدی نے فلسطین کے دفاعی پہلو اور قرآن و تاریخ کے حوالے سے فلسطین کی حمایت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: فلسطین کی حمایت کے حوالے سے مختلف نظریات پائے جاتے ہیں قومی نظریہ، نسل پرستانہ نظریہ، دینی اور اسلامی نظریہ، غالب نظام کی بنیاد پر حمایت، تہذیب و تمدن کی بنیاد پر حمایت، اور ہمارا یہاں موضوع سخن بھی یہی تہذیب و تمدن کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم قومی یا نسل پرستانہ نظریہ کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت نہیں کر سکتے، لیکن دینی نظریہ کی بنیاد پر ہم فلسطین کے امور میں مداخلت کر سکتے ہیں۔ اسی طرح غالب نظام کی بنیاد پر دنیا کے حریت پسند افراد مسئلہ فلسطین کی حمایت کر سکتے ہیں۔ لیکن ہم یہاں پر یہ کہنا چاہیں گے کہ ایران کی جانب سے فلسطین کی حمایت، قرآن کریم کے اصولوں پر مبنی اسلامی تہذیب کی بنیادوں پر ہے۔
حجت الاسلام محمدی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ فلسطین صرف اپنی دینی میراث پر بھروسہ کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے مدمقابل کھڑا نہیں ہو سکتا کہا: یہ اس وجہ سے ہے کہ فلسطین کے اہل سنت کا اکثر دینی ورثہ دین یہود سے متاثر ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کے شعبہ تاریخ کے عہدیدار نے فلسطین کے حوالے سے بانی انقلاب اسلامی امام خمینی(رہ) اور رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے نظریات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ان بزرگوں کے نظریات اسلامی تہذیب پر مبنی ہیں اس لیے کہ ان کے بیانات پر غور و فکر کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے صہیونی ریاست کے ساتھ کسی طرح کی گفتگو اور مذاکرات کا کوئی دروازہ کھلا نہیں چھوڑا ہے اور صریحاً کہا ہے کہ "اسرائیل کو نابود ہونا چاہیے"۔
انہوں نے زور دے کر کہا: رہبر انقلاب بین الاقوامی قوانین کے سخت پابند ہیں لیکن اس کے باوجود جب صہیونی ریاست کی بات آتی ہے تو واضح طور پر اپنے موقف کا اعلان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس رژیم کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ اس کے مخالف دھڑوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمدی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ فلسطین کی حمایت دو صورتوں میں قابل تصور ہے ایک "فلسطین فی نفسہ" کی حمایت، اور دوسرے "فلسطین اسرائیل کے مقابلے میں" کی حمایت، کہا: فلسطین کی حمایت کے سلسلے میں سب سے پہلے گفتگو خود خداوند عالم نے کی ہے۔ اس لیے کہ جب خدا نے اس علاقے میں اپنے نبی کو بھیجنا چاہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ موجودہ فلسطین کے علاقے میں ست اختیار کریں اس طریقے سے اس علاقے میں انبیا کا سلسلہ شروع ہوا۔
انہوں نے مزید کہا: مسجد الاقصیٰ کی بحث، پیغمبر اکرم کی معراج کا مسئلہ اور یہ کہ یہ سرزمین ایک وقت میں مسلمانوں کا قبلہ رہی ہے یہ سب چیزیں اس سرزمین کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔
انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اسلامی تہذیب اس بات کا باعث بنی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین کی حمایت کرے، کہا: فلسطین جغرافیائی لحاظ سے ایسی جگہ پر واقع ہے کہ ایشیا، یورپ اور افریقہ کو آپس میں جوڑ رہا ہے اور دوسری طرف سے ایک اقتصادی مرکز بھی پہچانا جاتا ہے اس اعتبار سے جو بھی اس علاقے پر اپنا کنٹرول حاصل کر لے گا بہت آسانی سے اطراف و اکناف پر تسلط قائم کر لے گا اور اپنے افکار و عقائد کو پھیلا سکے گا۔ بنابرایں، یہ علاقہ اسلامی تہذیب سازی میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتا ہے۔
حجت الاسلام محمدی نے اس سوال کے جواب میں کہ مقبوضہ فلسطین میں رہنے والے بنی اسرائیل کیا وہی بنی اسرائیل ہیں جن کا قرآن میں تذکرہ ہے؟ کہا: مقبوضہ فلسطین کے یہودی وہی قوم ہے جسے قرآن کریم نے "پیغمبروں کی قاتل" کے عنوان سے یاد کیا ہے۔ اور یہ وہی قوم ہے جس کے ساتھ پیغمبر اکرم نے آغاز اسلام میں سخت رویہ اپنایا اور یہ قوم بھی ہمیشہ کوشش کرتی رہی کہ پیغمبر اکرم قدس تک نہ پہنچ سکیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہودی اپنی آبادی کے لحاظ سے کبھی بھی مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ لہذا وہ ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ حکمران طبقے کے اندر نفوذ پیدا کریں اور اس طریقے سے اپنی توں کو عملی جامہ پہنائیں۔
ڈاکٹر محمدی نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اگر اہل بیت اطہار(ع) کے قاتلین کی نسب شناسی کی جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ یا خود سلسلہ نسب کے اعتبار سے یہودی تھے یا یہودی سازشوں کا شکار تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی دلیل کہ پیغمبر اکرم کیوں یہودیوں کے سب سے زیادہ مخالف تھے یہ ہے کہ آپ جانتے تھے کہ یہودی اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے آخر میں یہ بیان کرتے ہوئے کہ جو چیز آج بھی خدا کی آخری حجت اور منجی عالم بشریت کے ظہور کی راہ میں رکاوٹ ہے یہی صہیونیت ہے کہا: فلسطین کی حمایت مکمل طور پر قرآنی اصولوں پرمبنی ہے اس لیے کہ صہیونیت اور صہیونی ریاست مطلقاً باطل ہے اور باطل کے مقابلے میں حق کا دفاع کرنا اسلام کا مسلمہ قانون ہے۔

 


دشمنوں نے الحاج قاسم سلیمانی کو شہید کر کے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ اگرچہ وہ اس شخص کی فراست اور ذہانت سے جان چھڑانا چاہتے تھے، لیکن ان کا یہ اقدام انتہائی غلط تھا۔ کیونکہ وہ شہادت کے مفہوم کو نہیں سمجھتے تھے، اور اگر وہ اس عظیم مفہوم کو سمجھتے تو اسلامی مجاہدین کو شہید نہیں کرتے۔
خداوند متعال کے حکم کے مطابق شہید "زندہ" ہے ۔ خدا فرماتا ہے: "وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء.»(۱) جو راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ البتہ ہم نے بھی لفظ ’’احیاء‘‘ کو اچھے سے درک نہیں کیا۔ لہذا ہمیشہ ’’بل احیاء‘‘ کے حوالے سے ایک مبہم تصویر ہمارے ذہنوں میں رہتی ہے۔ اگر یہ مفہوم قابل ادراک نہ ہوتا تو خداوند متعال اتنی واضح گفتگو نہ کرتا۔ حیات کا تصور تو ہمارے نزدیک معین ہے جو خداوند عالم فرماتا ہے کہ شہداء زندہ ہیں۔ اور عِندَ رَبِّهِم یُرزَقونَ» (۲) اپنے پروردگار کے نزدیک رزق پاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے ہر کوئی خدا کی بارگاہ سے رزق حاصل نہیں کرتا؟ ہم سب بھی تو اپنے رب کا رزق کھاتے ہیں۔ وَ مَا مِنْ دَابَّةٍ فِی الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا» (۳) امام خمینی (رہ) فرماتے ہیں ’’عالم خدا کے حضور میں ہے، خدا کے حضور میں گناہ نہ کرو‘‘۔ خدا کے حضور کا مطلب یہی ہے کہ ہم سب ’’عند اللہ‘‘ موجود ہیں۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیَاء کی تفسیر
خداوند عالم کا یہ فرمان کہ شہداء زندہ ہیں کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا شہداء جسمانی اعتبار سے زندہ ہیں؟ یا ان کی روح زندہ ہے؟ اگر خداوند عالم کے اس کلام سے شہداء کا جسم مراد ہے تو یہ صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ بہت سارے شہداء کے جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔ بدن کا کوئی حصہ باتی نہیں رہتا کہ زندگی کا تصور کیا جا سکے۔ مجھے یاد ہے جنگ کے دوران جب شہیدوں کے پاس گولے پڑتے تھے تو ان کا بدن اس قدر ٹکڑے ٹکڑے ہوتا تھا کہ جمع کرنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اگر مراد شہیدوں کی روح ہے، روح تو سب کی زندہ رہتی ہے، مگر جو شہید نہیں ہوتے ان کی روحیں مر جاتی ہیں؟ روح کو تو موت نہیں آتی۔ عالم برزخ ارواح کی زندگی کا عالم ہے روح کو موت نہیں آتی۔
پس شہداء کو سا امتیاز حاصل ہے جو خداوند عالم کے پیش نظر ہے؟ خداوند عالم یہ بھی فرما سکتا تھا کہ شہید کی روح ایک خاص طرح کی زندگی کی حامل ہے۔ زندہ اور مردہ شخص میں فرق یہ ہے کہ زندہ افراد تاثیر گزار ہوتے ہیں لیکن مردہ نہ موثر ہوتے ہیں نہ متاثر۔ تاثیر و تاثر در حقیقت روح سے متعلق ہے۔ لیکن اس دنیا میں اگر کوئی روح موثر واقع ہونا چاہے تو اسے جسم کی ضرورت ہے، جب تک جسم اس کے اختیار میں رہتا ہے کہ روح موثر و متاثر واقع ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر جہاد اس وقت ممکن ہے جب انسان کا بدن اس کے اختیار میں ہو۔
جب بدن انسان سے چھن جائے تو اس انسان کی کوئی تاثیر باقی نہیں رہتی۔ لہذا زندہ وہ ہے جو کوئی موثر اقدام انجام دے۔ اور مردہ وہ ہے جو کوئی اقدام نہ کر سکے کوئی تاثیر نہ دکھا سکے۔ عام لوگوں کا تصور یہ ہے کہ جو اپنی موت مرتا ہے اس میں اور جو راہ خدا میں شہید ہوتا ہے اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس نظریہ کے مطابق، عام انسانوں جو فطری موت مرتے ہیں اور شہداء جیسے شہید بہشتی، شہید مطہری اور شہید قاسم سلیمانی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
خداوند عالم اس فرق کو واضح کرنے کے لیے شہیدوں کو زندہ کہتا ہے۔ وہ شخص جس نے راہ خدا میں جہاد کیا اور اپنے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا وہ دوسروں کی طرح نہیں ہے، یعنی وہ شہادت کے بعد بھی اثرانداز ہوتا ہے اگر چہ شہید نے اپنا جسم راہ خدا میں دے دیا لیکن خدا اسے ایسا رزق دیتا ہے جس رزق کے واسطے وہ کائنات پر موثر واقع ہوتا ہے۔
ہم اسی وجہ سے قائل ہیں کہ دشمن نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔ اس اقدام کے ذریعے امریکیوں نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں، دشمن نے ملت اسلام اور اسلامی نظام پر بہت کڑی ضربت لگانے کی کوشش کی ہے لیکن جو افراد اس دوران شہید ہوئے ہیں وہ حقیقت میں مرے نہیں ہیں۔
اگر چہ دشمن یہ تصور کر رہا ہے کہ شہید بہشتی، شہید رجائی کو امت اسلامیہ سے چھین لیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ دشمن نے اپنی ان حرکتوں سے اسلام کی خدمت کی ہے۔
دوسرے لفظوں میں شہید اپنی شہادتوں سے قبل، جو مجاہدت کرتے ہیں جو خدمات انجام دیتے ہیں وہ اپنے معمولی بدن اور مادی آلات کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ یعنی ضروری ہے کہ قاسم سلیمانی مادی آلات کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کریں چونکہ جسم محدود ہے۔
جب دشمن قاسم سلیمانی کے جسم کو مٹاتا ہے تو سوچتا ہے کہ اسے مٹا دیا گیا، لیکن قرآن کریم کی تعبیر کے مطابق، قاسم سلیمانی زندہ ہیں اور اس رزق کے واسطے جو خداوند عالم کی طرف سے انہیں مل رہا ہے اس دنیا میں سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں بغیر اس کے کہ انہیں کسی بدن کی ضرورت پڑے۔
دشمن نے آپ کو شہید کر کے یہ سوچا کہ اس اقدام سے وہ اس عظیم مرد سے محفوظ ہو جائے گا، لیکن دشمن کے اس اقدام کا نتیجہ الٹا ہو گیا، اور بہت ساری کامیابیاں اسلام کو نصیب ہوئی ہیں۔ لہذا بغیر کسی شک و شبہہ کے قاسم سلیمانی کی شہادت انقلاب، اسلام اور مظلومین عالم کی کامیابی میں بے حد موثر واقع ہو گی۔

 



کتاب ھذا یہودیت اور صہیونیزم کی ابتداء سے حال تک کی جامع تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں تمام مطالب مستند اور عمیق ہونے کے علاوہ نایاب تصویروں کے ساتھ تحریر کئے گئے ہیں جس سے قارئین کو اس کتاب کے مطالب کی نسبت اطمینان حاصل ہونے کے علاوہ اس کے مطالعہ سے دلچسبی بھی ملتی ہے۔ اس کتاب کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موضوع پر مکمل اور جامع نگاہ کی گئی ہے یعنی مولفین نے یہودیت کی پیدائش سے لے کر عصر حاضر تک کے تمام واقعات و حالات کو تصویروں کے ساتھ اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس کتاب کے پہلے حصے کا نام ’’بنی اسرائیل سے اسرائیل تک‘‘ ہے اس دوران کے یہودیوں سے متعلق تمام باتیں جو آپ جاننا چاہیں کتاب کے اس حصے میں موجود ہیں۔ یہ حصہ حضرت ابراہیم کے دور سے شروع ہوتا ہے اور ۴۵ صفحوں میں یہودیت کی تاریخ کو بیان کرنے کے بعد تیس صفحوں میں یہودیوں کی مقدس کتابوں کے بارے میں بیان کرتا ہے۔
اس کتاب کی دوسری فصل ’’شریعت‘‘ یعنی دین یہود کے بعض احکام جیسے حرام کھانے، غسل، روزہ، صدقہ، نماز، کھانا پکانے کی ترکیبیں، یہودی اور ان کا خون، نجاست سے آلودہ افراد کو دور کرنا وغیرہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد کی فصل میں آداب و رسوم کا تذکرہ ہے۔ عیدوں کی قسمیں، پہلے بیٹے کا معبد کو ہدیہ کرنا، شادی بیاہ کی رسومات، دعاؤوں کی قسمیں وغیرہ۔۔۔ یہودیوں کی یہ وہ رسومات ہیں جن کے بارے میں جاننا انسان کے لئے دلچسبی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم نے کئی مرتبہ فلموں میں یہودیوں کو دیوار کی طرف مڑ کر دعا کرتے دیکھا ہے لیکن کیوں اور کیسے سے ہمیں خبر نہیں۔
اس کتاب کی اگلی فصل عرفان سے متعلق ہے عرفان کی قسموں مخصوصا ’’کابالا‘‘ کو مستند طریقے سے تصویروں کے ہمراہ مورد بحث قرار دیا گیا ہے۔ یہودی فرقوں، بین الاقوامی سطح پر یہودیوں کا ی اور اقتصادی نفوذ بھی پہلے حصے کی آخری فصلوں میں شامل ہے۔


کتاب ھذا کا دوسرا حصہ صہیونی رژیم کی تاریخ اور بناوٹ کا عنوان رکھتا ہے۔ ی نظام، اقتصادی نظام، تعلیمی نظام، عسکری اور سکیورٹی نظام اور یہودیوں کی اہم شخصیات اس حصے کی فصلوں میں شامل ہیں۔ ان فصلوں کے مطالعہ سے اسرائیل کے پوشیدہ پیچ و خم اور اس کی بناوٹ کے بارے میں عجیب و غریب معلومات انسان کو ملتی ہیں۔ خاص طور پر جب آپ تعلیمی نظام کا مطالعہ کرتے ہیں تو صہیونی رژیم کے اسکولوں میں بچوں کو کس چیز کی تعلیم دی جانا چاہئے اور انہیں کیسے تربیت کیا جانا چاہیے اس کے بارے میں جان کر آپ کو بہت حیرانگی ہو گی۔
اس کتاب کا آخری حصہ ’’ایران اور صہیونیزم‘‘ کے بارے میں ہے اور اس کی آخری فصل ہولوکاسٹ پر ختم ہوتی ہے۔

 



 آج ہم ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں بےشمار مشکلات انسان کے دامن گیر ہیں ثقافتی، سماجی، ی اور معیشتی مشکلات نے انسان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تعجب خیز ٹیکنالوجی ترقی کے دور میں انسان کی زندگی کمال اور سعاتمندی کی طرف گامزن ہوتی اور اس راہ میں پائی جانے والے مشکلات کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔
سائنسی ترقی نے جہاں انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں الجھاؤ پیدا کئے وہاں معیشتی امور میں بھی اسے بہت ساری مشکلات سے دوچار کیا۔ آج دنیا کا اقتصاد صرف سرمایہ داروں کے اختیار میں ہے اور دنیا پر حاکم ظالم اور ستمگر حکمران پوری دنیا کے انسانوں کی معیشت کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے کر جس طرف چاہتے ہیں انسانی زندگی کی لگام موڑ دیتے ہیں۔
عصر حاضر کے قارون اور فرعون در حقیقت خدا سے مقابلہ کرنے کے لیے معیشی امور میں جس چیز سے کھلے عام فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ ہے ’’ربا اور سود‘‘۔ انہوں نے معیشتی امور میں جس نظام کو سماج میں رائج کیا ہے وہ ہے ’’بینکی نظام‘‘۔ بینکی نظام کا اہم ترین رکن سود اور پرافٹ ہوتا ہے اگر اس رکن کو اس نظام سے نکال دیا جائے تو ان کے بقول بینک بیٹھ جائیں گے اور دنیا کا نظام نہیں چل سکے گا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر بنکوں سے سود کا لین دین ہٹایا جائے اور اسے الہی اور اسلامی طرز کے مطابق تشکیل دیا جائے تو نہ سماج کی ترقی میں کوئی کمی آئے گی اور نہ کمال کی طرف ان کی زندگی کے سفر میں کوئی خلل واقع ہو گا لیکن جو عصر حاضر میں یہودیوں کے ذریعے جو بنکوں کا جو طریقہ کار بنایا ہوا ہے اس نے دنیا کے ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انسانوں کی زندگیوں کی برکتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے بلکہ انہیں معیشتی امور میں خدا کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
آج پوری دنیا کے ماہرین اقتصاد کا یہ ماننا ہے کہ جس چیز نے انسانی سماج کو بے روزگاری ، مہنگائی اور بدبختی کے موڑ پر لا کر کھڑا کیا ہے وہ ہے عصر حاضر کا بینکنگ سسٹم۔
موسی پیکاک نامی ایک ماہر اقتصاد کا کہنا ہے کہ دنیا کے بین الاقوامی ماہرین اقتصاد معیشتی ترقی کے لیے جس چیز کی تجویز کرتے ہیں وہ ہے سود جبکہ تمام مشکلات کی بنیادی جڑ یہی سود ہے جس کی طرف انسانوں کو متوجہ نہیں کیا جاتا۔
اگر آپ بینکنگ سسٹم پر غور کریں کہ وہ کیسے وجود میں آیا؟ اور اس کے وجود میں لانے والے تھے؟ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نظام میں انسانوں کو کس طرح بیوقوف بنا کر انہیں اپنے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے۔
بنکوں کے نظام کو وجود میں لانے والے یہودی ہیں۔ یہودیوں نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ۷ سو سال کا عرصہ صرف کر کے ایک مثلث وجود میں لائی جس کا ایک ستون بینک ہیں جو مکمل طور پر سود پر مبتنی ہیں دوسرا ستون اسٹاک مارکٹ ہے اور تیسرا قرضہ اور Loan ہے۔ یہودیوں نے ۷ سو سال لگا کر یورپ کے اندر اس نظام کو حاکم کیا اس کے بعد پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے اس بینکی نظام کے ذریعے سب سے پہلے ان کی معیشت کو اپنے اختیار میں لیا اور ان تین ستونوں کے ذریعے آج یہودی پوری دنیا کی معیشت کو اپنے اختیار میں لینے پر کامیاب ہو چکے ہیں۔
اس کے باوجود کہ قدیم توریت کی شریعت میں دوسرے ادیان و مذاہب کی طرح سود خواری حرام ہے اور سود کھانے والے افراد اخروی عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی سزا کے مستحق ہیں ان پر کفارہ واجب ہے اور انہیں کوڑے مارے جائیں گے لیکن یہودیوں نے جدید توریت میں تحریف کر کے سود خواری کو جائز قرار دے دیا’’ اپنے بھائی سے سود طلب نہ کرو نہ نقد پیسے پر نہ کھانے پر نہ کسی دوسری اس چیز ہر جو قرض دی جاتی ہے۔ صرف غیروں سے قرضے پر سود لے سکتے ہو‘‘ ( کتاب مقدس، عہد قدیم، سفر لاویان، باب ۲۵، آیت ۳۷،۳۸)
اہل سنت کے عالم دین رشید رضا نے اپنے استاد شیخ محمد عبدہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: توریت کی قدیمی نسخوں میں یہ عبارت موجود نہیں تھی کہ تم غیروں سے سود لے سکتے ہو لیکن موجودہ نسخوں میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہودی حتیٰ اپنے بھائیوں پر بھی رحم نہیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے سود لینے کے علاوہ انہیں اپنا غلام بنا کر حتیٰ دوسری قوموں کو بھی بیچ دیتے تھے۔

 


بہت ساری وجوہات ہیں جن کی بنا پر صہیونی ریاست اپنے زوال سے خوفزدہ ہے، ان وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ صہیونیوں نے شیطان کے دل میں بسیرا ڈالا ہے۔ یعنی اس غاصب اور طفل کش ریاست کی جڑیں شیطان کے وجود سے پھوٹتی ہیں اسی وجہ سے یہ شیطانی ریاست قائم و دائم نہیں رہ سکتی اور ہمیشہ ایک خدائی طاقت اس کے مقابلے میں موجود ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، نابودی کا خوف، ایک اہم چیلنج ہے جو ہمیشہ یہودی قوم اور صہیونی ریاست کو دھمکا رہا ہے۔ موجودہ دور میں سرزمین فلسطین کو غصب اور ستر سال سے زیادہ عرصے سے اس میں جرائم کا ارتکاب، نیز پوری دنیا کے میڈیا پر قبضہ کرنے کے باوجود اس ریاست پر اپنی نابودی کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
اسی وجہ سے صہیونی ریاست کے حکام کے خصوصی جلسوں میں صرف اپنی بقا پر ہی غور و خوض کیا جاتا ہے۔ یہودی ایجنسی کے ڈائریکٹر بورڈ کے حالیہ جلسے جو ڈائریکٹر بورڈ کے سربراہ ’’ناٹن شارنسکی‘‘ کی موجودگی میں منعقد ہوا اور جلسہ میں انتخابات کے بعد ’’اسحاق ہرٹزوک‘‘ کو ناٹن شارنسکی کا نائب صدر مقرر کیا، میں انہوں نے یہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہمیں یہودیوں کو متحد کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مقام تک پہنچنا ہے کہ ہمیں یقین ہو جائے کہ یہودی نابود نہیں ہوں گے۔ یہودی، یہودی ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ کیسا لباس پہنے اور کس پارٹی سے منسلک ہو، ہم سب ایک ہیں۔
اسی سلسلے سے صہیونی تنظیم نے ’’قدس میں کتاب مقدس کی اراضی‘‘ کے زیر عنوان ایک سروے کیا جس میں آدھے سے زیادہ صہیونیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی نسبت تشویش کا اظہار کیا۔
صہیونی آبادکاروں کے چینل نمبر ۷ کی رپورٹ کے مطابق، یہ سروے ۵۰۰ یہودیوں کے درمیان انجام دیا گیا جن کی عمر ۱۸ سال سے ۶۵ سال کے درمیان تھی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ۴۲ فیصد یہودیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی رائے دی جبکہ ۱۰ فیصد نے اسرائیل کی نسبت اظہار تشویش کیا۔ (۴) سروے کی رپورٹ کے مطابق، مذہبی یہودیوں کو زیادہ تر تشویش اس بات سے ہے کہ پوری دنیا صہیونی ریاست سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔
یہودی قوم ڈرپوک اور بزدل
زوال کے خوف کی ایک وجہ یہودیوں کا ڈرپوک اور بزدل ہونا ہے۔ ان کے اندر یہ صفت اس وجہ سے پائی جاتی ہے چونکہ وہ حد سے زیادہ دنیا سے وابستہ ہیں۔ قرآن کریم کے سورہ آل عمران کی آیت ۱۱۲ میں یہودیوں کی اس صفت کی مذمت کی گئی ہے۔ خداوند عالم اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے: ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ أَیْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْکَنَةُ ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَیَقْتُلُونَ الْأَنْبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ، ’’ان پر ذلت کے نشان لگا دئے گئے ہیں یہ جہاں بھی رہیں مگر یہ کہ خدائی عہد یا لوگوں کے معاہدے کی پناہ مل جائے، یہ غضب الہی میں رہیں گے اور ان پر مسکنت کی مار رہے گی۔ یہ اس لیے کہ یہ آیات الہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے تھے۔ یہ اس لیے کہ یہ نافرمان تھے اور زیادتیاں کیا کرتے تھے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہودی ہمیشہ ذلیل و خوار تھے۔ اگر چہ بسا اوقات انہوں نے دنیا کی معیشت یا ت پر قبضہ جمایا۔ لیکن انسانی وقار، عزت و سربلندی اور امن و س کے اعتبار سے بدترین منزل پر رہے ہیں۔ ( جیسے چور اور ڈاکو جو اگر چہ چوری کر کے، ڈاکہ مار کے عظیم مال و ثروت کے مالک بن جاتے ہیں لیکن انسانی اقدار کے حوالے سے ان کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہوتا)۔ لہذا ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ»
صہیونی ریاست کی جڑیں شیطانی افکار میں پیوست
یہودی ریاست کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی بنیادیں شیطانی افکار پر قائم ہیں۔ اس غاصب اور طفل کش ریاست کی جڑیں شیطان کے وجود سے پھوٹتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کبھی بھی قائم و دائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے مقابلے میں اسلامی حکومت ثابت قدم اور استوار ہے۔ اگر چہ دنیا ساری کے ذرائع ابلاغ مشرق سے لے کر مغرب تک اس نظام حکومت کے خلاف عمل پیرا ہیں۔
سینکڑوں مفکر اور ماسٹر مائنڈ روز و شب اس کام پر جٹے ہوئے ہیں کہ کوئی نہ کوئی سازش، کوئی منصوبہ کوئی پراپیگنڈہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جنم دیں اور اسے متزل کرنے کی کوشش کریں لیکن اسلامی نظام کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچا سکتے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ اس نظام حکومت کا قیام خدا پر ایمان اور توکل کی بنا پر ہے۔
صہیونی ریاست اور دنیا کے ظالمین کا زوال اس وجہ سے ہے کہ ان کی بنیاد ظلم، باطل اور شیطانی افکار پر قائم ہے خداأوند عالم نے خود ان کی نابودی کا وعدہ دیا ہے۔ قرآن کریم جب حق و باطل کے تقابل کی منظر کشی کرتا ہے تو یوں فرماتا ہے:
اَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اَوْدِیَهٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَابِیاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَه اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا اَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَاءً وَاَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الاْرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الاْمْثَالَ»؛
’’اس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدر ظرف بہنے لگا اور سیلاب میں جوش کھا کر جھاگ پیدا ہو گیا جسے آگ پر زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لیے پگھلاتے ہیں۔ اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے‘‘۔ (سورہ رعد، ۱۷)
دینی علماء کی مجاہدت صہیونی ریاست کی نابودی کا ذریعہ
صہیونیوں کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ میں مخلص، متدین اور مجاہد علماء کا وجود ہے۔ وہ علماء جنہوں نے دین کی حقیقت کو پہچانا ہے اور دین کو صرف نماز و روزے میں محدود نہیں جانتے ہمیشہ سے باطل طاقتوں کے لئے چیلنج بنے رہے ہیں اور باطل طاقتیں ان کے چہروں میں اپنی نابودی کا نقشہ دیکھتی رہی ہیں۔
اس کی ایک مثال رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے یہ الفاظ ہیں  جو آپ نے ۸ ستمبر ۲۰۱۵ کو اپنی ایک تقریر کے دوران بیان فرمائے تھے: تم (صہیونیو) آئندہ ۲۵ سال کو نہیں دیکھ پاؤ گے۔ انشاء اللہ آئندہ ۲۵ سال تک اللہ کے فضل و کرم سے صہیونی ریاست نام کی کوئی چیز علاقے میں نہیں ہو گی‘‘۔ آپ کا یہ بیان عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسے پھیلا جیسے خشک جنگل میں آگ پھیلتی ہے۔ اس بیان نے صہیونی رژیم کے منحوس وجود پر لرزہ طاری کر دیا۔ اور اس کے بعد سے آج تک وہ صرف اپنی بقا کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ خدا کرے ان کی یہ جد و جہد خاک میں ملے اور طفل کش صہیونی رژیم ہمیشہ کے لیے صفحہ ھستی سے محو ہو جائے۔

 

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ایران میں فلسطین کی تحریک ’جہاد اسلامی‘ کے نمائندے ناصر ابوشریف نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران امت اسلامی کو صہیونی منصوبوں کے مقابلے میں کامیابی کی طرف رہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ صہیونی منصوبے جو امت اسلامی کو پاش پاش کرنے کی غرض سے تیار کیے گئے ہیں۔
اسلامی انقلاب کا بھروسہ اسلام پر اور مغربی و صہیونی سازشوں کے مقابلے میں استقامت اور پائیداری پر ہے لہذا کامیابی اسلامی انقلاب کا مقدر ہے۔
شہید قاسم سلیمانی کے ساتھ جو ہماری آخری ملاقات ہوئی اس میں انہوں نے کہا کہ قدس کی آزادی کے لیے جد و جہد عصر حاضر میں نہ صرف ایک ذمہ داری ہے بلکہ آزمائش کا ایک ذریعہ بھی ہے اور خداوند عالم امت کو اس کے حوالے سے مواخذہ کرے گا اور پوچھے گا کہ تم نے قدس کے لیے کیا کیا۔ جو لوگ اس آزمائش اور منزل امتحان میں کامیاب نہیں ہوں گے جہنم کی آگ انہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ شہید سلیمانی نے اس ملاقات میں اس اہم نکتے پر زور دیا کہ قدس بہشت و دوزخ کو متعین کرنے کا ذریعہ ہے۔
میں ایک فلسطینی ہونے کے ناطے ملت ایران سے کہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور اسلامی انقلاب کی حمایت ہماری ذمہ داری ہے چونکہ ایران اور اسلامی انقلاب تمام مستضعفوں اور مظلوموں کی امید ہے۔


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بین الاقوامی پابندیوں اور مقبوضہ فلسطین کے رہنے والے فلسطینیوں کی آبادی میں اضافہ نے اسرائیل میں ڈیموکریسی کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
ان تمام حالات کے باوجود، پناہ گزینوں کے حق واپسی کو نظرانداز کرنے اور امن کا منصوبہ پیش کرنے والی امریکی ڈیل کے قبول کرنے پر فلسطینی مجبور نہیں ہیں۔ بلکہ یہ سرزمین دھیرے دھیرے خود بخود ان کے قبضے میں واپس چلی جائے گی۔ صرف انہیں ایک دو نسلوں تک صبر کرنے کی ضرورت ہے یہاں تک کہ ’یہودی اسرائیل‘ نابود ہو جائے۔


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عراق میں اٹلی کے سابق سفیر نے کہا ہے کہ مغربی ایشیا میں ایران کے اسلامی انقلاب کو چالیس سال مکمل ہو چکے ہیں جبکہ اس کے خاتمے کی کوئی نشانی نظر نہیں آ رہی ہے۔
وہ مزاحمتی محاذ جس کا امریکہ مخالف ہے اور صہیونی ریاست جس کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے وہ ایران کی آئیڈیالوجی کے مطابق پروان چڑھ رہا ہے۔
ایران چونکہ کسی بھی قیمت پر مغربی طاقتوں کے آگے جھکنے کو تیار نہیں ہے اور اسرائیل- فلسطین کے درمیان صلح کے لیے امریکہ کے تجویز کردہ امن منصوبے کو تسلیم نہیں کر رہا ہے لہذا علاقے میں اس کا موقف اہم اثرات کا حامل ہے۔
امریکہ کے بدستور حکم سے جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد ان کے تشییع جنازہ میں غیر قابل تصور جم غفیر کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایرانی قوم امریکہ کی اس خام خیالی سے وں دور ہے کہ امریکہ ان کے لیے نجات دھندہ ہے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کچھ سال قبل صہیونی ریاست کو زبردستی جنم دیا گیا، اور زبردستی اس رژیم کی طاقت کو بڑھاوا دیا گیا اور ہمیشہ یہ کوشش کی گئی کہ اسرائیل کو نیل سے فرات تک قابض کریں۔ یہی وجہ ہے کہ صہیونی ریاست کے پرچم پر دو نیلے رنگ کی لیں ہیں جو نیل اور فرات کی علامتیں ہیں۔
وہ اسرائیل جو طے تھا کہ روز بروز بڑے سے بڑا ہوتا جائے گا وہ دن بدن چھوٹے سے چھوٹا ہوتا گیا۔ اس رژیم کو لبنان اور غزہ سے نکال دیا گیا اور آج وہ مجبور ہے کہ اپنے اطراف میں دیوار کھینچے۔ جبکہ یہ دیوار غیرقانونی ہے اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں۔
آج مزاحمتی محاذ اس قدر طاقتور ہو چکا ہے کہ جب چاہے مقبوضہ فلسطین کے ہر نکتے کو نشانہ بنا سکتا ہے اگر چہ وہ کس قدر اسرائیل کے لیے اہمیت کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔
سید حسن نصر اللہ نے اپنی ایک دھمکی میں کہا تھا کہ ہم حیفا کے ’امونیا‘ مرکز کو بھی حملے کا نشانہ بنا سکتے ہیں اور اس مرکز کا دھماکہ صہیونیوں کے لیے ایٹم بم کے دھماکے سے کہیں زیادہ ہے۔ لہذا صہیونی ریاست اپنی سالمیت کو لے کر کافی خائف ہے۔
اگر تمام فلسطینی یک صدا ہو کر آواز بلند کریں اور اپنے گھر واپسی کا اعلان کر دیں تو یقینا صہیونی ریاست کا کوئی وجود باقی نہیں رہے گا۔ لہذا اسرائیل کی نابودی اسی میں مضمر ہے۔

حسین شیخ الاسلام کے ساتھ خیبر کی خصوصی گفتگو سے اقتباس


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ دستغیب تیسرے شہید محراب اور انقلابی مجتہد ہیں کہ لوگ عام طور پر انہیں استاد اخلاق اور اخلاقی کتابوں جیسے قلب سلیم اور گناہان کبیرہ وغیرہ کے مولف ہونے کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔
آپ کی ی سرگرمیوں میں اسرائیل اور صہیونیت کے خلاف جد و جہد واضح و آشکار نظر آتی ہے۔ انقلاب اسلامی سے قبل، ایران کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے پر آیت اللہ دستغیب نے پہلوی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے آپ کو گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا گیا۔ آپ کے اس عمل سے ہمیں دو پیغام ملتے ہیں؛ ایک یہ کہ کسی انسان کے اخلاقی اور معنی امور میں درجہ کمال تک پہچنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ ی دنیا سے بے خبر ہو اور مسلمانوں کے مسائل کی نسبت آگاہی نہ رکھتا ہو۔ دوسرا یہ کہ پہلوی حکومت کس قدر غیروں خصوصا اسرائیل کی غلام تھی کہ صہیونی ریاست پر معمولی اعتراض برداشت کرنے کی توانائی نہیں رکھتی تھی اور اعتراض کرنے والوں کے ساتھ سختی سے پیش آتی تھی۔ (۱)
۱۔ یاران امام به روایت اسناد ساواک، ج ۱۰، ص ۱۱۸، ۱۴۶، ۲۴۸-۲۵۸، ۵۹۰-۶۳۱.
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ


خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر: کتاب ’’اسرائیل جمہوری یا اپارتھائیڈ ریاست؟‘‘ (Israel: Democracy or Apartheid State?) امریکی تجزیہ کار، ی کارکن اور محقق ’جوش روبنر‘ (Josh Ruebner) کی کاوش ہے۔ موصوف نے مشیگن یونیورسٹی (University of Michigan) سے علوم یات میں بے اے اور جانز ہوپکینز(Johns Hopkins University) سے بین الاقوامی روابط میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ روبنر اس وقت فلسطینی انسانی حقوق تنظیم کے ی رہنما ہیں۔
مذکورہ کتاب کے مقدمے میں مصنف نے فلسطینی عوام کے ساتھ صہیونیوں کی جنگ، برطانوی حکومت کی طرف سے بالفور اعلانیہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے سرزمین فلسطین میں یہودیوں اور عربوں کے لیے دو الگ الگ ملکوں کی تشکیل کی پیشکش جیسے مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اگر چہ اقوام متحدہ کی پیشکش نے اسرائیلی ریاست کی تشکیل کو کسی حد تک تاخیر میں ڈال دیا لیکن آخرکار تقریبا ۵۰ سال کے بعد اسرائیل نے اپنی فوجی طاقت سے فلسطین کے ایک عظیم حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
روبنر کوشش کرتے ہیں اس کتاب میں تاریخی دستاویزات اور حقوقی و ی تجزیوں کے ذریعے اس سوال کا جواب دیں کہ کیا مقبوضہ فلسطین میں قائم صہیونی ریاست جمہوری ریاست ہے یا اپارتھائیڈ ریاست؟
یہ کاوش ۲۱ مختصر حصوں پر مشتمل ہے جو ۲۰۱۸ میں منظر عام پر آئی۔ مصنف نے اس کتاب  ’’اسرائیل؛ جمہوری یا اپارتھائیڈ ریاست؟‘‘ کا ایک ایسے فلسطینی گاؤں جو ۱۹۴۸ کی جنگ میں اجھڑ گیا تھا کے سفر سے آغاز کیا اور بعد والے حصوں میں اسرائیلی معیشت، اسرائیل کی تاریخ ۱۹ ویں صدی کے اواخر کے بعد، صہیونیوں اور فلسطینیوں کے درمیان جاری جنگ کے خاتمے کے لیے راہ ہائے حل، امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات، BDS تحریک کی نسبت صہیونی ریاست کا رد عمل اور تشدد و جارحیت کے ذریعے موجودہ صورتحال کے کنٹرول کے لیے اسرائیل کی توانائی جیسے موضوعات کو مورد گفتگو قرار دیا ہے۔ نیز مصنف نے کتاب کے ایک حصے کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے مختص کیا ہے۔
جوش روبنر ساری کتاب میں کوشش کرتے ہیں کہ صہیونی ریاست کو ایک اپارٹھائیڈ ریاست کے عنوان سے پہچنوائیں۔ وہ اپنے اس نظریے کی تائید میں کہتے ہیں: ’’اپارتھائیڈ کا مفہوم اپنی ذاتی خصوصیات اور ان معانی جو جنوبی افریقہ پر اطلاق ہوتے تھے سے الگ ہو گیا ہے اور اس وقت ایک خاص اور عالمی مفہوم اور تعریف میں تبدیل ہو چکا ہے۔  موجودہ دور میں اپارتھائید ایسے اقدامات کے مجموعے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے ایک خاص نسل کو ملک کے سماجی، ی، معیشتی اور ثقافتی امور میں حصہ لینے سے روک دیا جاتا ہے۔  بالکل واضح ہے کہ صہیونی ریاست کی تمام پالیسیاں منجملہ فلسطینیوں کے ساتھ فوجی سلوک، بین الاقوامی تعریف کے مطابق اپارتھائیڈ کی مصادیق ہیں۔




ادیان ابراہیمی کی مقدس کتابوں میں شادی کے مسئلے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہودیوں کی مقدس کتاب کی فصل پیدائش کی اٹھارہویں آیت میں یوں لکھا ہے: ’’خدا نے فرمایا ہے کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے لہذا اس کے لیے ایک شریک حیات بناؤں‘‘۔
پطرس فرجام نے کتاب ایضاح التعلیم المسیح میں لکھا ہے: ’’شادی کے ذریعے مرد اور عورت ایک ایسا مقدس اتحاد اور رشتہ قائم کر لیتے ہیں جو ناقابل جدائی ہوتا ہے۔ مرد پر لازمی ہو جاتا ہے کہ عورت کے حق میں محبت، احترام اور امانت داری کی رعایت کرے اور عورت بھی مد مقابل محبت، امانت اور اطاعت کی انجام دہی پر مم ہو جاتی ہے‘‘۔
دین اسلام میں بھی شادی کے مسئلے پر بے حد تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ (ص) نے بیان فرمایا: ’’ خدا کے نزدیک شادی سے زیادہ کوئی چیز محبوب نہیں ہے‘‘۔ لہذا دین اسلام کے بزرگ اس گھر کو بہترین گھر جانتے تھے جس میں شادی کی رسم انجام پائے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ادیان الہی کی طرف سے شادی اور ازدواج کے مسئلے پر اتنی تاکید ہونے کے باوجود آج ہم دیکھ رہے کہ نہ مشرق کا کوئی مکتب فکر اس بات کا پابند ہے اور نہ ادیان ابراہیمی کے ماننے والوں میں اس چیز کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ محرموں کے ساتھ ، ہم جنس پرستی، بغیر شادی کے ایک ہی چھت کے نیچے مرد اور عورت کا ایک ساتھ رہنا، اور اس طرح کے دیگر مسائل اس بات کا باعث بنے ہیں کہ شادی کے فوائد کا خاتمہ ہوجائے اور ان مشکلات کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف طرح کے قوانین بنائے جائیں، مثال کے طور پر برطانیہ کا رومہ ڈیلی میل مورخہ ۲۴ ستمبر ۲۰۱۴ کی اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے: قانون کے مطابق، پرائمری اسکول اگر جنسی تعلیم کے دروس کو چھوڑ دیں تو انہیں جرمانہ کیا جائے گا۔ میڈل اسکولوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حاملگی (پریگننسی) روکنے والی دوائیں اور دیگر وسائل اسکولوں میں تقسیم کریں۔
شادی سے پہلے سیکس کی تعلیم اور پریگننسی روکنے والی دواؤں کا استعمال، مغربی معاشرے میں ناقابل کنٹرول مشکل ہے کہ جنہوں نے اس مشکل کو حل کرنے کے بجائے تعلیم اور دوا کی تقسیم کے ذریعے مشکل کو آسان بنا دیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے شادی کے مسئلے کو نظر انداز کر کے کبھی بھی کوئی معاشرہ ان مشکلات کا راہ حل تلاش نہیں کر سکتا؛ زادہ اولاد کے ماں باپ کا پتہ نہ ہونا، حرام زادہ بچوں کے اسکولوں(kindergarten) کا کثرت، جنسی فساد کا پھیل جانا، آبادی کا تناسب کم ہونا اور نفسیاتی اور سماجی بیماریوں میں دن بدن اضافہ جیسے مسائل اس طرح کے سماج کے دامن گیر ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ادیان الہی میں شادی کو ایک مقدس اور خداپسند امر ہونے کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے۔


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ۱۹۶۷ کے بعد صہیونی ریاست کے ہاتھوں مقبوضہ فلسطین میں تمام ثقافتی آثار چاہے وہ مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہوں یا عیسائیوں سے، کی نابودی کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے رد عمل میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دنیا کے حریت پسندوں لوگوں حتی بعض یہودیوں نے بھی اسرائیل کے ان گھناونے اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اگر چہ بیت المقدس یا یورشلم انسانی ثقافت میں ایک خاص مقام کا حامل ہے اور اس کی معنوی اور تاریخی اہمیت کسی پر بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے اس ثقافتی شہر پر جارحیت، کسی کے لیے بھی قابل برداشت نہیں ہے۔
فلسطین اتھارٹی واچ نے ۹ ویں کانفرنس ۱۹۷۱ میں عرب سماج کو یہ تجویز پیش کی کہ بیت المقدس کے تاریخی آثار کے امور کے لیے ایک علمی کمیٹی تشکیل دی جائے جو علاقے میں اسرائیل کی بے راہ رویوں کا جائزہ بھی لے اور تاریخی آثار کے تحفظ کے سلسلے میں اسرائیلی عہدیداروں کے جھوٹے دعوؤں کو ثابت بھی کرے۔ عرب سماج نے چھپن(۵۶) اداری مٹینگوں کے بعد اس تجویز کو قبول کیا اور ایک کمیٹی تشکیل دی۔
اس کمیٹی کی منجملہ تحقیقات ’’کشاف البلدان الفلسطینیة‘‘ (فلسطینی شہروں کی رہنمائی) ۱۹۷۳ میں، ڈاکٹر اسحاق موسی حسینی کے ذریعے اور جامع بیت المقدس۱۹۷۹ میں منظر عام پر آئیں۔
یہاں پر در حقیقت یہ اہم سوال سامنے آتا ہے کہ کیوں سرزمین فلسطین کے تاریخی آثار کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟
کیا لوگوں میں ایک ایسی آزاد فکر اور وسعت نظر رکھنے والی ثقافتی تحریک وجود میں نہیں آنا چاہیے جو ان آثار قدیمہ کو ہمیشہ زندہ اور محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو؟


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین پر اسرائیلیوں کے قبضے سے پہلے، اس کی معیشت کا انتظام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا لیکن اعلانِ بالفور (1) اور دوسرے ممالک سے یہاں آنے والے یہودی مہاجروں کے سیلاب کے بعد، حالات رفتہ رفتہ بدل گئے۔ اور چونکہ مہاجر یہودی صاحب ثروت بھی تھے اور برطانیہ کی سرکاری اور عسکری قوت بھی ان کی پشت پر تھی، مسلم تاجر اور زمیندار منظر عام سے ہٹ گئے یا پھر مزارعوں اور کاشتکاروں میں بدل گئے۔ بالفاظ دیگر معاشی صورت حال مختصر سی مدت کے بعد نہایت تیزرفتاری سے اور بہت ہی ظالمانہ انداز میں یہودیوں کے مفاد میں تبدیل ہوگئی۔
لیکن اس حقیقت سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ اس ریاست کو بھاری بھرکم بیرونی امداد ملتی رہتی ہے اور جرمنی ہر سال یہودی ریاست اور ہولوکاسٹ کے پس ماندگان کو تاوان ادا کرتا ہے اور باہر سے آنے والی یہ رقوم بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر ہیں۔ بطور مثال امریکہ ہر سال تین ارب ڈالر اس ریاست کو بطور امداد ادا کرتا ہے؛ اور یہ امداد ان مالدار یہودیوں کے چندے کے علاوہ ہے جو ٹیکس سے بچنے کے لئے اسرائیل کی مدد کرنے والے خیراتی اداروں کو چندہ دیتے ہیں۔ یہودی ریاست نے بڑی مقدار میں بلامعاوضہ قرضے بھی امریکہ سے وصول کئے ہیں جو اس نے واپس نہیں کئے ہیں لیکن امریکی عوام کو ان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ چنانچہ اس ریاست نے ان کمیاب مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اقتصادی ڈھانچے کی بنیاد رکھی اور اسے مستحکم کیا اور نمایاں ترقی کی۔ (2)
یہودی ریاست کو وسائل کی قلت کی وجہ سے خام تیل، اناج، خام مال، فوجی سازوسامان اور درمیانی اشیاء (3) کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان اشیاء کی درآمد کے لئے ضروری زر مبادلہ کمانے کی خاطر اس کو اپنی برآمدات میں اضافہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ اس نے بھاری اور ہلکی صنعتوں کے ساتھ ساتھ فوجی صنعت اور معدنیات پر سرمایہ کاری کی ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ 1950ع‍ کی دہائی میں اس ریاست کی درآمد صرف 10 فیصد ہے لیکن اگلی دہائی میں اس کی درآمدات 25 فیصد تک اور 1980ع‍ کی دہائی میں 50 فیصد تک پہنچتی ہیں؛ اور یہ ریاست اپنی درآمدات میں مزید اضافہ کرنے کی مسلسل کوشش کررہی ہے۔ (4)
تاہم مخالف عرب ممالک کے بیچ اس کی زد پذیری کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان کی طرف کی سازشوں سے بچنے کے لئے اس ریاست نے سب سے پہلے زراعت اور اشیاء خورد و نوش کی تیاری میں خود کفالت کا فیصلہ کیا اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے اس نے فلسطینیوں کی زرخیز زمینیں غصب کرنے کے ساتھ ساتھ، ابتداء ہی سے لبنان،  شام اور اردن پر حملوں میں ان ممالک کے آبی ذخائر پر کنٹرول حاصل کرنے کا ہدف مد نظر رکھا تھا تا کہ اپنی آبی قلت کو دور کرسکے۔ اس ظالمانہ کوشش اور یہودیانہ دور اندیشی کے نتیجے میں وہ بہت مختصر عرصے میں ترشاوا پھلوں، (5) زیتون، انجیر، انگور، انار، بادام، کیلے، کھیرے اور ٹماٹر کی پیداوار میں نہ صرف خودکفیل ہوئی بلکہ انہیں بیرون ملک برآمد کرنے کے قابل بھی ہوئی۔ یہاں تک کہ اس ریاست کی زرعی مصنوعات معیار کے لحاظ سے دنیا میں جانی پہچانی ہیں۔ (6)
یہودی ریاست نے اقتصادی لحاظ سے اتنی ترقی کرلی کہ اس کی مجموعی اندرونی آمدنی ہر پانچ سال بعد دو گنا ہوجاتی تھی۔ صورت حال اچھی تھی حتی کہ بیسویں صدی کی معاشی مندی (7) اور پڑوسیوں کے ساتھ متواتر جنگوں نے یہودی ریاست پر بھاری معاشی بوجھ ڈال دیا اور یہودی حکومت کو 12 ارب ڈالر کے بجٹ خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ (8)
اسرائیلی ریاست نے اس بحران کے پیش نظر اپنا معاشی ڈھانچہ بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس ریاست کا ابتدائی معاشی ڈھانچے کو ـ جس کی بنیاد یہودی مہاجروں اور اسرائیل کے بانیوں کے زیر اثر اشتراکیت (9) کے طرز پر رکھی گئی تھی ـ معاشی ترقی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیا گیا؛ کیونکہ زیادہ تر صنعتی مراکز کی باگ ڈور ریاست اور ہیستادروت (10) کے ہاتھ میں تھا اور کچھ کمپنیاں ریاست اور بعض افراد کے درمیان مشترکہ تھیں۔
اسی رو سے 1970ع‍ کی دہائی کے بعد 100 بڑی صنعتی کمپنیوں میں سے 12 کمپنیاں نجی شعبے کو واگذار کی گئیں۔ مزدوروں کی کوآپریٹو یونین (11) سے وابستہ کمپنیاں ـ جو یہودی ریاست کی سو کمپینوں میں سے 35 کمپنیوں پر مشتمل تھی ـ کی بھی نجی شعبے کے حوالے کی گئی۔ تاہم نجکاری کے اس عمل میں کچھ بینکوں کی نجکاری ـ کچھ مشکلات کی بنا پر ـ کند رفتاری کا شکار ہوئی۔ (12)
با ایں ہمہ، اسرائیلی ریاست کی اقتصادی ترقی میں بیرونی امداد اور ظلم و جارحیت کے علاوہ کچھ دیگر عوامل کا بھی کردار تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کی معاشی ترقی چار عوامل کے جامہ عمل پہننے کے بعد ممکن ہوئی:
1۔ اس ریاست نے تمام امور نجی شعبے کو واگذار کرکے، اپنے اندر جامعاتی اور سائنسی مراکز کو مکمل آزادی اور ترقی کے مواقع اور کھلا معاشی ماحول فراہم کیا۔
2۔ ریاست نے اپنی بننے والی حکومت کو پابند کیا کہ افرادی ذرائع اور افرادی قوت کو صحت و حفظان صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ  (13) کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے کوشش کریں جس کا فطری نتیجہ بہتر اور زیادہ ماہر افرادی قوت کے معرض وجود میں آنے کی صورت میں ہی برآمد ہونا تھا۔
3۔ امریکہ کے ساتھ قریبی تعلق خود بخود، بڑی مقدار میں سائنسی اور فنی وسائل اور اوزاروں کی اسرائیل منتقلی پر منتج ہوئی۔ (14)
4۔ مذکورہ مسائل کے علاوہ، یہودی ریاست کی طرف سے سائنس پر مبنی صنعتوں اور نجی و جامعاتی سائنسی مراکز کی پشت پناہی بھی اس ریاست کی معاشی ترقی میں مؤثر تھی۔ یہ پشت پناہی اس قدر وسیع تھی کہ ریاست کی اندرونی قومی آمدنی میں سائنسی تحقیقات کے اخراجات دنیا بھر میں سے سب سے زیادہ ہیں۔ (15)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:
1۔ Balfour Declaration
2۔ رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، احدی، محمد، چاپ اول: 1389، تہران، مرکز آموزش و پژوہشی شہید سپہبد صیاد شیرازی،ص69۔
3۔ Intermediate goods یا درمیانی اشیاء وہ اشیاء یا وہ مال ہے جنہیں دوسری اشیاء کی تیاری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
4- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص77۔
5۔ ترشاوا پھلوں میں مالٹا،سنگترہ،گریپ فروٹ،چکوترہ،لیموں،اور مٹھا وغیرہ شامل ہیں۔
6- رژیم صہیونیستی (صہیونی ریاست)، ص74۔
7۔ Economic downturn
8۔https://www.avapress.com/fa/article/5899
9۔ Socialism
10- لفظ ہیستادروت(Histadrut ההסתדרות) ایک عبرانی لفظ ہے جو مخفف ہے "ہیستادروت ہاکلالیت شِل ہاعوودیم بایرتص یسرائیل (ההסתדרות הכללית של עברית העובדים בארץ ישראל‬, HaHistadrut HaKlalit shel HaOvdim B'Eretz Yisrael) کا جس کے معنی انگریزی میں " General organization of Hebrew Workers in the land of Israel" (اور اردو میں "ارض اسرائیل میں عبرانی مزدوروں کی عام تنظیم") کے ہیں۔ سنہ 1969ع‍ میں لفظ "عبرانی" اس میں سے ہٹایا گیا۔ مزدوروں کی یہ تنظیم سنہ 1920ع‍ میں باضابطہ طور پر تشکیل پائی۔ جبکہ اس کا ابتدائی تعلق سنہ 1911ع‍ سے ہے؛ جب ارض فلسطین میں ابتدائی طور فن و حرفت سے تعلق رکھنے والی یہودی تنظیمیں تشکیل پائیں اور ہسیتادروت کی تشکیل کے وقت تک یہودی مزدور ان تنظیموں کی شکل میں منظم تھے۔
ہیستادروت کئی اداروں کا مجموعہ تھی اور خود ایک صدر کمپنی بنام "ہیفرات ہعوفدیم" (Hevrat HaOvdim = חברת העובדים یعنی مزدور کمپنی) کے تابع تھی۔ ہیستادروت کی ایک شاخ کی اہم ترین شاخ "کور" ہے جس میں 100 کارخانوں کے 23000 مزدور اراکین ہیں اور الیکٹرانک کے زیادہ تر کمپنیوں کی مالک ہے۔ لہذا ایک طویل المدت پروگرام میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ تمام تر وسائل اور سہولیات نجی شعبے کے سپرد کی جائیں اور ریاست نجی شعبے کی ہمہ جہت حمایت کرے۔
11۔ Workers' Co-operative Union
12- ساختار دولت صہیونیستی اسرائیل (یہودی ریاست کا ڈھانچہ)، ج2، موسسۃ الدراسسات الفلسطینیۃ، ترجمہ (فارسی) علی جنتی، چاپ اول: 1385، تہران، موسسہ مطالعات و تحقیقات یبن المللی ابرار معاصر ایران، ص129۔
13۔ Social Security
14- وہی ماخذ، ص 143۔
15- وہی ماخذ، ص145۔

 



خیبر صہیون تحققاتی سینٹر: اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے مشرق وسطیٰ پر تحقیقات کرنے والے انسٹی ٹیوٹ MEMRI سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مختلف ذرائع سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ چین کی اقتصادی طاقت کو لگام پہنانے اور لوگوں کے اندر نفساتی جنگ پیدا کرنے کی غرض سے امریکہ اور اسرائیل نے کرونا وائرس بنا کر چین میں پھیلایا۔  
نیز سعودی اخبار الوطن نے دعویٰ کیا ہے کہ ایبولا ، زیکا ، سارس ، برڈ فلو ، سوائن فلو سے لے کر کرونا وائرس تک ، سب کے سب خطرناک وائرس امریکی لبارٹریوں میں بنائے اور مختلف ملکوں میں پھیلائے جاتے ہیں۔ جس کا اصلی مقصد لوگوں میں نفسیاتی جنگ کی صورت پیدا کرنا اور دواؤں کی بڑی بڑی کمپنیوں سے کمیشن حاصل کرنا ہوتا ہے۔  
اس اخبار نے مزید لکھا ہے کہ امریکہ نے ایک نئی قسم کی بیالوجیکل وار کا آغاز کر دیا ہے ، جس کے ذریعے وہ دنیا میں کھیل کے اصولوں کو اپنے فائدے میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، اس وباء کے لئے ایک منصوبہ بند اقتصادی پروپیگنڈا رچایا گیا ہے، کیوں کہ اس کے پیچھے جو ماسٹر مائنڈ ہے اس کا خیال ہے کہ چین کو ہنگامی علاج معالجہ، قرنطینہ اور دوا کی خریداری میں اربوں ڈالر خرچ کرنے پڑیں گے اور آخر کار اس بیماری کی دوا ایک اسرائیلی کمپنی کے ذریعے انکشاف کی جائے گی۔
اس رپورٹ سے معلوم ہوتا کہ دوا بنانے والی اسرائیلی اور امریکی کمپنیوں نے یہ وائرس پھیلا کر اپنی دوائیں بیچنے کا راستہ ہموار کر لیا ہے۔



خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حالیہ دنوں میں، امریکی ناول نگار ڈین ٹز (Dean Koontz)  کے ناول "اندھیرے کی آنکھیں" کے بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے کہ اس نے 40 سال قبل ’’ووہان ۴۰۰‘‘ نامی کورونا وائرس کے پھیلنے کی پیش گوئی کی تھی۔
ڈین ٹیز کا ناول ایک خیالی ناول ہے۔ کورونا وائرس آخر امان میں دنیا بھر میں بہت سارے لوگوں کو ہلاک کرنے والے آرماجیڈن وائرس (The Armageddon virus)  کی صنف میں سے ہے اور گزشتہ دہائیوں سے کئی فلمیں اور ٹیلی ویژن سیریز اور داستانیں اسی موضوع پر بنائی جا چکی ہیں۔  لہذا ڈین ٹز نے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے اور اس کی ایک طولانی تاریخ ہے۔
حالیہ دنوں میں ڈین ٹیز کی مقبولیت کی دو وجوہات ہیں: ایک ، اس وائرس کے پھیلنے کا سال ۲۰۲۰ ہے، دوسری ’’ووہان ۴۰۰‘‘ کے نام کا انتخاب جو چین کا شہر ہے جہاں سے اس وقت یہ وائرس پھیلنا شروع ہوا ہے۔
۲۰۲۰ آخری زمانے کے وائرس کے پھیلاؤ کا سال بھی کوئی ڈین ٹز کی ایجاد نہیں ہے۔ بلکہ اس سے قبل بھی کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے آخری زمانے کے عنوان سے مختلف سال بیان کئے ہیں جن میں سے ڈین ڈیکسن امریکی منجمہ کا نام لیا جا سکتا ہے انہوں نے بھی ۲۰۲۰ کو آخری زمانے کا سال قرار دیا۔
’’ووہان ۴۰۰ وائرس‘‘ کے نام کا انتخاب بھی کوئی ڈین کانٹز کی ہی پیش گوئی نہیں ہے۔ ڈین کانٹز کی کتاب پہلی بار ۱۹۸۱ میں منظر عام پر آئی، یہ وہ زمانہ تھا جب رونالڈ ریگن کی صدارت کا آغاز ہوا اور امریکہ اور سوویت یونین کے دو بلاکوں کے درمیان زبردست سرد جنگ جاری تھی۔ امریکہ میں ’برائی‘ کو کمیونسٹ معاشرے سے نسبت دے کر اس کے بارے میں قابل توجہ فلمیں بنائی اور کہانیاں لکھی جا رہی تھیں۔ ڈین ٹیز نے اپنی کتاب میں جو اپنے تخلص ’لی نکولس‘ کے نام سے شائع کی میں آخری زمانے کے وائرس کو سوویت یونین کی طرف منسوب کیا۔ وہ پہلے ایڈیشن میں اس کا نام ’گورکی ۴۰۰‘ رکھتے ہیں جو سوویت یونین کا اس دور میں اہم تحقیقاتی شہر تھا۔
ڈین ٹز کی کتاب کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۸۹ میں شائع ہوا جس میں انہوں نے اپنے اصلی نام کا استعمال کیا۔ یہ سوویت یونین کے خاتمے کا دور تھا اور اس زمانے میں سوویت یونین سے خوف کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ لہذا ڈین ٹز نے اس ایڈیشن میں وائرس کو ووہان ۴۰۰ کے نام سے بدل دیا۔ اور اس کا مرکز چین کا شہر ’ووہان‘ قرار دیا جو ۱۹۶۰ سے چین کا علمی اور تحقیقاتی شہر کہلاتا تھا۔ چین نے چونکہ اس دور میں مغرب پر قبضہ جمانے کی ابھی نئی پالیسیوں کا آغاز نہیں کیا تھا۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: برطانیہ ان سامراجی اور استعماری طاقتوں میں سے ایک ہے جس نے برصغیر کے سرمایے کو لوٹنے میں کوئی لمحہ فروگزاشت نہیں کیا۔ سالہا سال اس علاقے پر ناجائز قبضہ کر کے برصغیر کا سارا سرمایہ غارت کر لیا لیکن آخر کار ہندوستان کے عوام نے انقلابی تحریک وجود میں لا کر انگریزوں کو بظاہر اپنی سرزمین سے باہر کیا اور برصغیر سے سامراجی نظام کا خاتمہ کیا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ صہیونی دانشور اور ت دان سامراجی عناصر کے ہمراہ، قدیم الایام سے اپنے عالمی تسلط کے نظریے کے تحت برصغیر پر قبضہ جمانے کے لیے تزویری اقدامات انجام دینے کے قائل تھے اور برطانیہ کے ہندوستان پر قبضے کے دوران اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے اور سامراجی طاقت بھی اس راہ میں انہیں تعاون فراہم کرتی رہی۔ در حقیقت برطانیہ نے جب ہندوستان کو چھوڑا تو اسرائیل کے لیے ہندوستان میں مکمل فضا قائم ہو چکی تھی اس لیے بغیر کسی شور شرابے کے برطانیہ ہندوستان میں اپنا جانشین چھوڑنے پر کامیاب ہوا تاکہ قدس کی غاصب ریاست برصغیر مخصوصا بھارت کے سکیورٹی نظام میں اپنا گہرا نفوذ حاصل کر سکے۔
دوسری جانب سوویت یونین نے جب افغانستان پر اپنا تسلط ختم کیا تو امریکہ کو اس علاقے میں گھسنے کا موقع مل گیا۔ امریکہ نے سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے بہانے سے، پاکستان میں اپنی امداد رسانی شروع کر دی۔ اور سوویت یونین کی شکست اور خاتمے کے بعد القاعدہ اور طالبان جیسے ٹولے وجود میں لاکر علاقے میں اپنی موجودگی کے لیے ایک نیا بہانہ تراش لیا۔ لہذا ۱۱ ستمبر کے حادثے کے بعد پاکستان بھی علاقے میں دھشتگردی کا مقابلہ کرنے کی غرض سے امریکہ کا اتحادی بن گیا۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ پاکستان پر جوہری تجربات کی بنا پر امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد تھیں۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ نے علاقے میں اپنی موجودگی کو بحال رکھنے کے لیے بعض مسائل سے چشم پوشی اختیار کر لی۔
تیسری جانب سعودی عرب نے برصغیر میں اہل سنت کی تمایلات اور رجحانات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہابیت کو پھیلا دیا۔ سعودی عرب نے امریکہ کی حمایت کہ جو افغانستان پر قبضہ کرنے میں سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے دوران آغاز ہوئی، سے ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کے حوزہ ہائے علمیہ کو اپنے اختیار میں لے لیا۔
علاوہ از ایں علاقے میں اسلامی انقلاب کے نفوذ کو روکنا بھی امریکی سعودی پالیسیوں کا ایک حصہ تھا۔
تنازعہ اور کشمکش
ہندوستان پر برطانیہ کے قبضے کے دوران برصغیر کا اکثر علاقہ ایک ہی جیوپولیٹک علاقہ شمار ہوتا تھا صرف نیپال اور بوٹان کے کچھ علاقے انگریزیوں والے ہندوستان سے باہر تھے۔ لیکن برطانیہ کے تسلط کے خاتمہ اور برصغیر کی تقسیم کے بعد، یہ علاقہ جنگ و جدال کا مرکز بن گیا۔ یہاں تک کہ ہند و پاک کے درمیان ہونے والی جنگوں میں ایک ملین سے زیادہ لوگ مارے گئے۔
اس کے علاوہ، سری لنکا جو ۱۹۴۸ میں آزاد ہوا تقریبا دو دہائیوں سے تامل بدھسٹ انسٹی ٹیوٹ کی علیحدگی پسند تحریک کی بغاوت سے دوچار ہے۔ اس علاقے میں بنگلادیش حکومت نے بھی ایسے دور میں جنم لیا کہ مشرقی بنگال پاکستان کے زیر تسلط تھا اور ۱۹۷۱، ۷۲ کی جنگوں میں پاکستان سے الگ ہوا جس میں تقریبا پانچ سو افراد کا قتل عام ہوا۔
ایسے حال میں کہ آج استعماری حاکمیت کے دور سے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی بھی ہندوستان کی رگوں میں سامراجیت کا خون دوڑ رہا ہے بظاہر تو ہندوستانی ی پارٹیاں بھارتی ہونے کے نام پر جمہوریت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں اور لوگوں کے ووٹوں سے منتخب ہو کر ریاستی حکومت تشکیل دیتی ہیں لیکن باطن میں ابھی بھی سامراجی فکر، سامراجی سوچ، سامراجی پالیسیوں اور قوانین پر عمل ہو رہا ہے۔ ابھی بھی بہت کچھ اصلاح کرنے کے لیے باقی ہے۔ برصغیر کا علاقہ دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کو تشکیل دیتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی خستہ حالی اور غربت و مفلسی دنیا کے لیے مثالی تصویر بن چکی ہے۔ ہند و پاک کا سارا بجٹ سرحدوں کے تحفظ اور عسکری طاقت کو مضبوط بنانے میں صرف ہوتا جا رہا ہے دوسری طرف اندرونی حالت یہ ہے کہ مذہبی اختلاف اور قومی فرقہ واریت اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ یہ تمام عوامل اس بات کا باعث بن رہے ہیں کہ برصغیر کے ممالک میں مزید دوریاں پیدا ہوں اور آپسی اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچے جبکہ علاقائی سطح پر اپنی شناخت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، بھارت اسرائیل تعلقات کا قیام مختلف عوامل کا حامل ہے دونوں فریق ان تعلقات کو صرف اپنے مفادات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ اسرائیل ہندوستان کو اسلحہ فروشی کی بہترین منڈی اور اپنے جنگی ہتھیاربیچنے کے لیے بہترین مارکٹ کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ جبکہ بھارت بھی اسرائیل کو فوجی ساز و سامان اور دفاعی میدان میں جدید ٹیکنالوجی جو امریکہ و یورپ سے اسے اتنی آسانی سے دستیاب نہ ہو پاتی کو فراہم کرنے والے دلال کے عنوان سے دیکھتا ہے۔
ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں ایک اور تبدیلی بھارت کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں گہرائی ہے کہ ایسے روابط بدرجہ اولیٰ ہندوستانی کی خارجہ ت کو متاثر کریں گے۔ البتہ ان روابط کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ بھارت میں ہندو نسل پرستی عروج پا جائے گی اور اسلامی سماج زوال کا شکار ہو گا۔ (صدوقی، ۱۳۸۷؛ ۹۴)
اسرائیل اس وقت روس کے بعد بھارت کے نزدیک دوسرا فوجی شریک شمار ہوتا ہے۔ دونوں فریق میزائلی طاقت کو وسعت دینے میں ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہیں۔
ہندوستان کی پی ٹی آئی نیوز ایجنسی نے جنوری ۲۰۰۴ میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان دفاعی قوت کو بڑھانے کے لیے قرار داد منظور کی گئی ہے۔ اس قرارداد پر بھارتی عہدیداروں اور صہیونی ریاست کے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے بنگلور میں دستخط کئے۔ اس معاہدے کے مطابق، جی ایس آئی ۴ سیٹلائٹ بھارتی خلائی ریسرچ آرگنائزیشن ۲۰۰۵ میں ایک اسرائیلی ٹیلی اسکوپ کو اپنے ساتھ خلاء میں بھیجے گا یہ ٹیلی سکوپ خلاء سے تصویربرداری پر قادر ہو گا اور اس کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات بھارتی اور اسرائیلی متخصصین کے ذریعے مورد تحقیق قرار پائیں گی۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان عسکری تعاون خاص طور پر خلائی میدان میں ستمبر ۲۰۰۷ میں اسرائیلی سیٹلائٹ کو خلاء میں بھیجنے پر منتج ہوا۔ بعض رپورٹوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سیٹلائٹ کو بھیجنے کا اہم ترین مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کے ایٹمی پلانٹ پر نظر رکھنا ہے۔ اس سیٹلائٹ کا ۳۰۰ کلو گرام وزن تھا اور ٹکسار اس کا نام۔ اس سے قبل بھی اسرائیل افق ۷ سیٹلائٹ کو خلاء میں بھیجنے کا تجربہ کر چکا تھا۔ لیکن دوسرا سیٹلائٹ کہیں زیادہ قابلیتوں اور صلاحیتوں کا مالک تھا خاص طور پر وہ راڈٓر ٹیکنالوجی سے لیس تھا۔ یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس سے قبل بھی ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان عسکری میدان میں باہمی تعاون جاری تھا۔
اسرائیل کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ خصوصی تعلقات وجود میں لانے کی کوشش جاری ہے۔ یہ تعلقات انفارمیشن ٹیکنالوجی، بالیسٹک میزائیل، خلائی پروگراموں اور اسلحہ سازی کی صنعت کے میدان میں تعاون کے حوالے سے پائے جاتے ہیں۔


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالم انسانیت کے بد ترین دشمن یہودی ہیں قرآن کریم نے بھی اس بات اعلان کیا ہے اور تاریخ و تجربہ نے بھی اس چیز کو ثابت کیا ہے۔
اس بات سے قطع نظر کہ آج کی دنیا میں یہودی قوم دوسری قوموں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہی ہے اگر ہم اس قوم کی گزشتہ تاریخ پر بھی نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ دیگر قومیں کس قدر اس ستمگر قوم کے ظلم و تشدد کا شکار رہی ہیں۔
اس مختصر تحریر میں ہم قرآن کریم کی نگاہ سے قوم یہود کی چند خصلتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو پروردگارعالم نے خود قرآن میں بیان کی ہیں۔
قرآن کریم میں چار سو سے زیادہ آیتیں بنی اسرائیل کے بارے میں ہیں ان آیتوں میں بنی اسرائیل کے قصوں کے علاوہ دوسری قوموں کی نسبت پائی جانے والی ان کی دشمنی کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ ان تمام آیتوں کا جائزہ لینا ایک مستقل اور مفصل موضوع ہے اور اس تحریر میں اس کی گنجائش نہیں لہذا صرف بعض عناوین کی طرف یہاں اشارہ کرتے ہیں:
الف؛ تاریخی خصلتیں (۱)
۱، دین سے بغاوت اور سامری کے بچھڑے کی پرستش
۲، خدا کی جسمانیت پر عقیدہ اور خدا کی رؤیت کا مطالبہ
۳، صحراؤں میں چالیس سال تک جلاوطنی کی سزا بھگتنا
۴، خدا اور حضرت موسی (ع) کے ساتھ ہٹ دھرمی اور لجاجت
۵، انبیاء اور پیغمبروں کا قتل
۶، اسیروں کا قتل جن کے قتل سے منع کیا گیا تھا
۷، سنیچر کے دن کی حرمت کی اطاعت نہ کرنا
۸، ان میں بعض کا بندر کی شکل میں تبدیل ہونا (۲)
۹، ربا، سود اور چوری کو جائز قرار دینا
۱۰، کلمات الہی میں تحریف پیدا کرنا (۳)
۱۱، اس بات پر عقیدہ رکھنا کہ خدا کا ہاتھ نعوذ باللہ مفلوج ہے (۴)
۱۲، حق کی پہچان کے بعد اس کی پیروی نہ کرنا
۱۳، آیات الہی کا مشاہدہ کرنے کے باوجود ان کا انکار کرنا(۵)
۱۴، آسمانی بجلی گرنے کے بعد سب کو ایک ساتھ موت آنا اور دوبارہ زندگی ملنا (۶)
۱۵، گناہوں کی وجہ سے شقاوت قلب کا پیدا ہونا (۷)
۱۶، اس بات پر عقیدہ کہ وہ خدا کے بیٹے ہیں اور خدا انہیں عذاب نہیں کرے گا۔ (۸)
یہودیوں کی ذاتی خصلتیں قرآن کریم کی روشنی میں
۱، مادہ پرستی
قرآن کریم نے قوم یہود کی ایک خصلت یہ بیان کی ہے کہ وہ مادہ پرست ہیں یہاں تک کہ وہ خدا کو بھی اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَىٰ أَکْبَرَ مِنْ ذَٰلِکَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ۚ )9(
’’انہوں نے موسیٰ سے اس سے بڑی مانگ کی اور کہا ہمیں خدا کو آشکارا دکھلاؤ پس ان کے ظلم کی وجہ سے آسمانی بجلی نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا‘‘۔
۲، مال و ثروت کی لالچ
پروردگار عالم نے قرآن کریم میں یہودیوں کی ایک صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ مال دنیا کی نسبت بے حد حریص اور لالچی ہیں۔
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلى‌‌ حَیاةٍ وَ مِنَ الَّذینَ أَشْرَکُوا یَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَ ۔۔۔ (بقرہ ۹۶)
’’اے رسول آپ دیکھیں گے کہ یہ (یہودی) زندگی کے سب سے زیادہ حریص ہیں اور بعض مشرکین تو یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ہزار برس کی عمر دی جائے جبکہ یہ ہزار برس بھی زندہ رہیں تو طول حیات انہیں عذاب الہی سے نہیں بچا سکتا‘‘
۳، مومنوں اور مسلمانوں سے دشمنی و عداوت
قرآن کریم سورہ مائدہ کی ۸۲ ویں آیت میں فرماتا ہے: لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَداوَةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَ الَّذِینَ أَشْرَکُوا  ’’آپ دیکھیں گے کہ صاحبان ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں‘‘۔
آخری دو خصلتوں کو آج کے یہودیوں اور صہیونیوں میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ جو کچھ اس وقت دنیا میں خصوصا بیت المقدس میں ہو رہا ہے وہ یہودیوں کی مسلمانوں اور اسلامی آثار کی نسبت شدید ترین دشمنی کا نمونہ ہے۔ سورہ آل عمران کی ۹۹ آیت میں خداوند عالم یہودیوں کی ملامت کرتے ہوئے فرماتا ہے: قُلْ یَا أَهْلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
’’کہیے! اے اہل کتاب کیوں صاحبان ایمان کو راہ خدا سے روکتے ہو اور اس کی کجی تلاش کرتے ہو جبکہ تم خود اس کی صحت کے گواہ ہو اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے‘‘۔
یہودی اپنے برے مقاصد حاصل کرنے کے لیے عام طور پر خفیہ سازشیں اور خطرناک پروپیگنڈے کرتے ہیں جن کے ذریعے نادان اور سادہ لوح افراد کو با آسانی شکار کر لیتے ہیں۔ اس وجہ سے خداوند عالم نے بعد والی آیت میں مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ دشمن کی زہر آلود سازشوں کا شکار نہ بنیں اور انہیں اپنے اندر نفوذ پیدا کرنے کی اجازت نہ دیں۔ (۱۰)
صدر اسلام کے مسلمانوں کی نسبت قوم یہود کی عداوتوں اور خفیہ سازشوں کے بے شمار نمونے تاریخ میں موجود ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ انہوں نے مومنین کی سادہ لوحی اور غفلت سے بخوبی فائدہ اٹھایا۔ مثال کے طور پر جنگ خندق میں وہ منافقین اور یہودی جو پیغمبر اکرم کے حکم سے مدینہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے انہوں نے دشمنان اسلام کو تحریک کیا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہوں اور وہ ان کی پشت پناہی کریں۔ انہوں نے کفار سے کہا: تم مطمئن رہو کہ تم حق پر ہو اور تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے(۱۱) اس کے بعد بنی قینقاع، بنی قریظہ اور بنی نظیر کے یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کسی پر ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ (۱۲)
لیکن خداوند عالم نے انہیں ہر مقام پر ذلیل و رسوا کیا ’’ضربت الیھم الذلۃ‘‘ ذلت اور رسوائی کی طوق ان کی گلے میں لٹکا دی جو بھی قوم گناہوں میں غرق ہو جائے گی دوسروں کے حقوق پر کرے گی اس کا سرانجام ذلت و رسوائی ہو گا۔ (۱۳)
آج بھی یہ قوم مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے اور سازشیں کرنے میں سرفہرست ہے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو ان کے آشیانوں اور کاشانوں سے باہر نکال کر ان کا قتل عام کر رہی ہے ان پر ظلم و ستم کی تاریخ رقم کر رہی ہے صرف دنیا کی لالچ میں اقتدار کی لالچ میں ملک اور زمین کی لالچ میں۔ لیکن اللہ کا وعدہ ہے کہ مستضعفین زمین کے وارث بنیں گے اور ظالم و ستمگر ذلیل و خوار ہو کر نابود ہو جائیں گے۔ (۱۴)
حوالہ جات
1. تفسیر نمونه و المیزان، ذیل آیات 153- 161، سوره نساء
2. نساء(4)/47
3. بقره(2)/79
4. مائده(5)/64
5. عنکبوت(29)/32
6. بقره(2)/55
7. بقره،(2)/74
8. بقره(2)/95
9. نساء(4)/153
10. ر.ک: نفسیر نمونه، ج3، ص 23- 22
11. ر.ک: تاریخ اسلام، محلاتی، ج1، ص 132- 131
12. ر.ک : تاریخ اسلام، منتظر القائم، صص 214- 220
1۳. ر.ک: تفسیر نمونه،ج 3، ص 54
1۴. وہی، ج23، ص 499


ارض موعود میں فساد و تباہی

قرآن کریم سورہ اسراء کی تیسری آیہ مبارکہ میں خبر دیتا ہے کہ بنی اسرائیل الہی لطف و کرم کے زیر سایہ اور پیغمبران الہی حضرت سلیمان اور حضرت داؤود کے ہمراہ اس سرزمین موعود میں وارد ہوئے (۹۵۰ ق،م) لیکن بجائے اس کے کہ وہ اس سرزمین پر احکام الہی کو نافذ کریں فساد و تباہی پھیلانے میں مصروف ہو گئے انہوں نے اس سرزمین پر ظلم و ستم کی بساط پھیلائی، الہی نعمتوں کی قدردانی کے بجائے کفران نعمت کیا لہذا خدا نے ان کے ظلم و تشدد کے نتیجے میں انہیں ہلاکت اور عذاب کا وعدہ دیا اور انہیں دردناک سرانجام سے آگاہ کیا۔
قوم یہود کی ہلاکت اور بابل کے زندان میں ان کی اسارت
اس کے بعد قرآن کریم اس سورے کی چوتھی آیت میں بنی اسرائیل پر نازل ہونے والے عذاب کی خبر دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ بنی اسرائیل کے فساد و تباہی کی وجہ سے ہم نے ان کی ہلاکت کا وعدہ دے دیا ان پر ظالم و جابر بادشاہ مسلط کیا جو اشارہ ہے ’’بخت النصر اور اس کے لشکر‘‘ کی طرف۔ اور اس کے لشکر نے بنی اسرائیل کو سرزمین موعود کے چپے چپے پر تہہ تیغ کیا یہ ایسا عذاب تھا جو بنی اسرائیل کی لجاجت و ہٹ دھرمی کی وجہ سے ان کے دامن گیر ہوا۔ (۶۰۸ق،م)
قوم یہود کی رجعت اور معبد سلیمان کی تعمیر نو
قرآن کریم بنی اسرائیل کی ہلاکت اور ارض موعود سے ان کو نکال دئے جانے کی طرف اشارہ  کرنے کے بعد جو در حقیقت اسی تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو بابل کے بادشاہ بخت النصر کے ذریعے رخ پایا، بنی اسرائیل کی اس سرزمین میں بازگشت اور ان کی تجدید حیات کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ہم نے ایک بار پھر تمہارے اوپر اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دئے اور ایک جوان نسل، کثیر اموال اور دیگر نعمتوں کے ذریعے تمہاری مدد کی اور تمہیں نئی حکومت تک پہنچایا۔ یہ اشارہ ہے بنی اسرائیل کے زندان بابل سے ۷۰ سال کے بعد نجات پانے کی طرف جو دراصل ایرانی بادشاہ ’’کوروش‘‘ کے ذریعے انہیں زندان بابل سے نجات ملی اور ان کی نئی نسل کو دوبارہ زندگی نصیب ہوئی، ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو کی گئی اور شریعت حضرت موسیٰ کو دوبارہ نافذ کیا گیا۔

بنی اسرائیل کا دوسری بار فساد پھیلانا
بنی اسرائیل کو دین سے دوری اور زمین میں فساد و تباہی پھیلانے کی وجہ سے اللہ نے انہیں جلاوطن اور ۷۰ سال تک زندان بابل میں اسیر کر دیا آخر کار توبہ و استغفار کے بعد زندان سے نجات ملی اور دوبارہ اپنے وطن واپس جانا نصیب ہوا۔ لیکن انسان کی سرشت یہ ہے کہ جب اسے کسی عذاب سے چھٹکارا ملتا ہے تو وہ اس عذاب اور اس کے اسباب کو فراموش کر دیتا ہے اور دوبارہ اسی گناہ و معصیت کا ارتکاب کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوا ہوتا ہے۔
بنی اسرائیل جب دوبارہ اپنے وطن واپس لوٹے تو شریعت حضرت موسی (ع) پر عمل پیرا ہونے کے بجائے رومیوں کے دین اور آداب و رسوم کے گرویدہ ہو گئے جن بتوں کی وہ پرستش کرتے تھے ان کو اپنا خدا ماننے لگے۔ الہی پیغمبروں حضرت یحییٰ اور حضرت زکریا جو انہیں توحید و یکتائی کی طرف دعوت دے رہے تھے اور دین الہی کی تعلیمات سے آشنا کر رہے تھے کو جھٹلا کر قتل کر دیا۔ اور رومیوں کے باطل دین کے پیروکار ہو گئے خداوند عالم نے ایک بار پھر انہیں عذاب میں مبتلا کیا اور انہی رومیوں جن کے دین کے وہ پیروکار ہو چکے تھے کے ذریعے انہیں ہلاکت سے دوچار کیا۔
قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے: اس وقت کو یاد کرو جب تمہاری ہلاکت کا دوسرا وعدہ بھی پورا ہو گیا، اور تم ایک بار پھر ظلم و فساد میں ڈوب گئے اور تمہارے چہرے سیاہ ہو گئے۔ یعنی خدائے وحدہ لاشریک کو چھوڑ کر رومیوں کے خداوں کی پرستش اور ان کے باطل دین کی پیروی اور ان کے ظالم و ستمگر بادشاہ جسے قرآن نے ’’طاغوت‘‘ کا نام دیا ہے کی اطاعت وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے بنی اسرائیل ایک بار عذاب الہی میں مبتلا ہوئے اور ان کے چہرے سیاہ ہو گئے۔
وَلِیُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِیرًا ؛ قرآن کریم فرماتا ہے: اس کے بعد جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسری قوم کو مسلط کر دیا تاکہ تمہاری شکلیں بگاڑ دیں۔۔۔
رحمت و مغفرت کا وعدہ
قرآن کریم بنی اسرائیل کو دو مرتبہ عذاب میں مبتلا کرنے کے بعد انہیں رحمت و مغفرت کا وعدہ دیتا ہے یعنی الہی شریعت کو چھوڑ کر بابل و روم کے طاغوتوں کی پیروی نے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ انہیں ذلیل و رسوا کیا اور اللہ نے بھی اپنے دردناک عذاب  کا مزہ انہیں چکھا دیا۔ آخر کار دوسری مرتبہ عذاب الہی کا مزہ چکھنے کے بعد بنی اسرائیل نے توبہ اور استغفار کا راستہ اختیار کیا اور اللہ نے بھی ان کی توبہ قبول کی اور ان پر رحمت و مغرفت کا دروازہ کھول دیا۔
لیکن قرآن کریم بیان کرتا ہے کہ یہ قوم اس کے بعد بھی اپنی توبہ پر باقی نہیں رہی اور سب رحمت الہی کے دروازے سے داخل نہیں ہوئے انہوں نے حضرت عیسی پر ایمان لانے سے انکار کیا، پیغمبر اسلام کی رسالت کو ماننے سے انکار کیا جبکہ یہ یہودیوں کے لیے ایک غنیمت کا موقع تھا کہ وہ رسول خدا پر ایمان لے آتے اور گزشتہ انبیاء کے ساتھ جو انہوں نے ناروا سلوک کیا انہیں جھٹلایا، انہیں قتل کیا اس دھبے کو اپنے دامن سے پاک کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے پھر وہی تاریخ دھرائی اور اللہ کے اس آخری نبی پر ایمان لانے کے بجائے اس کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور ابوجھل و ابو سفیان جیسوں کا سہارا لے کر اللہ کے آخری نبی کے مد مقابل آگئے۔
قوم یہود کی آخری ہلاکت
قرآن کریم اس بات کا قائل ہے کہ ایک مرتبہ پھر سرزمین موعود پر واپسی بنی اسرائیل اور قوم یہود کے مقدر میں ہے لیکن وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس مقدس سرزمین پر سوائے ظلم و فساد کی بساط پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں کریں گے لیکن یہ ان کے پاس آخری موقع ہو گا اور اس کے بعد جب عذاب الہی ان کے سوراغ میں آئے گا تو ان کی بساط مکمل طور پر سمٹ جائے گی۔ وَقُلْنَا مِن بَعْدِهِ لِبَنِی إِسْرَائِیلَ اسْکُنُواْ الأَرْضَ فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ جِئْنَا بِکُمْ لَفِیفًا» (سوره اسراء/104)
’’اور اس کے بعد ہم نے بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ اب زمین میں آباد ہو جاؤ پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت آ جائے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے۔‘‘
بعض تفسیروں کے مطابق قرآن کی یہ تعبیر ’’وعد الآخرہ‘‘ قوم یہود کی ہلاکت کا آخری وعدہ ہے جو اسی سرزمین موعود میں انجام پائے گا ان کی ’’ارض نعمت‘‘ ’’ارض نقمت‘‘ میں تبدیل ہو جائے گی۔
سورہ اسراء کی آٹھویں آیت میں بھی قرآن کریم بنی اسرائیل کی آخری ہلاکت کے بارے میں فرماتا ہے: عَسَى رَبُّکُمْ أَن یَرْحَمَکُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْکَافِرِینَ حَصِیرًا»
امید ہے کہ تمہارا پروردگار تم پر رحم کر دے لیکن اگر تم نے دوبارہ فساد کیا تو ہم پھر سزا دیں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے ایک قید خانہ بنا دیا ہے۔
یعنی اگر تم نے دوبارہ اس سرزمین موعود پر ظلم و ستم کی داستان شروع کر لی تو ہمارا عذاب تمہارے سوراغ میں پھر آئے گا۔ گویا اس آیت میں قرآن کریم بنی اسرائیل کے انجام کی خبر دیتا ہے اور اس کی نشانی اور علامت انکا ظلم و ستم اور فساد و تباہی ہے۔ یعنی واضح لفظوں میں یوں کہیں کہ اس ارض موعود میں یہودیوں کا ایک بار پھر جمع ہونا اور ان کی طرف سے ظلم و ستم کی داستان دوبارہ رقم کرنا ان کے آخری زوال اور نابودی کی علامت ہے۔
قرآن کریم اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ اب آخری بار خداوند عالم خود قوم یہود کی نابودی کے لیے اقدام کرے گا اس لیے کہ اس نے اس سے قبل دو مرتبہ دوسروں کو ان کی نابودی کے لیے بھیجا ایک مرتبہ بادشاہ بابل کو اور دوسری مرتبہ بادشاہ روم کو لیکن تیسری اور آخری مرتبہ جو عذاب الہی ان کے دامن گیر ہو گا اور ان کی نابودی یقینی ہو گی وہ خدا کے صالح بندوں اور مومنین کے ذریعے ہو گی اور یہ ایسی نابودی ہو گی کہ اس کے بعد وہ اس سرزمین کا رخ نہیں کر پائیں گے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن کریم بنی اسرائیل اور قوم یہود جو حضرت موسی (ع) کے واسطے نجات یافتہ ہوئے اور اللہ کی ان پر نعمتیں نازل ہوئی کی کمزوریوں کو بیان کرتا ہے کہ یہ بچھڑے کی پوجا کرنے لگے اللہ کی نشانیوں کا انکار کرنے لگے ان کے دل پتھر کے مانند ہو گئے انہوں نے انبیائے بنی اسرائیل کا قتل کیا اور آخر کار خداوند عالم کے غضب کا نشانہ بنے اور خدا نے انہیں ذلت و رسوائی سے دوچار کیا۔
مقدمہ
قرآن کریم قوم یہود کو مسلمانوں کا بدترین دشمن قرار دیتا ہے۔ عصر حاضر میں بھی اس کی مثال یہودی ریاست ہے جو عالم اسلام کی بدترین دشمن ہے۔ اس یہودی ریاست اور قوم یہود کا سرانجام کیا ہو گا؟ اس کو جاننے کے لیے درج ذیل تحریر ملاحظہ فرمائیں۔
قرآن کریم سورہ یوسف میں بنی اسرائیل کی پیدائش اور کنعان سے سرزمین مصر ان کی ہجرت کے واقعات کو بیان کرتا ہے، سورہ یوسف کے بعد سورہ اسراء میں ان کی گمراہی اور سرزمین موعود میں ان کے ظلم و فساد اور ان کی وعدہ خلافیوں کا تذکرہ کرتا ہے اور آخر میں ان پر نازل ہونے والے الہی قہر و غضب کی خبر دیتا ہے کہ اس قوم نے جو عہد شکنیاں کیں، زمین میں جو فساد و تباہی پھیلائی اس کی وجہ سے ان کی ’’ارض موعود‘‘ ’’ارض ہلاکت‘‘ میں تبدیل ہو گئی۔ اور ان کا سرانجام بھی ابلیس کے جیسا انجام ہوا کہ اس نے بھی الہی نعمتوں کی قدردانی نہیں کی اور طغیان و تکبر سے کام لیا اور راندہ درگاہ ہو گیا۔ جیسا کہ سورہ بقرہ میں بھی ابلیس کے قصے کے بعد بنی اسرائیل کے عناد و استکبار کا تذکرہ ہوا ہے کہ یہ قوم بھی مجسم شیطان اور دجال زمانہ ہے۔
سورہ اسراء جس کا دوسرا نام ہی بنی اسرائیل ہے قرآن کریم کے حیرت انگیز سوروں میں سے ایک ہے اور اس میں بہت ہی اہم نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام کا ارض موعود میں داخلہ
خداوند عالم اس سورہ کی پہلی آیت جو لفظ ’’سبحان‘‘ سے شروع ہوتی ہے اور اس کے مطالب کی عظمت اور اہمیت کی طرف اشارہ کرتی ہے میں پیغمبر اسلام کے ایک ہی رات میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ کے سفر اور انہیں الہی نشانیوں کو دکھلانے کی خبر دیتا ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ خداوند عالم اپنے نبی کو سرزمین مکہ؛ جو توحید ابرہیمی کا مرکز ہے سے پیغمبروں کی ارض موعود جو سرزمین فلسطین ہے کا سفر کرواتا ہے اور در حقیقت ان دونوں سرزمینوں پر اپنے نبی کی حاکمیت کو بیان کرتا ہے جیسا کہ احادیث معراج سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر تمام پیغمبر رسول خدا(ص) کے حضور میں حاضر ہوتے ہیں اور آپ کی رسالت و امامت کا اقرار کرتے ہیں اور تمام انبیائے الہی کے واسطے اس سرزمین موعود پر امت واحدہ تشکیل پاتی ہے گویا وہ سرزمین جس پر تمام پیغمبر حکومت الہی کی تشکیل اور شریعت الہی کے نفاذ کے لیے سعی و تلاش کرتے رہے اس پر پیغمبر اسلام کی امامت میں امت واحدہ تشکیل پانے کی نوید دیتے ہیں۔
لہذا اس سورہ کی سب سے پہلی آیت اس سرزمین میں عدل الہی کے قیام کی بشارت دیتی ہے اور پیغمبر اسلام اور ان کے اصحاب و انصار و ان کے کلمہ گو کو اس سرزمین کے وارث قرار دیتی ہے۔
تورات کا نزول عدالت کی حاکمیت کے لیے
قرآن کریم اس سورہ مبارکہ کی دوسری آیت میں حضرت موسی علیہ السلام کی رسالت کا تذکرہ کرتا ہے اور بیان کرتا ہے کہ خداوند عالم نے موسی کو مقام نبوت پر فائز کیا اور ان پر تورات نازل کی اور تورات کو بنی اسرائیل کی ہدایت کا منشور قرار دیا تاکہ وہ شریعت الہی کا نفاذ عمل میں لائیں، تورات پر عمل کریں، شریعت کو اپنا حاکم بنائیں اور خدا کو اپنا مولا اور ولی قرار دیں۔ (۱۴۴۷ ق۔ م)

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین کے حالات منعکس کرنے میں مغربی میڈیا کی یہ بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ فلسطین کے واقعات کو سنسر کر کے بیان کرے جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے لئے یہی میڈیا ایسے الفاظ انتخاب کرتا ہے جن سے تشدد اور دھشتگردی کا مفہوم واضح نہ ہو۔ بی بی سی جسکا یہ دعویٰ ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ نیوز ایجنسی ہے وہ کبھی بھی اسرائیل کے لیے ’’ٹرور‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کرتی چونکہ اس لفظ سے تشدد اور دھشت کا مفہوم ذہن میں منتقل ہوتا ہے جبکہ اسی لفظ کو ہمیشہ ان نہتے فلسطینیوں کے بارے میں استعمال کرتی ہے جو اپنی جان و مال کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں انہیں عام طور پر دھشتگرد پہچنواتی ہے۔
مثال کے طور پر امریکہ کا معروف اخبار نیویارک ٹائمز، یہودیوں کے خلاف نازیوں کی جھوٹی جارحیت کے بارے میں ہر طرح کا نازیبا لفظ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتا اور تمام من گھڑت جزئیات کو بھی بیان کرتا ہے لیکن یہی اخبار فلسطین اور غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں کئے جانے والے قتل عام کا تذکرہ تک بھی نہیں کرتا اور کہتا ہے: ’’حالیہ مہینوں میں اسرائیل کی جانب سے کچھ خاص افراد کو ٹارگٹ بنائے جانے نے فلسطینی عوام کو غضبناک کر دیا ہے‘‘   دوسری جگہ پر فلسطینی شخصیتوں کے ٹرور کئے جانے کو ’’ت میں تبدیلی‘‘ کے الفاظ سے بیان کرتا ہے۔
اسرائیلی ریاست اپنے حامی ذرائع ابلاغ میں فلسطینی عوام کے قتل عام کے بارے میں؛ ’’صفایا کرنا، روکنا، یہودیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات، بامقصد ٹارگٹ کلنگ‘‘ جیسی تعبیریں استعمال کرواتی ہے۔
مثال کے طور پر یروشلیم پوسٹ   نیوز ایجنسی لکھتی ہے: سلامتی کابینہ کے رکن وزیر ’’ماٹن ویلنائے‘‘ نے آرمی ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہدفمند ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘‘۔
اسرائیل کے بارے میں استعمال کئے جانے والے الفاظ میں میڈیا کی باریک بینی اس بات کی علامت ہے کہ اسرائیل یا عالمی صہیونیت، دنیا والوں کے ذہنوں میں اپنی مظلومیت اور بے گناہی کا نقشہ کھینچنے کی کوشش کرتی ہے۔  

 



شائد آپ نے تاحال موساد کے بارے میں کچھ نہیں سنا ہو گا۔ موساد وہی اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کا نام ہے کہ جس کا اصلی کام، بین الاقوامی سطح پر جاسوسی کرنا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دسیوں ہزار جاسوس اپنے گھروں کو واپس پلٹے لیکن ان میں بہت سارے جاسوس ایسے بھی تھے جو اپنے ملکوں میں واپس جانے کے بجائے اپنے خیال کے مطابق ’’سرزمین موعود‘‘ کی طرف چلے گئے اور اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ’’بن گورون‘‘ کے حکم سے ان کی ہاگانا (Haganah) نامی فوج  میں شامل ہو گئے اور اسی فوج سے موساد گروہ تشکیل دیا گیا۔
یہودی ایجنسیوں کی رہنمائی میں کام کرنے والی فوج ہاگانا، کئی فوج مانند ٹولوں جیسے بیتار، ائرگون اور لحی وغیرہ کو وجود میں لانے کا باعث بنی کہ جنہوں نے ’’دریاسین‘‘ اور دو گاؤں ’’اللد‘‘ اور ’’الرملہ‘‘ میں جارحیت کی۔ حیفا میں بم بلاسٹ کروائے ’’ملک داؤود‘‘ نامی ہوٹل کو منہدم کیا۔ ان ٹولوں کے جرائم اس قدر بھیانک تھے کہ 1948 میں اسرائیل کی فوج جب یافا شہر میں داخل ہوئی تو فلسطینیوں نے اپنی جانوں کے خوف سے گھر بار چھوڑ دئے اور شہر سے بھاگ گئے۔ اور اس شہر پر صہیونیوں نے غاصبانہ کر لیا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ موساد کے سابق رکن اور کتاب( by way of deception) کے رائٹر ’’وکٹر اسٹرفسکی‘‘ سے موساد کے ذریعے کئے جانے والے قتل عام کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو انہوں نامہ نگاروں کو کوئی جواب نہیں دیا اور صرف اپنا استعفیٰ دے کر موساد کے وحشیانہ قتل سے اظہار نفرت کا اعلان کیا۔
تاہم موساد اسرائیلی حکومت کو سکیورٹی دینے کے بہانے، کئی افراد کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کر چکی ہے جن میں محمود المبوح، شیخ احمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی، سعید صیام، جرمنی کے ہائنتز کروگ، ہربرتز کوکرز، محمود ہمشاری، ڈاکٹر یحیٰ المشاد، عماد مغنیہ اور فتحی شقاقی وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔


گزشتہ سے پیوستہ

خیبر: کیا کورونا وائرس کی داستان کا آخری زمانے کے واقعات سے کوئی تعلق ہے؟
جواب: میں اپنے تمام مخاطبین سے عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں اپنی شرعی تکلیف پر عمل کرنا ہے۔ امام خمینی نے فرمایا: ہماری ذمہ داری ہے کہ ظہور کے لیے زمین فراہم کریں۔ میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ جب تک زمین ظہور کے لیے فراہم نہیں ہو گی، علاقہ پرامن نہیں ہو گا امام زمانہ سے ظہور کا تقاضہ کرنا غیرمعقول چیز ہے۔
ظہور کے تقاضے کا لازمہ یہ ہے کہ ہم نے تمام شرائط مہیا کیے ہوئے ہوں سب تیاریاں کر رکھی ہوں تو امام تشریف لائیں، علاقے کے پرامن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ علاقے پر جن اجنبی طاقتوں کا تسلط ہے ان سے علاقے کو واپس لیا جائے۔ اس جد و جہد کو امام خمینی (رہ) نے شروع کیا اور آپ نے یہ واضح کیا کہ امریکہ اوراسرائیل ہیں جو امام کے ظہور میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
ان دشمنوں کے خلاف جد و جہد امام نے شروع کی اور چالیس سال سے اسلامی جمہوریہ ایران اس جد و جہد کو جاری رکھے ہوئے ہے اور آج ہم دیکھ رہے کہ دشمن میدان جنگ میں اس قدر شکست سے دوچار ہو چکا ہے کہ اب اس طرح کے وایرس پیدا کر کے دنیا کی دوتہائی آبادی کو نابود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دشمن کس قدر کمزور اور ناتوان ہو چکا ہے۔
وہ روایتیں جو ظہور سے پہلے کے زمانے کے بارے میں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کے ظہور سے پہلے طاعون کی بیماری سے پوری دنیا متاثر ہو گی۔ ممکن ہے یہی بیماری مراد ہو۔ یا یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں ایک بہت بڑا قتل عام ہو گا۔ لیکن جو بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس طرح کی تمام روایتیں وہ ہیں جو سند کے لحاظ سے زیادہ قابل یقین نہیں ہیں۔ یہ تمام امور اللہ کی مرضی و منشا کے مطابق ہیں۔ لہذا ہماری توبہ و استغفار اور ہمارے اعمال و کردار میں تبدیلی ان امور میں تبدیلی کا بھی باعث بن سکتی ہے۔ إِنَّ اللَّهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِم.
جو چیز اس وقت روئے زمین پر رونما ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ ظہور کے مخالفین دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتے جا رہے ہیں۔ آج یہ وائرس ہماری نابودی کے لیے تیار کیا گیا ہے، ٹھیک ہے اس نے ہمارے بہت سارے قیمتی انسانوں کو موت کا شکار بنا دیا، ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچایا، الشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ» شیطان کا کام ہے فقر سے ڈرانا، مفلسی سے ڈرانا، لوگوں کے اندر نفسیاتی طور پر خوف و ہراس پیدا کر دینا، اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سارے اندرونی عوامل بھی اسی موج میں بہہ رہے ہیں اور عوام کو ان کی معیشت سے خوفزدہ کر رہے ہیں۔
کورونا وایرس نے یقینا ہماری معیشت پر کاری ضربت لگائی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ لوگوں میں ہمدردی، ہمدلی اور انفاق کی روح بھی پیدا کی ہے۔ انشاء اللہ ایران سے اس وائرس کے خاتمہ کے بعد ملک کی معیشت دوبارہ ترقی کرے گی ہم کوئی کمزور قوم نہیں ہیں، امام زمانہ کا سایہ ہمارے سروں پر ہے۔
لیکن یاد رکھیں اس وباء سے صرف ہم نہیں، بلکہ پوری دنیا کی معیشت متاثر ہوئی ہے، آپ علاقے کے ممالک کو ہی دیکھ لیں سعودی عرب جس کی معیشت کا سارا دارومدار تیل اور حج و عمرہ پر تھا آج دونوں صفر ہو چکے ہیں، تیل ۲۰ ڈالر پر پہنچ چکا ہے اور حج و عمرہ مکمل طور پر بند۔ جبکہ سعودی عرب دوسری طرف یمن جنگ کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے، عرب امارات کو دیکھ لیں، دبئی کی سٹاک مارکٹ کریش ہو چکی ہے، ترکی کا ایئرپورٹ جو اس ملک کے لیے سب بڑا درآمد کا ذریعہ تھا خالی ہو چکا ہے۔
تو دیکھیں وہ لوگ جو ایران کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں تھے آج خود بھی سب کے سب ہم سے بدتر صورتحال میں گرفتار ہیں۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وَ مَکَرُوا وَ مَکَرَ اللَّهُ وَ اللَّهُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ»۔
خداوند متعال دوسری جگہ فرماتا ہے کہ تم دشمن کی طرف سے ایجاد کردہ مشکلات سے گھبرانا نہیں، کمزور نہیں پڑنا، وَ لا تَهِنُوا فِی ابْتِغاءِ الْقَوْمِ» مشکلات بہت تمہارے راستے میں آئیں گی مشکلات سے خوفزدہ نہیں ہونا، دشمن نے جو تمہارے لیے گڈھا کھودا ہے وہ خود بھی اس میں گرے گا۔ فَإِنَّهُمْ یَأْلَمُونَ کَما تَأْلَمُون» مجھے یقین ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے یہ وائرس ہمارے لیے بنایا ہے وہ خود بھی شدت سے اس میں گرفتار ہوں گے ہم اللہ کی مدد اور امام زمانہ کے لطف و کرم سے اس پریشانی کو برداشت کر لیں گے لیکن دشمن جب اس میں گرے گا تو بری طرح متاثر ہو گا وہ برداشت نہیں کر پائے گا اس لیے کہ ہم مورچوں میں بیٹھے ہیں اور دشمن شیشے کے مکانوں میں بیٹھا ہے۔

 


گزشتہ سے پیوستہ
خیبر: ایران میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے بعد امریکی صہیونی میڈیا کے ذریعے جو نفسیاتی جنگ کا آغاز ہوا اس کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
جواب؛ وہ چیز جو امریکہ کے ذریعے کورونا وائرس کے پھیلائے جانے کو واضح تر کرتی ہے وہ نفسیاتی جنگ ہے جو اس وائرس کے حوالے سے پوری دنیا منجملہ ایران میں شروع ہو چکی ہے۔ میں اس بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا، جب یہ وائرس چین میں شروع ہوا تو ہمارے ملک کے لوگوں کی ذہنیت یہ تھی کہ کورونا وائرس ، چمگادڑ کے ذریعے چینیوں میں منتقل ہوا ہے۔
لیکن کیا چین میں یہ چیز ثابت ہوئی؟ جو افواہیں ’ووہان‘ شہر میں اس وائرس کے پھیلتے وقت پھیلیں وہ یہ تھیں کہ اس وائرس سے متاثرہ افراد وہ لوگ تھے جو سمندری خوراک کھاتے تھے لہذا یہ احتمال پایا جا رہا ہے کہ سمندری موجودات کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا ہو۔ لیکن جب ڈاکٹروں نے تحقیقات کرنا شروع کیں تو معلوم ہوا وہ لوگ بھی اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں جنہوں نے نہ ہی سمندری غذائیں کھائی ہیں اور نہ ان لوگوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا تھا جو اس بیماری میں مبتلا تھے۔
دوسرا مفروضہ یہ تھا کہ یہ وائرس چمگادڑ کے سوپ سے پھیلا ہے اس مفروضہ پر بھی تحقیقات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ سوپ تو پکا کر استعمال کیا جاتا ہے اور پکنے کے بعد کسی وائرس کے باقی رہنے کا احتمال بہت کم ہے۔ لیکن یہ احتمالات میڈیا میں اس طریقے سے بڑھا چڑھا کر پیش کئے گئے کہ گویا سوفیصد یہی دلائل ہیں۔ جبکہ ابھی تک خود چین کے اندر بھی اس وائرس کے وجود میں آنے کی وجہ معلوم نہ ہو سکی ہے۔
دوسری جانب ایران میں ٹھیک پارلیمانی انتخابات کی پچھلی رات قم میں اس کے پھیلے جانے کا اعلان کر دیا گیا اور کہا گیا کہ قم ہے جو اس وائرس کو پورے ایران میں پھیلا رہا ہے۔ جبکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وائرس کا اصلی مرکز چین ہے قم نہیں۔ لیکن قم کی بات آئی تو پوری دنیا کا میڈیا چین کو بھول کر قم کے پیچھے لگ گیا!
کچھ ہی دیر میں یہ خبریں بھی پھیلائی جانے لگیں کہ قم میں چونکہ چین کے طالب علم زیر تعلیم ہیں لہذا ان کے ذریعے یہ وائرس قم میں پھیلا ہے۔ حالانکہ جب سے چین میں کورونا وائرس پھیلا تھا چین کا ایک بھی طالب علم اپنے ملک میں نہیں گیا اور نہ ہی کوئی طالب علم وہاں سے اس دوران قم آیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قم میں تقریبا ۱۳ لاکھ کی آبادی ہے۔ لیکن سارا نزلہ حوزہ علمیہ پر ڈالا جا رہا تھا اور کہا جا رہا تھا کہ قم کے طالب علم اور علماء ہیں جو اس وائرس کے پھیلاؤ کا باعث بنے ہیں۔ حالانکہ جس مرکز میں یہ چینی طالب علم زیر تعلیم تھے وہاں کا کوئی ایک بھی عالم دین یا طالب علم متاثر نہیں ہوا۔
اس طرح کی نفسیاتی جنگ جو اس وائرس کے حوالے سے شروع کی گئی یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وائرس کا بنانا اور اس کا پھیلانا اور پھر اس کے پیچھے میڈیا کو منظم طریقے سے استعمال کرنا سب طے شدہ منصوبہ تھا۔
امریکہ کو یہ معلوم ہے کہ ایران میں صرف قم ہے جو امریکہ کے خلاف جنگ میں ڈٹا ہوا ہے۔ قم چونکہ حوزہ علمیہ کا مرکز ہے۔ آج جس فکر نے امریکہ اور اسرائیل کو مفلوج کیا ہے وہ انقلابی فکر اور سوچ ہے اور انقلابی فکر و سوچ کا مرکز شہر قم ہے جس انقلابی فکر کی بنیاد امام خمینی نے اسی شہر میں رکھی۔ لہذا دشمن کی نظر میں اس شہر کو منہدم ہونا چاہیے۔
دشمنوں کے لیے یہ اہم نہیں کہ اس مرکز کو مٹانے کے لیے کتنا خرچہ کرنا پڑے گا۔ اگر یہ وائرس دشمنوں نے بنایا ہو گا وہ اپنے حریف کو میدان سے ہٹانے کے لیے پوری انسانیت کو داؤ پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔ لہذا جو معلومات فی الحال میسر ہیں ان سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وائرس کو بنانے والا امریکہ اور وائرس پھیلانے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی جنگ چھیڑنے والا بھی امریکہ ہے۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: جب تھامس ((Thomas (Dylan O’Brien) نوجوانوں کے ایک ٹولے کے ساتھ ایک خوفناک اور ڈراؤنے علاقے میں نیند سے اٹھتا ہے تو باہر کی دنیا سے کچھ بھی اسے یاد نہیں ہوتا سوائے ایک عجیب و غریب تنظیم کے بارے میں خواب کے جس کا نام W.C.K.D ہوتا ہے اور پھر درندہ مکڑوں کے زہر سے خودکشی کے بعد اسے سب کچھ یاد آتا ہے۔
تھامس کو امید ہوتی ہے کہ وہ اس جگہ پر آنے اور پھر وہاں سے بھاگنے کا سبب معلوم کرے۔ تھامس اپنے گروہ کے ہمراہ آخر کار مجبور ہوتا ہے اس جگہ سے بھاگنے کے لیے کوئی راہ فرار تلاش کرے۔ لیکن ان لوگوں کو بھولبلییوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جس کے دونوں طرف اونچے اونچے پہاڑ ہوتے ہیں اور ان کے درمیان سے گزرنے کے دروازے کبھی کبھی کھلتے ہیں۔
اس فلم کے ڈائریکٹر ’’وس بال‘‘(Wes Ball) نے کوشش کی ہے کہ اس فلم کے ذریعے ناظرین کو یہ یقین دلائے کہ مشکلات کو برداشت کر لینا، یا مشکلات کو بھول جانا کسی مسئلہ کا راہ حل نہیں ہے بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کرے اور مشکلات کے سامنے اپنی ہار مان کر جھک نہ جائے۔
اس فلم میں ایک اہم چیز یہ ہے کہ کچھ ایسے افراد ہیں جو کسی مستقل ارادے کے مالک نہیں ہوتے ان کو اگر میدان میں ٹکا کر رکھا جائے تو بہادر نکلیں گے ورنہ ممکن ہے فرار ہوتے ہوئے موت کی آغوش میں چلے جائیں اور قربانی کا بکرہ بن جائیں۔
یہ فلم در حقیقت مغربی زندگی کی حیراں و سرگرداں بھوبلییوں کی عکاسی کرتی ہے کہ جہاں پر ہزار طرح کے پیچ و خم رکھنے والے راستے سے گزرنے کے بعد بھی انسان ایک بڑے بھولبلییاں میں داخل ہو جاتا ہے کہ جس سے نہ صرف اس کو نجات نہیں ملتی بلکہ اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ مشکلات سے خود کو چھٹکارا دلائے ختم نہ ہونے والے مشکلات اس کے دامن گیر ہو جاتی ہیں۔
مغرب کی دنیا میں جوانوں کی زندگی اکثر و بیشتر انہیں بھولبلییوں کا شکار ہے جن سے وہ کتنا بھی بھاگ کر باہر نکلنے کی کوشش کریں نہیں نکل پاتے۔ اور آخر کار خودکشی کے ذریعے خود کو مشکلات سے نجات دلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

 


خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: ڈارن آرونوفسکی (Darren Aronofsky) کی ہدایتکاری میں بنائی گئی فلم نوح (Noah) جو دوہزار چودہ(۲۰۱۴) میں ہالی وڈ فلم انڈسٹری میں رلیز ہوئی اس میں جناب نوح علیہ السلام کی زندگی کے ایک اہم گوشہ یعنی مسئلہ نبوت کو منعکس کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جناب نوح (ع) کی کہانی حقیقت پر مبنی ایک ایسی داستان ہے جو مختلف ادیان و مکاتب فکر کے نزدیک قابل قبول ہے یعنی کوئی بھی الہی دین اس تاریخی واقعہ کا انکار نہیں کرتا۔ اس حوالے سے ہالی وڈ کے فلمی اداکاروں اور صہیونی سرمایہ داروں نے اس عالمی تاریخی حقیقت کو اپنی مرضی اور منشاء سے فلمی صورت میں دنیا والوں کے لیے پیش کیا ہے۔ ہالی وڈ کے اداکاروں نے اس پیغمبر الہی پر نازل ہونے والی وحی اور ان کے الہی مکاشفوں کو صرف ایک خواب کی حد تک گرا کر پیش کیا ہے ایسی خواب جو انسان کو کبھی کبھی صرف کوئی دوا کھانے سے بھی دکھنے لگتی ہے۔ اس فلم میں جناب نوح کو امت کے رہبر اور الہی نمائندے کے بجائے صرف اپنے گھر والوں کو نجات دلانے والے کے عنوان سے پہچنوایا گیا ہے اور امت کی نسبت گویا وہ اتنے لاپرواہ تھے کہ بے سہارا لوگوں کو بھی ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیتے تھے۔
فلم نوح کی کہانی
یہ فلم یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ’’لامخ‘‘( جناب نوح کے والد) سانپ کی کھال کو اپنے ہاتھوں کے اردگرد لپیٹتے ہیں اور اپنی انگلی کو جناب نوح کی انگلی کے قریب کرتے ہیں تاکہ نور نبوت کو ان کے اندر منتقل کریں۔ یاد رہے کہ توریت کی نگاہ میں سانپ، شیطان کی علامت ہے۔ جونہی جناب نوح کے باپ لامخ نور نبوت کو جناب نوح میں منتقل کرنا چاہتے ہیں تو بادشاہ ’’ٹوبل قابیل‘‘ اس راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو جاتا اور لامخ کو قتل کر دیتا ہے۔
فلم کے اس حصے کا مقصد یہ ہے کہ مخاطب میں اس نقطہ نظر کو پروان چڑھایا جائے کہ جناب نوح کی نبوت صرف خیالی نبوت تھی اور وہ حقیقت میں معاذ اللہ نبی نہیں تھے! اور اس کے بعد فلم کی باقی کہانی اسی ایک نکتے سے تعلق رکھتی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ہر نبی کی نبوت پر سب سے اہم دلیل اس کا معجزہ ہوا کرتی ہے جس کا اس پوری فلم میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ یہ اس حال میں ہے کہ جناب نوح کے دادا متوشلح معجزے کے مالک تھے اور انہوں نے معجزے سے ایلا (جناب نوح کے بیٹے سام کی بیوی) کے بانجھ ہونے کی مشکل کو حل کر دیا تھا۔
اس فلم میں جس ’’نوح‘‘ کو پیش کیا گیا ہے وہ صرف عالم خواب میں کچھ چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جنہیں سمجھنے کے لیے اپنے داد متوشلح سے مدد لینا پڑتی ہے! یہ طرز تفکر کتاب مقدس کے مضامین اور مطالب کے ساتھ بھی تضاد رکھتا ہے۔
مختصر یہ کہ الہی رسولوں کے سلسلے میں اس طرح کی ہلکی پھلکی، بے بنیاد اور سیکولر دید اور نظر رکھنا، انبیاء کی حقیقی تاریخ میں تحریف ہے، پیغمبروں کی عصمت پر سوالیہ نشان اٹھانا ہے، رسولوں کا خداوند عالم سے کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ ہونے اور وحی اور شہودی نگاہ کے بے معنی ہونے کا ثابت کرتا ہے یہ وہ مشترکہ مفاہیم ہیں جو انبیائے الہی کے حوالے سے بنائی گئی ہالی وڈ کی اکثر فلموں میں نظر آتے ہیں۔
یہاں پر یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ ہالی وڈ کے مورخین جیسے ’’نیل گویلر‘‘ جو یہودی ہیں اس بات کے قائل ہیں کہ ہالی وڈ انڈسٹری اسّی فیصد سے زیادہ سیکولر اور صہیونی کمپنیوں کے زیر اثر ہے جو خود دین یہود کی تعلیمات سے بھی وں دور ہے۔
ڈارن آرونوفسکی کی منحرف کرنے والی فلم نوح کو مختلف ممالک میں دینداروں اور مسلمانوں کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ بعض اسلامی ممالک جیسے پاکستان، قطر، عرب امارات، بحرین، دیگر خلیجی ممالک ملیشیا، انڈونیشیا اور مشرق وسطیٰ کے دیگر اسلامی ممالک میں اس فلم کی نمائش پر قدغن لگا دی گئی۔ مصر کی الازہر یونیورسٹی نے بھی ایک بیان جاری کر کے فلم ’’نوح‘‘ کو اسلامی مخالف قرار دیا اور اس ملک میں اسے دکھلانے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے بین الاقوامی فلمی ڈائریکٹر مجید مجیدی جنہوں نے ماضی قریب میں ’’محمد‘‘ نامی فلم بنائی اس حوالے سے کہتے ہیں: ’’ آج ہالی وڈ اور صہیونیت، میڈیا خاص طور پر فلمی میدان میں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں اور حتی دینی موضوعات کی بھی اپنی مرضی سے منظر کشی کرتے ہیں کہ جس کی واضح مثال تازہ بنائی گئی فلم ’’جناب نوح‘‘ ہے۔ جب میں نے یہ فلم دیکھی تو میرا بدن لرز گیا۔ سچ میں پیغمبر خدا کو کیسا دکھلایا جا رہا ہے؟ اس عظیم واقع کے تئیں کتنی سطحی، تخریب کارانہ اور تعصب آمیز نگاہ کی گئی ہے کہ یقینا انسان افسوس کرتا ہے‘‘۔

 


خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: امریکہ جو دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک کہلاتا ہے دوسرے ممالک کی بنسبت بہت ساری چیزوں میں کچھ امتیازات بھی رکھتا ہے۔ ایسا ملک جو اقتصادی اور معیشتی اعتبار سے اول درجہ پر فائز ہونے کا دم بھرتا ہے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں اس کا ایک امتیازی پہلو، جیلوں میں قیدیوں کی کثرت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق، ۲۰۱۰ میں امریکہ کے دو ملین تین لاکھ افراد جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں امریکی قیدیوں کی یہ تعداد دنیا کے بہت سارے دیگر ممالک سے زیادہ تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ میں ہر ایک لاکھ میں ۷۱۶ افراد کو جیل بھیجا جاتا ہے اس طرح امریکہ اپنے شہریوں کو جیل بھیجنے میں پہلے درجے پر پے اس کے بعد برطانیہ کی باری آتی ہے اور پھر جرمنی، پرتگال اور دوسرے ممالک۔ جی ہاں، امریکی حکومت کا اپنے شہریوں کو معمولی سے معمولی باتوں کی وجہ سے جیل بھیجنے کا شوق وہ نکتہ امتیاز ہے جو صرف امریکہ سے مخصوص ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ امریکہ میں کیوں اتنی کثیر تعداد میں افراد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کیا جاتا ہے؟ آخر کیا امریکی ایک متمدن اور ترقی یافتہ قوم نہیں ہے جو پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے؟ اتنے زیادہ امریکیوں کو جیلوں میں بند کئے جانے کا سبب کیا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ میں اسلحہ کا رواج، بے روزگاری اور مہنگائی، غیر مناسب تعلیمی نظام، صحیح قوانین کا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ وہ اسباب و عوامل ہیں جو باعث بنتے ہیں کہ امریکی معاشرے میں جرائم دن بدن بڑھتے جائیں اور جیلیں بھرتی جائیں۔
حکومت کی طرف سے جرائم کے روک تھام کے لیے تجویز کیا گیا بہترین راہ حل، عدالت کے اجرا میں حد سے زیادہ سختی تھی۔ اس سختی کا امریکی انتخابات اور لوگوں کے حق رای دہی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ اس شخص کو ووٹ دینے کی کوشش کرتے تھے جو جرائم کا سد باب کر سکے۔ اور ان کی نظر میں بہترین راستہ مجرموں کو سزا دینا تھا۔ جب جرائم کا سلسلہ کم ہوتا تھا لوگ سزاؤں میں سختی کو اس کا سبب سمجھتے تھے اگر چہ دوسرے عوامل کی وجہ سے جرائم میں کمی واقع ہوئی ہو۔
لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سختیوں نے الٹا نتیجہ دینا شروع کر دیا۔ سزاؤں میں زیادتی کی وجہ سے نہ صرف جرائم کا گراف نیچے نہیں آیا بلکہ اوپر چلا گیا۔ یہ صورتحال نہ صرف امریکہ میں پیش آئی بلکہ برطانیہ اور جاپان کی بھی یہی حالت تھی۔ یعنی سزاؤں میں شدت پیدا ہونے کی وجہ سے جرائم میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ جرائم بڑھنے کی ساتھ ساتھ لوگوں کی طرف سے پھر سزاؤں میں شدت کا مطالبہ سامنے آتا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سزاؤں میں شدت آنے کی وجہ سے جیلوں میں چار گنا قیدی اضافہ ہو گیے۔
سزاؤں میں شدت کی یہ کیفیت تھی کہ لوگ کو معمولی سے معمولی بہانے کی وجہ سے جیل میں بھیجا جانے لگا۔ مثال کے طور پر منشیات کے حوالے سے نہ صرف خرید و فروخت کرنے والوں پر سخت قوانین جاری نہیں ہوتے تھے بلکہ غیر قانونی دوا بیچنے والوں کو بھی اس زمرے میں لا کر کھڑا کیا جاتا تھا۔ یہ سختیاں اس قدر زیادہ تھیں کہ حتیٰ قاضی جہاں پر قانونی اعتبار سے مجرم کی سزا میں تخفیف دینے کا جواز بھی رکھتے تھے وہاں بھی تخفیف دینے سے گریز کرتے تھے۔ در حقیقت یہ راہ حل امریکی جیلوں میں زیادہ سے زیادہ بھرتی کا سبب بنا۔
اگرچہ حال میں امریکہ یہ کوشش رہا ہے کہ بہت سارے وفاقی قوانین اور جرمانوں میں اصلاح کرے لیکن پھر بھی اس ملک میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو کبھی حکومت کی طرف سے تشدد اور سزا کے مستحق واقع نہ ہوئے ہوں اور جیل کا انہوں نے منہ دیکھا ہو۔ مغربی دنیا سے اس کے علاوہ کسی بہتری کی امید رکھنا بھی بے جا ہے کیوں کہ ان کے یہاں قانون کی تدوین اور اس کے اجرا کا محور ان کی وہ آئیڈیالوجی ہے جو انسان اور انسانی زندگی کی نسبت وہ رکھتے ہیں۔

 


خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: موجودہ دور میں سامراجی عناصر کا قوموں پر اپنا دبدبہ بنانے اور انہیں اپنی یلغار کا شکار بنانے کا ایک حربہ نفسیاتی جنگ ہے .
اپنے استعماری اہداف کے حصول کے لئے دشمن جو سناریو تیار کرتا ہے اور جس طرح اپنی پروپیگنڈہ مشینری کا استعمال کرتا ہے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ جس مہارت کے ساتھ دشمن ثابت کر کے اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لئے جو چال چلتا ہے اسے ہی نفسیاتی جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
آمنے سامنے کی فزیکی جنگ کے بارے میں توسب جانتے ہیں اس کی تخریب کاریوں سے بھی واقف ہیں اس کے اسلحوں سے بھی آشنا ہیں لیکن نفسیاتی جنگ وہ ہے جس کے بل پر فیزیکلی جنگ پر بھی انسان غلبہ کر سکتا ہے ۔ آمنے سامنے کی جنگوں میں انسان سر زمینوں کو فتح کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے لیکن نفسیاتی جنگ میں ذہن و دماغ پر تسلط پیدا کیا جاتا ہے اور جب ذہن و دل قابو میں آ جاتے ہیں تو اب زمین پر قبضہ کوئی بڑی بات نہیں رہ جاتی ۔نفسیاتی جنگ کا آغاز یوں تو تمدن بشری کی ابتدا سے ہے لیکن ماہرین کے خیال کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اس طریقہ جنگ کو ایک خاص مقام حاصل ہوا ۔ نفسیاتی جنگ کے اپنے اصول و ضوابط اور اس کا ایک خاص طریقہ کار ہے جس پر کسی اور وقت گفتگو ہوگی لیکن وہ ایک اہم نکتہ جس کی وجہ سے نفسیاتی جنگ میں دشمن کو کامیابی ملتی ہے طرف مقابل کا جاہل ہونا ہوتا ہے ، جہالت کی بنیاد پر ہمیشہ ہی نقصان ہوا ہے اور اس قوم نے معیشتی ، معاشرتی ، اور تی و قومی میدان میں ہمیشہ ہی نقصان اٹھایا ہے جو جاہل رہی یہی جہالت سبب بنتی ہے کہ نفسیاتی جنگ میں دشمن جس رخ پر چاہےقوم کو ڈھکیل کر اپنا الو سیدھا کرے ۔
نفسیاتی جنگ کا سب سے بڑا اسلحہ:
نفسیاتی جنگ کا سب سے بڑا اسلحہ میڈیا ہے اگرچہ پروپیگنڈہ کرنے کے دیگر وسائل جیسے کتاب، میگزین ، بروشرز، اور خاص کر سوشل میڈیا فیس بک و اٹس اپ سبھی اس مشینری کا حصہ بن جاتے ہیں اور انسے بوقت ضرورت بہت آسانی کے ساتھ اپنی بات لوگوں کے ذہنوں میں اتار دی جاتی ہے ۔
نفسیاتی جنگ ایک ایسا آزمودہ حربہ ہے جسے سامراج نے ہمیشہ ہی ترپ کے پتے کے طور پر استعمال کیا ہے چنانچہ ماہرین ت اس بات کو مانتے ہیں کہ نفسیاتی جنگ کے پیچیدہ اصولوں سے اگر کوئی واقف نہیں ہے تو بہت جلد اس جنگ میں دشمن سے زیر ہو کر ہاتھ اٹھا سکتا ہے اور یہ وہ حربہ ہے جس کے بل پر آپ کسی بھی مظلوم قوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنا سکتے ہیں قاتل کو مقتول مقتول کو قاتل بنانا اس جنگ کے ماہرین کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے اور فلسطین کا وجود اسکا زندہ ثبوت ہے کہ کس طرح صہیونیوں نے ہلوکاسٹ کی کہانی گڑھ کر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرتے ہوئے دنیا کی ہمدردیاں بٹوری اور کس طرح آج یہ لوگ فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دینے کے بعد بھی نفسیاتی جنگ کے بل پر خود کو بجا و حق پیش کر رہے ہیں ۔ نفسیاتی جنگ کا مقصد اپنے حریف و مخالف پر پروپیگنڈہ کے ذریعہ تسلط حاصل کرنا سازشوں کا شکار بنا کر اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرنا ہے نت نئی سازشیں ، ٹی وی پر ایسے پروگرام جو خاص کر کسی ایک قوم کو ٹارگٹ کر رہے ہیں ہوں ، کسی مذہب کے مقدسات سے کھلواڑ ،حکومت کی جانب سے بغیر ایک قوم کی رائے جانے اس سے مشورہ لیا بغیر اسکے مذہب میں مداخلت کرتے ہوئے ایسے بل پیش کرنا جو یکطرفہ ہوں جبکہ باہمی گفت و شنید کے ذریعہ مسئلہ کا حل ممکن ہو یہ وہ خطرناک پوائنٹ ہیں جن سے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے دشمن ایک قوم احساس کمتری میں مبتلا کر سکتا ہے ۔اس جنگ میں زبردستی کسے کو مارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کسی بھی قوم سے کچھ لالچی لوگوں کو پکڑ کر انہیں کوئی چھوٹا موٹا منصب دیکر پوسٹ اور مقام کا لالچ دیکر درونی طور پر ایک ہی قوم میں ی ،مذہبی اور علاقائی اختلافات ڈالا جا سکتا ہے اور جہاں اختلافات و آپسی تصادم ہوا وہاں بڑی سے بڑی قوم کی ہوا نکل جاتی ہے۔
ملک کی موجودہ صورت حال اور نفسیاتی جنگ:
ہمارے ملک ہندوستان میں جو مسلمانوں کی صورت حال ہے اسے دیکھ کر نفسیاتی جنگ کی شدت دشمن کے نت نئے حربوں کا جتنا اندازہ ہوتا ہے اتنا ہی اس بات کا بھی کہ ہمارے پاس اس نفسیاتی جنگ سے ابھرنے کے لئے کچھ نہیں ہے بلکہ ہمارے ہاتھوں میں زہریلے لالی پاپ تھما دئے جاتے ہیں مثلا فلاں حکومت میں فلاں قوم کی شراکت زیرو تھی اور ایک خاص حکومت میں مثلا ہر طر ف ایسے ناموں کی بارش ہے جن سے ایک خاص مسلک کی نمائندگی کا پتہ چلتا ہے اب ایسے میں ہم سوچتے ہیں کہ چلو موجودہ حکومت میں ہمارا منسٹر ہمارا نمائندہ تو ہے فلاں پارٹی میں ہمارے آدمی تو ہیں جبکہ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ان ہمارے اپنوں نے ہمیں کیا دیا ہے اور یہ سے اپنے ہیں کہ دیر و خانقاہ سے لیکر مندر و گرودواروں تک میں یہ وہی عمل انجام دیتے ہیں جس کے لئے اوپر سے انہیں کہا جاتا ہے ، یہ اگر اپنے ہی ہوتے تو اپنے ائمہ کی سیرت پر چل کر اپنوں کے لئے کچھ کرتے ۔
نفسیاتی جنگ کا ایک خطرناک رخ جو ہمارے یہاں چل رہا ہے وہ یہ ہے سوشل میڈیا پر اختلافی مسائل چھیڑ کر پوری قوم کو الجھا دیا گیا ہے رات کے نصف حصہ میں گروجی اپنا ایک چمتکار فیس بک پر ڈالتے ہیں جس کا تعلق نہ دین سے ہے نہ مذہب سے نہ قوم سے صبح تک ہزاروں کی تعداد میں لائیک سجدہ ریز نظر آتے ہیں اور کبھی ایسی متنازعہ بات واٹس اپ گروپ پر یا فیس بک پر ہوجاتی ہے کہ پورے ہفتہ اسی پر گفتگو ہوتی رہتی ہے اور باتیں ختم بھی ہو جائیں تو چیلے چپاٹے ختم نہیں ہونے دیتے ایک نیا شگوفہ چھوڑ کر سب کو پھنسائے رہتے ہیں اور قوم حاشیہ میں الجھی رہتی ہے ۔
یہ تو خیر آپسی طور پر گتھم گھتا کی بات تھی جہاں بے سود بحثیں ہوتی ہیں اور اس نفسیاتی جنگ میں دشمن زیادہ انرجی بھی نہیں لگاتا کسی ایک کو اس نے دوست کی چادر اڑھا کر ایک گروپ میں ڈالا ہوتا ہے اور بس اسکا کام ہو رہا ہوتا ہے …
جبکہ اس سے منظم طور پر جہاں کام ہوتا ہے وہاں کبھی ایک قوم کو مسلسل ہراساں کرنے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور سوچے سمجھے طریقے اپنا کر ایسی باتیں پیش کی جاتی ہیں جنکے بل پر ہم اپنی کم تعداد کی بات کرتے رہیں اور جب بھی کچھ کرنے کی بات ہو غیرت ایمانی کی بات ہو تو ہم کہیں کہ ہماری تعداد بہت کم ہے ایسا ہوا تو یہ ہو جائے گا ویسا ہوا تو یہ ہو جائے گا ، ہمارا گھر بار لٹ جائے گا ہم کہیں کے نہیں رہیں گے ہمارے کھیت کھلیان تباہ و برباد ہو جائیں گے و۔۔۔ کبھی اس نفسیاتی جنگ میں ہمیں خوش کرنے کے لئے ایسے باتیں پھیلائی جاتی ہیں جن پر ہم خوش ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ خبر ہی جھوٹی تھی اس کے برخلاف کبھی ایسی خبر نشر ہوتی ہے جس سے ہم ڈر جاتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ خبر ہی کی کوئی اصلیت نہیں تھی

 


خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: فلسطین پر انگریزوں کے قبضے اور لارڈ بالفور کے اعلان سے یہودیوں کے طویل المیعاد منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ ۱۸۸۰ء سے شروع پر کر ۱۹۱۷ء تک اس مرحلے کی تکمیل میں سینتیس سال صرف ہوئے۔ اس کے بعد اس منصوبے کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں مجلس اقوام اور اس کی اصل کار فرا دو بڑی طاقتوں، برطانیہ اور فرانس نے بالکل اس طرح کام کیا گویا وہ آزاد سلطنتیں نہیں ہیں۔ بلکہ محض صہیونی تحریک کی ایجنٹ ہیں۔ ۱۹۲۲ء میں مجلس اقوام نے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو انگریزوں کے انتداب (Mandate) میں دے دیا جائے۔ اس موقع پر فلسطین میں جو مردم شماری کرائی گئی تھی اس میں مسلمان عرب ۶۶۰۶۴۱ عیسائی عرب ۱۵۶۴ اور یہودی ۸۲۷۹۰ تھے اور یہودیوں کی اتنی آبادی بھی اسی وجہ سے تھی کہ وہ دھڑا دھڑ وہاں جا کر آباد ہو رہے تھے۔ اس پر بھی مجلس اقوام نے برطانیہ کو انتداب کا پروانہ دیتے ہوئے پوری بے شرمی کے ساتھ یہ ہدایت کی کہ یہ اس کی ذمہ داری ہو گی کہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کے لیے ہر طرح کی آسانیاں فراہم کرے۔ صہیونی تنظیم کو سرکاری طور پر باقاعدہ تسلیم کر کے اسے نظم و نسق میں شریک کرے اور اس کے مشورے اور تعاون سے یہودی قومی وطن کی تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔ اسکے ساتھ وہاں کے قدیم اور اصل باشندوں کے لیے صرف اتنی ہدایت پر اکتفا کیا گیا کہ ان کے مذہبی اور شہری حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ یہ انتداب حاصل کرنے کے بعد یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانے کا باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ فلسطین کا پہلا برطانوی ہائی کمشنر سرہربرٹ سیمویل خود ایک یہودی تھا۔ صہیونی تنظیم کو عملاً حکومت کے نظم و نسق میں شریک کیا گیا اور اس کے سپرد نہ صرف تعلیم اور زراعت کے محکمے کے گئے بلکہ بیرونی ملکوں سے لوگوں کے داخلے اور قومیت کے معاملات بھی اس کے حوالے کر دئے گئے۔ ایسے قوانین بنائے گئے جس کے ذریعے باہر کے یہودیوں کو فلسطین میں آکر زمینیں حاصل کرنے کی پوری سہولتیں دی گئیں۔ مزید برآں ان کو زمینیں کاشت کرنے کے لیے قرضوں اور دوسری سہولتوں سے بھی نوازا گیا۔ عربوں پر بھاری ٹیکس لگائے گئے اور ٹیکسوں کے بقایا پر ہر بہانے عدالتوں نے زمینیں ضبط کرنے کی ڈگریاں دینی شروع کر دیں۔ ضبط شدہ زمینیں یہودیوں کے ہاتھ فروخت کی گئیں اور سرکاری زمینیوں کے بھی بڑے بڑے رقبے یہودی نوآباد کاروں کو کہیں مفت اور کہیں برائے نام پیسے لے کر دئے گئے۔ بعض مقامات پر کسی نہ کسی بہانے پورے عرب گاؤں صاف کر دئے گئے اور وہاں یہودی بستیاں بسائی گئیں۔ ایک علاقے میں تو آٹھ ہزار عرب کاشتکاروں اور زرعی کارکنوں کو پچاس ہزار ایکٹر زمینوں سے حکماً بے دخل کر دیا گیا اور ان کو فی کس تین پونڈ دس شلنگ دے کر چلتا کیا گیا۔ ان تدبیروں سے سترہ سال کے اندر یہودی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ ۱۹۲۲ء میں وہ بیاسی ہزار سے کچھ زائد تھے ۱۹۳۶ء میں ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ انگریز فلسطین میں صرف صہیونیت کی خدمت انجام دیتے رہے اور ان کے ضمیر نے ایک دن بھی ان کو یہ احساس نہ دلایا کہ کسی ملک کی حکومت پر اس کے اصل باشندوں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کی نگہداشت کرنا اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔
جنگ عظیم دوم کے زمانے میں معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ گیا۔ ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہر قانونی اور غیر قانونی طریقے سے بے تحاشا فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ صہیونی ایجنسی نے ان کو ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ملک کے اندر گھسانا شروع کیا اور مسلح تنظمیں قائم کیں جنہوں نے ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔ انگریزی انتداب کی ناک کے نیچے یہودیوں کو ہر طرح کے ہتھیار پہنچ رہے تھے اور وہ عربوں پر چھاپے مار رہے تھے۔ مگر قانون صرف عربوں کے لیے تھا جو انہیں ہتھیار رکھنے اور ظلم کے جواب میں مدافعت کرنے سے روک رہا تھا۔ البتہ برطانوی حکومت جان بچا کر بھاگنے والے عربوں کو نقل مکانی کی سہولتیں فراہم کرنے میں بڑی فراخ دل سے کام لے رہی تھی تھی۔ اس طرح ۱۹۱۷ء سے ۱۹۴۷ء تک تیس سال کے اندر یہودی منصوبے کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوا جس میں وہ اس قابل ہو گئے کہ فلسطین میں ان کی قومی ریاست” قائم کر دیں۔

 


خیبر صہیون ریسرچ سینٹر: اسرائیل کے قیام کے بعد صہیونیت کے پیش نظر منصوبہ جات میں بظاہر دو اہم منصوبے یہ ہیں:
۱: حضرت سلیمان(ع) کا تعمیر کردہ ہیکل سلیمانی (جو ایک دفعہ ۵۶۷ ق م میں نمرود بادشاہ بخت نصر نے گرایا تھا جس کے بعد انہوں نے دوبارہ تعمیر کر لیا تھا۔ دوسری مرتبہ رومی حملہ آور جرنیل ٹائٹس نے ۷۰ء میں گرایا تھا جو اب تک ۱۹۵۰ سال سے گرا پڑا ہے) کو تیسری مرتبہ تعمیر کرنا۔
۲: صہیونیت کا اسرائیل کے ذریعے ساری دنیا پر قبضہ اور قرضوں کی معیشت کے ذریعے عالمی حکومت کا قیام۔
ان دونوں منصوبوں پر مختصر نگاہ ڈالتے ہیں:
ہیکل سلیمانی کی تیسری تعمیر
یہود اور در اصل صہیونیت بزعم خویش حضرت موسی (علیہ السلام) کے بعد آنے والے بہت سارے پیغمبروں کے قتل اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور پیغمبر آخر امان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے من حیث القوم انکار کے باوجود ارض مقدس یروشلم پر اپنا حق سمجھتی ہے( حالانکہ یہ کسی قاعدے اور قانون کے مطابق ان کا نہیں ہے) آسمانی ہدایات میں تو ان کے انکار مسیح(علیہ السلام) کے بعد ان کو سزا کے طور پر وہاں سے نکالا گیا تھا بعد از آں انبیائے کرام کی یادگاریں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر تسلسل کے ساتھ ایمان لانے والوں کا ہی حق ہے اور ایسے مقامات مقدسہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ بعد کے انبیاء کرام( علیہم السلام) کی امتوں کے ہی حوالے کرتا رہا ہے یہی سنت الہی ہے۔
تاہم ظلم، جبر، استحصال، جائز ناجائز ہتھکنڈوں، ابلیسی چالوں، شراب، عورت، جوا، بے حیائی اور سود کے ذریعے عالمی وسائل پر قبضہ کر کے صہیونیت نے حیلوں بہانوں سے گزشتہ تین صدیوں سے عالمی معیشت پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے اور علمی اور ی منظر پر سامنے آکر جنگ کے بعد کوئی علاقہ فتح کر کے حکومت بنانے کے بجائے سازشوں سے اسرائیل کی حکومت کی حفاظت عالمی طاقتوں اور یو این او”، آئی ایم ایف” اور ڈبلیو بی” کے ذریعے کرا رہی ہے۔
صہیونیت کا پہلا اہم منصوبہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ہیکل سلیمانی کی تیسری تعمیر ہے۔ یہود کے پاس مالی وسائل بہت ہیں۔ ٹیکنالوجی بھی ہے نقشہ جات بھی ۱۹۹۲ سے تیار شدہ ہیں۔ مگر وہ منصوبہ شروع اس وجہ سے نہیں ہو پا رہا ہے کہ عین اس جگہ جہاں وہ ہیکل تعمیر ہونا ہے وہاں مسلمانوں کی عظیم یادگار اور تاریخی مسجد مسجد اقصیٰ ہے جو مسلمانوں کا قبلہ اول بھی تھا اور جہاں سے آخری نبی نے معراج کا سفر میں بھی شروع کیا۔
لہذا ہیکل سلیمانی کی تعمیر اس صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب مسجد الاقصیٰ کو مسمار کیا جائے جبکہ فلسطین کے بہادر مسلمان گزشتہ کئی سالوں سے اس کام کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور دنیا کے دیگر مسلمان بھی کبھی صہیونیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیں گے۔
عالمی حکومت کا قیام
صہیونیت کا دوسرا ابلیسی منصوبہ یہ ہے کہ آج دنیا کو جو انہوں نے بے حیائی، عریانی فحاشی کے جس موڑ پر لاکھڑا کر دیا ہے وہاں سے آگے لے جا کر بے حیائی اور بدکاری کو اتنا عام کر دیا جائے کہ انسان اور جانور میں تمیز مشکل ہو جائے اور لوگ جانوروں کی طرح سرراہ بدکاری اور بے حیائی کے کام کر رہے ہوں۔ مغرب میں تو ان قوموں کا یہ نقطہ کمال عام طور پر بھی نظر آتا ہے مگر خاص طور پر گرمی کے موسم میں جب دھوپ تاپنے کے بہانے ساحلوں کی ریت پر برہنا پڑے انسان نما جانوروں کی صورت میں بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ واقعا یہ معاشرہ حیوانی سطح تک اتر آیا ہے اور اس گراوٹ میں میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ اور صہیونیت کے ماسٹر دماغ ( MASTER MINDS) فلم کلچر اور سیر و تفریح کے نام پر یہ سب کچھ کرا رہے ہیں۔
ایسی افسوسناک صورتحال کو انسانی معاشرے کے لیے وجود میں لانے کے بعد یہود کا چالاک ذہن آگے بڑھ کر یہ کہتا ہے کہ جب انسان اس طرح حیوانیت پر اتر آیا ہے تو وہ چونکہ معاملات دنیا کو کما حقہ نہیں چلا سکتا لہذا یہود ہیں جو دنیا کو بہترین انداز میں چلا سکتے ہیں۔
یہود کے دو طبقے ہیں ایک مذہبی یہودی اور دوسرے لبرل یہودی۔ لبرل یہودی قوم ہر طرح کی اخلاقی گمراہیوں میں غرق ہیں تاہم مذہبی یہودی عام طور پر اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچاتے ہیں۔ ایک راوی کے مطابق امریکہ میں نیویارک سے باہر یہود کی بستیاں ہیں اور ان مذہبی یہودیوں کے گھروں میں ٹی وی تک بھی موجود نہیں ہے کہ یہ اخلاق خراب کرتا ہے ان کے ہاں پردہ ہے اپنے مذہبی شعائر ہیں۔ بظاہر یہ دو قسم کے یہودی ہیں مگر نظریات میں دونوں ایک ہیں۔ ایک عالمی یہودی ریاست کا قیام ان دونوں کا مشترکہ مطمع نظر ہے۔
منبع: کتاب صہیونیت قرآن مجید کے آئینہ میں

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونیوں کے دانا بزرگوں کی دستاویزات میں جگہ جگہ ایک سپر گورنمنٹ کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً چھٹی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ” ہمیں ہر ممکنہ ذریعہ سے ایک ایسی سپر گورنمنٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے جو رضاکارانہ طور پر اطاعت قبول کرنے والوں کو مکمل تحفظ کی ضمانت دے سکے”۔
وکٹر۔ ای۔ مارسڈن ( جس نے ان دستاویزات کا ترجمہ روسی زبان سے انگریزی میں کیا) نے ان دستاویزات کے تعارف میں اقوام متحدہ کو اسی سپر گورنمنٹ کی طرف ایک قدم قرار دیا ہے۔
اس منصوبہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اول لیگ آف نیشنز قائم کی گئی اور بعد میں اقوام متحدہ کا قائم عمل میں لایا گیا۔
اس پس منظر میں اقوام متحدہ پر یہودیوں کے تسلط کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے دس اتنہائی اہم اداروں میں ان کے اہم ترین عہدوں پر ۷۳ یہودی فائز ہیں۔ اقوام متحدہ کے صرف نیویارک کے دفتر میں بائیس شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں اور یہ سب کے سب انتہائی حساس شعبے ہیں جو اس بین الاقوامی تنظیم کی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یونیسکو میں نو شعبوں کے سربراہ یہودی ہیں۔ آئی۔ ایل۔ او( I.L.O) کی تین شاخیں یہودی افسران کی تحویل میں ہیں۔ ایف۔ اے۔ او (F.A.O) کے گیارہ شعبوں کی سربراہی یہودیوں کے پاس ہے۔ عالمی بینک (WORLD BANK) میں چھ اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (I.M.F) میں نو شعبوں کے سربراہ وہ لوگ ہیں جن کا تعلق یہودیوں کی عالمی تنظیم سے ہے۔ یہ تمام عہدے جو یہودیوں کے پاس ہیں انتہائی اہم اور حساس ہیں اور یہ لوگ ان کے ذریعے تمام بین الاقوامی امور پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بے شمار یہودی اور ان کے گماشتے ہرہر شعبے میں موجود ہیں۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ اگر یہ افراد کسی مرکزی تنظیم کے زیر اثر کام کر رہے ہوں تو وہ عالمی یات، معاشیات اور مالیات کا رخ جس سمت چاہیں موڑ سکتے ہیں اور بعینہ یہی وہ کام ہے جو وہ سر انجام دے رہے ہیں۔
بہت سے لوگوں کو یہ معلوم ہو کر حیرت ہو گی کہ دنیا کے تمام ممالک میں یہودیوں کی خفیہ تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ بہت سے ملکوں میں انہیں اپنی علیحدہ کوئی تنظیم قائم کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی چونکہ ان کے اپنے آدمی خفیہ طور پر ان ملکوں میں اہم مناصب پر تعینات کروائے جا چکے ہیں جہاں بیٹھ کر وہ ہر کام کروا سکتے ہیں جس کی انہیں ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر بدنام زمانہ سی۔ آئی۔ اے (C.I.A) ان کے انگوٹھے کے نیچے ہے جسے براہ راست اسرائیل سے ہدایات ملتی ہیں۔

 


دنیا میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنکا ماضی بہت تابناک رہا لیکن وہ ماضی کی تابناکیوں کو حال تک قائم رکھنے میں ناکام رہے جسکی بنا پر حال بھی تاریک ہو گیا اور مستقبل بھی تاریکیوں میں گم ہو کر رہ گیا ۔
ماضی کے کامیاب اور حال کے ناکام نیزمستقبل کے بے نام و نشاں لوگوں کی ناکامی و بے نشانی کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ کل کے اپنے اس عزم و حوصلہ ،اپنی استقامت و پائداری کو آج زندہ رکھنے میں ناکام رہے جس نے انہیں کل کامیابی کی چوٹیوں تک پہنچایا تھا ، گزرا ہوا کل کتنا ہی کامیاب ہو اگر انسان کل کی کامیابیوں کو آج تک باقی نہ رکھ سکے تو حال و مستقبل دونوں ہی میں بے نام و نشاں ہو جاتے ہیں ۔
ان لوگوں کی بات ہی کیا ہے جنکا ماضی تو درخشاں ہوتا ہی ہے حال تو تابناک ہوتا ہی ہے آنے والا زمانہ جیسے جیسے گزرتا ہے انکا وجود اور بھی درخشان ہوتا جاتا ہے ، اور کہا جا سکتا ہے کہ کہ زمانے کی یہ قیود انکے لئے بے معنی ہو جاتی ہیں کہ انکے لئے ماضی ، حال یامستقبل کی بات کی جائے یہ ایسے نابغہ روزگار لوگ ہوتے ہیں جو ہر زمانے میں حال بن کراس طرح جیتے ہیں کہ ہر دور کی ضرورت بن جاتا ہے ، اور زمانہ کی قید سے ماوراء مکان کی حدوں کے پار کائنات وجود پر یوں محیط ہو جاتے ہیں کہ کامیابی کا تصور جب بھی آتا ہے دنیا انہیں یاد کرتی ہے ۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں انکا ایمان ثابت قدم رکھتا ہے ،اور خدا انکے ایمان کی وجہ سے انکا ہاتھ یوں پکڑتا ہے کہ انکے پاِیہ استقلال میں کبھی لغزش نہیں ہوتی ، بڑے سے بڑی مشکل میں انکے قدم جادہ حق سے نہیں ڈگمگاتے ارشاد ہوتا ہے :
یُثَبِّتُ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللہُ الظّٰلِــمِیْنَ وَیَفْعَلُ اللہُ مَا یَشَاۗءُ
اللہ ایمان والوں کو دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی قول ثابت پر قائم رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کر دیتا ہے اور اللہ اپنی مشیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ابراہیم ۲۷
یہی ثبات قدم انکے وجود میں اللہ پر بھروسہ و توکل کا سبب ہوتا ہے ، انکا وجود زمانے کے طوفان حوادث کے سامنے آواز دیتا ہے
مرے قدم کو زمانہ ہلا نہیں سکتا
کہ میرا ہاتھ کسی ذمہ دار ہاتھ میں ہے
اسی خدا پر توکل و بھروسہ کی بنیاد پر میدان شجاعت میں بھی انکا جواب نہیں ہوتا کہ خدا پر بھروسہ انہیں مضبوط و طاقت ور بنا دیتا ہے
من سرہ ان ی من اقوی الناس فلیتوکل علی اللہ ، جوچاہتا ہے کہ طاقت ور بنے وہ اللہ پر بھروسہ کرے ،مشکاۃ الانوار ، ص ۱۸
یہی خدا پر بھروسہ و توکل تھا یہی ثبات قدم تھا جس نے ابو الفضل العباس علیہ السلام کی شخصیت کو اتنا عظیم بنا دیا کہ تمام شہدا ان پر رشک کرتے نظر آتے ہیں چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام کی حدیث میں ہے ۔ ان للعباس علیہ السلام عند اللہ تبارک و تعالی منزلۃ یغبطہ بھا جمیع الشہداء ،
ہمارے چچا ابو الفضل العباس کی خدا کی نزدیک اتنی منزلت ہے ک ہ تمام شہدا اس پر قیامت کے دن رشک کریں گے ۔
جناب ابو الفضل العباس علیہ السلام کی کی یہ منزلت یوں ہی نہیں ہے اس کے پیچھے ، آُپکی غیرت، وفا ، شجاعت، آپکا ثبات قدم ، اور لفظوں کو سمیٹ کر کہا جائے تو آپکا خلوص ہے، آپکے وجود میں پایا جانے والا جذبہ اطاعت امام ہے ، وہ جذبہ اطاعت امام جو بندگی سے فروغ حاصل کرتا ہے
جتنا جتنا انسان بندہ پروردگار ہوگا اتنا ہی امام وقت کے سامنے خاشع ہوگا اور جتنا ہی امام وقت کے سامنے خاشع ہوگا اتنا ہی ظالموں کے سامنےسخت و بے باک ہوگا ، آج جب حضرت ابا الفضل العباس کی ولادت کی ہم خوشیاں منا رہے ہیں ہمیں دعاء کرنی چاہیے کہ پروردگار قمر بنی ہاشم کے صدقے میں ہمارے اندر بھی وہی ، غیرت ، وہی شجاعت ، وہی عزم دے جو ہمارے مولا و آقا و سردار لشکر حسینی کے اندر تھا ، گرچہ وہ عزم و حوصلہ تو انکے خلوص و انکی بندگی اور معرفت امام کی بنیاد پر تھااور ہم اس مقام تک پہنچنے سے قاصر ہیں کہ ہمارے اندر نہ وہ خلوص ہے نہ وہ جذبہ ہے نہ وہ بندگی ہے نہ ہی وہ معرفت امام لیکن ہمارے وجود میں امام وقت سے محبت ہے ، ہمارے وجود میں کربلا والوں کا عشق ہے ، ہمارے وجود میں سرکار وفا ابوالفضل العباس ع کے لئے ایک تڑپ ہے ، ہمارے انہیں جذبوں کو پروردگار تو پاکیزہ بنا دے تو کسی حد تک ہم اپنے مولا و آقا سے قریب ہو سکتے ہیں
بالکل ویسے ہی جیسے آج قائد حریت اور محاذ مزاحمت کے سردار سید حسن نصر اللہ ہیں ، بالکل ویسے ہی جیسے آج آبروئے تشیع قاسم سلیمانی ہیں
اگر ہم اپنے معاصر دور میں سید حسن نصر اللہ اور قاسم سلیمانی جیسی شخصیتوں کے عزم و حوصلہ اور انکے ثبات قدم کے اصل سرچشمہ کو تلاش کریں تو وہ یہی ہے کہ وہ اس دور میں جب کہ انکا آقا پردہ غیبت میں ہے اپنے امام عج سے غافل نہیں ہیں بلکہ عصرانتظار میں بھی ایک واقعی منتظر کی صورت امام وقت کے نائب کی چشم و ابرو کے اشارے پر جان وار دینے پر آمادہ ہیں
اور اپنی تمام کامیابوں کو نائب امام ،سے منسوب کرتے ہوئے خود کو انکے مکتب کا ادنی سپاہی قرار دیتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ دشمن انکے نام سے ہراساں رہتا ہے ۔انکے ثبات قدم و انکی شجاعت کے چرچے دشمنوں کے درمیان ویسے ہی ہیں جیسے انکے آقا و مولا حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے چرچے دشمنوں کی صفوں میں تھے ۔
وہ علمدار کربلا کی منزل معرفت امام علیہ السلام تھی کہ جب دشمن کی جانب سے انکی نمائندگی کرتے ہوئے شمر امان نامہ لیکر آیا تو عباس جری نے یہ کہہ کر اسے واپس کر دیا کہ تجھ پر بھی لعنت تیرے امان نامہ پر بھی لعنت ، یہ ثبات قدم یہ عزم و استقلال محض کربلا میں محدود نہ رہا بلکہ اس کی جھلک ہم نے آج بھی دیکھی جب یزیدان وقت کی جانب سے ،سپاہ قدس کے سپہ سالار کو ایک مکتوب دنیا کی سب سے بڑی ظاہری طاقت کے نمائندے کی جانب سے دیا گیا تو قاسم سلیمانی جیسے غلام حضرت ابو الفضل العباس نے اسے کھول کر دیکھنا تک گوارا نہیں کیا اور جیسے آیا تھا ویسا ہی واپس کر دیا کہ قاسم سلیمانی کے پیش نظر یقینا ۶۱ ہجری کی کربلا ہوگی کہ جب میرے آقا و مولا ابو الفضل العباس ع نے اپنے دور کی سب سے بڑی ظاہری طاقت کے نمائندے کی جانب سے آنے والے امان نامہ کو قبول نہیں کیا تو آج کے دور کی کربلا میں میں انکا ایک ادنی غلام آج کی بڑی یزیدی طاقت کے نمائندے کے مکتوب کو کھول کر کیا کرےگا نہ حسینیت کی ریت بدلی ہے نہ یزیدیت کا انداز بدلا ہے نہ حسینت کا عزم بدلا ہے نہ یزیدیت کی کمینگی بدلی ہے ، بدلا ہے تو محض وقت اور وقت کے بدلنے سے انداز کوفی و شامی بدلتے ہیں حسین ع والے نہیں ،کل میرے آقا نے امان نامہ پر لعنت بھیج کر اپنے ثبات قدم کا اعلان کیا تھا تو آج میں انکے غلام کی صورت اس مکتوب کو واپس کر کے بتا رہا ہوں کہ کربلا زندہ ہے ، اور عاشقان حسینی کے ثبات قدم میں نہ کل کوئی لغزش تھی نہ آج لغزش پیدا ہو سکتی ہے ۔
رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ
: پروردگارا ! ہمیں صبر سے لبریز فرما، ہمیں ثابت قدم رکھ اور قوم کفار پر ہمیں فتح یاب کر
بقرہ ۲۵۰

 



خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دواؤں کی تجارت بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں عالمی سطح پر شروع ہوئی۔ جس کے بعد دنیا میں دواؤں کی بڑی بڑی کمپنیاں وجود میں آئیں۔ دوا ساز کمپنیوں نے کیمیکل مواد کی پیداوار کے لیے بڑے بڑے کارخانے کھولے۔ دنیا کے آٹھ ممالک؛ جرمنی، امریکہ، فرانس، اٹلی، سوئٹرزلینڈ، اسپین، برطانیہ اور جاپان میں دنیا کی تقریبا ۸۰ فیصد دوائیں تیار کی جانے لگیں۔
دوائیں بنانے والے دنیا کے ان اہم ترین ممالک میں امریکہ سر فہرست ہے جس میں ۱۶ بڑے کارخانے ہیں جن میں سالانہ ۴۵۵۱۶ ملین ڈالر کی دوائیں تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد جرمنی ہے جس میں چار بڑی فکٹریاں ہیں جو ۶۸۶۶ ملین ڈالر کی سالانہ دوائیں بناتی ہیں۔ بعد از آں سوئٹرزلینڈ ہے جو ۳ فکٹریوں کے ذریعے ۸۹۷۴ ملین ڈالر اور برطانیہ چار کارخانوں کے ذریعے ۴۳۲۳ ملین ڈالر کی دوائیں تیار کرتے ہیں اس کے بعد فرانس، جاپان، ہالینڈ اور اٹلی کا نمبر آتا ہے۔
اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ۳۲ دوا ساز کمپنیاں سالانہ ۳۵ بلین ڈالر کی دوائیں عالمی منڈی میں سپلائی کرتی ہیں۔ سالانہ سیکڑوں ٹن کیمیک دواؤں کے نام پر جن میں پین کیلر، اینٹی بایٹک، سردرد کی دوائیں وغیرہ وغیرہ شامل ہیں لوگوں کے جسموں میں وارد کئے جاتے ہیں۔ یہ کیمیک  ہزاروں قسم کی دواؤں کے نام سے دنیا میں تقسیم کیے جاتے ہیں اور عالمی تجارتی منڈی میں اس تجارت سے ناقابل تصور منافع کمایا جاتا ہے۔
دوسرے ممالک میں دوا ساز کمپنیوں کے گمراہ کن کردار کے بارے میں بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔ سامراجی سرمایہ دارانہ معاشروں میں پیش کی جانے والی زیادہ تر دوائیں نہ صرف جانوروں پر بلکہ اقوام عالم اور بسا اوقات اپنے ہی لوگوں پر بھی آزمائی جاتی ہیں۔
لیکن دواؤں کے تجربے کے اصلی چوہے تو تیسری دنیا کے بے خبر لوگ، خاص طور پر خواتین اور بچے ہوتے ہیں، اور اس جرم میں شریک وہ ڈاکٹر، ہسپتال اور ادارے ہیں جو رشوت  کے بدلے ان دواؤں کو تجویز کرتے ہیں اور اس کے بعد اس کے نتیجے کو دوا ساز کمپنیوں تک پہنچاتے ہیں۔
اس قسم کے ٹیسٹ، جو خفیہ طور پر اور مریضوں کے علم کے بغیر کئے جاتے ہیں، نہ صرف بہت سارے موارد میں مریضوں میں طرح طرح کی مشکلات پیدا کرتے ہیں بلکہ بسا اوقات مریض کی موت کا سبب بھی بنتے ہیں۔
اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ بہت ساری ایسی دوائیں جو سرمایہ دار ممالک میں خطرناک منفی اثرات رکھنے کی وجہ سے ان پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے لیکن دوسرے ممالک میں وہ دوائیں کثرت سے استعمال ہوتی رہتی ہیں اور تجارتی منڈی میں ان کا بازار گرم رہتا ہے۔ اور یہاں تک کہ بعض ممالک میں وہ دائیں بھی کثرت سے بیچی جاتی ہیں جن کے استعمال کی تاریخ بھی ختم ہو چکی ہوتی ہے۔
اس کی ایک مثال ہندوستان کی میڈیسن مارکیٹ ہے۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، سن ۱۹۸۴ میں ۴۶ فیصد دوائیں جو عالمی دوا ساز کمپنیوں کے ذریعے ہندوستان میں استعمال کی گئیں ان کے استعمال کی تاریخ گزر چکی تھی اور وہ اکسپائر دوائیں تھیں۔
۱۹۷۰ کی دہائی کے آغاز میں ہندوستان کی میڈیسن مارکیٹ میں ہزاروں قسم کی دوائیں اور ویٹامنز ایسے تقسیم کیے گئے جن میں الکحل (Alcohol) حد سے زیادہ استعمال کیا گیا تھا اور جو لوگ ان دواؤں کو ایک دو بار استعمال کرتے تھے وہ انکے عادی ہو جاتے تھے اور اس طرح سے شیطانی تجارت کو خوب رواج ملتا تھا۔
منبع: ایرج تبریزی، تجارت شیطانی ص163

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: مشہور مصری مفکر اور انسائکلوپیڈیا (دائرۃ المعارف) کے مولف، ڈاکٹر عبدالوہاب المسیری سنہ ۱۹۳۸ع‍ کو قاہرہ سے ۱۵۰ کلومیٹر شمال کی جانب شہر دمنہور” میں پیدا ہوئے۔ سنہ ۱۹۵۹ میں ابتدائی تعلیمی مراحل طے کرکے جامعہ اسکندریہ سے فارغ التحصیل ہوئے اور سنہ ۱۹۶۹ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی رتگرز یونیورسٹی (۱) سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔
المسیری نوجوانی کے دور میں کچھ عرصے تک جماعت اخوان المسلمین کے رکن رہے اور انقلاب جولائی (۲) (۳) کے بعد شورائے آزادی سے جا ملے۔ ۱۹۷۰ع‍ کے عشرے میں مغربی دنیا میں ظہور پذیر ہونے والی اس تنقیدی تحریک سے متاثر ہوئے جو جدیدیت سے پیدا ہونے والے بحران کو ہدف تنقید بنا رہی تھی اور انسان کی ـ اپنے آپ سے بھی اور فطرت سے بھی ـ بیگانگی کو دستاویز بنا کر جدیدیت پر حملہ آور ہوچکی تھی۔ تنقیدی تفکرات سے متاثر ہونے اور مسلمانوں کے قدیم آثار و باقیات کا مشاہدہ اور مسلم علماء اور مفکرین کی کاوشوں کا مطالعہ کرکے فکری طور پر اسلام کی طرف پلٹ آئے۔ المسیری نے مادیت سے اسلام کی طرف طے کردہ راستے کو من المادیۃ إلى الإنسانیۃ الإسلامیۃ (مادیت سے اسلامی انسانیت (۴) تک)” سے معنون کیا ہے۔ اس اسلامی انسانیت کا آغاز عالم وجود کی نسبت ردّ و انکار کی یک پہلو (۵) سوچ سے ہوتا ہے اور یہ انسان اور فطرت کی دوہریت پر تاکید کرتی ہے۔ یہ تصور اس مقام پر عروج کی طرف گامزن ہوجاتا ہے اور خالق و مخلوق، آسمان و زمین، جسم اور روح، حلال و حرام اور مقدس اور مُدَنِس کی دوہریت تک پہنچ جاتا ہے۔ المسیری کی نظر میں جس توحید کا تعارف اسلام کراتا ہے، سب سے زیادہ ترقی پسند اور سب سے زیادہ جدید ہے۔
المسیری کہتے ہیں: میں نے محسوس کیا کہ اسلامی نظام (۶)، عالمی نظریئے (۷) کے طور پر، مجھے حقیقت کی مُرکّب اور کثیر الجہتی تفسیر فراہم کرتا ہے، اور اس سے زیادہ اہم بات یہ کہ انسانی مظاہر (۸) اور رجحانات کی صحیح تشریح میرے سامنے رکھتا ہے۔ غیر دینی نظام انسان کے مظاہر اور انفرادیتوں کی تشریح کی قوت و استعداد نہیں رکھتا”۔ (۹)
المسیری کی شائع ہونے والی کاوشوں کی تعداد ۵۷ تک پہنچتی ہے۔ انہوں نے تین بنیادی موضوعات پر تصنیف تالیف کا کام کیا ہے:
۔ مغربی معاشرے اور تہذیب پر تنقید: المسیری مغرب میں طویل عرصے تک قیام کے تجربے کی بنا پر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ مغربی تہذیب بالآخر انسان اور انسانیت کو مسخ کرکے اسے اعلی انسانی اقدار سے خالی کرکے کھوکھلا کر دیتی ہے اور انسان کو اوزار میں بدل دیتی ہے، اور اس زمینی جنت کا انجام کار جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہے جو انسان کے سر و پا کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔
۔ صہیونیت اور یہود کے بارے میں متعدد تحقیقات ـ جس کا المسیری نے اہتمام کیا اور اسے توسیع دی اور ان کی یہ کاوشیں صہیونیت کے بارے میں عربی مطالعات کا بنیادی ذریعہ ہیں۔ اور المسیری صہیونیت کو نازیت (۱۰) ہی کی ایک شکل سمجھتے تھے۔
۔ علمانیت (۱۱) پر المسیری کی تحقیقات جو مغربی جدیدیت کی فکری اور سماجی کثرتیت کے پہلؤوں کی نسبت ان کے نظریئے کی بنیاد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ Rutgers University
۲۔ ثورة ۲۳ یولیو ۱۹۵۲ July 23, 1952 Revolution.
۳۔ انقلاب جولائی در حقیقت اس فوجی بغاوت کا نام ہے جو مصری افواج کے ضباط الحر یا آراد افسران” کہلوانے والے افسروں نے مصری بادشہای حکومت کے خلاف کی تھی اور اس کے سرکردگان محمد نجیب اور جمال عبدالناصر تھے۔
۴۔ Islamic humanity
۵۔ Unilateral
۶۔ منظومہ یا System
۷٫ Worldview
۸٫ Human phenomena
۹۔ الشیخ، ممدوح، عبدالوهاب المسیری من المادیة الی الانسانیة الاسلامی‍ة، ص۵۹٫
۱۰٫ نازیت (انگریزی: Nazism، جرمنی: Nationalsozialismus) ایک نسل پرست قومی تحریک جو جرمنی میں شروع ہوئی۔ اس تحریک کے مطابق ایک جرمن قوم باقی سب پر فضیلیت رکھتی ہے۔ جرمن حکمران ہٹلر کا اس تحریک میں اہم کردار تھا۔
۱۱٫ Secularism

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر:  ” نیٹوری کارٹا” (Neturei Karta International Organization) کے نام سے آرتھوڈوکس یہودیوں کی صہیونیت مخالف انٹرنیشنل تنظیم سنہ ۱۹۳۵ میں اس وقت معرض وجود میں آئی جب صہیونی لابی نے فلسطین کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ کر کے ایک مستقل یہودی ملک وجود میں لانے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔
یہ تنظیم بطور کلی اسرائیلی حکومت کی نابودی کے لئے جد و جہد کرتی ہے اور اس بات کی معتقد ہے کہ یہودیوں کی مقدس کتاب تلمود” کے مطابق، منجی عالم” کے ظہور سے پہلے یہودیوں کے لئے حکومت تشکیل دینا گناہ عظیم ہے۔
نیٹوری کارٹا تنظیم کا یہ ماننا ہے کہ صہیونیوں کو سرزمین فلسطین پر قبضہ کر کے اپنی حکومت بنانے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اس لئے کہ خداوند عالم نے یہودی قوم کو توریت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے انہیں سزا دی اور ان کی زمینوں کو ان سے چھین کر مختلف ملکوں میں انہیں منتشر کر دیا۔
اس تنظیم کا اہم ترین عقیدہ یہ ہے کہ صہیونیت یا صہیونی اصلاً یہودی ہی نہیں ہیں۔ بلکہ وہ یہودیت اور یہودیوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ چونکہ ایک حقیقی یہودی دوسروں منجملہ فلسطینیوں کی زمینوں کو غصب نہیں کر سکتا۔
حالیہ سالوں میں اس تنظیم کو موشہ ہرش” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، موشہ ہرش در حقیقت یہودیوں کے وہ مرحوم خاخام ہیں جنہوں نے یاسر عرفات کے دور میں فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی تشکیل میں ان کا ساتھ دیا اور بہت سارے عربوں سے زیادہ مسئلہ فلسطین سے جڑے رہے۔
اس تنطیم کے بعض اراکین مقبوضہ بیت المقدس میں زندگی بسر کرتے ہیں انہوں نے اسرائیلی شہریت کو قبول کرنا گوارا نہیں کیا اس وجہ سے فلسطینیوں کے ساتھ یہ بھی صہیونی ظلم و تشدد کا شکار رہتے ہیں۔ اور بہت سارے اراکین برطانیہ اور امریکہ میں رہتے ہیں اور وقتا فوقتا اسرائیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ صہیونی عناصر نے ان کے بعض اراکین کو دھشتگردی کا نشانہ بھی بنایا مثال کے طور پر ان کے ایک خاخام جنہوں نے بیلفور اعلانیہ کی سختی سے مخالفت کی تھی کو صہیونیوں نے مورد حملہ قرار دے کر قتل کر دیا تھا۔ موشہ ہرش پر بھی ایک زہریلے مواد کے ذریعے حملہ کیا گیا تھا جس کی وجہ سے ان کی ایک آنکھ نابینا ہو گئی۔
موشہ ہرش اس بات کے قائل تھے کہ صہیونیوں نے ہولوکاسٹ کا ڈھونگ رچا کر اسرائیل کو جنم دیا۔ اور اسرائیل کو وجود میں لانے کے لئے صہیونیوں نے ہزاروں یہودیوں کا قتل عام کیا تاکہ ان کے دلوں میں خوف و دھشت پیدا کرکے انہیں اسرائیل کی طرف ہجرت کے لئے مجبور کریں۔
موشہ ہرش نے سرزمین فلسطین پر صہیونی ریاست کی تشکیل کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے کہا: اگر ہٹلر کی جارحیت سے یہ سوچ پیدا ہوئی کہ یہودیوں کے لئے ایک الگ ملک وجود میں لایا جائے تو کیوں جرمنی کو ہی ہٹلر کی نابودی کے بعد اس کام کے لئے انتخاب نہیں کیا گیا؟
وہ ہیکل سلیمانی(Solomon’s Temple) کے بارے میں صہیونیوں کے اس دعوے کہ مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر کی گئی ہے ہم اسے گر کر دوبارہ ہیکل سلیمانی بنائیں گے، کے بارے میں کہتے ہیں: ہیکل سلیمانی کو مسمار ہوئے تقریبا دو ہزار سال ہو چکے ہیں اور فلسطین میں اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
وہ مزید تاکید کرتے ہیں: اگر یہ طے ہو کہ ہر قوم اپنے دینی اور تاریخی آثار کو دوبارہ زندہ کرے تو بہت سارے ممالک کا نام و نشان ہی مٹانا پڑے گا۔
نیٹوری کارٹا تنظیم مسلمانوں کو احترام کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ مسلمانوں نے نہ کبھی یہودیوں کو اذیت دی اور نہ ان کا قتل عام کیا بلکہ ہمیشہ اپنے ملکوں کے دروازے ان پر کھولے رکھے۔
یہ تنظیم سرزمین فلسطین میں دو ملکوں یعنی اسرائیل اور فلسطین کے باقی رہنے کی سخت مخالف ہے بلکہ اس جھگڑے کو مٹانے کے لئے اسرائیلی کی بطور کلی نابودی کی تمنا رکھتی ہے۔
نیٹوری کارٹا تنظیم کو وجود میں لائے جانے کا مقصد ہی اسرائیل کے خلاف اس وقت تک جد و جہد کرنا ہے جب تک یہ ناسور صفحہ ھستی سے مٹ نہ جائے۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: آمنون اسحاق اسرائیل کے دار الحکومت تل آبیب کے غیر مذہبی خاندان میں پیدا ہوئے لیکن ۲۴ سال کی عمر میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نہ صرف خود ایک مذہبی شخصیت ابھر کر سامنے آئے بلکہ عوام کو بھی دین و شریعت کی دعوت دینا شروع کر دیا۔
اسحاق اپنی شعلہ بیاں تقریروں اور دینی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک یہودی خاخام جانے جاتے ہیں۔
انہوں نے اسرائیل کے اندر رہتے ہوئے بارہا اپنی تقریروں میں صہیونیزم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے اپنی ایک تقریر میں اسرائیل اور امریکہ کے بارے میں کہا کہ اگر چہ امریکہ خود کو بہت بڑی طاقت سمجھتا ہے لیکن اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ دن بدن کمزور ہوتا جا رہا ہے اور آج امریکہ کی یہ صورتحال ہے کہ ہر کوئی امریکہ کے آگے سر اٹھا رہا ہے اور امریکہ اسے کچھ نہیں کر پا رہا۔
الصباح اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسحاق نے امریکہ کے کمزور ہونے کی علامتوں کو گنواتے ہوئے کہا کہ امریکہ کی کمزوری کی ایک علامت یہ ہے کہ ایران امریکہ کے مقابلے میں کھڑا ہے اور اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا اور اسے شیطان بزرگ کے نام سے یاد کرتا ہے۔
اسحاق کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی بھی امریکہ سے نہیں ڈرتا بلکہ یہ امریکہ ہے جو کوشش کر رہا ہے کہ بعض ملکوں پر پابندیاں لگا کر دنیا کی توجہ کو اپنی طرف موڑے۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: ہایو میئر (Hajo G. Meyer) جرمنی کے ایک معروف دانشور تھے جو فیزیکس کے ایک ماہر استاد ہونے کے علاوہ صہیونی مخالف یہودی ت میں بھی کافی سرگرم تھے ۔ میئر صہیونی جرائم کے خلاف اور فلسطینی کاز کی حمایت میں آواز اٹھانے کی وجہ سے دو مہینے جیل میں بھی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ ۹۰ سال کی عمر میں ۲۰۱۴ کو ان کا انتقال ہو گیا۔
میئر کئی سال پولینڈ میں ایک مختلف یہودی آواز” نامی تنظیم کے سربراہ رہے اور ۲۰۰۳ میں انہوں نے یہودیت کا خاتمہ” نامی ایک کتاب لکھی اور اس میں انہوں نے واضح طور پر تحریر کیا کہ اسرائیل نے ہولوکاسٹ کا ڈرامہ صرف فلسطینیوں پر جاری اپنے جرائم کی توجیہ کے لئے رچایا ہے۔
میئر اسی طرح صہیونیزم مخالف بین الاقوامی یہودی چینل” کے بھی رکن تھے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ صہیونیزم تاریخی اعتبار سے فاشزم پر مقدم ہے اور صہیونیوں اور فاشسٹوں کے درمیان تاریخی تعلقات پائے جاتے ہیں۔ اور اسرائیل اس کوشش میں ہے کہ دنیا میں یہود ستیزی کا ڈھونگ رچا کر زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو اسرائیل جانے پر مجبور کرے۔
میئر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی یہودیوں کی فلسطینیوں کی نسبت نفرت جرمنیوں کی یہودیوں کی بانسبت نفرت سے کئی گنا زیادہ ہے اسرائیلی یہویوں کا گزشتہ ساٹھ سال سے برین واش(Brainwash) کیا جا رہا ہے اور اسرائیلی یہودی کسی بھی صورت میں ایک فلسطینی کو انسان قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
میئر سے ایک انٹرویو کے دوران جب پوچھا گیا کہ آپ فلسطینیوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا:” فلسطینیوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ ہرگز مزاحمت سے پیچھے نہ ہٹیں اور پتھر، لاٹھی، اسلحہ ہر چیز سے ان کا مقابلہ کریں۔ اگر وہ اسرائیلیوں کے سامنے جھک گئے تو یاد رکھیں ان کی کوئی عزت و آبرو نہیں رہے گی اور اسرائیلی ان کے لئے ذرہ برابر احترام کے قائل نہیں ہوں گے”۔
میئر اپنی ایک یاداشت میں لکھتے ہیں کہ جب میں فلسطینیوں کی موجودہ صورتحال کا مشاہدہ کرتا ہوں تو میں مجھے بہت درد و الم کا احساس ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ صہیونی مخالف بین الاقوامی یہودی چینل” جو امریکی یہودی جوانوں کے توسط سے کام کر رہا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعے صہیونیزم کا مقابلہ کریں اور فلسطینی عوام کی حمایت کریں۔ اس لئے کہ اسرائیل نے اپنے مظالم کے ذریعے پوری یہودی کمیونٹی کو بدنام کر دیا ہے۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: ہیلن تھامس امریکہ کی ایک معروف صحافی اور کالم نگار تھی ۵۷ سال انہوں نے وہائٹ ہاؤس کے اخبار”یو پی آئی” میں کام کیا اور ۲۰۰۰ء میں اس اخبار سے ریٹائرمنٹ کے بعد کہا: میں نے اپنی زندگی کے پچاس سال کو سنسر کر رکھا تھا اور اب میں آزاد ہوں اور خود سے پوچھتی ہوں کہ تم کس سے نفرت کرتی ہو” اگر چہ اس نے اپنی سروس کے دوران ہی امریکی صدور کے کارناموں کو متعدد بار تنقید کا نشانہ بنایا اور اس وقت جب جارج ڈبلیو بوش نے عراق پر حملہ کیا تو ہیلن تھامس نے بوش سے انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا: جناب محترم صدر صاحب! میں آپ سے عراق کی جنگ کے بارے میں کچھ سوال کرنا چاہتی ہوں۔۔۔ جو بھی دلائل اب تک آپ نے عراق پر حملے کے سلسلے میں بیان کئے ہیں عوام کی نگاہ میں غلط ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ سچ میں آپ کیوں عراق میں جنگ کے لئے گئے؟ آپ نے کہا کہ نہ ہی یہ جنگ تیل کی خاطر تھی، نہ اسرائیل کی وجہ سے تھی، نہ کسی دوسری چیز کے لئے تھی، تو پھر اس جنگ کا مقصد کیا تھا؟ آپ نے کیوں ایسا کیا؟
ہیلن تھامس پر زندگی کے آخری ایام تک صہیونی لابی کی طرف سے اینٹی سامی” ہونے کا اام لگایا جاتا تھا جبکہ وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ میں یہودیوں کی مخالف نہیں ہوں میرا یہ کہنا ہے کہ اسرائیلی اپنے ملکوں میں واپس چلے جائیں اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین واپس کر دیں۔ سنہ ۲ دسمبر ۲۰۱۰ میں ایک کانفرنس کے دوران ایک یہودی ربی سے گفتگو کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے خلاف اپنے ایک انتقادی بیان میں انہوں نے کہا: یہودیوں کو چاہیے کہ وہ فلسطین کی مقبوضہ سرزمینوں کو ان کے حقیقی مالکوں یعنی عربوں کے حوالے کر دیں اور خود جرمنی، پولینڈ یا امریکہ واپس چلے جائیں Jews should get the hell out of Palestine” and go home” to Poland and Germany)۔
اس بیان کے کچھ ہی دیر بعد ہیلن تھامس اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئیں۔ انہوں نے استعفیٰ دینے کے بعد کینساس سٹی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ” مجھے اس بات کی تو اجازت ہے کہ میں اپنی کتاب میں امریکی صدر کو جس نام و لقب سے لکھنا چاہوں لکھ سکتی ہوں لیکن اس بات کی اجازت نہیں کہ اسرائیل کے خلاف ایک لفظ بھی بول سکوں!!”
تھامس کے صہیونی مخالف نظریات کو سراہتے ہوئے حزب اللہ لبنان نے ان کی گفتگو کو شجاعانہ اور صداقت پر مبنی”گفتگو کا نام دیا اور حماس نے حقیقت کی عکاسی کرنے والے بیانات سے تعبیر کیا۔
اگر چہ ہیلن تھامس کو صہیونیوں کے خلاف بیان دینے کے ایک ہفتہ بعد معذرت خواہی کے لئے مجبور کر دیا گیا لیکن اس کے بعد بھی وہ ہمیشہ کہتی تھی کہ میری نظر وہی ہے جو میں نے کہہ دیا اگر چہ مجھے اس کا تاوان دینا پڑا۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ امریکی کانگریس، وہائٹ ہاؤس اور وال اسٹریٹ ان سب کو صہیونیوں نے اجیر کر رکھا ہے۔ اور میں سے کوئی بھی ان کے سامنے زبان کھولنے کی جرئت نہیں کر سکتا۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: یہ کتاب اوہ جوزف میئر شیمر”(John Mearsheimer ( mɪrʃhaɪmər ؛ اور اسٹیفن والٹ” کی مشترکہ کاوش ہے دونوں ہی آر وینیل ہیریسن ڈسٹرکٹ” میں ممتاز استاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں. کتاب کے مصنفین کا مقصد اسرائیلی حکومت کی حمایت کے سلسلہ سے صہیونیوں کی غلط توجیہات اور نئے قدامت پسندوں کی اس ناجائز حکومت کی حمایت کے سلسلہ سے کی جانے والی تاویلوں کو آشکار کرتے ہوئے ان پر خط بطلان کھینچنا ہے ۔
اس کتاب میں واضح طو ر پر اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکی ت مداروں نے عراق اور افغانستان میں ہزاروں لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کر دیا جبکہ صہیونی چھوٹی سی منظم لابی کے سامنے انکی گھگھی بندھی رہتی ہے اور انکی حقارت کی انتہا نہیں ۔
مصنفین کی نظر کے مطابق مشرق وسطی میں امریکہ کی خارجی ت ہر ایک عامل سے زیادہ صہیونی لابی سے متاثر ہے یہاں تک کہ آخری چند دہایہوں میں خاص کر اسرائیل و عربوں کی جنگ کے دور سے اسرائیل سے تعلقات کا مسئلہ مشرق وسطی میں امریکہ کی بنیادی ت میں تبدیل ہو گیا ہے ۔
یہ کتاب ۲۰۰۶ میں چھپی، اور اسکے مارکیٹ میں آنے کے بعد دنیا بھر میں مخالفین و موافقین کے درمیان بحث و گفتگو کا بازار گرم ہو گیا قابل ذکر ہے کہ ۲۰۰۶ ء میں ہی یہ کتاب کئی بار پرنٹ ہوئی اور اس کے ایڈیشن کے ایڈیشن ختم ہو گئے یہاں تک کے ۲۰۰۶ء میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب قرار پائی۔
کتاب کے ایک حصہ میں ہمیں ملتا ہے” صہیونی لابی امریکہ میں اس قدر طاقت ور ہے کہ اس نے ناقابل خدشہ یہ عقیدہ لوگوں کے ذہنوں میں ترسیم کر دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے قومی مفادات ایک ہی ہیں ”
واضح سی بات ہے کہ ہر ملک کی خارجہ پالیسی اس ملک کے قومی مفادات کے پیش نظر تدوین پاتی ہے ، جبکہ یہ بات مشرق وسطی میں امریکی پالیسی پر صادق نہیں آتی اس لئیے کہ صہیونی رژیم کے مفادات کا تحفظ اس علاقہ میں امریکہ کی اصلی خارجہ پالیسی کا محور و مرکز ہے ۔
جبکہ امریکہ کی داخلی ت میں ہم پورے استحکام و یقین کے ساتھ دعوی کر سکتے ہیں کہ امریکہ کی صورت حال تو کچھ یہ ہے کہ امریکہ کی صدارت کے امیدواروں میں کوئی ایک ایسا نہیں ہے چاہیں وہ ریپبلکن ہوں یا ڈیموکراٹ کوئی بھی ایسا نہیں جو صہیونیوں کو خوشنود کئیے بغیر، انکی رضایت کے بغیر، انکی مالی حمایت کے بغیر الیکشن میں کامیابی کے بارے میں سوچ بھی سکے ۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: اسرائیل و ایٹمی ہتھیار نامی کتاب اسرائیل کے موجودہ ایٹمی ہتھاروں کے اسلحوں کے انبار کے ساتھ اسکی ایٹمی توانائی کی صلاحیت کے سلسلہ سے لکھی گئی ہے ۔
آونرکوہن» اس کتاب کے مصنف نے اس کتاب کو امریکہ و اسرائیل کے حکومتی اسناد و ثبوتوں سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا ہے جو کہ غالبا آخری ان چند سالوں میں درجہ بندی classification سے خارج ہوئی ہے ۔اس کتاب میں تقریبا سو سے زیادہ ان کلیدی شخصتیوں سے انٹرویو لیا گیا ہے جو ایٹمی اسلحوں سے جڑے ہوئے ہیں ان افراد کے اسرائیل کے ایٹمی اسلحوں کے سلسلہ سے تجزیہ و تبصروں کو کتاب میں پیش کیا گیا ہے ۔
اس کتاب میں کوهن» نے ایک جامع رپورٹ اس سلسلہ میں پیش کی ہے کہ جس کا نام خود انہوں نے اسرائیل کے غیر واضح ایٹمی نظریات Doctrine کی توسیع و تشکیل رکھا ہے ۔ انہوں نے اس سلسلہ سے وضاحت کی ہے کہ اسرائیلی سربراہوں نے امریکی اہلکاروں کو دھوکہ دے کر اور انجام کار خود انہیں کے نرم رویہ و تسامح کی بنیاد پر خود کو ایٹمی اسلحوں کے پھیلاو کے معاہدہ سے دور رکھا ہے ، تب سے اب تک تین دہایہاں اس معاہدہ کو گزر چکی ہیں لیکن ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اسرائیل اس معاہدہ سے جڑنے کا کوئی ارادہ و قصد رکھتا ہو۔
اس کتاب کی ۱۷ فصلیں ہیں کنڈی اور اسرائیل کا پروجیکٹ، ڈیمونا کے سلسلہ سے کشمکش ، کنڈی اور اشکول کا معاہدہ ، ۶ دن کی جنگ ، NPT کے سلسلہ سے کشمش و مبھم راہ جیسے عناوین اس کتاب کی بعض فصلوں کو بیان کرر ہے ہیں۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: سرد جنگ کا خاتمہ نہیں ہوا محض ایک وقفہ ایجاد ہوا، ایک نئی سرد جنگ جاری ہے جو پچھلی سرد جنگ سے زیادہ پیچیدہ ہے ،مزید بر آن اس میں پروپیگنڈہ، جاسوسی، شکنجہ ، دہشت و ٹرر ، مجازی فضا میں جاسوسی سائبری حملے اور نیابتی جنگ کا بھی اضافہ ہوا ہے۔
اگر ہم مستقبل سے روبرو ہونا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ ماضی سے آگاہ ہوں جو تاریخ سے سبق نہیں لے گا وہ تاریخ کو دہرائے گا ، جاسوس کی تلاش و جستجو اور اسکا شکار نامی کتاب برطانیہ کی جاسوسی تنظیم MI5))، کے عالی رتبہ اہلکار پیٹر رایت کے دستاویز و ڈائری پر مشتمل ہے اور یہ ایک وہ ماخذ ہے جو اسرار جنگ کی حقیقت و واقعیت سے بہت نزدیک ہے ۔
اس کتاب کے اہم مباحث میں ایک ایک زبردست جاسوس کی ماھیت کی شناسائی ہے جو پانچویں مرد کے طور پر جانا جاتا ہے اور وافر دلائل و شواہد کی روشنی میں اس کے سلسلہ سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ یہ ایک بیرونی جاسوسی تنظیم کے حساس مرکز میں تھا جسے MI6)) کہا جاتا ہے اس پانچویں آدمی کا کام تھا سویت یونین کے لئیے معلومات و اطلاعات کے ذخیرہ کو بھیجے یہ اپنے اس کام میں ہوشیاری سے اس طرح لگا رہا کہ کبھی بھی کسی جال میں نہ پھنسا پیٹر رایت کے بقول اس نے پانچویں مرد کا تعاقب کر کے اس کی شناخت کر لی ہے اور یہ وہ ہے کہ جس کے سلسلہ سے خفیہ ایجنسیوں کے ماہرین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ شخص سویت یونین کا جاسوس تو ہرگز نہ تھا البتہ برطانیہ کی ت و اقتصاد پر حکومت کرنے والے صہیونی دہشت گرد مافیا کا برطانیہ کے جاسوسی ادارہ میں نمائندہ تھا ۔
اس کتاب کے پڑھنے والے محترم قاری کو ان عجیب حوادث و دلائل کو پڑھنے کا موقع ملے گا جسے اس کتاب کے مصنف نے ۲۰ سال کی جانفشانی کے بعد اس شخص کے جاسوس ہونے کو ثابت ہونے کے لئیے یکجا کیا ہے ، اور یہ وہ بات ہے جسکے سبب سالہا سال تک یہ کتاب برطانیہ میں ممنوع رہی ایسے ملک میں جہاں آزادی کا دعوی کیا جاتا ہے لیکن عمل کچھ اور کہتا ہے لیکن اب سوال یہ ہے کہ آخر کیا ہوا کہ یہ پانچواں مرد کبھی کسی کے جال میں نہ پھنس سکا اس کا جواب کتاب کو پڑھ کر ہی معلوم ہو سکتا ہے ۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب امریکہ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ” (۱) نیویارک کی بنگ ہمٹن یونیورسٹی (۲) کے ممتاز پروفیسر جیمز پیٹراس” (۳) کی کاوش ہے۔ انھوں نے اب تک ۶۳ کتابیں لکھی ہیں اور ان کے کتب کے تراجم ۲۹ زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔
اس کتاب میں مشرق وسطی کے سلسلے میں امریکی پالیسیوں میں یہودی لابی کے اثر و رسوخ اور تسلط کی تصویر کشی ہوئی ہے۔ مؤلف کا خیال ہے کہ یہودی لابی کے اثر و رسوخ کی جڑیں امریکہ کے نہایت بااثر، طاقتور اور خوشحال ترین خاندانوں کے ساتھ یہودی خاندانوں کے غیر معمولی تعلقات میں پیوست ہیں۔ مزید برآں یہودی لابیوں اور نظرپردازوں نے دباؤ بڑھانے، بلیک میل کرنے اور رائے عامہ کی حمایت اپنی جانب مبذول کروا کر اپنی فکری برتری کو بھی منوا لیا ہے۔
جیمز پیٹراس لکھتے ہیں کہ آج کے معاشروں میں وہ وقت آن پہنچا ہے کہ بحث و مباحثے کی آزادی اور اسرائیلی لابیوں پر علی الاعلان تنقید کے لئے تحریک چلائی جائے۔ ان کا خیال ہے کہ عالمی معاشروں کی خارجہ پالیسیوں کا نئے سرے سے اور زیادہ غور و فکر کے ساتھ، جائزہ لیا جائے۔ اور انھوں نے اپنی کتاب امریکہ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ” کو اسی مقصد سے تالیف کیا ہے۔


 
کتاب امریکہ میں اسرائیل کا اثر و رسوخ” چار حصوں اور ۱۴ فصلوں پر مشتمل ہے۔ مؤلف ابتدائی حصے کو امریکہ میں اسرائیل کی طاقت” کے عنوان سے، امریکہ کو عراق کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرنے میں اسرائیل کے حامی امریکی حکام اور یہودی لابیوں کے کردار پر زور دیتے ہیں؛ اور مختلف فصلوں میں بین الاقوامی معاشروں میں امریکہ کی طرف سے جنگوں کے اسباب فراہم کئے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
دوسرے حصے میں، شکنجے (ٹارچر)، دہشت گردی اور نسل کشی کو امریکہ اور یہودی ریاست کی سلطنت سازی کے عمل کا ناقابل جدائی اجزاء کے طور پر زیر بحث لاتے ہیں۔ اس حصے میں ایک فصل کو غزہ پر اسرائیلیوں کی وحشیانہ یلغار سے مختص کرتے ہیں اور اسے ہولناک بمباریوں کے ذریعے ایک نسل کو فنا کرنے اور ایک علاقے کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی اسرائیلی کوششوں کا نمونہ قرار دیتے ہیں۔
جیمز پیٹراس تیسرے حصے میں نفسیاتی جنگ کے شعبے نیز مزاحمت کی اخلاقی بنیادوں پر بحث کرتے ہیں۔ انھوں نے اس بحث کے ضمن میں دہشت گردی کے ماہرین” نیز یہودی لابی کے کردار کا بھی جائزہ لیا ہے۔ پیٹراس کی رائے کے مطابق، دہشت گردی کے ماہرین شکنجے (ٹارچر) اور تشدد آمیز اقدامات، اجتماعی اور خودسرانہ گرفتاریوں، پورے عوام اور مختلف معاشروں کو بیک وقت سزا دینے جیسے اقدامات کا جواز فراہم کرنے کے لئے صہونیت اور استکبار کے دشمنوں کو غیر انسانی اوصاف اور خصوصیات کا مم ٹہراتے ہیں۔
کتاب کا چوتھا اور آخری حصہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ کی استکباری پالیسیوں کی تشکیل اور استعماری منصوبہ سازیوں میں یہودی لابی کی اہمیت اور صہیونی لابیوں سے اس کے رابطوں کے جائزے پر مشتمل ہے؛ اور کتاب کی آخری فصل میں امریکہ کی مشرق وسطائی پالیسیوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ (۴)
حواشی
[۱]POWER OF ISRAEL IN THE UNITED STATES
[۲] Binghamton University
[۳] James Petras
[۴] www.coalitionoftheobvious.com/17112929


بقلم سید نجیب الحسن زیدی

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ملک و قوم کے حالات جس سمت میں جا رہے ہیں  انہیں دیکھتے ہوئے ہم سب پر لازم ہے  وطن عزیز کی تعمیر میں  اپنے کردار سے کو اہل وطن کے سامنے پیش کریں  بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ہم سے ناواقف ہیں ، ہماری ملک کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کو نہیں جانتے ،اور یہاں بات محض ناواقفیت کی نہیں ہے بلکہ مسلسل ایک ایسی  فکر بھی  کام کر رہی ہے جو ہماری تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کررہی ہے ، کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک قوم کی پوری تاریخ ، اسکے کارناموں اسکی تہذیب  کو نہ صرف منحرف ا نداز میں پیش کیا جا رہا ہے بلکہ  جہاں قربانیوں کا ذکر ہے وہاں جان بوجھ کر اسکی قربانیوںکو  نظر انداز کیا جا رہا ہے ، ایک قوم کی علمی و اقتصادی خدمات  کا باقاعدہ انکار کرنے کا رجحان پیدا ہو چلا ہے ، ہماری تاریخ کو اس انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ گویا مسلمانوں کی حکومت کا دور  سامراجی دور تھا یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کی حکومت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی حکومت کو بھی سامراجی و بیرونی حکومت کے طور پر پہچنوانے کی کوشش کی جا رہی ہے  اور بالکل اس طرح پیش کیا جا رہا ہے جیسے  ہم نے ملک کی تعمیر میں کوئی حصہ ہی نہ لیا ہو  کوئی ایسا کام ہی نہ کیا ہو جس پر ہم فخر کر سکیں ،آزادی کی جنگ میں ہمارا کردار ہی نہ ہو  لہذا ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ کے ان پہلووں کو لوگوں کے سامنے لیکر آئیں جن سے ہمارے درخشان ماضی کا پتہ چلتا ہو جس سے ہماری قربانیوں کا پتہ چلے ،جب ہم اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ہمیں اندازہ ہوگا ہم کہاں تھے اور اب کہاں کھڑے ہیں اور اسی بنیاد پر ہمارے اندر مزید آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوگا ،اور ساتھ ہی ساتھ ہم اپنے آپ کو احساس کمتری سے بھی نکالنے میں کامیاب ہوں گے ۔
ہم نے جو کچھ ملک کو دیا ہے اسکی فہرست طولانی ہے  جسے اس مختصر تحریر میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن ضروری ہے کہ بہت ہی اختصار کے ساتھ کچھ ایسے اہم نکات کو بیان کیا جائے جسکے سبب لوگوں کو پتہ چل سکے کہ معاشرتی طور پر ہم نے ہندوستان سماج کو مستحکم کرنے میں کیا رول ادا کیا ہے  جیسے ملک کو چھوا چھوت اور طبقاتی اونچ نیچ سے نجات دلانے کی نتیجہ بخش کوشش کرنا ، یہ طبقاتی اونچ نیچ گرچہ اب بھی پائی جا رہی ہے لیکن اسے کم کرنے میں ہمارا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے ۔
اور یہ بات آج کے ہندوستان کے لئے بہت ضروری ہے کہ اسے معلوم ہو مسلمانوں نے  بھید بھاو کے ختم کرنے میں کیا رول ادا کیا ہے اور کتنا مثبت کردار ادا کیا ہے جسکے سبب ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکا ہے ۔
وہ لوگ جو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے  پورا ہندوستان طبقاتی نظام کی زنجیروں میں جکڑ رہا تھا ان لوگوں کو مل جل کر آگے بڑھنے کا حوصلہ  دینے والے طبقاتی نظام کی دیواروں کو گرانے والے مسلمان ہی ہیں یہ وہ چیز ہے جس سے ہم پسماندہ قوموں اور مستضعفین کو بھی اپنے ساتھ شامل کر سکتے ہیں  اور مل جل کر موجودہ طبقاتی شگاف کے خلاف آواز احتجاج بلند کر سکتے ہیں ۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  آج ہم ایسے دور میں زندگی گزار رہے ہیں جس میں بےشمار مشکلات انسان کے دامن گیر ہیں ثقافتی، سماجی، ی اور معیشتی مشکلات نے انسان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تعجب خیز ٹیکنالوجی ترقی کے دور میں انسان کی زندگی کمال اور سعاتمندی کی طرف گامزن ہوتی اور اس راہ میں پائی جانے والے مشکلات کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔
سائنسی ترقی نے جہاں انسانی زندگی کے دیگر شعبوں میں الجھاؤ پیدا کئے وہاں معیشتی امور میں بھی اسے بہت ساری مشکلات سے دوچار کیا۔ آج دنیا کا اقتصاد صرف سرمایہ داروں کے اختیار میں ہے اور دنیا پر حاکم ظالم اور ستمگر حکمران پوری دنیا کے انسانوں کی معیشت کی لگام اپنے ہاتھوں میں لے کر جس طرف چاہتے ہیں انسانی زندگی کی لگام موڑ دیتے ہیں۔
عصر حاضر کے قارون اور فرعون در حقیقت خدا سے مقابلہ کرنے کے لیے معیشی امور میں جس چیز سے کھلے عام فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ ہے ’’ربا اور سود‘‘۔ انہوں نے معیشتی امور میں جس نظام کو سماج میں رائج کیا ہے وہ ہے ’’بینکی نظام‘‘۔ بینکی نظام کا اہم ترین رکن سود اور پرافٹ ہوتا ہے اگر اس رکن کو اس نظام سے نکال دیا جائے تو ان کے بقول بینک بیٹھ جائیں گے اور دنیا کا نظام نہیں چل سکے گا جبکہ ایسا نہیں ہے۔ اگر بنکوں سے سود کا لین دین ہٹایا جائے اور اسے الہی اور اسلامی طرز کے مطابق تشکیل دیا جائے تو نہ سماج کی ترقی میں کوئی کمی آئے گی اور نہ کمال کی طرف ان کی زندگی کے سفر میں کوئی خلل واقع ہو گا لیکن جو عصر حاضر میں یہودیوں کے ذریعے جو بنکوں کا جو طریقہ کار بنایا ہوا ہے اس نے دنیا کے ہر انسان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف انسانوں کی زندگیوں کی برکتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے بلکہ انہیں معیشتی امور میں خدا کے مقابلے میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
آج پوری دنیا کے ماہرین اقتصاد کا یہ ماننا ہے کہ جس چیز نے انسانی سماج کو بے روزگاری ، مہنگائی اور بدبختی کے موڑ پر لا کر کھڑا کیا ہے وہ ہے عصر حاضر کا بینکنگ سسٹم۔
موسی پیکاک نامی ایک ماہر اقتصاد کا کہنا ہے کہ دنیا کے بین الاقوامی ماہرین اقتصاد معیشتی ترقی کے لیے جس چیز کی تجویز کرتے ہیں وہ ہے سود جبکہ تمام مشکلات کی بنیادی جڑ یہی سود ہے جس کی طرف انسانوں کو متوجہ نہیں کیا جاتا۔
اگر آپ بینکنگ سسٹم پر غور کریں کہ وہ کیسے وجود میں آیا؟ اور اس کے وجود میں لانے والے تھے؟ تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس نظام میں انسانوں کو کس طرح بیوقوف بنا کر انہیں اپنے چنگل میں پھنسایا جاتا ہے۔
بنکوں کے نظام کو وجود میں لانے والے یہودی ہیں۔ یہودیوں نے پوری دنیا کی معیشت کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے ۷ سو سال کا عرصہ صرف کر کے ایک مثلث وجود میں لائی جس کا ایک ستون بینک ہیں جو مکمل طور پر سود پر مبتنی ہیں دوسرا ستون اسٹاک مارکٹ ہے اور تیسرا قرضہ اور Loan ہے۔ یہودیوں نے ۷ سو سال لگا کر یورپ کے اندر اس نظام کو حاکم کیا اس کے بعد پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے اس بینکی نظام کے ذریعے سب سے پہلے ان کی معیشت کو اپنے اختیار میں لیا اور ان تین ستونوں کے ذریعے آج یہودی پوری دنیا کی معیشت کو اپنے اختیار میں لینے پر کامیاب ہو چکے ہیں۔
اس کے باوجود کہ قدیم توریت کی شریعت میں دوسرے ادیان و مذاہب کی طرح سود خواری حرام ہے اور سود کھانے والے افراد اخروی عذاب کے علاوہ دنیا میں بھی سزا کے مستحق ہیں ان پر کفارہ واجب ہے اور انہیں کوڑے مارے جائیں گے لیکن یہودیوں نے جدید توریت میں تحریف کر کے سود خواری کو جائز قرار دے دیا’’ اپنے بھائی سے سود طلب نہ کرو نہ نقد پیسے پر نہ کھانے پر نہ کسی دوسری اس چیز ہر جو قرض دی جاتی ہے۔ صرف غیروں سے قرضے پر سود لے سکتے ہو‘‘ ( کتاب مقدس، عہد قدیم، سفر لاویان، باب ۲۵، آیت ۳۷،۳۸)
اہل سنت کے عالم دین رشید رضا نے اپنے استاد شیخ محمد عبدہ سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: توریت کی قدیمی نسخوں میں یہ عبارت موجود نہیں تھی کہ تم غیروں سے سود لے سکتے ہو لیکن موجودہ نسخوں میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہودی حتیٰ اپنے بھائیوں پر بھی رحم نہیں کرتے تھے اور ایک دوسرے سے سود لینے کے علاوہ انہیں اپنا غلام بنا کر حتیٰ دوسری قوموں کو بھی بیچ دیتے تھے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسلحے کی تجارت بذات خود ایک ایسا خفیہ مسئلہ ہے جس کے بارے میں تحقیق کرنا ایک دشوار کام ہے۔ خاص طور پر اس کی وسعت کی وجہ سے یہ کام مزید دشوار ہو جاتا ہے چونکہ دنیا کے ایک سو پچاس ممالک اور سیکڑوں کمپنیاں اور ہزاروں دلال اس تجارت میں شامل ہیں۔ سامراجی حکومتوں کے دور میں اسلحے کے بعض دلال دو فریقوں کے درمیان جنگ کے خاتمے کے بعد ان سے استعمال نشدہ یا ناکارہ اسلحہ خرید لیتے ہیں اور اس کی مرمت کر کے دنیا میں انتہا پسند گروہوں کو بیچ دیتے ہیں یہ وہ تجارت ہے جو نہ سرکاری ہے اور نہ کبھی اس کی خبر آتی ہے۔  
دنیا میں ہتھیار بنانے اور بیچنے والے ممالک میں امریکہ ، روس ، فرانس ، برطانیہ ، چین ، جرمنی ، چیلواکیہ ، اٹلی ، نیدرلینڈز ، سویڈن اور برازیل کا نام سر فہرست ہے جبکہ خریداروں میں ہندوستان ، عراق ، سعودی عرب ، شام ، مصر ، ترکی ، افغانستان اور خلیجی ریاستیں شامل ہیں۔
مصر ، سعودی عرب ، اردن ، شام اور متحدہ عرب امارات نے سن ۱۹۸۱ سے ۱۹۹۱ کے دوران دولاکھ ساٹھ ہزار بلین ڈالر کا اسلحہ خریدا تھا۔  
اسلحہ کی خریداری کسی دوسرے جارح ملک کے مقابلے میں دفاع سے پہلے خود ملک کے اندرونی نظام کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ گوکہ مسلح افواج، حکمران حکومت کی طاقت اور اس کے اقتدار کا اصلی اڈہ ہوتی ہیں۔
بعض اوقات، سرمایہ دارانہ سامراجی نظام کے حکمران طبقے کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے لئے بھی اسلحہ کی خریداری کی جاتی ہے۔ سرمایہ دار ممالک ہھتیاروں کی کثیر تعداد میں پیداوار کر کے تیسری دنیا میں اسے فروخت کرنے کے لیے پہلے جنگیں چھیڑتے ہیں ایک ملک کو دوسرے ملک سے لڑاتے ہیں اور پھر انہیں اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔
اس دوران ، امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں ’رومن‘ اور ’جنرل ڈائنامکس‘ اور ’ایم ، سی ڈونیلی ، اور ’ڈگلس‘ نے آنے والے برسوں میں اپنے اسلحے کی برآمدات کو دوگنا کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
اس پالیسی کے بعد ۱۹۹۰ میں تیسری دنیا کے ممالک کو امریکی ہتھیاروں کی برآمد دوگنا ہوکر 18.5 بلین ڈالر تک پہنچ گئی اور بھاری ہتھیاروں کی برآمد میں ریاستہائے متحدہ امریکہ پہلے نمبر پر آیا۔
بالادست ممالک کا تسلط اسلحے کی برآمد تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ بعض اوقات خود فوجیوں کا غیر قانونی استعمال بھی اسی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے جیسا کہ کیہان اخبار نے اپنے ایک مقالے میں لکھا: برطانوی ایم او ڈی پولیس افسران نے حالیہ دنوں میں لندن اور برطانیہ کے دیگر شہروں میں متعدد کمپنیوں کے ہیڈ کوارٹرز پر چھاپہ مارا تاکہ بیس ملین پونڈ کے گھپلے کی تفصیلات جمع کر سکیں جو انہوں نے دلالوں کے استعمال اور حکومتی عہدیداروں کے تعاون سے برطانوی فوجیوں کو خلیج فارس کی جنگ میں دھکیلنے پر خرچ کئے تھے۔  
منبع: ایرج تبریزی، تجارت شیطانی

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ھِلّا میڈالیا (Hilla Medalia) کو دستاویزی فلموں کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے، یروشلم میں موت مڈالیا کی ایک ایسی فلم ہے جو راہیل لوی نامی ایک اسرائیلی لڑکی کی ذاتی زندگی کو پیش کرتی ہے جسے فلسطینی خاتون خودکش بمبار، آیت الاخراس Ayat al-Akhras الہراس نے کرۃ ہیویلیل Kiryat HaYovel’s کے اہم سپر مارکیٹ کے دروازے پر ایک خودکش حملہ میں دھماکے سے اڑا کر ہلاک کر دیا تھا۔
فلم یروشلم میں موت” ( To Die In Jerusalem) اس حملہ کی خودکش داستان کے ساتھ دونوں ہی لڑکیوں کی ماوں کے نظریات کو کیمرہ کے ذریعہ پیش کر رہی ہے ۔ وہ چیز جو اس فلم کی داستان کو لائق توجہ بنا رہی ہے وہ قاتل و مقتول لڑکیوں کی آپس میں عجیب و غریب شباہت ہے دونوں کی ملتی جلتی شکل و صورت ناظرین کے لئیے حیرانی کا سبب ہے ، اس فلم کو امریکی چینل ایچ بی او H.B.Oنے نشر کیا۔
 
اس ڈاکومنٹری فلم کے سلسلہ سے ایک وبلاگر لکھتے ہیں: یہ ایک ایسی دستاویزی فلم ہے جو آیات الاخرس نامی لڑکی کے خود کش بم کے ذریعہ ہلاک ہونے والی ایک یہودی لڑکی موت کو پیش کرتی ہے ، یہ ایک ایسی مخصوص زاویہ دید پر مشتمل فلم ہے جو مبالغہ آرائی سے بھری ہوئی ہے اسکے برخلاف نیویارک ڈیلی نیوز نے شدید طور پر اس دستاویزی فلم کی بے طرفی کی حمایت کی ہے ۔اس اخبار کی بے نظیر حمایت اور اسی طرح دیگر امریکن اخباروں کا کھل کر اس کی حمایت میں کھڑا ہونا اس بات کا عندیہ ہے کہ میڈیا کا زنجیری حلقوں کی صورت ایک پورا سلسلہ ہے جو چاہتا ہے کہ ایک بار پھر اسرائیل کی دستاویزی فلموں کو فعال و متحرک کریں تاکہ اس کے ذریعہ اسرائیل کے کاموں اور اس کی جنایتوں کو جواز فراہم کرتے ہوئے اسکا ہاتھ کھلا رکھیں ۔خاص طور پر یہ کہ یہ لوگ اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اسرائیل کو اپنا دامن داغدار پاک کرنے کے لئیے مختلف پہلووں میں حمایت کے ساتھ میڈیا و ذرائع ابلاغ سے مربوط امور میں تعلیم کی ضرورت ہے ابھی بہت کچھ ایسا ہے جسے اسے سکھانا ضروری ہے ۔
مغرب کے سربراہان و سرمایہ دار لوگ اس بات کی کوشش میں مشغول ہیں کہ ہر سال اسرائیلی ذرائع ابلاغ کی بنیادوں اور اس کے ذیلی شعبوں کو مضبوط کرتے ہوئے ان میں اضافہ کریں، اور اس سلسلہ سے اسرائیل کے مختلف ادارہ جات و فاونڈیشنز جیسے اقدار پر مبنی فلموں کے فاونڈیشن کی تمجید، اور انہیں کام میں رغبت دلانے کے لئیے انکی حوصلہ افزائی کرتے نظر آ رہے ہیں ، اسرائیلی سنیما کی اکیڈمی نے حالیہ چند برسوں میں اسکار کی طرز پر اس سے ملتے جلتے پروگرامز اور شو منعقد کئیے ہیں جن میں سے شایک افئیر کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔
بہر کیف! اس بات پر توجہ کی ضرورت ہے کہ حالیہ چند سالوں میں اسرائیل میں میڈیا و ذرائع ابلاغ سے جڑے ادارے بہت مضبوط ہوئے ہیں اور اسرائیل کے سٹلائیٹ چنیل کی فزونی کی مقدار اور پے در پے انکی بنیاد و تاسیس اسی بات کی بیان گر ہے ۔
یروشلیم میں مرنے کے لئے” نے ۲۰۰۷ میں پیڈڈی ایوارڈ کے ساتھ مل کر، ایچ ڈی او کے دستاویزی فلموں کو جنم دیا.


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سن ۱۹۴۸ میں فلسطین کے بہت سارے علاقوں پر ناجائز قبضہ کر کے عالمی صہیونیت نے اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہی صدیوں سے اس سرزمین پر مقیم فلسطینیوں پر جارحیت، قتل و غارت اور ظلم و تشدد کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
یہودی ریاست کے ظلم و تشدد کا مقابلہ کرنے کی غرض سے فلسطینی جوانوں نے مزاحمتی گروہ تشکیل دے کر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ اور قدم بہ قدم صہیونی ریاست کے مظالم کا منہ توڑ جواب دیتے رہے۔ آخرکار جب اسرائیلی عہدیداروں نے فلسطینی نوجوانوں کے اندر جذبہ مزاحمت اور جوش شہادت کو محسوس کیا تو ان کے خلاف مسلحانہ کاروائیوں کے علاوہ دوسرے منصوبے تیار کرنا شروع کئے۔
درج ذیل رپورٹ ملت فلسطین کے اندر صہیونی نفوذ کا ایک نمونہ ہے اس رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست مختلف حربوں سے فلسطینیوں کے اندر نفوذ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔
 
اسرائیلی ریاست نے فلسطینیوں کے خلاف جہاں ایک طرف ’’سخت جنگ‘‘(Hard War) کا سلسلہ جاری رکھا وہاں دوسری طرف ’’نرم جنگ‘‘ (Soft War) کے ذریعے فلسطینی جوانوں کے جذبہ مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔
نرم جنگ کے تحت انجام پانے والا صہیونی منصوبہ در حقیقت وہی امریکی منصوبہ ہے جو امریکیوں نے ’’سرخ پوست‘‘ اینڈین کے خلاف اور یورپ میں فرانیسیوں نے اس ملک کے مہاجرین کے خلاف اپنایا تھا۔
 
 اس اسٹراٹیجیک کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ مختلف حربوں کے ذریعے نوجوانوں کے اندر سے جذبہ مزاحمت کو ختم کریں اور انہیں اپنے دین، اپنی ثقافت، اپنی زبان اور اپنی فکر کا گرویدہ بنائیں۔ صہیونی ریاست نے اسی منصوبہ کو فلسطینی نوجوانوں پر آزمانے کے لیے فلسطین میں جگہ جگہ ’’امن کے لیے پرز مرکز‘‘(The peres center for peace) کے نام سے کئی مراکز قائم کئے ہیں۔
’’امن کے پرز مراکز‘‘
’’امن کے لیے پرز مراکز‘‘ کی ۱۹۹۶ میں اسرائیلی وزیر اعظم شیمون پرز کے ذریعے بنیاد رکھی گئی۔ جیسا کہ اس مرکز کے آئین نامے میں درج ہے اس مرکز کا مقصد علاقے مخصوصا مغربی کنارے، مقبوضہ قدس اور غزہ کی پٹی کے عوام کے درمیان امن کی ثقافت کو توسیع دینا اور انہیں ان مراکز کی تعمیر اور ترویج میں مشارکت کی تشویق دلانا ہے۔
    
فلسطینی معاشرے میں سرگرم ان مراکز کی سرگرمیاں ۳ سے ۲۵ سال کے نوجوانوں کے لیے مخصوص ہوتی ہیں اور انہیں تعلیمی، طبی، فن و ہنر، کھیل کود، کھیتی بھاڑی وغیرہ وغیرہ کی خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔
ان مراکز کے آئین نامے کے مطابق، امن کے مراکز کا اصلی مقصد فلسطینی ۔ اسرائیلی باہمی تعاون کے لیے مناسبت پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔
امن کے پرزمراکز کی سرگرمیاں
یہ مراکز ’’امن کے لیے تعلیم و تربیت‘‘ کے شعار کو اپنا سرلوحہ قرار دے کر نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں اسرائیلی مقاصد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے روکنے اور مزاحمت کی راہ سے دوری اختیار کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔
    
خیال رہے کہ فلسطینی ایسے حال میں امن اور صلح کی بات کرتے ہیں کہ اس غاصب صیہونی ریاست کے جنگی طیارے شب و روز فلسطینی باشندوں پر بم گرا کر انہیں خاک و خوں میں غلطاں کرتے ہیں۔
         
یہودی ریاست ایک طرف سے امن کے مراکز قائم کر کے فلسطینی نوجوانوں کے اندر سے اپنے حقوق کی بازیابی اور اپنی زمینوں کو واپس لینے کے لیے جد و جہد کے جذبے کو ختم کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف مقبوضہ فلسطین میں یہودی بچوں کے لیے اسلحہ کی ٹریننگ کے مراکز قائم کر کے انہیں فلسطینیوں کے خلاف لڑنے کے لیے بچپن سے ہی آمادہ کر رہی ہے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل شحاک، اسرائیل کے ایک اہم اسکالر اور معروف محقق تھے وہ ۱۹۳۳ میں پولینڈ کے شہر ورسزاوا(۱) میں پیدا ہوئے۔ شحاک اشکنازی یہودی گھرانے کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔(۲)
شحاک نے اپنے بچپنے کے کچھ ایام بلسن (۳) کے جنگی اسراء کے کیمپ میں گزارے اور ۱۹۲۵ میں فلسطین ہجرت کر کے اس ملک کے مکین ہو گئے۔ نوجوانی کا دور فلسطین میں گزارا اور اس دوران عبری زبان پر بھی مہارت حاصل کی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہودی معاشرے کے اخلاق و اداب سے بھی بخوبی آشنا ہوئے۔


انہوں نے ۱۹۶۱ میں امریکہ کا سفر کیا اور اسٹین فورڈ”(۴) یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ دو سال کے بعد واپس اسرائیل لوٹے اور ہیبرو یروشلم(۵) یونیورسٹی میں ایک تجربہ کار استاد کی حیثیت سے کام شروع کیا۔
اسرائیل شحاک ایک لیبرل مفکر اور انسانی حقوق کے حامی جانے جاتے تھے۔ صہیونی تفکر کی نسبت تنقید اور فلسطین کے مظلوم عوام کی نسبت حمایت کا موقف اختیار کر کے یہودیوں کے درمیان انہوں نے خاص شہرت حاصل کی۔ وہ ۱۹۷۰ سے ۱۹۹۰ تک اسرائیل کے انسانی حقوق یونین(۶) کے چیئرمین مقرر ہوئے اور ہمیشہ اسرائیلی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ انہوں نے اس دوران متعدد بار فلسطینیوں کو Apartheid ” (نسل پرستی کے ظلم کا شکار) کے عنوان سے یاد کیا۔ اور ان صہیونیوں کو جو فلسطینیوں کے حقوق کو نظر انداز کرتے تھے متعصب یہودیوں کا نام دیا۔ شحاک صہیونیت پر تنقید کرنے کی وجہ سے یہودیوں کے درمیان یہود ستیز” (یہودی مخالف) معروف تھے۔
پروفیسر شحاک اسرائیل نے بہت ساری کتابیں اور مقالے تحریر کئے ہیں کہ جن میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں: عیسائیت کی نسبت یہودیوں کی نفرت”(۷)، الخلیل کے قتل عام کے پشت پردہ خفیہ سازشیں”(۸)، تاریخ یہود اور تین ہزار سالہ یہودی دین”، اسرائیل میں یہودی بنیاد پرستی”۔(۹)
امریکہ کے معروف رائٹر گورویڈل (۱۰) کتاب تاریخ یہود” کے مقدمے میں شحاک کو ایک یہودی محقق کا لقب دیتے ہیں کہ جو اپنی پر نشیب و فراز زندگی کے تلاطم میں انسانیت کے حامی رہے اور اپنی توانائی کے مطابق یہودیت کے ظلم و جور کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے رہے۔
اسرائیل شحاک نے ۱۹۹۰ میں شوگر کی بیماری کی وجہ سے یونیورسٹی میں تدریس کی سرگرمیوں کو ترک کر دیا اور آخر کار ۶۸ سال کی عمر میں ۲ جون ۲۰۰۱ کو اسی بیماری کی وجہ سے انتقال کیا۔
حوالے
۱ Warszawa
۲ catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13521443g
۳ Belsen or Belson
۴ Stanford University
۵ Hebrew University
۶ Israeli Human Rights league
۷ Jewish Hatred toward Christianity
۸ Idealogy behind the Hebron Massacre
۹٫The Jewish fundamentalism and its Profound Impact on Israeli Politics
۱۰ Gore vidal
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: سعودی ولیعہد نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان بہت سارے مشترکہ مفادات موجود ہیں اور اگر امن قائم ہو جائے تو اسرائیل اور خلیجی عرب ممالک کے درمیان روابط میں استحکام آ سکتا ہے۔
محمد بن سلمان نے اس انٹرویو میں مزید کہا کہ اسرائیلیوں کو بھی اپنی مستقل سرزمین رکھنے کا حق حاصل ہے جس میں وہ پرامن طریقے سے زندگی بسر کر سکیں۔
پیر کے روز شائع ہونے والے امریکی جریدے دی اٹلانٹک میں سعودی شہزادے نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بتدریج بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔
بن سلمان سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ کیا یہودیوں کو ایک مستقل جگہ پر جینے اور اپنا ملک بنانے کا حق حاصل نہیں ہے؟ کہا: فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کو اپنی اپنی سرزمین رکھنے کا حق حاصل ہے لیکن ان دونوں ملکوں کو چاہیے کہ ایک پرامن معاہدے پر اتفاق کر لیں جس سے علاقے میں استحکام پیدا ہو اور باہمی تعلقات بھی معمول پر آئیں۔
سعودی ولیعہد کا اپنے انٹرویو کے دوران مزید کہنا تھا کہ ان کی کسی قوم کے ساتھ کوئی لڑائی نہیں ہے بلکہ ان کے تمام خدشات یروشلم میں واقع مسجد الاقصیٰ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے حقوق سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اسرائیل سے کوئی مشکل نہیں ہے۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ہمارا یہودیوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے کہا: ہمارے اور اسرائیل کے ساتھ مشترکہ مفادات ہیں اور اگر امن حاصل ہو جاتا ہے تو اسرائیل اور خلیج تعاون سل کے رکن ملکوں جیسے مصر اور اردن کے ساتھ بہت سارے مشترکہ مفادات حاصل ہوں گے۔
حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے تعلقات کی خبریں سامنے آ رہی تھی لیکن سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے اقتدار کی کرسی سنبھالتے ہی ان تعلقات میں مزید استحکام پیدا کر دیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ ماہ اسرائیلی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھول کر یہودیوں کے دل خوش کر دئے اور صہیونی ریاست نے بھی بڑی گرم جوشی سے ان کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا۔
گزشتہ سال نومبر کے مہینے میں اسرائیل کابینہ کے ایک وزیر نے اسرائیل کے سعودیہ کے ساتھ خفیہ روابط کا پردہ چاک کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کے سعودی اعلیٰ حکام سے گہرے اور قریبی تعلقات ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی شہزادہ بن سلمان جو حالیہ دنوں طویل امریکی دورے پر ہیں نے امریکہ میں یہودی لابی سرغنوں سے ملاقاتیں کی ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کوشنر سے ملاقات کے دوران امریکی مجوزہ امن منصوبہ ’’صدی کی ڈیل‘‘ کے حوالے سے بھی بات چیت کی ہے۔

 


خیبر صیہون ریسرچ سینٹر: محدثین کہتے ہیں کہ ایک بار سرزمین بیت المقدس میں طاعون کی وبا آئی جس میں کثرت سے لوگ جان بحق ہوئے ، حضرت داوٗد کا زمانہ تھا انہوں نے لوگوں سے کہا : پاک و پاکیزہ ہو کر بیت المقدس کی پہاڑی پر چلو اور رو رو کر خدائے رحیم سے رحم کی التجا کرو ۔ قوم داوٗد علیہ السلام نے ویسا ہی کیا سجدے میں اسوقت تک روتی رہی جب تک خدا نے طاعون کی بلا ان سے اٹھا نہیں لی ۔
جب تین دن عافیت سے گذر گئے تو حضرت داوٗد نے دوبارہ ان لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا ‘اللہ نے تم لوگوں پر رحم وکرم کیا لہٰذا تم لوگ دوبارہ اس کا شکریہ ادا کرو ، اور بطور شکریہ اس پہاڑی بیت المقدس کی بنیاد ڈالو۔
لوگوں نے اس تجویز کو قبول کیا اور اس طرح بیت المقدس کی تجدیدِ تعمیر کا کام شروع ہوا ، اس وقت اگر چہ حضرت داؤد کی عمر ایک سو ستائیس سال تھی لیکن اس کے باوجود اپنے کاندھوں پرپتھر اٹھا کر لائے اور قد آدم دیوار بلند کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہی تھا کہ وحی کے ذریعہ اللہ نے خبر دی کہ اس تعمیر کی تکمیل آپ کے بیٹے سلیمان ؑ کے ہاتھوں ہوگی ، ایک سو چالیس سال کی عمر میں حضرت داؤد کی رحلت ہوئی اور حضرت سلیمان نے خدا کے گھر کو مستحکم و دیدہ زیب بنانے کیلئے دریاؤں سے جواہرات نکلوائے ، پہاڑوں کو کٹواکر رنگ برنگے پتھر ترشوائے ، زمین کی تہوں سے لعل و جواہر اکٹھا کرائے ، جنات و انسان و شیطان سب مل کر کام کرتے رہے جب عمارت مکمل ہو گئی تو بہترین مشک و عنبر سے معطر کرایا ۔
روئے زمین پر اس وقت بیت المقدس سے زیادہ کوئی خوبصورت عمارت نہیں تھی، اندھیری رات میں جواہرات کی چمک دمک سے عمارت تو عمارت ماحول چودھویں رات کا منظر پیش کرتا تھا ۔
بیت المقدس اسی شان و شوکت سے سالوں باقی رہا بخت نصر نے جب حملہ کیا تو سارے جواہرات لوٹ لئے ، دیواریں منہدم کرادیں ، شہر کو تاراج کردیا ۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عالمی صہیونیت کا عظیم تر اسرائیل” کا منصوبہ اور اسے پورا کرنے کا عزم پوری امت مسلمہ کے خلاف ایک نہایت بھیانک منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کو اسرائیلی قومی دستاویزات اور پالیسیوں میں سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی ممالک کے حکمران اور علمائے دین و دانشور اگر یہ سوچتے ہیں کہ یہ منصوبہ محض کتابی ہے یا صرف پروپیگنڈہ ہے وہ اپنے کا دھوکہ دے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکومت اور عالمی صہیونیت کے لیڈر اس دعویٰ پر پوری ضد سے قائم ہیں۔ وہ عظیم تر اسرائیل کو اپنا دائمی حق سمجھتے ہیں اور وقتا فوقتا اس کا برسر عام بھی اعلان کرتے ہیں۔ سپین کے مشہور میڈرڈ میں ۱۹۹۱ء میں جب اسرائیلیوں اور عربوں کے مابین مشرق وسطیٰ کانفرنس” کو شروع ہوئے چھ دن گزرے تھے تو رومہ دی نیوز نے ۶ نومبر ۱۹۹۱ء کو یہ خبر شائع کی کہ میڈرڈ میں اسرائیلی وزیر اعظم اضحاک شمیر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیل اپنی حدود کو ضرور وسیع کرے گا۔ توسیع کا علاقہ جنوب میں مصر سے لے کر شمال میں ترکی تک ہے اور اس میں شام، عراق، سعودی عرب، لبنان اور کویت کا بیشتر حصہ شامل ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ مشرق وسطیٰ میں ریاستی توسیع کا حق اسرائیل کو ہے اور امریکہ یا سوویت یونین کا اس معاملے میں کوئی حق نہیں۔
عظیم تر اسرائیل کے پرانے نقشے میں جو اسرائیلی رسالوں اور کتابوں میں اکثر ملتا ہے، مدینہ منورہ اسرائیلی حدود میں بتایا گیا ہے اب جدہ اور کچھ اور علاقے بھی اس میں شامل کر دئے گئے ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنا مسلم دنیا کو تباہی میں دھکیلنا ہے۔ مسلم ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے اسرائیلی منصوبے کے ساتھ اضحاک شمیر کے اعلان کو ملا کر غور کریں تو عظیم اسرائیل کا فتنہ کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ پروفیسر للّی انتھل نے اپنی شہرہ آفاق کتاب دی زاٹسٹ کنکشن” یعنی مخصوص صہیونی بندھن نیویارک ۱۹۷۸” میں اسرائیل کی علاقائی توسیع کی حرص کے بارے میں یہ فکر انگیز جملہ لکھا ہے۔ علاقائی توسیع کے صہیونی عزائم کی کوئی حد نہیں” یہ تبصرہ اور پروفیسر گاروڈی کا تبصرہ کہ صہیونی ریاست اب تک ہر وہ مقصد پورا کرتی رہی ہے جس کا عزم اس نے برملا کیا تھا۔ حالانکہ اس کے کئی مقاصد دیومالائی اور فرضی تھے دیوانہ پن اور قیاس پر مبنی تھے تمام مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کے لیے ایک سنگین وارننگ ہے۔
یہ بھی یاد رکھیے کہ عظیم تر اسرائیل” بنانے کی غرض سے اسرائیل نے ابھی تک اپنی ریاستی باؤنڈری یعنی زمینی حدود کو غیر متعین اور غیر واضح رکھا ہوا ہے جس طرح صہیونی لیڈروں نے دھوکے، دھشت گردی، حکمرانوں پہ دباؤ اور بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے ایک فرضی دعویٰ پر اسرائیل قائم اور تسلیم کروایا انہیں ہتھکنڈوں سے وہ عظیم تر اسرائیل” کو تسلیم کروانے اور قائم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اسلامی ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنا سنگین اور ناقابل تلافی غلطی کا ارتکاب ہو گا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا عظیم تر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ اس وقت اشد ضروری ہے کہ مسلم حکمران تدبر و حکمت سے کام لیں۔ ظلم و فریب سے بنی ہوئی جعلی اسرائیلی ریاست کو کسی قیمت پر قبول کرنا یا اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا کسی قیمت پر اسلامی حکمرانوں کی صلاح میں نہیں ہے۔ آنے والے دنوں میں صہیونیت کے مہا منصوبے کے مطابق مسلم ممالک میں مزید طوفانی بحران اٹھنے والے ہیں ان کا سامنا کرنے کے لیے مسلم ممالک میں باہمی اتحاد اور ہر مسلم ملک میں حکام اور عوام کی یکجہتی بہت ضروری ہے۔ مسلم عوام کو اسرائیل کبھی بھی منظور نہیں ہو گا۔ کیونکہ قرآن کریم کی رو سے بھی اس صہیونی ریاست سے مسلمانوں کے تعلقات ممنوع ہیں۔
منبع: اسرائیل کیوں تسلیم کیا جائے، تالیف: محمد شریف ہزاروی

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ’’صہیونیسٹ سل آف امریکہ‘‘ کی تشکیل کے بعد اس سل نے صہیونیسٹ کے خفیہ بجٹ سے دو کمیٹیوں بنام ’’امریکی فلسطینی کمیٹی‘‘ (۱)اور ’’فلسطینی عیسائی سل‘‘(۲) کو جنم دیا تاکہ وہ اس طریقے سے امریکہ کے رہنے والے عیسائیوں کی حمایت حاصل کر سکیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ دو کمیٹیاں پہلی عالمی جنگ سے قبل امریکہ کے ہزاروں عیسائی افراد کو اپنی طرف جذب کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔
عیسائیوں کی صہیونی توں کے تئیں حمایت کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ غریب اور فقیر عوام کی مدد کرنا چاہتے تھے اور چونکہ صہیونی ہمیشہ مختلف ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے ذریعے دوسری عالمی جنگ کے بعد یہودیوں کی ابتر حالت کا ڈنڈھورا پیٹتے تھے اور ان کو ستم دیدہ اور مظلوم افراد ظاہر کرتے تھے کہ ان کے پاس رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے سر چھپانے کے لیے مکان نہیں ہیں۔
ڈونالڈ نیف(۳) ۱۴ مئی ۱۹۴۸میں صہیونیوں کے عیسائی بستیوں پر کئے گئے حملے کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’عیسائیوں کے بعض گروہ اس بات کی شکایت کرتے تھے کہ مئی کے مہینے میں صہیونیوں نے عیسائیوں کے کلیساؤں اور انسان دوستانہ اداروں پر حملہ کر کے سینکڑوں بچوں، بے سہارا لوگوں اور پادریوں کو تہہ تیغ اور زخمی کیا تھا۔ مثال کے طور پر ان عیسائی رہنماؤں نے اعلان کیا تھا کہ بہت سارے بچوں کو یہودیوں کی طرف سے آرتھوڈوکس کاپیک کنونٹ( Orthodox Coptic Convent) نے گولیوں کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا‘‘۔
نیف ایک کیتھولک پادری کی زبان سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہودی فوجیوں نے ہمارے چرچ کے دروازوں کو جلا دیا اور چرچ کی تمام قیمتی اور مقدس چیزوں کو چرا لیا۔ انہوں نے اس کے بعد حضرت مسیح کے مجسموں کو اٹھا کر باہر پھینک دیا۔ یہ اس حال میں ہے کہ یہودیوں کے رہنماؤں نے اس سے قبل اس بات کی ضمانت دی ہوئی تھی کہ مذہبی عمارتوں اور مقدس مقامات کی بے حرمتی نہیں کریں گے۔ لیکن ان کا کردار کسی بھی اعتبار سے ان کی گفتار کے مطابق نہیں تھا‘‘۔
مآخذ:
۱۔ amercan palestine committce
۲۔ chistian council on palestine
۳۔ Donald Neff بیت المقدس میں مجلہ ٹائمز کے سابق سربراہ

 

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطینی سرزمینوں پر اسرائیل کے نام پر صہیونی حکومت میں پڑنے والی دراڑوں کی بنیاد پر یہ بات مشہور ہے کہ صہیونی معاشرہ میں آج مذہبی طرز فکر اور سکولرطبقہ کے درمیان شگاف کا ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ این مختلف قسم کی دراڑوں میں مذہبی خیالات کے حامل لوگوں اور سیکولیرزم کے حامیوں کے درمیان واضح پھوٹ اور انکے درمیاں بڑھتی قابل غور خلیج حکومت کے لیے بہت سے چلینجز کا سبب بنی ہے اور ایسے موضوعات کے وجود میں آنے کا سبب بنی ہے مشکلات و دشواریوں کے جنم لینے کا سبب ہیں ہم ان مختلف مشکلات و چیلنجز میں سے دو کو بیان کر رہے ہیں :
الف) دینی قوانین و دستورات کا مسئلہ :
آج بر سر اقتدار حکومت وقت اور لوگوں کے درمیان یہ سوال پایا جاتاہے کہ اقتدار یھود کے ہاتھ میں رہنا چاہیے یا پھر یہودیوں کے ہاتھ میں؟ یہ مشکل اس بات کا سبب بنی ہے کہ حکومت وقت کے سامنے ایک تشخص و اعتبار کا بحران سامنے آئےجبکہ حکومت وقت ایک طرف تو اس کوشش میں ہے کہ اپنے آپکو سیکولر طرز فکر کے حامل کے طور پر پیش کرے دوسری طرف حکومت کے ستونوں اور دین کے رول کے درمیان بہت سے اختلافات کا بھی اسے سامنا ہے ۔ چنانچہ صہیونی حکومت کی قانونی حیثیت اور اسکا اعتبار و جواز یہودیوں کی دینی میراث کے اعتبار سے ٹکرا رہا ہے اور یہ دونوں چیزیں یعنی صہیونی حکومت کا اعتبار و یہودیوں کی دینی میراث کا اعتبار آپس میں تناقض آمیز نظر آ رہی ہیں ، اسی طرح روایتی یہودی طرز فکر میں حکومت کے سلسلہ میں دین کی اولویت اس دکھاوے سے بر سر پیکار ہے جس میں حکومت کی جانب سے سیکولر طرز فکر کی بنیاد پر لوگوں کی اولویت کی بات ہوتی ہے یعنی ایک طرف روایتی یہودی ہیں جو دین کی اولویت کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف حکومت وقت ہے جو سیکولرزم کی بنیاد پر لوگوں کی اولویت کی بات کرتی ہے جسکی بنیاد پر یہ تناقض اور بھی واضح ہو کر ابھر رہا ہے اور اس سلسلہ سے مختلف تنقیدوں اور بحثوں کا سلسلہ جاری ہے ۔
یہ نظریاتی تناقضات اور آپسی ٹکراو اس وقت میدان عمل میں آگے کے راستہ کو اپنے لئیے بند پاتے ہیں جب صہیونی حکومت کے نسل پرستانہ و قوم پرستانہ طبقاتی سلسلوں کا سامنا یہودیوں کے قوم پرستانہ کلچر سے اشکنازیوں ، سفاردیوں اور آفریقی یہودیوں نیز فلسطینی کی سرزمینوں پر رہایش پذیر اعراب سے ہوتا ہے ۔ چنانچہ دوسرے درجہ اور تیسرے درجہ کے یہودیوں اور وہاں رہایش پذیر عربوں کے اوپر حکومتی مشینریوں کی جانب سے ظلم روا رکھا جاتا ہے تو یہ ظلم اپنے آپ پہلے سے پائے جانے نظریاتی شگاف کو اور بھی دائمی و عمیق بنا دیتا ہے ۔
ب) چھوٹ اور امتیاز:
چاہے وہ دینی و مذہبی تنطیمیں اور پارٹیاں ہوں یا حریدی ہوں ان سبھی نے حکومتوں کے ساتھ اتحاد و جوڑ توڑ کر کے مذہبی خیال کے حامل افراد کے لیے بہت سے امتیازات حاصل کئیے ہیں اور یہی وہ پوائنٹ ہے جو اختلافات کے مزید بڑھنے کا سبب بنا ہے این اہم امتیازات میں ایک امتیاز یشیوا نامی مدارس کے تمام بچوں اور تمام مذہبی لڑکیوں کا فوج میں خدمت سے معاف ہونا ہے ۔
یہ فوج میں خدمت کا قانون وہ قانون ہے جس سے صہیونویوں کی جدید نسل بھاگ رہی ہے اور خاص کر حزب اللہ لبنان ، حماس اور جہاد اسلامی سے آخر کی ہونے والی چار لڑائیوں میں اسرائیل کو ملنے والی شکست کی بنیاد پر بعض جوانوں میں ایک خوف بیٹھ گیا ہے جو فوج میں بھرتی ہونے کی خدمت سے چھٹکارا چاہتے ہیں نتیجہ میں یہ شگاف بڑھتا جا رہا ہے ۔
علاوہ از ایں، بڑے اور وسیع گھرانوں یا کثیر العیال گھرانوں کی حکومت وقت کی طرف سے حمایت مذہبیوں کے درمیان عام ہے اور دینی مدارس و طلاب کی مالی مدد ایک اور ایسا امتیاز ہے جو سیکولر طبقہ کی اس اصل سے متضاد ہے جس کے بموجب تمام شہری برابر ہیں ۔
گزشتہ چند سالوں میں اس سلسلہ سے ہونے والے اعتراضات بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ سیکولر و مذہبی طبقہ کے درمیان پائے جانے والے اس شگاف کے اور بھی اسباب ہیں جو اپنی جگہ لائق توجہ ہیں ۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: تل ابیب کے نو پوجاریوں کے جذبات، تالاب کی سطح پر پانی کی ان بلبوں کے مانند ہیں جو اندر سے کھوکھلا ہوتے ہیں اور باہر سے جذاب اور پیارے۔ یہ یہودی وہ ہیں جنہوں نے سالہا سال سے اس سرزمین پر بسنے والے مقامی فلسطینیوں کو ۱۹۴۸ میں ان کے گھروں سے باہر نکال دیا اور ابھی تک انہیں اپنے وطن واپسی کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہ پینک فلوڈ کے گلوکار راجر واٹرز کے خط کا ایک حصہ ہے جو انہوں نے ان فنکاروں کو لکھا جو مقبوضہ فلسطین کی طرف سفر کا ارادہ رکھتے ہیں۔
راجر واٹرز ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں اپنے ترانوں سے سننے والوں کو جھنجھوڑیں اور ان کے ذہنوں کو بیدار کریں۔ ان کے ترانے اس کے باوجود کہ فلسفی رنگ میں رنگے ہوتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ اس طریقے سے بیان کرتے ہیں کہ سننے والا آسانی سے سمجھ سکے اور بات کا ادراک کر سکے۔
۳جون ۲۰۱۰ کو راجر واٹرز نے we shall overcome» کے عنوان سے فلسطینی عوام کی حمایت اور اسرئیلی جارحیت کے خلاف صدائے اعتراض بلند کرتے ہوئے ایک نیا ترانہ شائع کیا۔
اس ترانے کو انہوں نے خود YouTube پر شائع کیا اور اس کے بارے میں یوں لکھا:
میں ایسے حالات میں قرار پایا ہوں کہ میں نے یہ محسوس کیا کہ مجھے فلسطین کے لوگوں سے مخصوص ایک ترانہ کہنا چاہیے۔
انہوں نے اس ترانے میں جو پڑھا ہے اس کا مضمون کچھ یوں ہے:
ہم کامیاب ہوں گے، ہم آخرکار کامیاب ہو کر رہیں گے، مجھے دل کی گہرائیوں سے اس بات پر یقین ہے کہ ہم آخرکار کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔
ہم ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے ہو کر چلیں گے، مجھے دل کی گہرائیوں سے یقین ہے۔
ہم جیل کی دیواروں کو توڑ دیں گے، ہم ایک دن سب مل کر جیل کی دیواروں کو گرا دیں گے مجھے دل کی گہرائیوں سے یقین ہے۔
اور حقیقت ہمیں آزاد کرے گی، حقیقت ہم سب کو ایک دن آزاد کرے گی
مجھے دل کی گہرائیوں سے یقین ہے کہ حقیقت ہم سب کو ایک دن آزاد کرے گی۔
اور ہم ایک دن کامیاب ہو کر رہیں گے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: علاقے سے امریکہ کا انخلاء اگر چہ حالیہ دنوں کورونا وائرس کی وجہ سے میڈیا کی پہلے درجے کی سرخیوں میں شامل نہیں رہا لیکن حقیقت یہ ہےکہ قاسم سلیمانی کے قتل اور عراقی پارلیمنٹ میں امریکی فوج کے انخلاء پر بل منظور کیے جانے کے بعد امریکہ کا علاقے سے نکلنا اس کے لیے تاریخی شکست ہو گی۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اسی حوالے سے تہران یونیورسٹی کے ڈاکٹر فواد ایزدی کے ساتھ گفتگو کی ہے۔
خیبر: کچھ عرصے سے اس خطے سے امریکی انخلاء کی بحث چل رہی ہے، آپ کے خیال میں امریکی انخلا سے صہیونی حکومت پر کیا اثر مرتب ہوں گے؟
یقینا اس اقدام سے اسرائیل کے لیے اچھے نتائج ثابت نہیں ہوں گے۔ چونکہ علاقے میں صیہونی حکومت کا ایک اہم حامی امریکہ رہا ہے، اور اس میدان میں امریکہ کی عدم موجودگی کا اسرائیل کی طاقت پر براہ راست اثر پڑے گا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں بھی کمی پیدا ہو گی۔
خطے سے امریکہ کے انخلاء کا معاملہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ امریکہ کے لئے ایک اہم مسئلہ مغربی ایشیا میں ان کی طویل مدتی موجودگی ہے۔ بہت سارے امریکی تدان، یہاں تک کہ خود ٹرمپ بھی اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ ایشیاء سے امریکی فوج کی واپسی امریکہ کی مجبوری ہے، اسی وجہ سے افغانستان سے بھی انخلاء ٹرمپ کے نعروں میں شامل ہے۔
اس خطے میں امریکیوں نے بہت سارے اخراجات برداشت کیے ہیں اور بہت سے لوگوں کو اس کا احساس ہو چکا ہے۔ جو لوگ ابھی تک امریکہ کے نقصان کو نہیں سمجھتے ہیں وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے امریکہ کو مغربی ایشیاء سے نکالنے کی کوششوں کی وجہ سے سمجھ جائیں گے۔
حالیہ برسوں میں جس جس علاقے میں امریکیوں نے قدم رکھا سوائے جنگ، ہلاکت، اور پریشانی کے کچھ نظر نہیں آیا، چنانچہ اب امریکی متوجہ ہو گئے ہیں کہ اب یہاں سے رخصت ہونے کا وقت آ گیا ہے خطے کے عوام انہیں اب اس سے زیادہ تحمل نہیں کر سکتے۔
خیبر: کیا آپ کے خیال میں امریکی انخلاء کے وقت اپنے اخراجات پورا کرنے کی کوشش کریں گے؟ یا دوسرے لفظوں میں کیا وہ جنگ چھیڑ کر یا دوسرے اقدامات کے ذریعے اپنے اخراجات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟  
کوئی ایسی جگہ نہیں ہے کہ امریکی وہاں سے اپنے اخراجات پورا کر سکیں۔ ایک زمانے تک سعودی امریکیوں کو خوب پیسہ دیا کرتے تھے، البتہ ابھی بھی دیتے ہیں لیکن چونکہ وہ خود جنگ میں گرفتار ہیں، اب امریکہ کے اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔
اگرچہ امریکی بھتہ خوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن عملی طور پر وہ ایسا کرنے سے بھی عاجز ہیں۔
امریکہ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ نیابتی جنگیں (پراکسی وار) لڑتا اور دہشت گرد گروہوں کے ذریعے علاقے کو ناامن بناتا ہے۔ لیکن ان اقدامات کے لیے بھی امریکیوں کا خطے میں موجود ہونا ضروری ہے۔ اگر اس خطے میں امریکیوں کی موجودگی کم ہوجائے تو دہشت گردانہ اقدامات بھی کم ہو جائیں گے۔ لہذا امریکیوں کا خطے سے انخلاء بہت ضروری ہے تاکہ علاقہ میں امن و س پیدا ہو۔  
خیبر: اگر امریکہ خطہ چھوڑ دیتا ہے تو ہم اسرائیل کی تباہی کے کتنے قریب ہیں؟
اسرائیل نابودی کے دہانے پر ہے، اور یہ تباہی ضروری نہیں ہے کہ فوجی کارروائی کے ذریعے ہی ہو۔ مقبوضہ علاقوں سے یہودیوں کی الٹی نقل مکانی اب ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے جس نے حکومت کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔ اگر امریکی علاقے سے نکل کر عملی طور پر اسرائیل کی حمایت ختم کر دیں، تو صہیونیوں کی بڑی تعداد اسرائیل چھوڑ کر چلی جائے گی۔
نتیجہ میں اسرائیل کی تباہی اور اس حکومت کا خاتمہ یقینی ہوگا۔

 


بقلم جاوید حسن دلنوی کشمیری
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  چین کے ووہان شہر میں شروع  ہونے والے کورونا وائرس کو امریکی فوج نے پھیلایا جو وہاں پر عالمی فوجی کھیلوں میں شرکت کیلئے گئی ہوئی تھی جس میں امریکہ نے کھلاڑیوں  کے بھیس میں ایک تربیت یافتہ فوجی دستہ بھیجا تھا جنہوں نے خفیہ طور پر وہاں کے ایک بازار میں جا کر اس وائرس کو کھانے والی چیزوں میں وارد کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ امریکا  کے فوجی کھلاڑی نہیں تھے بلکہ اسی خاص مشن کے لیے انہیں تربیت یافتہ بنا کے بھیجا گیا تھا۔ اس دوران امریکا کے ان جعلی فوجی کھلاڑیوں نے ایک تمغہ بھی حاصل نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ کھلاڑی نہیں بلکہ جاسوس تھے جو اپنے اصل مقصد تک رسائی چاہتے تھے اور اس طرح بہت ہی تیزی سے اس وبا نے پھیلنا شروع کیا۔
 اس بات کا سنسنی خیز انکشاف حال ہی میں برطانیہ کے ایک معروف اخبار Independent نے  ایک مضمون کے ذریعے کیا ۔ اخبار کے مطابق  چین کے اقتصادی ڈھانچے کو عالمی سطح پر خراب کرنے کیلئے امریکا نے ایک بہت بڑے Biological war  کا آغاز کیا ہے ۔ جرمنی کے ایک جریدے نے بھی اس بات کا انکشاف کیا ہے  کہ یہ جراثیم برطانیہ کی فیکٹری میں بنایا گیا ہے  جسے سب سے پہلے زندانیوں پر آزمایا گیا تھا ،جس پر امریکا کے ایک دولت مند ترین شخص نے سرمایہ کاری کی تھی ۔ یہ وائرس ایک خاص طریقے کے DNA  کے ذریعے سے تیار کیا گیا ہے،  دوسری جانب ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ امریکا کا بنایا ہوا کارٹون The simpsons  جو آج سے سترہ سال پہلے بنایا گیا ہے جس میں اگر دقت سے دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ کارٹون  آج  کے اس کرونا  وائرس سے متعلق بنایا گیا ہے, کہ جس میں پروڈکٹس کو دوسرے ملکوں میں صادرات کر کے ایک مہلک بیماری کو پوری دنیا میں منتقل کیا جاتا ہے۔  مذکورہ کارٹون کو آپ نیٹ سے سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں، ادھر ٹرمپ  نے صدر بننے کے ساتھ ہی اعلان کیا تھا کہ انہیں اب اقتصادی جنگ چین سے کھیلنی ہوگی۔
 چین تجارت میں دنیا میں برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے جس کا مشرق وسطی میں کرونا وائرس کی  وجہ سے  اب برآمدات رکی ہوئی ہیں  اور تیس فی صد چین کی تجارت کا گراف نیچے کی طرف جا رہا ہے جو اس ملک  کے لئے بہت بڑا نقصان  تصور کیا جا رہا ہے، اگرچہ حال ہی میں چین نے وائرس کو کنٹرول کر کے عالمی تجارت میں واپسی کی ہیں، چین کی وزرات خارجہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے اور امریکا کو دھمکی بھی دی ہے کہ ان کے اس Bilogical war   کا جواب دیا جائے گا۔ اور کہا کہ انہیں باضابطہ طور پر اس کے ثبوت بھی ملے ہیں، امریکا چاہتا ہے کہ چین کے مقابلے میں اس وقت ہندوستان کو کھڑا کیا جائے تاکہ ان سے با آسانی اپنی منفعت لیتا رہے کیونکہ ھندوستان کی موجودہ حکومت نظریاتی طور پر امریکا اور اسرائیل کے بہت نزدیک ہیں لیکن حالیہ قرائن سے پتا چلتا ہے کہ چین کی قدرت کے آگے ہندوستان نہیں ٹک سکتا ہے،  واضح رہے کہ اس سے پہلے امریکی رجیم، دہشت گرد تنظیم داعش کو بھی اسی لئے وجود میں لائی تھی تاکہ تیل سے مالا مال مشرق وسطی کو رام کرکے ان سے اپنی معیشت کو مضبوط بنا سکے، لیکن ایران کی طاقتور فوج  کی حکمت عملی نے  خطے میں داعش کی  درندہ صفت حکومت جو پوری انسانیت کی سلامتی کے لئے خطرہ تھی کو پوری طرح سے خاتمہ کیا جس کا عندیہ خود شھید سلیمانی نے دیا تھا ۔
 امریکا نے  Bilogical war کا آغاز دوسری عالمگیر جنگ  سے ہی شروع کیا تھا۔ اس کے بعد اس انسانیت مخالف کام کو انجام دینے کے لئے کئی اپنے حریفوں کو جو  ان کے لئے آنکھ کا کانٹا تھے جسمیں کیوبا کے معروف آزادی پسند انسان ’فیڑل کاسترو‘ ، وینزویلا کے صدر ’یوگا شاویز‘ قابل ذکر ہیں، ان کو اسی war  سے  نشانہ بنایا ۔ دوسری جانب امریکا نے سارس ، ایڈس ، برڈ فلیو  ،لندن فلو وغیرہ وائرس کو  وجود میں لاکر وقتا فوقتا اپنے اقتصادی مقاصد حاصل کئے ۔ اگرچہ ان وائرسوں سے شرح اموات کرونا کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی لیکن امریکا کو ان وائرس  سے
اتنے فائدے حاصل نہیں ہوئے جتنے اب  اس جدید ترین وائرس '' کرونا '' سے حاصل ہو رہے  ہیں۔ کرونا  اصل میں اتنا  بڑا  وائرس نہیں ہے جسے انسان کو ڈرنے کی ضرورت ہے، مگر  ایک سوچے سمجھے پلان کے مطابق امریکا نے اپنے استعماری میڈیا کو بھرپور پیسہ دیکر اسے دنیا میں وحشی اور ڈراونا ترین وائرس  کے طور پر پیش کیا ۔ اگرچہ اس کی اموات کی شرح برڈ فلیو سے تقریبا مساوی ہے ۔ کرونا وائرس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ  80  سال سے اوپر عمر والے افراد کو22در صد  70  اور 80 کے درمیان 8  ، 60 سے 70 والے 3.6 اور50 سے نیچے عمر رکھنے والے افراد کی شرح اموات1 فیصد جبکہ  10  سال کے نیچے والے کمسنوں کی اموات تحقیق کے مطابق صفر درصد بتائی جاتی ہیں ۔
 امریکا  نے کرونا وائرس سے اپنے دیرینہ اہداف حاصل کرنے کے حوالے سے ایک بڑی سازش  کا آغاز کیا ہے ۔ جس میں خاص طور پر چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی ترقی کو روک لگانی ہے ۔ اگرچہ وہ ابھی تک اس میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ چین نے فوری  طور پر اور بڑی سرعت سے  اس وبا پر مکمل طور پر کنٹرول کر لیا ہے ۔ اور ووہان شھر سے اسے آگے پھیلنے سے روک دیا ہے ۔ دوسری جانب چین کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران جو امریکا کا سب سے بڑا حریف ہے کو اس وبا سے شکار کرنا چاہا ۔ امریکا نے ایران میں انقلابی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے کرونا  پارلمینٹ تک پہنچایا اور یہاں تک کہ چند بڑی انقلابی شخصیات کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوا۔  بتایا جاتا ہے کہ ایران میں اس وباء کو دسمبر میں ہی وارد کیا گیا تھا  اور spray  کے ذریعے اس مہلک وبا کو عمومی مقامات میں پھیلایا گیا تھا۔ جسکا  ایران کو بعد میں پتا چلا اس دوران پچاس سے زیادہ اموات ایران میں ہو چکی تھیں لیکن اس وقت اسے برڈ فلیو کا نام دیا گیا اگرچہ وہ کرونا وائرس سے ہی واقع ہوئی تھیں۔ جس کے بعد 3  جنوری کو انہوں نے  ایران کے طاقتور جنرل قاسم سلیمانی کو بھی شھید کیا تاکہ بیک وقت یہ اس ملک کو ایک بڑے بحران کا شکار بنا سکیں۔
دوسری جانب ایران کے غم و غصے کو روکنے  کے لئے کرونا نے بڑا کام کیا کہ ایران نے امریکی فوج کو خطے میں نکال باہر کرنے کی ٹھان لی تھی، تحقیقات سے پتا چلتا ہے امریکا نے پوری دنیا کے اقتصاد کو خراب کرنا ہے اور خود کو دنیا میں سپر پاور کے طور پر باقی رکھنا ہے ، کیونکہ اس وقت امریکا کی اقتصادی ناو ڈوبنے پر ہے جو وہ کرونا وائرس سے بچانا ہی نہیں بلکہ اسے مضبوط بھی بنانا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بیماری سے 70  سال سے اوپر کے افراد کو بھی صفحہ ہستی سے ہٹانا مقصود ہے کیونکہ امریکا اب سبکدوش (ریٹائرڈ) لوگوں کو سوشل سروسز اور میڈیکل سہولیات وغیرہ دینے سے عاجز آ چکا ہے۔   

جاری

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائی فرقہ اگرچہ ابتدائے وجود سے ہی یہودیوں سے وابستہ تھا لیکن یہ گہرے تعلقات اس وقت وجود میں آئے جب یہ فرقہ ’روسی زارشاہی‘ سے جدا ہوا اور برطانوی سامراج سے جڑ گیا اور اس کے بانیان نے فلسطین میں ست اختیار کر لی۔ خیال رہے کہ فلسطین اس دور میں برطانوی قبضے میں تھا۔ ۱۹۴۸ میں برطانوی استعماری حکومت کی کوششوں اور فرقہ ضالہ ’بہائیت‘ کے تعاون سے صہیونی ریاست تشکیل پائی۔ ہم اس مختصر تحریر میں بہائیت اور صہیونیت کے تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
آپ کے لیے یہ جاننا دلچسپ ہو گا کہ ’میرزا حسین علی نوری‘ یا وہی ’بہاء اللہ‘ نے صہیونی ریاست کی تشکیل سے پہلے اپنے پیروکاروں کو یہ خوشخبری اور بشارت دی تھی کہ یہودی حکومت تشکیل پائے گی اور سرزمین موعود یعنی فلسطین میں دوبارہ بنی اسرائیل کو عزت و سربلندی حاصل ہو گی۔ یہ دعویٰ اس قدر واضح تھا کہ حتیٰ اطالوی اخباروں نے بھی اس دور میں اس خبر کو شائع کیا۔
بہاء اللہ کے جانشین ’عباس افندی‘ اپنے باپ کی طرح بعض یہودی سربراہان جیسے ’اسحاق بن زوی‘ کے ساتھ ۱۹۰۹،۱۰ عیسوی کے دوران یعنی اسرائیل کی تشکیل سے ۴۰ سال قبل ملاقاتیں کرتے رہے اور ان کے مشوروں کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے رہے۔ وہ صہیونی ریاست کی تشکیل کے بارے میں اپنے ایک پیروکار ’حبیب مؤید‘ کے نام خطاب میں یوں پیش گوئی کرتے ہیں:
’’یہ فلسطین ہے، سرزمین مقدس، عنقریب یہودی قوم اس سرزمین پر واپس پلٹ آئے گی۔ اور داؤودی حکومت اور سلیمانی جاہ و حشمت قائم ہو گی۔ یہ اللہ کے سچے وعدوں میں سے ایک ہے اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ یہودی قوم اللہ کے نزدیک دوبارہ عزیز ہو گی اوردنیا کے تمام یہودی ایک جگہ جمع ہو جائیں گے۔ اور یہ سرزمین ان سے آباد ہو گی‘‘۔
عباس افندی روتھشیلڈ گھرانے سے بھی ملاقات کرتے تھے۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ انہوں نے حبیب مؤید کے نام ایک اور خط میں لکھا: ’’مسٹر روتھشیلڈ جرمنی کے ایک ماہر نقاش ہیں۔ انہوں نے حضور مبارک کے تمثال کی تصویر کشی کی ہے اور مجھے دعوت دی ہے کہ میں اس تصویر کے نیچے چند کلمے لکھوں اور وہ اس کا جرمنی میں ترجمہ کر کے شائع کریں‘‘۔
نیز افندی کی زوجہ ’روحیہ ماکسل‘ اپنی کتاب ’’گوہر یکتا‘‘ جو ان کے شوہر کی سوانح حیات پر مبنی ہے میں عباس افندی اور صہیونی رہنما ’موشہ شارٹ‘ کے درمیان گہرے تعلقات کا راز فاش کرتی ہیں۔
عباس افندی نہ صرف صہیونیوں کے ساتھ تعلقات رکھتے تھے بلکہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے تھے۔ مثال کے طور پر بہاء اللہ ایک عیسائی نامہ نگار کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہتے ہیں:
"کچھ دن پہلے، ’کرمل‘ اخبار کے مالک میرے پاس آئے، تو میں نے ان سے کہا کہ اب دینی اور مذہبی تعصب کے خاتمہ کا دور ہے، انہوں نے کہا: یہودی دیگر جگہوں سے آ رہے ہیں اور یہاں زمین خرید رہے ہیں، بینک کھول رہے ہیں، کمپنیاں کھول رہے ہیں، فلسطین کو لینا چاہتے ہیں، اور اس پر سلطنت کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے کہا: یہ اپنی کتاب میں دعویٰ کرتے ہیں کہ اس سرزمین میں حکومت کریں گے، یہ اللہ کا ارادہ ہے، کوئی ان کے مقابلے میں نہیں آ پائے گا، دیکھیں سلطان حمید اس جاہ و حشمت کے ساتھ کچھ نہ کر سکے‘‘۔
مذکورہ باتوں کے پیش نظر اس بات پر یقین ہو جاتا ہے کہ بہائیوں اور صہیونی یہودیوں کے درمیان تعلقات مرزا حسین علی کے دور سے ہی موجود تھے، لیکن عباس افندی کے زمانے میں ان تعلقات میں مزید گہرائی اور گیرائی آئی۔ خیال رہے کہ عباس افندی کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب صہیونی یہودی فلسطین میں یہودی حکومت کی تشکیل کے لیے بھرپور جد و جہد کر رہے تھے۔
منبع: فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: راجر گیروڈی(Roger Garaudy) ایک فرانسیسی فلاسفر اور تدان ہیں وہ ۱۷ جنوری ۱۹۱۷ کو مارسیلی شہر میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک بے دین اور غیر مذہبی گھرانے سے تھا۔ ۲۰ سال کی عمر میں انہوں نے حضرت ابراہیم اور حضرت عیسی علیہما السلام کی تعلیمات پر ایمان لاتے ہوئے عیسائی مذہب قبول کر لیا۔ انہوں نے ۱۹۵۲ میں سوربن یونیورسٹی سے ادبیات میں ڈاکٹریت کی ڈگری حاصل کی۔
راجر گیروڈی ان تین سو افراد میں سے ایک تھے جنہیں ہٹلر نے ایک بیابان میں جلاوطن کر دیا تھا۔ وہ ۱۹۴۰ سے ۱۹۴۳ تک اس بیابان میں ایک کیمپ میں رہے۔ ایک دن کیمپ کے افسر نے اس میں رہنے والوں پر گولی چلانے کا حکم دیا لیکن کیمپ کے محافظ مسلمان سپاہیوں نے جرمن افسروں کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے گولی چلانے سے انکار کردیا اور کہا کہ ہم اسیروں پر گولی نہیں چلائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد جب گیروڈی مسلمان سپاہیوں کی طرف سے گولی نہ چلائے جانے کی وجہ معلوم کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ مسلمان ایسے لوگوں پر گولی نہیں چلاتے جن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں۔ یہی وہ لمحہ تھا جس کے بعد گیروڈی نے اسلام کے بارے میں تحقیقات کرنا شروع کر دیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی حریت کی طلب اور حقیقت کی جستجو میں گزار دی۔
راجر گیروڈی ۳۹ سال تک فرانس کی کمیونیسٹ پارٹی کے فعال رکن رہے کہ اس دوران ۲۵ سال اس پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی سربراہی کے عہدہ پر فائز رہے۔ انہوں نے کیمپ کی اسیری سے رہائی پانے کے بعد الجزایر میں فرانس ریڈیو میں کام کرنا شروع کیا اور ۱۹۴۵ میں ہٹلر کی شکست کے بعد فرانس واپس چلے گئے۔
گیروڈی ۱۹۴۵ سے ۱۹۸۵ تک فرانسیسی پارلیمنٹ کے نمائندے اور ۱۹۵۹ سے ۱۹۹۲ تک فرانس کی پارلیمانی سناریو کے رکن تھے۔ انہیں یہ جملہ کہنے پر کہ سوویت یونین قومی اتحاد ایک سوشیالیسٹ ملک نہیں ہے” کمیونیسٹ پارٹی سے نکال دیا گیا۔ متبادل”، زندوں کو آواز” اور ابھی زندگی کا وقت” ان کی بعض کتابیں ہیں۔
انہوں نے انسانی معاشرے کی تمام سماجی اور اجتماعی مشکلات کا حل اور انحطاط و پسماندگی سے نجات کا واحد راستہ، دین اسلام قرار دیا۔ بنابرایں، انہوں نے اسلام کے بارے میں مختلف کتابیں تحریر کرنے کے بعد ۱۹۸۱ میں رسمی طور پر اسلام قبول کر لیا۔
وہ اسلام کے بارے میں کہتے ہیں: اسلام ایک عالمی اور آفاقی دین ہے۔ میں جو عیسائی تھا، یا مارکسیسٹ تھا تو اس وجہ سے مسلمان ہوا کہ میں نے دین اسلام کو عالمی اور جہانی دین پایا۔ لہذا ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ آپسی اتحاد کے ساتھ دنیا کے ستمگر حکمرانوں کے خلاف جنگ کے لیے اٹھیں”۔ (۱)
پروفیسر راجر گیروڈی نے اپنے ایران سفر کے دوران قم موسسہ امام خمینی(رہ) میں ایک تقریر کی اور کہا: صہیونیوں نے سرزمین فلسطین کے عظیم منابع اور ذخائر پر قبضہ کر کے اس بڑے جرم یعنی فلسطین کو ہتھیانے کا ارتکاب کیا۔ اگر چہ صہیونیوں کی اس حرکت کی اقوام متحدہ اور حتی خود امریکہ نے بھی مذمت کی لیکن امریکی حکمرانوں نے ہمیشہ اسرائیل کے خلاف کسی قسم کے ٹھوس اقدام پر دلچسپی نہیں دکھلائی۔ امریکہ اور صہیونی ریاست صرف اپنے مفاد کی تلاش میں ہیں اور جہاں بھی انہیں اپنا مفاد نظر آئے وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں”۔
رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فرانسیسی مجاہد مسلمان راجر گیروڈی سے ملاقات میں، صہیونیت اور اس کے حامیوں سے مقابلے کو ایک عظیم الہی اور معنوی ذمہ داری قرار دیا اور اس جنگ اور مبارزے میں راجر گیروڈی کی شجاعت اور دلیری کو سراہا۔ آپ نے ۱۲ مئی سن ۲۰۰۰ کے نماز جمعہ کے خطبے میں فرانسیسی حکومت کے راجر گیروڈی کے خلاف اقدام (گیروڈی قائل تھے کہ جرمنیوں نے یہودیوں کا قتل عام نہیں کیا ہولوکاسٹ ایک خود ساختہ افسانہ ہے) کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: آپ نے کہاں دیکھا ہے کہ مغربی سرزمین پر کوئی صہیونیزم کے خلاف بات کرے۔
سینیگال کے شہر ڈیکار میں بین الاقوامی یونیورسٹی کی بنیاد، جنیوا میں مختلف تمدنوں کے درمیان گفتگو کے لیے ایک ادارے کا قیام، کورڈوا شہر میں ایک میوزیم قائم کر کے مشرق و مغرب کے درمیان روابط کی برقراری اس فرانسیسی مسلمان پروفیسر کی اہم سرگرمیوں میں شامل تھا۔
ان کی دیگر کتابوں ’’امریکہ انحطاط میں سب سے آگے‘‘، ’’اسرائیلی ت کے بنیادی افسانے‘‘ اور ’’اسراییلی فائل‘‘ وغیرہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
(۱)؛ میراث سوم (وعده های اسلام) روژه گارودی، ترجمه دکتر حدیدی،ص ۷ تا ۱۰٫

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے اندر معاشرتی دراڑیں مختلف سطحوں پر اور مختلف پہلووں میں پائی جا رہی ہیں، جبکہ ی مشینریاں بعض دراڑوں کو عمیق بنانے میں جیسے قومی دراڑ و شگاف اور مذہبی و سیکولر طبقے کے درمیان بڑھتی خلیج کے باقی رکھنے میں اپنا رول ادا کر رہی ہیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ کم از کم چار طرح کے قابل ذکر شگاف صہیونی معاشرہ میں پائے جا رہے ہیں ، یہ شگاف حسب ذیل ہیں :
۱۔ اعراب و یہودیوں کے درمیان تاریخی اور قومی شگاف
۲۔ یہودیوں کے درمیان نسلی شگاف
۳۔ یہودیوں کے درمیان دینی شگاف
۴۔ صہیونی سماج میں طبقاتی شگاف
یہ وہ دراڑیں ہیں جو بعض جگہوں پر ایک دوسرے کی شدت کا سبب بن رہی ہیں اور صہیونی رژیم کی آبادی کی تقسیم اس بات کا سبب بنی ہے کہ ان دراڑوں میں اور بھی گہرائی پیدا ہو چنانچہ صہیونی صدر جوکہ ہرتزلیا کانفرنس ۲۰۱۵ء میں اس کانفرنس کے بنیادی و اصلی مقررین کے طور پر مدعو تھا خود اس نے ہی صہیونی معاشرہ میں وسیع پیمانہ پر پائے جانے والی دراڑوں اور وہاںک کے آپسی اختلافات و تفرقوں کو ایک بڑے خطرہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے ان دراڑوں اور تفرقوں کے وجود کا اعتراف کیا ۔ روئن ریولین نے اس کانفرنس میں کہا : گزشتہ ۹۰ کی دہائی میں اسرائیلی معاشرہ ایک بڑی اکثریت و چھوٹی اقلیت سے تشکیل پاتا تھا جس میں اکثریت کا تعلق صہیونیوں سے تھا جو کہ تین اقلتیوں ، مذہبی صہیونیوں، عربوں اور افراطی آرتھوڈکسوں حریدیوں کے ساتھ اسرائیل سماج کو تشکیل دیتا تھا ۔ شاید آج بھی اسرائیل میں بہت سے لوگ یہ سوچتے ہوں اور ذرائع ابلاغ اور اسرائیل نظام کے لوگ یہ سوچتے ہوں کہ اسرائیلی سماج اب بھی اپنی پرانی حالت پر ہے ۔لیکن اس وقت سے لیکر اب تک حقیقت بنیادی طور پر تبدیل ہو چکی ہے فی الحال صورت حال یہ ہے کہ پہلے درجہ کے شہری سیکولر صہیونی ۳۸ فیصد قوم پرست و مذہبی۱۵ فیصد ۲۵ فیصد عرب اور ۲۵ فیصد افراطی آرتھوڈکس ہیں بہرحال آبادی کی بناوٹ کی تبدیلی ایک ایسی حقیقت ہے جو آج اسرائیل کے موجودہ چہرہ کو پیش کر رہی ہے اور اس موجودہ صورت حال میں حقیقت یہ ہے کہ کسی گروہ کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہے اور کوئی اقلیت چھوٹی نہیں ہے۔

 


بقلم سید نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج ہمارے ملک میں جو ہر طرف مسموم فضا چھائی ہوئی ہے اور بری طرح ہمیں چو طرفہ نشانہ بنایا جا رہا ہے اسکو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم بہت سوچ سمجھ کر اپنے مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کریں کہ ہمیں کس طرح آگے بڑھنا ہوگا؟۔  مستقبل کے خطوط کی ترسیم کے ساتھ ساتھ ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ  جتنا ہو سکے میڈیا کے ذریعہ قلم و بیان کے ذریعہ اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کریں کہ ہم نے مذہبی و نسلی بھید بھاو سے کس طرح اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا جہاں سب مل جل کر ملک کی ترقی میں حصہ لے سکیں اور طبقاتی فاصلوں کی دیواریں ملک کی ترقی میں آڑے نہ آئیں ۔
 اگر ہمارے خلاف زہر بھرنے والی طاقتیں صرف اس چیز کو جان لیں کہ ہم نے نسلی و مذہبی و قومی ہماہنگی میں ایک لافانی کردار ادا کیا ہے تو انہیں خود اندازہ ہو گا کہ  اجتماعی و معاشرتی زندگی میں جس طاقت کو وہ لوگ ہمارے خلاف استعمال کر رہے ہیں  اگر مسلمان اس ملک میں نہ آئے ہوتے تو ہرگز وہ اس گندے گٹر سے نہیں نکل سکتے ہیں  جہاں اس وقت چھوا چھوت کے تعفن میں پوری قوم کو مبتلا کئے انسانی صلاحیتوں گا گلا گھونٹ رہے تھے۔
چھوت چھات کی ایسی بیماری اس ملک کو لاحق تھی کہ قومیت کا تصور ہی مشکل ہو چکا تھا، ہندوستان کے لئے سب سے بڑی نعمت یہ رہی کہ مسلمانوں نے اجتماعی زندگی کا شعور دیا چونکہ اسلام کی نظر میں نہ طبقاتی نظام کی کوئی حیثیت ہے نہ نسلی و قومی برتری کا تصور، اس دور میں جب ہندو مذہب کا طبقاتی نظام دبے کچلے لوگوں کو مزید دبا رہا تھا مسلمانوں نے یہ تصور پیش کیا کہ  کوئی شخص پیدائشی طور پر نہ تو ناپاک ہوتا ہے کہ اسے دھتکار دیا جائے اور نہ ہی جاہل ہوتا ہے کہ اسے علم حاصل کرنے کاحق ہی نہ ہو اور نہ ہی خاص پیشے خاص لوگوں کے لئے ہوتے ہیں، بلکہ ایک ساتھ سب ایک جگہ بیٹھ بھی سکتے ہیں کھا بھی سکتے ہیں ، امیر و غریب پہلو بہ پہلو بیٹھ بھی سکتے ہیں کام بھی کر سکتے ہیں ، ہندوستان کے طبقاتی نظام کے لئے یہ مساوات کا پیغام کوئی معمولی بات نہیں ہے یہ وہ چیز ہے جسکا اعتراف ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے بھی یوں کیا ہے''  مسلمانوں کے عملی مساوات کے نظام نے ہندوں کے ذہنوں پر بہت گہرا رنگ چھوڑا خاص طور پر وہ ہندو جو اونچ نیچ کا شکار تھے اور برابری کے حقوق سے محروم تھے اسلام کے مساوات کے نظام سے بہت متاثر ہوئے'' {جواہر لعل  تلاش ہند ، ص ۵۲۶-۵۲۵ Discoery off india }
ہندوستان کی موجودہ فضا میں ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بنیادی مسئلہ کی  طرف لوگوں کی توجہات کو مبذول کرائیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے حقوق کی بازیابی کی جنگ کو بھی جاری رکھیں، اور پر امن طریقے سے مظاہرہ و احتجاج کرتے رہیں، اور ملک کو تقسیم کرنے والوں کو یہ سمجھا دیں کہ جب ہم نے کل دبے کچلے لوگوں کو سہارا دیا تو کیوں کر آج ہم ہر طرح کا ظلم سہہ سکتے ہیں اگر ہم دوسروں کو ظلم کی چلتی چکی کے پاٹوں کے درمیان سے نکال سکتے ہیں تو یقینا ایسانہیں ہو سکتا کہ خود کو ظلم و ستم کی چکی کے حوالے کر دیں ،ہماری آواز احتجاج اس بات کی علامت ہے کہ ہم آئین کی رو سے  حاصل حقوق کی روشنی میں اپنے حق کے لئے اس وقت تک لڑتے رہیں گے ہم تک ہمارا حق ہمیں نہ مل جائے ۔

 

 

 


گزشتہ سے پیوستہ

امریکا کی ت میں اکثر یہودی افراد شامل ہیں اور اس منصوبہ بندی کے پیچھے دنیا کے سب سے  بڑے  دولت مند اور پاورفل لوگ موجود ہیں جو دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کے مالک ہے یہاں تک کہ Uno اور World Bank,  unicefوغیرہ جیسے اداروں اور عالمی تنظیموں کے افراد بھی اس پروپیگنڈے میں شامل ہیں۔ اسی لئے ان کے لئے خود امریکیوں کا مرنا بھی کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔  9/11 کے حادثے کی زندہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس حادثے میں پانچ ھزار سے زائد امریکی مارے گئے تھے۔ اسلئے اس امریکی صہیونیوں سے بعید نہیں ہے کہ انہوں نے یہ منحوس وائرس ایجاد کیا ہو جو عمر رسیدہ  افراد کو ہی زیادہ تر نشانہ بنائے جس وجہ سے انہیں ایران کی بزرگ افراد جسمیں مراجع کرام شامل ہیں کو  ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ ہو۔ اور یوں امریکا کے سب سے بڑے دشمن ولی امر مسلمین امام خامنہ ای کو مین ٹارگیٹ میں رکھا گیا ہو۔ اس دوران  ابھی تک یہ لوگ ایران میں چند بڑی شخصیات کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ ان کے استکباری میڈیا نے اعلان کر ہی دیا ہے کہ امام خامنہ ای بھی اس وائرس میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔ یہاں تک کہ رہبرمعظم کے مشاور علی اکبر ولایتی تک یہ کرونا وائرس  پہنچایا گیا ہے۔ اور وہ اس وائرس سے متاثر ہوئے۔
 اس طرح یہ لوگ ایران میں بڑی اور انقلابی شخصیات کو نشانہ بنانے پہ تلے ہیں جسمیں سپاہ پاسداران اسلامی بھی شامل ہیں چنانچہ ایران کی اکثر انقلابی شخصیات عمر رسیدہ ہیں لیکن عالمی استکبار کی یہ پھونکیں نور الہی کو بجا نہیں سکتیں اور یہ لوگ  اپنے مکر میں زیادہ کامیاب نہیں ہونے والے ہیں۔ و مکروا ومکراللہ و اللہ خیر الماکرین۔ رسول اللہ ۖ فرماتے ہیں کہ یہ '' دنیا محضر خدا ہے '' اس میں جو بھی گناہ کرتا ہے وہ اس کیلئے بھاری پڑ جاتا ہے اور  مخلوق خدا  اور  عیال خدا کے ساتھ جو بھی چھیڑتا ہے خدا اس کے ساتھ چھیڑتا ہے ان کے اس مکر سے اب امریکی خود اس مرض کی لپیٹ میں آچکے ہیں بہر حال قدرت کا نظام ہی اسی طرح بنا ہے کہ جو کسی پر ظلم کرے وہ خود بھی ظلم کا شکار ہوتا ہے۔ جو کسی کے لیے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے۔
 امریکا کے وزیر خارجہ پمپو نے ایران کو چند بار مدد کی پیشکش کی اس کے جواب میں ایران کے سپریم لیڈر نے اپنے خطاب میں انہیں جواب دیا کہ ہمیں آپ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے آپ اپنے لوگوں کیلئے جو میڈیکل کی عدم سہولیات سے پریشان ہیں ان کی مدد کریں ۔ ایران کا انقلاب واقعا  پوری دنیا اورخصوصا یہاں کے لوگوں کیلئے بڑی نعمت ہے ایران نے اس وائرس  سے  جہادی طور پر جنگ کی ہے ۔ یہاں کی رضا کارانہ  فوج جو  یہاں پر بسیج  کے نام سے جانے جاتے ہیں نے بے حد شجاعانہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے رضاکارانہ طور پر یہاں کے ہسپتالوں میں کام کیا ہے، لوگوں کے گھر جا جا کر انہیں مفت میں جراثیم کش ادویات اور ماسک بانٹے ہیں۔  
امریکا اور برطانیہ اس shadow politics پالیسی کے ذریعے اپنے دیرینہ مفادات کو پانے کیلئے  بہت سی حدیں پار کرنا چاہتے ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرونا وائرس، برڈ فلیو سے زیادہ خطرناک ہے بلکہ اس کی شرح اموات میں زیادہ فرق نہیں ہے تو کیونکر اس کی دوا جلد تیار کی گئی اور کرونا کی دوا تیار کرنے میں یہ لوگ تساہلی سے کام لے رہے ہیں ۔
    BBC کی رپورٹ کے مطابق کرونا کی دوائی اٹھارہ مہینے تک آمادہ ہو جائے گی ۔ اگرچہ یہ دوائی پہلے ہی بنائی جا چکی ہے ادھر دوسری جانب ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ مذکورہ وائرس جلد ہی معجزاتی طور پر ختم ہو جائے گا۔ اگرچہ یہ بات مسلم نہیں ہے کیا پتا کہ یہ ایک اور سازش ہو دنیا کو تحقیق سے روکنے کیلئے کہ جس طرح چین نے مکمل طور پر اس وبا کو کنٹرول کیا ہوا ہے اسی طرح دوسرے ممالک بھی اس وائرس کو روکنے میں کامیاب ہوگئے تو امریکی مفادات حاصل نہیں ہوں گے۔
بہرکیف خداوند تعالی امریکا کی اس عالمی دہشت گرد رجیم کو کیفر کردار تک پہنچائے اور پوری انسانیت کو خدا اپنی رحمت کی آغوش میں رکھ کر اس منحوس وائرس کو دنیا سے جلد نابود کرے اور پوری دنیا میں امن و سلامتی قائم کرے ۔ آمین

رابطہ نمبر
00989927941087
Email: javeeddilnavi@gmail.com

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی موومنٹ کا اصلی مقصد ایک ایسی حکومت کی تشکیل تھا کہ جس میں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودی یہودیوں کی نابودی سے فرار کرتے ہوئے وہاں پناہ لے سکیں لیکن اس کی حقیقت کچھ اور ہی ہے ، یہودیوں کا قتل عام اور یہود ستیزی تو ایک بہانہ تھا کہ یہودیوں کو اس کے ذریعہ ہجرت کرنے پر وادار کیا جا سکے اور اس کے ذریعہ صہیونی اہداف کو حاصل کیا جا سکے ۔
یہودیوں کی ایجنسی کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان نے امریکی و یہودی کے ایک مشترکہ اجتماع میں اس سلسلہ سے کہا تھا : صہیونیت کے اصولوں میں سے ایک تمام یہودیوں کو اسرائیل لانا تھا ، ہم مختلف گھرانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمار ی مدد کریں تاکہ ہم انکے بچوں کو اسرائیل لے جائیں البتہ یاد رہے کہ اگر وہ ایسا نہیں بھی کریں گے تو ہم زبردستی انہیں اسرائیل لے جائیں گے ،، ان جملوں کا مطلب یہ ہے کہ صہیونی اہداف کے امتداد میں یہودیوں کی اپنی رائے اور انکی اپنی نظر کی کوئی اہمیت نہیں ہے .حتی بیت المقدس میں عبری یونیورسٹی کے بانیوں میں ایک ڈاکٹر ماگنس اس سلسلہ سے لکھتے ہیں : ہمارا ہمیشہ سے یہ خیال رہا کہ صہیونزم کی تحریک دنیا میں یہودی ستیزی کے ختم ہونے کا سبب ہوگی لیکن آج ہم اس کا بالکل الٹا اثر دیکھ رہے ہیں ۔
صہیونیوں نے یہود ستیزی سے سب سے زیادہ ناجائز فائدہ ہٹلر کے سامنے آنے کے بعد اٹھایا ، ماریس ارنسٹ رفیوجی اور ملک بدری امور سے متعلق بین الاقوامی ادارہ روزولٹ کے نمائندہ اس بارے میں کہتے ہیں :
جب یہودیوں کے لئے میں جرمنی میں ایک امن و س کی جگہ تلاش کر رہا تھا اس وقت یہودی میرے اس کام کے خلاف تھے اور میرا مذاق اڑا رہے تھے حتی شدت کے ساتھ میرے اوپر حملہ آور تھے ۔
صہیونیت کا نفاق اس وقت واضح ہوتا ہے جب آڈلف ایشمن نازیوں کا ایک سربراہ فلسطین جاتاہے اور یہود ایجنسی کے سربراہوں جیسے بن گارین ، ٹڈی کوکل وغیرہ سے ملاقات کرتا ہے جسکے بموجب ان لوگوں نے نازیوں سے ٹرانسفر کے توافق کے تحت ایک قرارداد پر بھی دستخط کئیے تاکہ وہ یہودی جو فلسطین ہجرت کر کے جانا چاہتے ہیں وہ اپنے سرمایہ کو منتقل کر سکیں جبکہ یہ اس وقت کی بات ہے جب یہودیوں نے جرمنی پر پابندیاں عائد کی ہوئی تھیں ۔
جوبات مسلم ہے وہ یہ کہ فلسطین میں اسرائیلی حکومت کی تشکیل کی خاطر دنیا میں بہت سے یہودیوں کو صہیونزم کے جعلی یہود ستیزی کے ڈرامہ کا شکار ہونا پڑا ۔
Alison Weir
Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


ہمارے بعض حکام سمجھتے ہیں کہ برطانیہ طاقت کا مرکز ہے، کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے جو انسانیات (Humanities) کا جو نظام مرتب کیا، اس کے ذریعے یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے کہ لوگوں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور بغیر اخراجات کے دوسروں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور یوں وہ حکومت سے حاصلہ مفادات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ روش انگریزوں نے سیکھ لی اور اچھی طرح سیکھ لی۔

خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کی رپورٹ کے مطابق، ڈاکٹر یعقوب توکلی اسرائیل کے صنفیاتی مطالعے اور پہچان کے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں؛ وہ حوزہ علمیہ کے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ وہ مجلہ زمانہ کے چیف ایڈیٹر، اسلامی فکر و ثقافت تحقیقاتی مرکز کے شعبے تاریخ تمدن” گروپ کے ڈائریکٹر، مجلس شورائے اسلامی (پارلیمان) کے ارشاد و تبلیغ کے شعبے کے ڈائریکٹر اور دفاع مقدس کے دائرۃ المعارف کے منصوبے میں شہداء گروپ کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر فائز رہے ہیں۔
کتاب حقیقت سیمر” ان کی اہم ترین کاوشوں میں شمار ہوتی ہے جو حزب لبنان کے کمانڈر شہید سمیر قنطار کے حالات زندگی پر مشتمل ہے۔ شہید قنطار عشروں تک یہودی ریاست کے قیدخانوں میں اسیری کے زندگی گذار چکے تھے اور انھوں نے جناب توکلی کے ساتھ ایک تفصیلی مکالمے کے دوران اپنی یادیں ریکارڈ کرائیں تھیں جنہیں ڈاکٹر صاحب نے داستانی اسلوب میں مرتب کرکے کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔ ذیل کا متن ڈاکٹر یعقوب توکلی کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کا انٹرویو ہے، جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
– معاصر تاریخ میں یہودیوں کی عہد شکنیاں
بسم اللہ الرحمن الرحیم،
ایک حقیقت ـ جو انقلاب اسلامی اور تشیع کے عنوان سے اسلامی انقلاب کے بعد ظالمانہ یلغار کا نشانہ بنی ـ ہمارے ساتھ صہیونیت اور اسرائیل کی دشمنی کی حقیقت ہے جس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت کو کئی پہلؤوں سے دیکھنا چاہئے، ایک پہلو یہ ہے کہ صدر اول میں یہودیوں کی تاریخی دشمنی کا نشانہ مسلمان تھے اور یہ دشمنی بعد کے ادوار میں تشیع کے خلاف جاری رہی۔
یہ دشمنی کسی بھی دور میں تعطل کا شکار نہیں ہوئی، یعنی کبھی بھی صہیونیت اور یہود ہمارے دوست نہیں بنے، بلکہ اگر کسی دور میں ہمارے نا آگاہ دوستوں نے مسامحت کی سی کیفیت پیدا کی تو یہودیوں نے اس کیفیت سے اپنے حق میں فائدہ اٹھایا؛ یہاں تک کہ ایران میں پہلوی خاندان کی حکمرانی قائم ہوئی تو یہ خاندان آل سعود کو سواری دے رہا تھا اور مختلف اشکال میں ان کی مدد کررہا تھا؛ ایسی ناقابل انکار دستاویزات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جعلی یہودی ریاست ہمارے اندرونی معاملات میں نہایت بےشرمی کے ساتھ مداخلت کرتی تھی۔
یہاں تک کہ یہودیوں کی مداخلت نے شاہ ایران کو بھی تھکا دیا تھا اور کبھی وہ بھی تنگ آ جاتا تھا اور ان مداخلتوں کو برداشت نہیں کرپا تھا تھا۔ کیونکہ ان کی مداخلت حتی شاہ کی حکومت کو بھی خطرے سے دوچار کر دیتی تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہ شاہ کے قوم پرست اور کمیونسٹ مخالفین کے ساتھ رابطہ قائم کرتے تھے اور حکومت کی اندرونی تہوں تک پہنچنے کے درپے رہتے تھے۔ تاکہ ایران کے ایسے معاشی فیصلوں میں اپنی رائے مسلط کرسکیں جو شاہ کی خفیہ ایجنسی ساواک پر حاوی تھے۔
البتہ پہلوی حکومت اس مسئلے کی طرف توجہ رکھتی تھی لیکن ان کا تسلط پہلوی بادشاہ کی مرضی سے کہیں زیادہ تھا اور وہ ہر صورت میں مداخلت کرتے تھے۔ مثال کے طور پر مجھے ایران میں اسرائیل کے خفیہ اداروں کے نمائندہ یعقوب نیمرودی” کی مداخلتیں یاد ہیں اور مجھے یاد ہے کہ وہ ایران میں مختلف سماجی اور ی طبقوں سے رابطے برقرار کرچکا تھا۔
یہودی ریاست کے بھیجے ہوئے افراد کی تعداد ـ پہلوی حکومت کی مرضی کے بغیر ـ ایران میں بہت زیادہ تھی۔ اگر آپ تاریخ میں کہیں ایران اور یہودیوں کی دوستی کا تذکرہ دیکھتے ہیں تو دوستی نہیں تھی بلکہ ان ادوار میں یہودیوں نے ایرانیوں اور ایرانی حکومتوں سے فائدہ اٹھایا ہے اور دوستی کا مقصد بھی یہی رہا ہے۔ وہ قدیم تاریخ میں بھی اس موضوع کی طرف توجہ رکھتے ہیں، کوروش کی تعریف کرتے ہیں؛ کیونکہ انھوں نے کوروش کو بھی اپنے مفاد کے لئے استعمال کیا اور ان سے فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے کوروش کو قائل کرلیا کہ جاکر سرزمین فلسطین میں ان کے لئے لڑیں اور فلسطین کو بخت النصر سے آزاد کرا کر یہودیوں کے حوالے کریں۔
لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ واقعہ ایسے وقت رونما ہوا جب یہودی آکر بین النہرین اور بابل میں ست پذیر ہوچکے تھے، کیونکہ وہ یہاں سونے کی منڈی اور سودی کاروبار کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے تھے؛ یہ وہ یہودی تھے جو فلسطین کی کوروش کے ہاتھوں آزادی کے بعد بھی بابل چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے؛ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ بعد کے ادوار میں عراق اور بابل کے علاقے میں بہت سارے یہودی آباد تھے، عراقی یہودیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ بطور مثال پہلی عالمی جنگ میں صرف بغداد میں رہائش پذیر یہودیوں کی آباد دو لاکھ تک پہنچتی تھی۔
– کیا اب بھی عراق میں یہودی موجود ہیں؟
عراق میں ان کی ست بہت محدود ہوچکی ہے، یعنی جب اسرائیل نامی ریاست معرض وجود میں آئی، اس زمانے میں حکومت عراق کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیاں شروع ہوئیں؛ دھماکے کئے جاتے تھے اور ان کی ذمہ داری یہودیوں پر ڈالی جاتی تھی تاکہ عراقی حکومت یہودیوں پر اپنا دباؤ بڑھا دیں اور نتیجے کے طور پر عراقی یہودی مقبوضہ فلسطین میں جاکر بسیں۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ عراق میں یہودیوں کی ست محدود ہوگئی۔ میری بات کا مقصد اعلی سطحی تعلقات ہیں، یکطرفہ تعلقات اور فریق مقابل کا یہودی مفادات کے لئے استعمال ہے، میری بات کا مقصد پڑوسی یہودی نہیں ہیں، یہ یہودی معاشرے کے لوگ ہیں، میرا مقصد صہیونی یہودی نہیں ہیں۔
یعنی ی صہیونیت نے ی شعبے میں ان لوگوں اور قوتوں کو استعمال کیا جن کے ساتھ ان کا بظاہر دوستانہ تعلق تھا۔ لیکن اس وقت سنجیدگی کے ساتھ ہم مسلمان اور شیعہ کے عنوان سے صہیونیت کی دشمنی کا ہدف ہیں؛ اسرائیل کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین کے ذہنوں میں اس تصور نے جنم لیا ہے، اور یہ مسئلہ آہستہ آہستہ ایک اعتقاد میں بدل چکا ہے کہ یہودی ایک جعلی طاقت کے مالک ہیں؛ ہاں وہ جعل و تحریف کرتے ہیں اور قرآن نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ جعل اور تحریف کرنے والے ہیں، یہ نہ صرف تاریخ میں تحریف کرتے ہیں بلکہ پوزیشن اور واقعات میں بھی تحریف کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر عسکری میدان میں ان کے پاس ایک میزائل ہے تو کہیں گے کہ ہمارے پاس ۱۰۰۰ میزائل ہیں” تا کہ آپ ایک ہزار میزائلوں کا خواب دیکھیں اور پھر یقین کرلیں کہ آپ کے دشمن کے پاس ایک ہزار میزائل ہیں، اگر ان کے پاس تھوڑی سی طاقت ہو تو کہیں گے کہ یہ طاقت سو گنا زیادہ ہے؛ تو اس صورت میں انجام کار کیا ہوگا؟
ممکن ہے کہ کسی موضوع میں ان کا کوئی کردار نہ ہو لیکن یہ جتانے کی کوشش کریں گے کہ اس موضوع میں ان کا کردار تھا بلکہ دعوی کریں گے کہ وہی اس موضوع اور واقعے کا اصل کردار ہیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ تصورات کی دنیا میں ایک عظیم طاقت کو اپنے سامنے پائیں گے اور تصور کریں گے کہ طاقت کا ایک عظیم سلسلہ آپ کے سامنے ہے، حالانکہ حقیقت میں وہ طاقت سرے سے موجود ہی نہیں ہے؛ یا پھر آپ صہیونیت کے عناصر کو کسی موضوع میں شریک دیکھتے ہیں جبکہ اس موضوع میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا؛ ان مسائل کا نتیجہ کیا ہوگا؟
– حقائق اور واقعات میں تحریف کا فائدہ کیا ہے؟
اس کا فائدہ یہ ہے کہ آپ ایک حریف یا علیحدہ یا غیرجانبدار قوت کے طور پر جہاں بھی جاتے ہیں، اس طاقت کا سایہ اپنے پیچھے آتا ہوا دیکھتے ہیں؛ یہ وہی تجربہ ہے جو برطانیہ نے اپنی خارجہ پالیسی میں حاصل کیا اور اقوام عالم کے آگے طاقت کا ایک تصوراتی ہیولا کھڑا کرکے نہایت قلیل آبادی کے باوجود پوری دنیا پر حکومت کی۔ اس کی دوسری مثالیں بھی ہیں؛ اور یاددہانی کے لئے برطانیہ کی طرف اشارہ کرتا ہوں جو ہندوستان پر مسلط ہوا، وہاں کے کئی سو میلین ہندوستانیوں کو شکست دی اور ایران دنیا کے مختلف ممالک پر مسلط ہوا، لیکن ان ہی برطانویوں کو سوڈان میں شکست ہوئی؛ اس شکست کا سبب کیا تھا؟
سوڈان میں وہ ایسے وہ افراد اور اوزار تلاش نہیں کرسکے تھے جن کے ذریعے وہ وہم اور خوف کا وائرس عوام تک منتقل کرسکتے توہم کو اس ملک کے عوام میں منتقل کرسکتے تھے، چنانچہ سوڈانیوں نے تمام انگریزوں اور جنرل بورڈن کو ہلاک کرڈالا اور انگریز مدتوں تک سوڈان کی طرف جانے کی جرئت نہیں کرسکتے تھے۔ انیسویں صدی میں انگریزوں نے افغانستان کا رخ کیا؛ اور افغانستان میں بھی شکست سے دوچار ہوئے، نہایت ہولناک شکست کھانا پڑی۔
وہ مدتوں تک افغانستان جانے کی جرئت نہیں کرستے تھے؛ کیونکہ وہ افغانستان میں ایسے افراد کو تلاش نہیں کرسکے تھے جن کو وہ منوا سکیں کہ انگریز افغانیوں سے زیادہ طاقتور ہیں اور یہی خوف وہ عوام میں رائج کریں لیکن انھوں نے ایران میں یہی کام کیا؛ عسکر خان رومی سے لے کر میرزا ملکم خان اور حتی رضا خان نوری اور محمود محمود تک، جناب خان ملک ساسانی سے لے کر محمد علی خان فروغی اور دوسروں تک، اور ان جیسے بہت سے دوسرے یقین کرچکے ہیں کہ برطانیہ طاقتور ہے۔
ہمارے بعض حکام سمجھتے ہیں کہ برطانیہ طاقت کا مرکز ہے، کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے جو انسانیات (Humanities) کا جو نظام مرتب کیا، اس کے ذریعے یہ اندازہ لگانے میں کامیاب ہوئے کہ لوگوں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور بغیر اخراجات کے دوسروں کے ذہنوں پر حکومت کی جاسکتی ہے اور یوں وہ حکومت سے حاصلہ مفادات کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ روش انگریزوں نے سیکھ لی اور اچھی طرح سیکھ لی۔
جو کچھ انھوں نے تاریخ کے تجربے سے سیکھا، اسے اگلوں کو منتقل کیا اور ان کے درمیان یہ تجربہ باقی رہا لیکن جس وقت آپ برطانیہ کے حقائق اور ان ظاہری واقعات کے پس پردہ دیکھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ برطانیہ کی حقیقت نہیں ہے، بلکہ برطانیہ تو اسرائیل کا ورثہ لیئے ہوئے ہے لیکن بعد میں ہم دیکھتے ہیں کہ برطانیہ ہی اسرائیل کو معرض وجود میں لاتا ہے، لہذا اسرائیل کے نزدیک خوف و ہراس پیدا کرنے کا تجربہ اسلحے، وسائل اور مختلف قسم کے اوزار دینے سے زیادہ اہم اور قابل قدر تھا؛ چنانچہ اسرائیل اپنی ابتداء ہی سے کوشاں رہا کہ اسرائیل کی برتری کے وہم کو منتقل کرے۔
بالفاظ دیگر طاقت کا وہم پیدا کرنے اور حقائق میں تحریف کے سلسلے میں انھوں نے اچھی خاصی مہارت کا مظاہرہ کیا، اسی بنا پر مختصر سی جنگیں ـ جو انھوں نے لڑیں ـ جنگ کا اچانک کا آغاز کرکے شوشہ چھوڑ دیتے تھے کہ اسرائیل ناقابل شکست ہے”، حالانکہ اگر ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ جنگ اگر ۱۶ دن تک پہنچتی تو اسرائیل کو شکست ہوتی؛ اگر جنگ کچھ ہی دن مزید جاری رہتی تو اسرائیلی شکست کھا جاتے، چنانچہ وہ عربوں کے ذہنوں پر مسلط ہوئے، اور چونکہ ان کے ذہنوں پر مسلط ہوئے تھے آسانی سے عربوں کو شکست دے سکے۔
مجھے یاد ہے کہ کسی زمانے میں سید محمد شیرازی نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا دنیا یہود کا بازیچہ”؛ جس میں وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ یہودی پوری دنیا پر مسلط ہیں، اور ہر جگہ موجود ہیں، یہودی ہر جگہ طاقتور ہیں، ذرائع ابلاغ ان کے ہاتھ میں ہیں، اور یہ سوچ ہمارے ہاں بھی یہودیت کے بارے میں تحقیق کرنے والے دانشوروں کے درمیان راسخ ہوئی۔
یہودیوں کے بارے میں جادو ٹونے کرنے والے گروہ بھی ہیں، افسانہ سازی کرتے ہیں، جھوٹ پھیلا دیتے ہیں، کیونکہ ان کے ہاں داستان پردازی رواج رکھتی ہے، سوال یہ ہے کہ لوگ دوسروں کی داستان پردازیوں سے کیوں نہیں ڈرتے؟ وہم و گمان کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ اس لئے کہ ہم نے داستانوں کے اس وہم پردازی والے پہلو پر زور نہیں دیا۔ ہمارے ہاں کی ایک مشکل یہ ہے کہ یہود کے بارے میں تحقیق کرنے والے بعض محققین نے عجیب انداز سے اس طاقت ان کی اصل طاقت سے کہیں زیادہ دیکھا۔ میں نے اپنی کتاب عقاب علیہ شیر (عقاب شیر کے خلاف)” میں بھی ایک مثال دی ہے اور کہا ہے کہ تسلط پسند استکباری نظام ایک اخطبوطی (octopuslike) نظام ہے۔ اخطبوط (یا اخبوط) کے آٹھ بازو ہیں اور اس کا حلیہ بہت ہولناک ہے لیکن جب جب وہ شکار کو آٹھ بازؤوں سے پکڑتا ہے لیکن کیا اس کی پوری طاقت یکجا ہوجاتی ہے؟

 


بقلم نجیب الحسن زیدی

جب بھی ہمارے درمیان امام زمانہ عجل اللہ تعالی الشریف کے انتظار کی بات ہوتی ہے تو بہت سے جوانوں کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات گردش کرنے لگتے ہیں کہ آخر انتظار کیوں ؟ وہ بھی اتنا طویل انتظار اور پھر انتظار کے معنی کیا ہیں ؟ اس لیے کہ انتظار کے سلسلہ سے بھی معاشرہ میں مختلف معنی بیان ہوتے ہیں کوئی انتظار کا مطلب محض امام ع کی سلامتی کی دعاوں اور ان سے توسل میں جانتا ہے تو کوئی اس کے معنی کو ظہور امام عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے جوڑتا ہے اور عصر غیبت میں آپکے ظہور کے لئے مکمل آمادگی کو انتظار سمجھتا جبکہ انتظار ایک فطری امر ہے جس کے لئے اثبات کی ضرورت نہیں بلکہ انسان اپنے وجود کے سلسلہ سے اگر غور کرے گا تو کیفیت انتظار کو پورے وجود پر طاری پائے گا، انسان طالب چین و س ہے ، اسے تحفظ چاہیے ، اسے امن چاہیے اسے مشکلوں سے نجات چاہیے تو کیسے ممکن ہے کہ پروردگار نے یہ ساری خواہشیں انسان کے وجود میں رکھی ہوں لیکن ایک ایسے منجی کا انتظام نہ کرے جو پروردگار کے مطلوب معاشرہ کو تشکیل دے کر بتائے کہ الہی قوانین کا مکمل نفاذ کیونکر ایک انسان کو وہ سب کچھ دیتا ہے جس کی تشنگی پروردگار نے انسان کے وجود میں رکھی ہے۔
ادیان ومذاہب میں انتظار ایک مشترکہ قدر:
شک نہیں کہ ”انتظار انسانی فطرت میں شامل ہے اور ہر قوم و ملت اور ھر دین و مذھب میں انتظار کا تصور پایا جاتا ہے، انتظار کے اندر جو چیز اسے اہم بناتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان انتظار کس کا کر رہا ہے ؟ اب رہ جاتی ہے بات اس شخصیت کے انتظار کی جسکی آمد کا انتظار ہر قوم و ملت میں ہے تو ظاہر سی بات ہے اسکی اپنی ایک عظمت ہے اور اس کی اپنی ایک جلالت ہے
اس لئے کہ منجی آخر کا تصور ہر قوم و مذہب میں پایا جاتا ہے اور ہمارے لئے یہ بہت اہم اس لئے ہے کہ اس کے سلسلہ سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث وارد ہوئی ہیں اور اسی بنیاد پر تقریباً اسلام کے تمام فرقے اس سلسلہ میں اتفاق نظر رکھتے ہیں، نیز اس سلسلہ میں احادیث بھی متوا تر ہیں۔
عقیدہ انتظار باعث ارتقاء یا زوال :
ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس قسم کے شبہات چھیڑے بھی ہیں کہ انتظار کی بنیاد پر سارے کام ٹھپ ہو جاتے ہیں اور ایک طرح ساری قوم ایک فرد واحد کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے اس کی ساری امیدیں اس بات سے وابستہ ہوتی ہیں کہ ہم جس کا انتظار کر رہے ہیں جب وہ آئے گا تو کچھ ہوگا جسکی بنیاد ہر قوم تنزلی کی طرف جاتی ہے اور جدو جہد نہیں کر پاتی۔
جہاں تک اس شبہے کی بات ہے تو یہ ایک منفی طرز فکر کا عکاس ہے اس لیے کہ نہ صرف یہ کہ انتظار کی کیفیت میں انسان مکمل طور پر بیدار ہوتا ہے ہر طرح کی غفلت برتنے تک سے پرہیز کرتا ہے اور وہی کچھ انجام دیتا ہے جو اس کے منتظر کو مطلوب ہو اس قسم کی باتیں کرنے والوں کو سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ انتظار کہتے کسے ہیں؟
مفہوم انتظار
لغت میں انت‍ظار کے معنی کسی کی راہ تکنے اور کسی کی آمد کے لئے چشم براہ ہو نے کے بیان ہوئے ہیں ۔
انتظار روح کی ایسی کیفیت ہے جو انسان کی آمادگی کا سبب بنتی ہے جبکہ اس کے مخالف مفہوم مایوسی کا ہے جتنی شدت کا انتظار ہوگا اتنا ہی انسان اس کی تیاری بھی کرے گا
انسان جب کسی منجی کا انتطار کر رہا ہے تو جہاں وہ عدل و انصاف پر مبتنی معاشرہ کی تشکیل کا خواہاں ہے بالکل سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ صورت حال سے راضی نہیں ہے اورظلم و جور کا مخالف ہے لہذا ایک منتظر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم و ستم، فتنہ و فساد اور برائی کرنے والوں کی کسی بھی طرح کی اعانت اور ہم آہنگی سے پرہیز کرے اوراپنے نفس کی اصلاح کرے تاکہ جسمانی اور ، مادی اور معنوی لحاظ جس کا انتظار کر رہا ہے سے اسکی توقعات پر پورا اتر سکے۔
اس لئے کہ ”انتظار ہمیشہ منتظر کی اہمیت کے ساتھ انسان کی قدر و قمیت کو بیان کرتا ہے اب اتنظار چاہے معمولی ہو مگر ایک چیز ہر انتطار میں مشترک ہے اور وہ انتظار کرنے والے کی اپنی آمادگی و تیاری ہے۔
ایک مسافر کے سفر سے واپسی کا انتظار اسکا انداز الگ ہوتا ہے ۔ایک بہت ہی عزیز دوست کے پلٹنے کا انتظار۔اسکا انداز مختلف ہے۔
پھلوں کے پکنے کی فصل کا انتظار یا فصل کاٹنے کے وقت کا انتظار ۔اسکا انداز بھی نوعیت کے اعتبار سے الگ ہے لیکن ہر انتظار کی کیفیت متعلق انتظار پر منحصر ہے اورہر انتظار میں ایک طرح کی آمادگی ضروری ہو تی ہے، ایک انتظار میں مہمان نوازی کا سامان فراہم کیا جائے، دوسرے میں بعض دوسرے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ہر ایک میدان کی الگ الگ ضرورتیں ہیں اگر ایک فوج اپنے دشمن سے مقابلہ کرنا چاہے تواسکی ایک تیاری ہوتی ہے اس کے لئے ایسے اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس جہاد کے لئے مناسب اور کارگر ہو، اسی لحاظ سے مورچہ بنائے، اور لشکرکے ساز و سامان میں اضافہ کرے۔لشکر کا حوصلہ بلند کرے اور ہر فوجی کے دل میں مقابلہ کے شوق و رغبت کو بڑھائے ، اگر فوج میں اس طرح کی آمادگی نہیں ہے تو وہ دشمن کے حملہ کی منتظر نہیں ۔
ایک عالمی مصلح کے انتظار کے معنی یہ ہیں کہ انسان معاشرہ کی اصلاح کے لئے مکمل طور پر فکری، اخلاقی اور مادی و معنوی لحاظ سے تیار رہے، پوری دنیا کی اصلاح کرنا اور ظلم و ستم کا خاتمہ کرنا کوئی کھیل نہیں ہے، یہ عظیم مقصد ہے ، ایسے عظیم مقصد کے لئے اسی لحاظ سے تیاری بھی ہونی چاہئے۔ایسے مقصد کے لئے اپنی اصلاح کے لئے ضروری ہے کہ فکری، اخلاقی اور اجتماعی طور پر ایک بہترین منصوبہ بندی کی جائے ، اور حقیقی انتظار کا یہی مطلب ہے، کیا پھر بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسا انتظار قوم کی تنزلی کا سبب ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک انتظار کرنے والا محض اپنے بارے میں نہیں سوچ رہا ہوتا ہے وہ پوری قوم کو دیکھ رہا ہوتا ہے جیسا کہ ایک بہادر جنگجو و مجاہد صرف یہ نہیں دیکھ رہا ہوتا ہے کہ وہ کتنا کامیاب ہے بلکہ اپنی کامیابی کے ساتھ اسے اپنے لشکر کی کامیابی کی فکر بھی رہتی ہے اس لئے اس کے بظاہر کامیاب ہونے کے بعد بھی لشکر اگر ناکام ہو گیا تو وہ بھی ناکام ہی کہلائے گا چنانچہ صحیح طور پر انتظار کرنے والے افراد کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ صرف اپنی اصلاح کرلی جائے، اور بس، بلکہ دوسروں کی حالت بھی دیکھنی ہوگی، اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کے لئے کوشش کرنا ہوگی، کیونکہ جس عظیم انقلاب کا انتظار کررہے ہیں وہ ایک انفرادی منصوبہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں تمام پہلووٴں سے انقلاب آنا ہے، جس کے لئے پورے معاشرہ میں ایک ھم آہنگ حرکت ضروری ہے۔
جس طرح ایک مقابلہ کرنے والے لشکر میں کوئی بھی ایک دوسرے سے غافل نہیں ہوسکتا، بلکہ ہر فوجی کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ جہاں بھی کمی دیکھے تو فوراً اس کی اصلاح کرے ، جس جگہ سے نقصان کا احتمال پایا جاتا ہو اس کا سدّ باب کرے اور ہر طرح کے ضعف و ناتوانی کو تقویت پہچائے، کیونکہ بہترین کارکردگی اور تمام لشکر میں یکسوئی اور ہم آہنگی کے بغیر یہ عظیم منصوبہ عملی کرنا ممکن نہیں ہے۔
لہٰذا حقیقی منتظرین پر اپنی اصلاح کے علاوہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
منتظرین کی ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ زندگی کے مختلف شعبہ ہائے حیات میں اس طرح خود کو آمادہ و تیار رکھیں کہ امام علیہ السلام کو بعد از ظہور جہاں بھی ہماری ضرورت ہو ہمیں اس محاذ پر جانے میں کوئی تامل نہ ہو کہ ہم نے خود کو ہر طرح تیار کیا ہوا ہے علمی ی اقتصادی ہر محاذ پر ہم اپنے امام کا ساتھ نبھا سکتے ہیں۔
البتہ امام کے ظہور کی مکمل تیاری اسی وقت ممکن ہے جب ہم فکری و ثقافتی اعتبار سے بھی ہر طرح سے خود کو لیس کر چکے ہوں اور آمادہ و تیار ہوں فکری اور ثقافتی آمادگی کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کی فکر بلند ہو جائے ۔ خود ان کو یہ سمجھ میں آنا چاہیے کہ قومیت ،نسل پرستی و عصبیت کے، انسان کی زندگی میں کوئی معنی نہیں ہیں ۔ رنگ و زبان میں اختلاف ہونا انسان کی قدر و قیمت میں کوئی دخالت نہیں رکھتا ۔ہم سب الگ الگ نسلوں ،خطوں ملکوں اور شہروں و قبیلوں سے ہونے کے باوجود ایک ہی قبیلہ کے باشندہ ہیں اور وہ ہے قبیلہ انتظار اور بس
اسی کے ساتھ اجتماعی طور پر بھی ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کے اندر یہ شعور بیدار ہو سکے کہ جب تک ہماری اجتماعی طاقت نہیں ہوگی ہرگز ہم اپنے دشمن پر کامیاب نہیں ہو سکتے لیکن اگر اجتماعی شعور ہے تو تعداد میں کمی کے باوجود ہم دشمن کو ناکوں چنے چبوا سکتے ہیں جیسا کہ حزب اللہ نے اسرائیل کے ساتھ کیا ،یہی وجہ ہے اسرائیل آج دنیا کے ۵۰ سے زائد نام نہاد اسلامی ممالک کے ہوتے ہوئے کسی سے ڈرتا ہے تو وہ حزب اللہ ہے ،اس لئے کہ وہ حقیقی منتظر ہیں اور انہیں پتہ ہے کب کیا کرنا ہے ۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فرقہ بہائیت نے جو سامراجی نظام خصوصا برطانیہ کے لیے خدمات انجام دیں اس کی ایک مثال پہلی جنگ عظیم میں عثمانی بادشاہت کی سرنگونی کی غرض سے برطانیہ کے لیے جاسوسی تھی جس کے بدلے میں انہیں کافی مراعات ملیں۔
’شوقی افندی‘ کے بقول صہیونیت کی حاکمیت کے دوران بہائی اوقاف کے نام سے فلسطین میں ایک شاخ قائم کی گئی کہ جس سے ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا اور اس کے علاوہ بہائیوں کے مقدس مقام کے نام پر دنیا بھر سے جو کچھ فلسطین آتا تھا وہ کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس سے معاف ہوتا تھا۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ صہیونی یہودی، فلسطین کو برطانیہ کے قبضے سے الگ کروانے سے پہلے سلطان عبد الحمید کے پاس گئے، اور انہیں مختلف وعدے دے کر ان کی رضایت کو حاصل کرنے کی کوشش کی اور ان سے اس سرزمین کو یہودیوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ لیکن چونکہ انہوں نے اس معاملے میں یہودیوں کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کیا اسی وجہ سے ان سے اس سرزمین کی حاکمیت چھین لی گئی۔
سلطان عبد الحمید چونکہ بہائیوں اور انگریزوں کے باہمی پروپیگنڈوں سے آگاہ ہو گئے تھے اس وجہ سے انہوں نے اپنی سلطنت کے خاتمے سے قبل بہائیوں کے سربراہ کے قتل اور اس کی نابودی کا حکم دے دیا۔ شوقی افندی اپنی کتاب ’قرن بدیع‘ میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ عثمانی حکمران ’جمال پاشا‘ نے ’عباس افندی‘ کو جاسوسی کے جرم میں قتل کی دھمکی دی۔
اس بار بھی برطانیہ بہائیوں کی فریاد کو پہونچتا ہے اور ان کی خدمتوں کا صلہ دیتے ہوئے ’’لورڈ بالفور‘‘ فلسطین میں برطانیہ کے جنگی کمانڈر ’اللنبی‘ کو ایک خط کے ذریعے حکم دیتا ہے کہ ’عبد البہاء‘ (عباس افندی) اور اس کے خاندان کو فوج کی حمایت میں رکھے اور ہر طرح کے خطرے اور گزند سے محفوظ رکھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صہیونی ریاست کے قیام کے بعد ’عباس افندی‘ کی خدمتوں کا بدلہ دیتے ہوئے اسی برطانوی جنرل نے انہیں (sir) کا لقب دیا۔
کچھ عرصے کے بعد جب عباس افندی فوت کر جاتے ہیں تو فلسطین میں برطانوی کمیشنر اور معروف صہیونی شخصیت ’سر ہربٹ ساموئل‘ برطانیہ کی جانب سے افندی کے خاندان کو تسلیت پیش کرتے ہیں اور بذات خود افندی کے تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ہیں۔
عباس افندی کے بعد شوقی افندی بہائیت کی سربراہی کی لگام کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہیں اور بہائیت اور صہیونیت کے درمیان تعلقات کو مزید بڑھاوا دیتے ہیں۔
ماخذ
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.

 


بقلم سید نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دہلی کے حالیہ فسادات کی نوعیت بتا رہی ہے کہ یہ ایک سوچہ سمجھا منصوبہ تھا ان فسادات کے ذریعہ ایک واضح  پیغام یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر ہماری ہاں میں ہاں نہیں ملائی گئی اور اپنے اختیار کا استعمال ہمارے خلاف کیا تو تمہاری زندگی کو کیڑوں مکوڑوں کی زندگی میں بدل دیں گے ، ہم حق حیات بھی چھین سکتے ہیں اور اگر یہ حق دیں گے بھی تو زندگی کے حقوق کو سلب کر کے اور تمہیں اسی طرح جینا ہوگا  کہ اپنے کسی حق کے لئے کھڑے ہونے کے بارے  میں نہ سوچ سکو اور ہرگز یہ نہ سمجھنا کہ تمہیں انصاف مل سکے گا اس لئے کہ اگر کوئی انصاف کرنے  کے لئے آگے بڑھے گا تو ہم اقتدار میں  ہیں اس سے اسکا منصب چھین کر اسے شہر بدر بھی کر سکتے ہیں۔
 غرض منصف بھی تبھی تک منصف ہوگا جب تک ہم چاہیں گے اور جب تک وہ ہماری منشاء کے مطابق بولے تبھی تک عدالت میں اسکی بات معتبر ہوگی لیکن ہماری منشاء کے خلاف اگر کچھ کہا اور ضمیر کی آواز سن کر فیصلہ کیا تو ہمارا فیصلہ اسکے خلاف ہوگا جسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ عدالت میں اسکی دسترس کو ہی ختم کر دیا جائے گا  ایسی جگہ بھیج دیا جائے گا جہاں کی دنیا ہی الگ ہو معاملات ہی الگ ہوں ۔
یقینا دہلی کے فسادات دل دہلانے والے ایسے مناظر پیش کر رہے ہیں جنہیں دیکھ کر انسان بے چین ہو جاتا ہے اور ایک ایسا کرب و اضطراب پورے وجود پر طاری ہو جاتا ہے کہ راتوں کو سونا مشکل ہو جاتا ہے سمجھ نہیں آتا کہ کیا کرے بے ساختہ ظالموں اور قاتلوں کے لئے بدعاء کے جملے نکتے ہیں بے ساختہ مظلوموں کے لئے دعاء نکلتی ہے پروردگار ان لوگوں پر رحم فرما جو تیرے دین کی خاطر سخت ترین صعوبتوں کو برداشت کر رہے ہیں لیکن تیرے دین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں انہیں آج بھی اس بات پر فخر ہے کہ ہم ہندوستانی مسلمان ہیں ۔
جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوا ہے وہ قابل غور بھی ہے مقام عبرت بھی لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ مسلمانوں کے  پاس اس جمہوری ملک میں  جو ایک آسرا محکمہ انصاف و عدالت کا تھا اب وہ بھی ان سے چھنتا جا رہا ہے  چنانچہ اگر آپ غور کریں گے تو  واضح ہوگا کہ دہلی کے حالیہ فسادات میں جہاں مسلمانوں کو سفاکانہ انداز میں قتل کیا گیا انکی پراپرٹی و انکے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا وہیں محکمہ انصاف کا بھی خون ہوا ہے ، اس عدالت  کی روح کو بھی تار تار کیا گیا ہے جس پر ملک کے حریت پسند یقین رکھتے ہیں اور اس کی دلیل  اشتعال انگیز بیانات دینے والوں کو صاف طور پر بچا لے جانا ہے  اور اامات کا نشانہ مخصوص انداز میں انہیں پر سادھنا  ہے جنہیں بلی کا بکرا بنا کر خود ہی از قبل تیار کیا جا چکا تھا ۔ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ آنے والا کل کتنا بھیانک اور خطرناک ہوگا اگر انہوں نے مل جل کر اپنی  تدبیر سے اپنے مستبقل کے بارے میں نہ سوچا تو   جو تباہی انکا مقدر ہوگی شاید وہ اس سے بھی بری ہو جو تقسیم کے وقت تھی ۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ہسپانوی محقق و مصنف مانوئل گالیانا (Manuel Galiana) ان اہم شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے صہیونیت سے متعلق مختلف شعبوں ـ جیسے اقتصاد اور ت ـ میں متعدد کتابیں تالیف کی ہیں۔ انہوں نے حالیہ برسوں میں سینما آرٹ، صہیونیت اور ہالی ووڈ کے سلسلے میں متعدد مضامین اور مقالات شائع کئے ہیں جن کی بنا پر انہیں خاص توجہ دی گئی ہے۔ گالیانا کی تازہ ترین کاوش سینما اور صہیونیت” کی اشاعت کے سلسلے میں انھوں نے ایک پریس بریفنگ دی اور اس کے بعد ان سے ایک انٹرویو لیا گیا جس کا متن پیش خدمت ہے:
س۔ ایران میں جب کوئی ہالی ووڈ کے پس پردہ ماسونیوں اور صہیونیوں کے کردار پر بات کرتا ہے تو کچھ لوگ اس کا جواب سخت الفاظ میں دیتے ہیں اور اس پر اام لگاتے ہیں کہ یہ آپ کا وہم ہے اور آپ ہر چیز کو سازش سمجھتے ہو، کیا آپ کے خیال میں بھی یہ ایک خودساختہ تصور اور وہم ہے؟
– جن نشستوں میں مجھے بلایا گیا ہے اور جن کانفرنسوں میں دوسرے ماہرین کے ساتھ شریک ہوتا رہا ہوں، وہاں میں نے ہالی ووڈزم” کے بارے میں بات کی ہے اور ان امور پر بھی روشنی ڈالتا رہا ہوں۔ نتیجہ یہ رہا ہے کہ میں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا ہے کہ ہالی ووڈ کچھ منصوبہ بند اقدامات کر رہا ہے، مثلا کچھ اقدار کا خاتمہ کررہا ہے، خاندان اور گھرانے کی بنیادیں اکھاڑ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اسی بنا پر میں اور میرے جیسے دوسرے ماہرین کا ہرگز یہ تصور نہیں ہے کہ یہ صرف ایک ابہام یا ایک نظریۂ سازش (Conspiracy theory) ہے۔ ممکن ہے کہ ایک عام ایرانی یا ہسپانوی شہری ایسا تصور رکھتا ہو کہ یہ ایک حقیقی قضیہ نہیں ہے اور صرف ایک وہم ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ان کی معلومات کافی نہیں ہیں۔
مغرب میں، یورپ اور امریکہ میں ایسی متعدد کتابیں اور مقالات کی اشاعت عمل میں آئی ہے جن میں اشارہ ہؤا ہے کہ اداکار، ہدایتکار اور دوسرے اہم افراد جو سینمائی صنعت میں کردار ادا کررہے ہیں، یہودیوں کے ساتھ رابطے میں ہیں یا پھر وہ خود یہودی ہیں۔ کِرک ڈاگلس (Kirk Douglas) اور آرنلڈ شوازینگر (Arnold Schwarzenegger) وہ اداکار ہیں جنہوں نے اپنے نام تک تبدیل کئے ہیں۔
 
س۔ ابلاغیاتی پیداوار (production) کے شعبے میں صہیونی اور ماسونی لابیوں کی کارکردگی کی کیفیت کیا ہے؟ کیا وہ براہ راست میدان میں کود جاتی ہیں یا پھر اپنا ایجنڈا خاص قسم کے افراد کے سپرد کرتے ہیں، یا پھر ماحول سازی کے ذریعے فنکاروں اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور انہیں خاص سمت میں کام کرنے کی ہدایات دیتی ہیں؟
– شاید ماسونیت کو صہیونیت کا بہت اچھا چہرہ اور اچھی شکل قرار دیا جاسکے۔ وہ تقریبا تمام ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد کو اپنے قابو میں رکھتے ہیں۔ ایک کانفرنس کے دوران میرا رابطہ ہالی ووڈ کے ایک ہدایت کار سے تھا۔ وہ اس بات کو جھٹلا رہا تھا کہ یہودیوں کا کوئی کنٹرول ہے اور کہتا تھا کہ مسئلہ پیسے کا ہے، جس کے پاس دوسروں سے زیادہ پیسہ ہو، وہ بہتر فلم بنا دیتا ہے”۔ اسی وقت بھی متعدد یہودی ہدایتکار، پروڈیوسرز اور اداکار تھے جو کہتے تھے کہ ہالی ووڈ ہمارا ہے”۔
س۔ کیا صہیونی اور ماسونی براہ راست ابلاغیات اور فن کے شعبوں میں افرادی قوت کی تربیت کے لئے براہ راست اقدام کرتے ہیں؟ کیا آپ نو وارد اور مشہور افراد میں سے کسی کو جانتے ہیں جو اس تربیتی عمل کا ثمرہ ہو؟
– نام سے تو میں کسی کو نہیں جانتا جو اس قسم کے حالات میں واقع ہؤا ہو، لیکن ابلاغیات سے وابستہ اکثر افراد یا تو یہودی ہیں یا پھر اگر یہودی نہیں ہیں تو ممکن ہے کہ انہیں بعض پس پردہ تنظیموں کی طرف سے ڈرایا دھمکایا جائے۔
گو کہ ٹام کروز (Tom Cruise) یہودی نہیں ہیں اور سائنٹالوجی کلیسا (Church of Scientology) کے پیروکار ہیں لیکن وہ کبھی بھی نہیں چاہتے تھے کہ یہ حقیقت آشکار ہوجائے کہ وہ ایک ہمجنس باز ہیں اور ان کا تعلق دوسرے ہم جنس باز جان ٹراولٹا (John Travolta) سے ہے اور ان کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں۔ تاہم یہ مسئلہ فاش ہوگیا۔ اس کے باوجود کہ وہ یہودی نہیں ہیں اور خدا پر ایمان نہیں رکھتے لیکن وہ صہیونیوں اور ماسونیوں کے مفادات کے لئے کام کررہے ہیں۔
 
س۔ امریکی اور یورپی سینما میں ان خاص لابیوں کا کتنا حصہ ہے؟
ـ میری رائے یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں جتنی بھی فلمی صنعت ہے، یا تو مکمل طور پر ان لابیوں اور یہودیوں کے ہاتھ میں ہے یا پھر ان کے مقاصد کی راہ میں سرگرم عمل ہے۔ یہ لابیاں زندگی کے لئے نئے معیار متعارف کرانے کے درپے ہیں، روایتی اقدار اور گھر اور خاندان، ماں اور باپ کے ساتھ اولاد کے تعلق کو نابود کرنا چاہتی ہیں؛ ادیان و مذاہب کی بےحرمتی کرتی ہیں اور یہودیوں کے سوا کسی بھی دین و مذہب پر حملہ آور ہوتی ہیں۔
س۔ سنا ہے کہ ان یہودی سرغنوں کی منظوری کے بغیر دنیا میں فلم کی نمائش ممکن نہیں ہے یا پھر بہت ہی دشوار ہے، کیا آپ کے خیال میں یہ درست ہے؟ کیا اس کے لئے کوئی مثال دی جاسکتی ہے؟ ہمارے ہاں تو مثال یہ ہے کہ مشہور ایرانی ہدایتکار مجید مجیدی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ ـ نامی فلم بنائی تو اس کی عالمی نمائش کے سلسلے میں ان کے خلاف شدید کوششیں ہوئیں۔
ـ جی ہاں! اگر کوئی فلم ان کے مفادات کی سمت میں نہ ہو تو اس کی نمائش بہت مشکل ہے۔ میل گبسن (Mel Gibson) نے فلم دی پیشن آف دی کرائسٹ (The Passion of the Christ) بنائی اور اس فلم کی نمائش ہوئی تو پانچ چھ سال تک انہیں فلم بنانے کی اجازت تک نہ ملی۔ میل گبسن اس فلم کی نمائش میں اس لئے کامیاب ہوئے کہ وہ ذاتی طور پر بہت زیادہ مشہور و مقبول انسان تھے اور ان کے دوستوں کا اچھا خاصا حلقہ تھا، بہت طاقتور تھے اور ماضی میں اچھے خاصے فنکارانہ کارناموں کے خالق رہ چکے تھے۔ ورنہ اگر کوئی اٹھنا چاہے اور ان لابیوں کی مرضی اور طرز فکر و اسلوب کے مقابلے میں نئے افکار اور نئے اسلوب کی بنیاد رکھنا چاہے تو تقریبا اس کی کامیابی کی امید تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔
 
میل گبسن سے کہا گیا تھا کہ تمہاری فلم فلاپ ہوجائے گی، کیونکہ تمہیں کسی بھی کمپنی کی حمایت حاصل نہیں ہے” لیکن یہ فلم بہت کامیاب رہی اور اچھی خاصی تجارتی سطح تک پہنچی۔ جیسا کہ کہا جارہا ہے حضرت عیسی علیہ السلام پر یہودیوں کے ہاتھوں ہونے والے مظالم بیان کرنے والی یہ فلم واحد فلم تھی جو کسی کمپنی کی مدد کے بغیر تیار کی گئی اور اس قدر بکی۔
جی ہاں! جہاں تک مجھے معلوم ہے میل گبسن اور ان کے دوستوں نے یہ فلم ذاتی خرچے پر بنائی تھی۔
س۔ کیا مستقل اور خودمختار فلمسازی سے کسی قسم کی امید رکھنا درست ہے؟ کیا یہ امید رکھنا درست ہے کہ ماسونی صہیونی طاقت کے حلقے سے باہر، ایک خودمختار سینما کو نشوونما دی جائے جو عالمی تہذیب اور عوامی سفارتکاری میں کردار ادا کرسکے؟
ـ موجودہ حالات کو مد نظر رکھا جائے تو میرا نہیں گیا کہ ایسا کچھ ممکن ہو؛ کیونکہ جس مالی بحران کی پیشنگوئی کی جاسکتی ہے، وہی رونما ہوجائے، اس طرح کے بحرانوں کا ازالہ کرنے کے لئے منظم تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے بھی بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
خودمختار اور آزاد سینما ـ جس کی اس وقت دنیا میں مثال دی جاسکتی ہے ـ وہی سینما ہے جو ایران میں موجود ہے اور ہر کوئی یہاں منعقدہ فلم فیسٹیولوں میں اپنی مستقل اور آزاد کاوشیں نمائش کے لئے پیش کرسکتا ہے۔ وہ چیز جو اسی نام سے یورپ میں بھی موجود ہے، اس کے پس پردہ بھی بہرحال ایسا ہی کنٹرول پایا جاتا ہے جو امریکہ میں پایا جاتا ہے۔
منبع: http://resanehenghelab.com

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کتاب روپرٹ مردوخ (ابلاغی سلطنت)” (۱) کے مؤلف، آزاد برطانوی صحافی ویلیم شاکراس (۲) ہیں۔ شاکراس نے اس کتاب میں تقریبا صحافتی طرز تحریر اپناتے ہوئے مردوخ کی زندگی کی لمحہ بہ لمحہ حکایت بیان کی ہے جس میں انھوں نے صہیونیت کے صحافتی جرنیل روپرٹ مردوخ کی ۱۹۶۳ تک کی ذاتی، خاندانی اور پیشہ ورانہ زندگی کی تصویر کشی کی ہے۔
کتاب روپرٹ مردوخ (ابلاغی سلطنت)” پندرہ فصلوں پر مشتمل ہے۔ مؤلف پہلی فصل میں اس کاوش کی تالیف کے مقاصد بیان کرتے ہیں۔ شاکراس کہتے ہیں: روپرٹ مردوخ کے بارے میں اٹھنے والے سوالات میں چند ایسے سوالات ہیں جو دوسرے سوالات سے زیادہ دہرائے جاتے ہیں جو یوں ہیں: مردوخ نے اپنی عمر کے ۴۵ برس مختلف ممالک کے دوروں میں گذار دی ہے تا کہ ایک بین الاقوامی سطنت کی داغ بیل ڈالنے کا منصوبہ تیار کریں؟ اس راہ میں ان کے محرکات کیا تھے؟”۔
 
اس کتاب میں جس چیز کو خاص توجہ دی گئی ہے وہ دنیا کے ذرائع ابلاغ پر ایک صہیونی ـ یہودی فرد کی سطلنت ہے۔
اس کتاب میں ایسے حالات کو بیان کیا گیا ہے جو دوران حیات مردوخ کی ترقی کا باعث بنے ہیں اور صہیونیت کے ہاتھوں ایک ابلاغی سلطنت کے قیام پر منتج ہوئے ہیں۔
مؤلف نے پہلی فصل میں جینیاتی اور وراثتی لحاظ سے روپرٹ مردوخ کی اخلاقی خصوصیات اور افکار پر روشنی ڈالی ہے؛ دوسری فصل میں مردوخ کے بچپن کے حالات سے مختص کیا ہے اور بعد کی فصلوں میں ان کی سماجی سرگرمیوں کو بیان کیا ہے اور ان تمام اقتباسات میں روپرٹ کی تسلط پسندی پر زور دیا ہے۔
مؤلف آٹھویں فصل کے ایک حصے میں لکھتے ہیں: مردوخ بخوبی سمجھ چکے تھے کہ تفریحی صنعت روز بروز مغرب ـ اور بالخصوص امریکی ثقافت ـ کے معاشرتی مزاج میں بدل رہی ہے۔ عالمی گاؤں (۴) میں ٹیلی ویژن رفتہ رفتہ معمولی دیہاتوں کی سرسبزی اور خُرَّمی کی جگہ لے رہا ہے؛ چھوٹے مگر دلفریب سبزہ زار ہر گھر میں دکھائی دے رہے ہیں، بَصَری تصویریں رفتہ رفتہ کلامی مباحث کے متبادل کے طور پر سامنے آرہی ہیں اور (یوں) معلومات تفریح کے ضمن میں لوگوں کو سامنے رکھی جاتی ہیں”۔ یہودی المذہب روپرٹ مردوخ نے ان مواقع کو غنیمت سمجھا اور ان سے اپنے ابلاغی تسلط کے قیام میں بھرپور فائدہ اٹھایا۔
مردوخ نے ۱۹۷۶ میں اخبار نیویارک پوسٹ کو خرید لیا اور امریکہ کی ابلاغی دنیا میں داخل ہوئے اور اس کے بعد کئی دیگر ذرائع ابلاغ ـ منجملہ: ٹیلی ویژن، سیٹلائٹ چینل، اخبارات وغیرہ ـ کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
۱٫ Murdoch: the making of a media empire.
۲٫ William Hartley Hume Shawcross.
۳۔ شاوکراس، ویلیام، روپرت مورداک (امپراتوری رسانه‌ای) فصل اول
۴٫ Global village
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آزاد برطانوی مصنف اور اخبار نویس ولیم ہارٹلی ہیوم شاکراس (۱) ۲۸ مئی سنہ ۱۹۴۶ع‍ کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سینٹ مارٹن آرٹ اسکول (۲) میں مجسمہ سازی کے شعبے میں سلسلہ تعلیم جاری رکھا۔ (۳)
وہ مسلسل ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور جنوب مشرقی اور مشرقی یورپ کے سفر میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے کالمز اور مضامین وسیع سطح پر ٹائم، نیوز ویک، انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون، اسپیکٹیٹر، سنڈے ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، رولنگ اسٹون، وغیرہ میں شائع ہوتے ہیں۔ (۴)
شاکراس زبردست لکھاری اور رمہ نویس ہیں جن کی کاوشوں کے انداز سے نتیجہ لیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی تحریروں کے لئے وسیع مطالعہ کرتے ہیں اور چونکہ وہ عام طور پر حال حاضر کے مسائل کے سلسلے میں مطالعہ، تحقیق اور تالیف و تحریر میں مصروف ہیں، لہذا جدید ذرائع تک رسائی ان کے لئے بالکل ممکن ہے۔ (۵)
ان کی ایک بہت ممتاز کاوش روپرٹ مردوخ (۶) (ایک ابلاغیاتی سلطنت کی تشکیل) نامی کتاب ہے۔ انھوں نے اس کاوش کے ذریعے ایک بڑے صہیونی (یہودی) مافیا، نیوز کارپوریشن (۷) کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سربراہ اور مینجنگ ڈائریٹر، فاکس نیوز کے مالک اور فارسی ون نامی نیٹ ورک کے مالک کو ابلاغیاتی صنعت کی دنیا میں متعارف کرایا۔ وہ اس کتاب کی چودہویں فصل کے آغاز پر لکھتے ہیں: اس کتاب کی تالیف گرد و پیش کے ممالک کے طویل سفر اور روپرٹ مردوخ کے ماضی حال اور مستقبل کے جائزے پر محیط ہے”۔
ان کی دوسری اہم کتاب شاہ کا آخری سفر” (۸) ہے جس میں انھوں نے ایران کی پہلوی سلطنت کی وسیع بدعنوانیوں، عالمی ت میں اتحادوں کی دگرگونی اور وفاداریوں کی ناپائداری کو نہایت سلیس انداز سے تحریر کیا ہے۔
جس چیز نے ہمیں ویلیم شاکراس کا تعارف کرانے پر آمادہ کیا وہ ان کی مذکورہ دو کتابیں اور ان کتابوں میں شاکراس کا طرز فکر ہے۔
ان کی دوسری کاوشوں میں سے کچھ حسب ذیل ہیں:
Dubcek: Dubcek and Czechoslovakia 1918–۱۹۶۸ (۱۹۷۰), a New York Times Book of the Year
Crime and Compromise: Janos Kadar and the politics of Hungary since Revolution (1974)
The Shah’s Last Ride: The fate of an ally (1988)
Kowtow!: A Plea on Behalf of Hong Kong (1989)
Murdoch: the making of a media empire. (1997).
Deliver us from Evil: Warlords, Peacekeepers and a World of Endless Conflict (2000)
Queen Elizabeth The Queen Mother: The Official Biography (2009)
Justice and the Enemy: Nuremberg, 9/11, and the Trial of Khalid Sheikh Mohammed (2011)
Counting One’s Blessings: The Selected Letters of Queen Elizabeth the Queen Mother (2012)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱٫ William Hartley Hume Shawcross
۲٫ Saint Martin’s School of Art
۳٫ https://www.gov.uk/government/news/william-shawcross-reappointed-as-chair-of-the-charity-commission
۴٫ https://en.wikipedia.org/wiki/William_Shawcross
۵۔ شاوکراس، ویلیام، روپرت مورداک (امپراتوری رسانه‌ای)، ترجمه: امیر حسین بابالار، تهران نشر ساقی، ص ۳۴۱۔
۶٫ Keith Rupert Murdoch (Born: March 11, 1931 (age 87 years), Melbourne, Australia
۷٫ News Corporation
۸٫ The Shah’s Last Ride
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


’شہید سید محمد حسینی بہشتی‘

شہید بہشتی ایک فقیہ، تدان اور امام خمینی (رہ) کے ان قریبی ساتھیوں میں سے تھے کہ جنہوں نے انقلاب سے پہلے اور بعد ہمیشہ حقیقی اور خالص اسلام کی بقاء اور انقلاب کی کامیابی کی راہ میں انتھک مجاہدت کی۔ سامراجیت کے خلاف جد وجہد اور عدالت کے نفاذ کے لیے کوشش اس مجاہد فقیہ کا خاصہ تھا۔ آپ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے سے بے انتہا رنجیدہ تھے اور ملک کے اندر اور باہر فلسطین کی آزادی کے لیے مہم چلاتے رہے۔
شہید بہشتی مسئلہ فلسطین کو عرب ملکوں کے مسئلہ کے عنوان سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ اس انسانی بحران کو عالم اسلام کی مشکل سمجھتے تھے۔ آپ ہمیشہ فلسطینی عوام کے فلاح و بہبود کے لیے کوشاں رہتے تھے یہاں تک کہ اس دور میں جب آپ ہیمبرگ میں زیر تعلیم تھے طالبعلموں سے چندہ کر کے امام موسی صدر اور شہید چمران کے ذریعے فلسطینیوں تک امداد پہنچایا کرتے تھے۔
شہید بہشتی کے شاگرد ’رحیم کمالیان‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ’’ ڈاکٹر بہشتی ہمیشہ طلبہ کو اس بات پر تاکید کرتے تھے کہ اگر ہو سکے تو اپنے اخراجات میں سے کچھ بچا کر فلسطینیوں کے لیے مخصوص صندوقچہ میں ڈالیں اور اس طرح پیسہ جمع کر کے ہم ان کی مدد کرتے ہیں۔ آپ اس کے علاوہ یورپ میں اسلامی انجمنوں کو بھی اس کام کی تاکید کرتے تھے۔ جس کے بعد امریکہ اور یورپ کی تمام اسلامی تنظیمیں جو اسلامی یونین کی رکن تھیں فلسطینیوں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے لگیں۔ ۱


اس کے علاوہ شہید بہشتی شام اور لبنان کے سفر پر بھی جایا کرتے اور فلسطینی مجاہد گروہوں سے ملاقات کرتے تھے۔ ۲
شہید بہشتی نے اپنی ایک تقریر میں مسئلہ فلسطین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایران کی پہلوی حکومت کو اسرائیل کی حمایت کے حوالے سے خبردار کیا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ چیز باعث بنی کہ ’ساواک‘ انہیں تحت نظر رکھے۔ انقلاب کے بعد ساواک کی دستاویزات سے ملی ایک دستاویز میں شہید کے بارے میں کچھ یوں لکھا ہوا تھا:
’’مذکورہ شخص، خمینی کے حامی گروپ کا لیڈر ہے اس نے عرب اور اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بارے میں ایران اور مشرق وسطیٰ کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا، ہم ہمیشہ قائل تھے کہ ایران کے رہنما اسرائیل کے حامی ہوں گے اور جو خبریں ہمیں موصول ہوئی ہیں وہ اسی نظریے کی عکاسی کرتی ہیں۔ اس لیے کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان ایک فضائی پل تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعے اسلحہ اور امریکہ کی دیگر امداد اسرائیل کو پہنچائی جا رہی ہے۔
مذکورہ شخص نے اپنے اظہار خیال میں یہ امید ظاہر کی ہے کہ جب تک اسلامی حکومتیں آپس میں متحد نہیں ہوں گی کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتیں۔ اس لیے کہ جب اسلامی حکومتیں عربوں کی پیٹھ پر خنجر ماریں گیں تو کیسے عرب اس جنگ میں کامیاب ہو پائیں گے۔
مذکورہ شخص نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیل کو اس وقت تک شکست سے دوچار نہیں کیا جا سکتا جب تک امریکہ کو ایران، ترکی، اردن اور سعودی عرب سے نکال باہر نہ کیا جائے‘‘۔ ۳
حواشی
1 – https://www.teribon.ir/archives/33440.
2- http://ensani.ir/fa/article/9899.
3- http://historydocuments.ir/show.php/print.php?page=post&id=2310

 

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے ایک سابقہ وزیر اعظم اسحاق رابن کے یہ ہیجان انگیز الفاظ قابل توجہ ہیں کہ ہر یہودی چاہے وہ مذہبی ہو یا لادینی (سیکولر) یہ عہد کرتا ہے کہ اے یروشلم! اگر میں تجھے بھول جاوں تو میرا دایاں ہاتھ برباد ہو”۔ صہونیوں نے بیان بازی پر ہی اکتفا نہیں کیا (اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی طرح) ایک منظم اور مستحکم پالیسی ترتیب دی اور اسے عملی شکل دینے کے سلسلے میں کئی ظالمانہ اور کٹھور اقدامات اٹھائے۔ دجل و فریب کے تمام ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کئے۔ فلسطینی مسلمانوں کو شہر بدر کرکے اس میں یہودیوں کو بڑے ہی شدو مد سے بسایا۔ وقتا ً فوقتا ًاس شہر میں اسلامی شعائر و آثار مٹانے کی کوششیں کیں حتیٰ کہ مسجد اقصیٰ میں آگ بھی لگادی۔ بیت المقدس میں عبادت پر پابندی لگا دی۔ بارہا مسجد اقصی کے فرش کو فلسطین کے نمازیوں کے خون سے رنگین بنایا گیا۔ اسرائیل کی نیت اور کاروائیوں کے پیش نظر ۱۹۸۶ میں اقوام متحدہ کی قرار داد نمبر ۱۹ کے تحت اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی گئی جب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کی توہین کی گئی تھی۔ مگر دوسری جانب امریکی جائنٹ چیفس آف اسٹاف کی ایک خفیہ رپورٹ زیر نما ۱۹۴۸/۱۱ مورخہ ۳۱ مارچ ۱۹۴۸ کے مطابق عظیم اسرائیل کا جو خاکہ تیار ہوا تھا اس پر اسرائیلی صیہونیت اور عالمی سامراجیت مرحلہ وار عمل پیرا ہے اور اس سلسلے میں عرب کی آمریت اپنے آقاوں کے مقاصد کی آبیاری میں مشغول ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جس شجرِ ملعونہ (گریٹر اسرائیل) کی عرب حکمران آبیاری کررہے ہیں۔ اسکے مہیب سائے ان کے شاہی محلوں اور حکومتی ایوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق گریٹر اسرائیل کے چند ایک درج ذیل اہداف مقرر ہوئے ہیں۔
۱۔ ابتدا میں فلسطین کے ایک حصے پر یہودی اقتدار
۲۔ پھر فلسطین میں یہودیوں کا غیر محدود داخلہ(جو اب تک جاری ہے)
۳۔ پھر، پوری فلسطین پر یہودی اقتدار کی توسیع
۴۔ اسکے بعد اردن، لبنان، شام (بلکہ اس کے آگے) ارضِ اسرائیل کی توسیع
۵۔ پھر، پورے شرقِ اوسط پر اسرائیل کو فوجی، ی اور معاشی تسلط۔(بحوالہ مغرب اور عالم اسلام۔۔۔ ایک مطالعہ۔۔ از خرم مراد)

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حقیقی و خالص اسلام کے مقابلہ پرجو فکر سب سے زیادہ وسیع پیمانہ پر مختلف میدانوں میں اپنی پوری توانائی کے ساتھ کھڑی ہے وہ صہیونی فکر ہے۔
صہیونیوں کو سب سے زیادہ خطرہ اسلام کے ان حقیقی پیرو کاروں سے ہے جنہوں نے قرآن کے مستضعفین کی مستکبرین پرحکومت کے وعدہ [۱]کو پیش نظر رکھتے ہوئے استکبار کے خلاف عملی محاذ قائم کیا ہے اور جہاں وہ وعدہ الہی کے منتظر ہیں وہیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں بلکہ اس وعدہ الہی کے مقدمات کو فراہم کرنے میں مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔
آج صہیونیت کو سب سے زیادہ خطرہ بھی اسلام کے ان واقعی پیرو کاروں سے ہے جنہوں نے زمین کے مظلوموں کی وراثت قرار دئے جانے والے قرآنی وعدہ کو محض تلاوت کی حد تک نہ رکھتے ہوئے ساری دنیا میں ان لوگوں کا ساتھ دینے کی ٹھانی جن پر ظلم ہو رہا ہے جنکو بڑی طاقتوں نے کمزور بنا کر انکا استحصال کیا ہے، کمزوروں کی زمین پر وراثت کے وعدہ پر ایمان لانے والے لوگ آج ساری دنیا کے مظلوموں کے ساتھ کھڑے ایک منجی بشریت کے منتظر ہیں اور اس انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھی نہیں بیٹھے ہیں بلکہ انتظار کے واقعی مفہوم کو پیش کرتے ہوئے ہر اس جگہ مظلوموں کےساتھ کھڑے ہیں جہاں ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔
اسی بنیاد پر صہیونیوں کی نظر میں سب سے زیادہ وہی لوگ کھٹک رہے ہیں۔ اور انہیں لوگوں کے خلاف چو طرفہ سازشیں ہو رہی ہیں جو خدا کے سچے وعدے پر یقین رکھتے ہوئَے دنیا بھر کے مظلوموں کی آواز بنے دشمنوں سے مقابلہ کر رہے ہیں، صہیونی بھی اسی لئے انہیں اپنا سب سے بڑا دشمن کہہ رہے ہیں کہ جب عصر غیبت و انتظار میں ان چند گنے چنے لوگوں نے دنیا کی بڑی طاقتوں کی نیندیں حرام کر دیں ہیں تو اس وقت کیا ہوگا جب انکا وہ منجی آ جائےگا جس کے انتظار میں یہ چشم براہ ہیں ۔
آج کا عرصہ کارزار صہیونیت اور منتظرین حقیقی کے درمیان ہے، یہی سبب ہے کہ جہاں دنیا کے مستضعفین و کمزور لوگ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں صہیونیت ان تمام طاقتوں کی پشت پناہی کرتی نظر آ رہی ہے جو مظلوموں اور کمزوروں کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے یہ کمزور اپنے بل پر کھڑے ہوں۔ آج کمزوروں کی اٹھتی ہوئی آواز کو اگر مہدویت کا نام دیا جا سکتا ہے تو ان کمزوروں کو کچلنے والوں کو صہیونیت و وہابیت کی فکر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو آج مہدوی فکر کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھ کر مظلوموں کو اپنے پیروں کھڑے ہونے دینا نہیں چاہتی اور اسی سبب عالمی سامراج کی حمایت کے چلتے دنیا کے مختلف گوشوں میں انکا قتل عام کیا جا رہا ہے اسکی ایک سامنے کی مثال یمن کی صورت حال ہے جہاں سعودی حکومت مسلسل قتل عام کر رہی ہے اور اسکی پشت پناہی امریکہ و اسرائیل کر رہے ہیں اور یمن ہی نہیں دنیا کے ہر اس علاقہ میں صہیونیت کے ہمراہ وہابیت کے نشان ظلم ملیں گے جہاں اسلامی تعلیمات کے سایہ میں اپنی خود مختاری کی بات ہوگی اور اس کی سب سے بڑی وجہ بیت المقدس کی طرف سے توجہ ہٹا کر سفیانیت کو بڑھاوا دینا ہے انہیں خوب معلوم ہے مہدویت وہ فکر ہے جس کے چلتے لوگوں میں ایک امید جاگتی ہے اور انہیں اپنے حق کے مطالبہ پر اکساتی ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کے مقابلہ پر جو فکر بھی ہو اسکی حمایت کی جائے اور تاریخی شواہد کی روشنی میں انہیں پتہ ہے مہدویت کے مقابلہ پر سفیانیت سامنے آئے گی جیسا کہ روایات سے واضح ہے، امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی سخت ترین دشمن سفیانیت کی فکر ہوگی جسے مغرب کی حمایت بھی حاصل ہوگی اور یہودیوں کی بھی ،بلکہ بنیادی طور پر دیکھا جائے تو سفیانی کی حمایت ہی اس لئے ہے کہ ایک طرف تو انقلابی فکر کو دبایا جا سکے اور دوسری طرف اسرائیلی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر ان لوگوں سے مقابلہ کیا جا سکے جو لشکر خراسانی اورناصران مہدی عج کی صورت بیت المقدس کی آزادی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ،جبکہ یہ وعدہ الہی ہے کہ ظلم و ستم کے پرستاروں کو اس بار کوئی کامیابی ملنے والی نہیں ہے سورہ اسراء میں اسی بات کی طرف یوں اشارہ ملتا ہے:
وَقَضَیْنَآ اِلٰى بَنِیْٓ اِسْرَاۗءِیْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا، فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىہُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ۰ۭ وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا، ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْہِمْ وَاَمْدَدْنٰکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَجَعَلْنٰکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا،نْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ۰ۣ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَہَا۰ۭ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ لِیَسُوْۗءٗا وُجُوْہَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَـمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِــیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
ترجمہ : اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں آگاہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ ضرور فساد برپا کرو گے اور ضرور بڑی طغیانی دکھاؤ گے۔ پس جب دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے زبردست طاقتور جنگجو بندوں کو تم پر مسلط کیا پھر وہ گھر گھر گھس گئے اور یہ پورا ہونے والا وعدہ تھا۔ پھر دوسری بار ہم نے تمہیں ان پر غالب کر دیا اور اموال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہاری تعداد بڑھا دی۔ اگر تم نے نیکی کی تو اپنے لیے نیکی کی اور اگر تم نے برائی کی تو بھی اپنے حق میں کی پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا ـ(تو ہم نے ایسے دشمنوں کو مسلط کیا ) وہ تمہارے چہرے بدنما کر دیں اور مسجد (اقصیٰ) میں اس طرح داخل ہوجائیں جس طرح اس میں پہلی مرتبہ داخل ہوئے تھے اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے اسے بالکل تباہ کر دیں [۲]۔
امام صادق علیہ السلام }عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ{ ‘‘طاقت ور جنگجو بندوں’’ کے سلسلہ سے فرماتے ہیں :یہ وہ لوگ ہوں گے جنہیں خدا ظہور قائم عج سے قبل سامنے لائے گا اور یہ کسی دشمن اہلبیت کو نہیں پکاریں گے یہاں تک کے اسے واصل نار کر دیں گے [۳]
عیاشی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے بعثنا علیکم عبادا لنا کی تلاوت کے بعد فرمایا: اس سے مراد ہمارا قائم عج ہے اور اسکے ناصر ہیں جو طاقت ور ہونگے[۴] امام صادق علیہ السلام سے نقل ہے کہ آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی تو آپ کے ایک صحابی نے سوال کیا میری جان آپ پر فدا ہو مولا یہ لوگ ہونگے آپ نے جواب میں تین بار فرمایا :یہ لوگ اہل قم میں سے ہوں گے ، اہل قم میں سے ہوں گے اہل قم میں سے ہوں گے [۵]
بظاہر موجودہ حالات اورظہور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے سلسلہ سے وارد ہونے والی روایات کے لب و لہجہ کو دیکھتے ہوئے بعید نہیں ہے کہ فریقین کی کتابوں میں موجود آخری دور کی جنگ میں مسلمانوں اور یہودی کی جنگ سے مراد یہی آخر امان کی جنگ ہو جس کے بارے میں یوں ملتا ہے کہ :قیامت نہیں آئے گی مگر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک سخت جنگ چھڑے گی ، اور اس جنگ میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوگا اور مسلمان سب کو ہلاک کر دیں گے یہاں تک کہ اگر انکا کوئی دشمن کسی پتھر یا درخت کے پیچھے بھی چھپ جائے گا تو درخت و پتھر سے آواز آئے گی تمہارا کھلا ہوا دشمن یہاں چھپا ہے اسے ہلاک کر دو [۶]۔
اس آخری دور میں جہاں یہودیوں کو انکے ظلم و ستم کی بنا پر مسلمانوں کا لشکر ہلاک کرے گا وہیں یہ بھی ہے کہ ان میں سے تیس ہزار کے قریب اس وقت اسلام لے آئیں گے جب دیکھیں گے کہ انطاکیہ کی ایک غار سے توراۃ کو انجیل کو نکالا جائے گا اور صندوق مقدس کو طبریہ کی جھییل سے سامنے لایا جائے گا یہ وہ وقت ہوگا کہ یہودیوں کے لئے سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائےگا اور ان علامتوں کو دیکھ کر تیس ہزار یہودیوں اسلام قبول کر لیں گے [۷]۔
اسی انجام کا ڈر ہے جو اسرائیل کو لاحق ہے اور وہ مسلسل ایسے اقدامات کر رہا ہے کہ بزعم خویش تو اپنے بچاو کی چارہ سازی کر رہا ہے لیکن در پردہ اپنی قبر کھود رہا ہے جبکہ وعدہ الہی حق ہے اسے کوئی روک نہیں سکتا ۔ نہ اونچی اونچی دیواریں اسے تباہ ہونے سے روک سکتی ہیں نہ بکتر بند فولادی گاڑیاں نہ مرکاوہ ٹینک اور نہ ہی اپنے مان مانے طریقے سے فلسطینی حدود کی تعیین و فلسطینیوں سرحدوں کے اندر انہیں قید کر دینا وعدہ الہی سچ ہے اوراسکی سچائی ساری دنیا کے سامنے آ کر رہے گی فلسطین، شام، عراق و لبنان میں جوکچھ ہو رہا ہے وہ اسی وعدہ الہی کی آہٹ ہے جس کے بموجب منجی آخر کے ظہور کے ساتھ ساتھ ہی انسانیت کے دشمن صہیونی اپنے انجام کو پہنچیں گے ۔
حوالہ جات
[۱][۱] وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَنَجْعَلَہُمْ اَىِٕمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِیْنَۙ, وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ…
۵۔ اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کر دیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں اور ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں ۔۔۔ ۵- ۶ قصص
[۲] ۔ اسراء ، ۴-۷
[۳] تفسیر نورالثقلین، ج ۳، ص ۱۳۸٫
[۴] ایضا
[۵]۔ بحارالانوار، ج ۶۰، ص ۲۱۶٫
[۶] ۔ مسند احمد، ج ۲، ص ۴۱۷؛ معجم احادیث الامام المهدی، ج ۱، ص ۳۱۲
تفصیل کے لئے رجوع کریں بحارالانوار، ج ۵۱، ص ۲۵٫
۷ تفصیل کے لئے رجوع کریں. معجم احادیث الامام المهدی (علیه السلام)، ج ۱، ص ۳۴۴؛ الملاحم و الفتن، ص ۶۹٫:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اگر چہ اسلامی مصادر میں ظہور کے وقت یہودیوں کے حالات کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں پائی جاتیں، لیکن قرآن کریم میں یہودیوں کی جو صفات بیان ہوئی ہیں خاص طور پر ان کی نسل پرستی،(۱) ان کا برگزیدہ قوم ہونا،(۲) اور پیغمبروں کا انکار کرنا، اور پھر مسلمانوں کی نسبت ان کی شدید دشمنی، ان چیزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسا کہ عصر غیبت میں وہ امام زمانہ کے دشمن ہیں آپ کے ظہور کے بعد بھی وہ اپنی دشمنی جاری رکھیں گے اور آپ کے ساتھ جنگ کے لیے آمادہ ہو جائیں گے۔
اس دشمنی کی ایک وجہ یہ ہے کہ قوم یہود تلمودی تعلیمات کی بنا پر خود ایک مسیحا یا عبرانی زبان میں ’ماشیح‘ کے منتظر ہیں جسے وہ موعود یا منجی کا نام دیتے ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ مسیحا اس وقت ظہور کریں گے جب قوم یہود تمام مقدس سرزمین پر تسلط پیدا کر لے گی۔ چنانچہ کتاب مقدس میں آیا ہے ’’ ہم تمہاری (ابراہیم) اولاد کو نیل سے فرات تک کی زمین عطا کرتے ہیں‘‘۔ (۳)
اس بنا پر وہ قائل ہیں کہ یہودی ہی صرف حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں چونکہ وہ جناب اسحاق اور ان کی اولاد کو ہی برحق سمجھتے ہیں اور اس بنا پر کتاب مقدس کی اس آیت کے مطابق صرف یہودی ہی نیل سے فرات تک کی زمین کے حقدار ہیں اور جب تک وہ اس سرزمین پر اپنا قبضہ نہیں جما لیتے مسیحا ظہور نہیں کر سکتے۔
حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کو سرزمین مقدس میں داخل ہونے اور جہاد کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ لیکن بنی اسرائیل ان کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں جس کی وجہ سے۴۰ سال تک بیابانوں میں سرگرداں ہو جاتے ہیں۔ اور آخر کار جناب طالوت اور جناب داؤود کے زمانے میں یہ وعدہ تحقق پاتا ہے اور جناب سلیمان کے دور میں دوبارہ اقتدار یہودیوں کے ہاتھ میں آتا ہے۔ (۴)

یہودیوں کے ساتھ صہیونی عیسائی بھی ہم صدا
لہذا توریت میں جو اللہ نے یہودیوں کے ساتھ وعدہ کیا وہ حضرت سلیمان کے دور میں پورا ہو گیا اور وہ سرزمین مقدس پر قابض ہوئے۔ لیکن جو چیز یہاں پر قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اس مسئلے میں صہیونی عیسائی بھی یہودیوں کے ساتھ ہم صدا اور ہم نوا ہو چکے ہیں۔ جبکہ عیسائی یہ جانتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ مسیحا بن کر قوم یہود کے لیے آئے تھے اس قوم نے انکی نبوت کا انکار کیا اور آخر کار انہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا بلکہ اپنی طرف سے انہیں قتل کر دیا لیکن اللہ نے انہیں بچا کر آسمان پر اٹھا لیا۔
عصر حاضر میں امریکہ اور برطانیہ رہنے والے اکثر عیسائی بنی اسرائیل اور یہودیوں کے ساتھ ہم نوا ہو کر مسیح کے پلٹنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ لیکن عیسائیوں میں ایک پروٹیسٹنٹ نامی فرقہ ہے جو آخر امان کے موضوع کو لے کر بہت ہی حساس ہے اور انتہاپسند یہودیوں کے ساتھ مل کر مسیح کے ظہور کے لیے مقدمات فراہم کرنے میں بے انتہا سرمایہ لگا رہا ہے۔
یہ فرقہ قائل ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے ایک مسیحا ظہور کرے گا مگر اس سے قبل فلسطین میں ایک خطرناک ایٹمی جنگ ہو گی جس کے حوالے سے انہوں نے تاہم دسیوں فلمیں بھی بنائی ہیں۔
انہوں نے ان فلموں کے اندر یہ یقین دہانی کروانے کی کوشش کی ہے کہ دنیا میں لوگ دو طرح کے ہیں ایک شرپسند اور دوسرے خیر پسند۔ خیر پسند صہیونی ہیں چاہے وہ یہودی ہوں یا عیسائی، جبکہ شرپسند مسلمان، عرب یا اسرائیل کے مخالف لوگ ہیں۔ اور اس جنگ میں شرپسند تمام طاقتیں ختم ہو جائیں گی اور ہزاروں سال حکومت صہیونیوں کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے بقول اسی خطرناک جنگ کے دوران مسیح ظہور کریں گے جو عیسائیوں کی حمایت کریں گے۔ اسی وجہ سے ۲۰ ویں صدی عیسوی کے ابتدا سے ہی بنیاد پرست عیسائیوں اور انتہا پسند یہودیوں نے ت میں قدم رکھا اور اسرائیل کو جنم دیا اور اب اپنا حیرت انگیز سرمایہ لگا کر صہیونی ریاست کی حفاظت میں کوشاں ہیں اور منتظر ہیں اس وقت کے جب فلسطین میں خیر و شر کی غیر معمولی جنگ ہو گی اور اس میں مسیح ظہور کر کے انہیں نجات دیں گے اور پھر ہزاروں سال دنیا پر صہیونی حکومت ہو گی۔
حواشی
1 – بقره: ۱۱۱ و ۱۱۳ و ۱۲۰ ، ۱۳۵
2- بقره: ۸۷
3- الکنیسة ، ۱۹۸0م؛ سفر التکوین الأصحاح الخامس عشر، ۲0 ص ۲۳.
4- مائده: 26-21
    
ماخذ: فصلنامه مشرق موعود، مواجهه امام زمان علیه السلام با قوم یهود در عصر ظهور، سعید بخشی، سید مسعود پورسید آقایی، تابستان 1396، سال یازدهم، شماره 42، ص86-39.
 

 


گزشتہ سے پیوستہ
آج کے یہود کا خیال ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی آخرامان میں فلسطین کے شمالی علاقے ارمگدون” میں ظہور کریں گے اور یہاں ایک بڑی جنگ ہوگی۔ آج یہودی تفکر کے بانی حضرت عیسی علیہ السلام کے ظہور کو ان چار مرحلوں سے مشروط کرتے ہیں۔
ایران، امریکہ، ارجنٹائن، روس، یورپ اور دوسرے ممالک کی طرف سے یہودیوں کی ہجرت کے بعد، سنہ ۱۹۴۸ع‍ میں سرزمین فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام عمل میں آیا اور ۱۹۶۷ع‍ میں یہودی ریاست نے بیت المقدس پر قبضہ کیا۔ ایوانجیلی یا صہیونی عیسائی (۵) بھی سمجھتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام اپنے نئے ظہور کے بعد اسی شہر سے دنیا پر حکومت کریں گے۔
اسی بنا پر وہ امریکی حکومت کو آج تک مسلسل دباؤ کا نشانہ بناتے رہے ہیں کہ اس شہر کو اسرائیل کے قطعی اور ابدی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرے۔ امریکی سینٹ نے اپریل ۱۹۹۰ع‍‌ میں صہیونی عیسائیوں کے اس مطالبے کو منظور کرلیا۔
 
یہودیوں کا خیال ہے کہ ہیکل سلیمانی بالکل اسی مقام پر بنا ہوا تھا جہاں مسجد الاقصی تعمیر ہوئی ہے اور دسیوں مرتبہ مسجد الاقصی کی دیواروں کے نیچے آثار قدیمہ کی تلاش کے بہانے اسے نقصان پہنچاتے رہے ہیں۔ امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی یہودیوں کی تزویری حکمت عملی کا تیسرا مرحلہ ہے، جس کو عملی جامہ پہنا کر وہ نجات دہندہ کے ظہور اور ارمگدون میں آخری جنگ کی تیاری کے قریب پہنچنا چاہتے ہیں۔
یہ امام زمانہ(عج) کے ظہور کا مقابلہ کرنے کا یہودی منصوبہ ہے جس پر مرحلہ بہ مرحلہ اور قدم بہ قدم عمل ہورہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ قران کریم
۲۔ تاریخ انبیاء، سید ہاشم رسولی محلاتی
۳۔ دانشنامہ صہیونیسم و اسرائیل، مجید صفاتاج
۴۔ نگین آفرینش، جلد اول، مرکز تخصصی مہدویت حوزہ علمیه قم/ بنیاد فرہنگی مہدی موعود
۵۔ انجیلی عیسائی (Evangelicalism)، انجیلی مسیحیت، انجیلی پروٹسٹنٹزم، صہیونی عیسائیت یا ایوانجیلی عیسائیت۔
 

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن کریم یہود کو مؤمنوں کا شدید ترین دشمن قرار دیتا ہے۔ (۱) چنانچہ مؤمنین اور عقیدہ مہدویت کے مقابلے میں اس شدید ترین دشمن کے نظریات اور حکمت عملیوں کا جائزہ لینا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے تھے جو سنہ ۱۷ قبل از مسیح سے کنعان میں ہجرت کرکے آگئے اور وہاں سے مصر میں داخل ہوئے۔ اس قوم کو قبطیوں اور فرعون کے شدید ترین مظالم کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ خداوند متعال نے ان میں سے حضرت موسی علیہ السلام کو پیغمبر کے طور پر مبعوث فرمایا، جن کا مشن یہ تھا کہ اپنی قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائیں۔
فرعون نے بنی اسرائیل کی منتقلی کی مخالفت کی تو حضرت موسی(ع) اپنی قوم کے ساتھ دریا / سمندر پار کرگئے اور فیصلہ کیا کہ سرزمین موعود (بیت المقدس) چلے جائیں۔ بنی اسرائیل حضرت موسی علیہ السلام کے معجزے سے دریا پارکرنے میں کامیاب ہوئے اور فرعون اور اس کے سپاہی ڈوب کر ہلاک ہوئے۔
راستے میں بنی اسرائیل کی سرکشیاں اور نافرمانیاں اللہ کے وعدوں میں تاخیر کا سبب بنے۔ (۲) اور بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ۴۰ سال تک دربدری اور سرگردانی کے بعد موسی(ع) کے وصی یوشع بن نون(ع) کی قیادت میں سرزمین مقدس کی طرف روانہ ہوئے۔
حضرت یوشع بن نون علیہ السلام اپنی سپاہ کو لے کر شہر اریحا” پر قابض ہوئے اور بنی اسرائیل اس شہر میں ست پذیر ہوئے۔ یوشع(ع) عمالقہ کے خلاف لڑے اور شام اور فلسطین کی سرزمینوں کو بنی اسرائیل میں تقسیم کیا۔ ان کی وفات کے بعد، بنی اسرائیل کے درمیان کے اختلاف زور پکڑ گئے اور دشمنوں نے بنی اسرائیل کے شہروں پر حملے کئے اور ان کا قتل عام کیا۔ بنی اسرائیل نے خداوند متعال سے التجا کی کہ دشمنوں کے خلاف جدوجہد اور بنی اسرائیل کی عظمت رفتہ بحال کرانے کے لئے انہیں ایک رہبر و قائد متعین فرمائے۔ (۳)
خداوند متعال نے بنی اسرائیل کی دعا قبول فرمائی اور حضرت طالوت علیہ السلام کو ان کے دشمنوں کے خلاف لڑنے پر مامور فرمایا۔ طالوت اور جالوت کے درمیان ہونے والی جنگ میں داؤد نامی نوجوان نے جالوت کو ہلاک کر ڈالا اور خداوند متعال نے انہیں نبوت اور فرمانروائی عطا کی۔ (۴)
حضرت داؤد علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو متحد کیا۔ تاریخ یہود میں حضرت داؤد(ع) اور ان کے فرزند حضرت سلیمان نبی علیہ السلام کی حکمرانی کا دور، سنہری دور کہلاتا ہے۔ حضرت سلیمان(ع) نے جنوں کی مدد سے بیت المقدس میں ایک عظیم عبادتگاہ تعمیر کی۔
حضرت سلیمان(ع) کی وفات کے بعد، اختلافات نے ایک بار پھر بنی اسرائیل کی راہ دیکھ لی اور ان کی قوت زائل ہو گئی اور آخر کار، سنہ ۵۸۶ قبل از مسیح میں بُختُ النَصر ـ جو ان دنوں بغداد اور مدائن کا حکمران تھا ـ بیت المقدس پر حملہ آور ہوا اور شہر کو خاک کے ڈھیر میں تبدیل کیا اور سلیمان(ع) کی عبادتگاہ کو منہدم کیا۔
یہود کی تزویری حکمت عملی کا تاریخی پہلو چار مراحل کی پیروی کرتا ہے۔ حضرت موسی علیہ السلام سے آج تک کے ۳۰۰۰ سال سے زائد عرصے میں یہودی اسی پروگرام کے مطابق مصروف عمل رہے ہیں۔

پہلا مرحلہ:
پہلا مرحلہ مختلف سرزمینوں سے سرزمین مقدس کی طرف ہجرتوں کا مرحلہ ہے۔ یہ مسئلہ حضرت موسی(ع) کے زمانے میں دریا پار کرنے کی صورت میں انجام کو پہنچا۔
دوسرا مرحلہ:
یہ مرحلہ حضرت یوشع(ع) کی قیادت میں اریحا کی فتح اور فلسطین میں قیام حکومت پر مشتمل تھا۔
تیسرا مرحلہ:
یہ مرحلہ بیت المقدس کی تسخیر کا مرحلہ تھا؛ حضرت سلیمان(ع) کی سلطنت کے دور میں بیت المقدس پر یہودیوں نے قبضہ کیا۔ بعد میں بُختُ النَصر نے حملہ کرکے یہودیوں کو منتشر کردیا۔
جس وقت مسلمانوں نے بیت المقدس کو آزاد کرایا تو یہودیوں نے عیسائیوں کو اکسایا اور مسلمانوں اور عیسائیوں کو ۸ صلیبی جنگوں میں الجھایا تا کہ آخرکار ایک بار پھر بیت المقدس کو مسخّر کریں۔
چوتھا مرحلہ:
یہود کی تزویری حکمت عملی کا چوتھا مرحلہ سلیمان کی عبادتگاہ یا ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو ہے جسے بُختُ النَصر نے منہدم کردیا تھا۔

 

جاری


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مسلم امہ کا وفادار سمجھا جانے والا ترکی وہ پہلا مسلمان اکثریتی ملک تھا جس نے ۱۹۴۹ میں اسرائیل کو باقاعدہ تسلیم کیا یعنی فلسطینیوں کے گھروں اور سرزمین پر صہیونیوں کے قبضے کو رسمی طور پر تسلیم کیا اور اس دردناک حقیقت پر راضی ہوا کہ فلسطینی اپنے ہی وطن میں پناہ گزین اور تیسرے درجے سے بھی کم تر کے شہری بنا دئے گئے ہیں۔
ترکی اور اسرائیل کے درمیان فوجی، اسٹریٹیجک اور سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ اسرائیل میں ترکی کا سفارت خانہ ہے اور ترکی میں اسرائیل کا سفارت خانہ موجود ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کی ت کو بدل دیں۔
اردگان نے ۲۰۰۵ میں باقاعدہ اسرائیل کا دورہ کیا لیکن بعد میں کچھ عرصے بعد ایسا تاثر دیا گیا کہ ترکی اسرائیل کے خلاف ہے اور فلسطین کا حامی ہے۔
اگر ترکی اتنا ہی فلسطین کا حامی ہے تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ یہ نری منافقت ہے جسے مسلم امہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور منافقت کا مقصد مسلم امہ کو ایک جعلی لیڈرشپ فراہم کرنا ہے جو اصل اور حقیقی اسلامی قیادت سے منحرف کر دے۔ اس وقت نظامِ ولایت کے سائے میں ایران، حزب اللہ اور دیگر ولائی قوتیں اسلام اور فلسطین کی اصل ناصر و حامی ہیں جو نہ صرف یہ کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتیں بلکہ ہر ممکن طریقے سے فلسطین کی مدد کرتی ہیں۔ اس مدد میں صرف راشن پہنچانا نہیں کہ پہلے اسرائیل کو کھل کر بمباری کرنے دو اور اس کے بعد امت کو دھوکہ دینے کیلئے دو آنسو بہاو اور آٹے کے تھیلے فلسطین بھیج کر سرخ رو ہو جاؤ۔ تم اس وقت کہاں ہوتے ہو جب فلسطین میں آتش و آہن برس رہا ہوتا؟ اگر فلسطین کا دفاع نہیں کر سکتے تو کم از کم اسرائیل سے سفارتی تعلقات تو ختم کر سکتے ہو؟ اسے تسلیم کرنے سے انکار تو کر سکتے ہو!
اس وقت صرف ایران اور حزب اللہ وہ قوتیں ہیں جو فلسطین کو مالی، فوجی اور اخلاقی مدد فراہم کر رہی ہیں جس کا اعتراف خود حماس اور اسلامی جہاد نے کیا ہے۔
پوری عرب دنیا کے حکمران اپنی عوام کی امنگوں کے برعکس اسرائیلی مظالم پر خاموش تماشائی ہیں اور اس طرح اسرائیل کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ امام خمینی نے مسئلہ فلسطین کو زندہ کیا جسے عرب دنیا نے گوشۂ گمنامی میں ڈال دیا تھا حالانکہ امام خمینی نہ عربی تھے اور نہ ہی سنی مسلمان کیوں کہ غزہ کے مسلمان عربی اور اہل سنت ہیں۔ امام خمینی ایک حقیقی مسلمان تھے جنہوں نے عرب و عجم اور شیعہ و سنی کی تقسیم سے بالاتر ہو کر اپنے اسلامی اور اخلاقی فریضے کو پہچانا اور مسلم امہ کو بھی بیدار کیا۔ فلسطین کی حمایت دراصل تمام دنیا کی مظلومین کی حمایت ہے کیوں کہ فلسطین مظلومیت کی علامت بن چکاہے اور اسرائیل تمام فتنوں کی جڑ ہے۔ فتنے کی شاخیں کاٹںے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک اس کی جڑ کو نہ کاٹا جائے۔
ترکی کی منافقت سے ہوشیار رہیں اور موسیٰ کو چھوڑ کر سامری کے بنائے ہوئے گوسالوں کے پیچھے نہ چلیں!
………………

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دوسری جنگ عظیم کے بعد، جب یہودی پوری دنیا سے اپنے افراد کو جمع کر کے ایک ملک کی تشکیل کی کوشش میں تھے تو بہت سارے عراقی یہودی اس مقصد کو پورا کرنے کی طرف ذرہ برابر بھی مائل نہیں تھے۔ جس کی اصلی وجہ، عراق میں عربوں اور یہودیوں کی عرصہ دراز سے آپس میں ملی جلی زندگی تھی۔
صہیونیوں نے یہ طے کیا کہ عراق کے یہودیوں پر دھشتگردانہ حملے کروا کر عراقی مسلمانوں کی نسبت ان میں نفرت کا بیج بوئیں اور انہیں اسرائیل کی طرف بھاگنے کے لیے تیار کریں۔ سی آئی اے کے سابق رائٹر ویلبر کرین اولنڈ (wilbur crane eveland) یوں لکھتے ہیں: صہیونیوں نے عراق میں یہودیوں کے مذہبی مراکز اور امریکہ سے متعلق اداروں جیسے امریکی انفارمیشن سروس لائبریری میں بم بلاسٹ کروائے تاکہ اس طریقے سے عراقیوں کی امریکہ کی نسبت مخالفت ثابت کریں اور یہودیوں کے اندر خوف و دھشت پھیلائیں‘‘۔
اولنڈ مزید اس بارے میں لکھتے ہیں: عراق میں بہت تیزی سے ایسے اطلاعیے منتشر ہوئے کہ جن کے ذریعے یہودیوں کو اسرائیل کی طرف بھاگنے کی ترغیب دلائی جانے لگی۔ دنیا کے اکثر لوگوں نے عربوں کے دھشتگرد ہونے اور عراقی یہودیوں کے اسرائیل بھاگے جانے کے حوالے سے شائع کی جانے والی رپورٹوں پر یقین کر لیا‘‘۔
اسی طرح عراقی یہودی نعیم گیلادی جو خود ان واقعات میں تشدد کا شکار بنے لکھتے ہیں: اسلامی سرزمینوں میں ست پذیر یہودی اپنی مرضی اور چاہت سے فلسطین کی طرف ہجرت کر کے نہیں گئے بلکہ صہیونی یہودی اس مقصد سے کہ دوسرے ممالک میں رہنے والے یہودی اپنے ملکوں کو چھوڑ کر فلسطین بھاگ جائیں انہیں قتل کرتے تھے‘‘۔
یہاں پر یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ صہیونیت تمام عالم بشریت کے لیے ایک خطرناک وائرس اور ناسور ہے جو کبھی بھی انسانوں کی نابودی کا باعث بن سکتی ہے۔ چونکہ صہیونی فکر کے مالک افراد اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لیے کسی بھی جرم کا ارتکاب کرنے سے گریز نہیں کرتے یہاں تک کہ اپنی قوم اور اپنے ہم مذہب افراد کو بھی اپنے مفاد کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔
ماخذ:
رائٹر: Alison Weir
کتاب کا نام: Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کی معیشت، بازار اور ٹیکنالوجی پر چلتی ہے۔ اسرائیل خام تیل، دالیں، خام مواد اور جنگی اسلحہ درآمد کرتا اور ہیرے، ہائی ٹیکنالوجی کا سامان اور زرعی مصنوعات کو برآمد کرتا ہے۔
۲۰۰۸ وہ سال ہے جس سال اسرائیل کی برآمدات اور سالانہ پیداوار میں قابل توجہ ترقی ہوئی، البتہ یورپی یونین جو اسرائیل کی سب سے بڑی تجارتی حصہ دار ہے وہ اس سلسلے میں غیر مؤثر نہیں تھی۔ اس معیشتی ترقی کی وجہ سے اسرائیل نے اپنی فوج کو قوی کر لیا اور بہت سارے مہاجرین کو اپنی طرف جذب کیا، لیکن آج ایک طرف سے طولانی اور طاقت فرسا جنگوں اور دوسری طرف سے حکومت کی بے لیاقتی، سماجی مشکلات اور نسل پرستی جیسے گہرے مسائل اس ریاست کی معیشتی صورت حال کو روز بروز کمزور کر رہے ہیں۔
challenge کی ماہنامہ اقتصادی رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سالوں میں اس ریاست کی اقتصادی پوزیشن بڑھ رہی تھی اس طریقے سے کہ ۱۹۸۲ میں ۰٫۲۲۲ سے ۲۰۰۵ میں ۰٫۳۹۲ تک پہنچ گئی لیکن ۲۰۰۶ میں لبنان کے ساتھ ہوئی صیہونی ریاست کی ۲۲ روزہ جنگ میں اسے جہاں جنگی اعتبار سے شکست کا سامنا ہوا وہاں اسے اقتصادی طور پر بھی شدید دھچکا لگا اور اسرائیل کی اقتصادی صورتحال ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہو گئی۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائیوں کا عقیدہ ہے کہ مرزا حسین علی نوری (بہاء اللہ) اللہ کے پیغمبر تھے۔ بہاء اللہ کا باپ ایران کے بادشاہ قاجار کے دور میں درباری مشیر تھا اور حکومت میں کافی اثر و رسوخ رکھتا تھا۔ دوسری طرف امیرکبیر کے حکم سے ’سید علی محمد باب‘ کو پھانسی دیے جانے کے بعد ان کے مریدوں کو عراق ملک بدر کر دیا گیا تھا جس میں ’مرزا حسین علی نوری‘ (بہاء اللہ) بھی شامل تھے لیکن امیر کبیر کے قتل یا انتقال کے بعد جب مرزا آقاخان نوری نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے مرزا حسین علی نوری کو عراق سے واپس تہران بلوا لیا۔
کچھ عرصہ کے بعد بابیوں کی جانب سے بادشاہ ایران ’ناصر الدین شاہ‘ پر قاتلانہ حملہ کیا گیا معلوم ہوا کہ مرزا حسین نوری کا اس میں ہاتھ تھا۔ اسی وجہ سے بہاء اللہ کو جیل میں بند کر دیا گیا۔ لیکن چونکہ وہ پہلے روس کے سفارتخانے میں پناہ حاصل کر چکے تھے کچھ مہینے جیل میں رہنے کے بعد روسی حکومت کی طرف سے ڈالے گئے دباؤ کی بنا پر انہیں رہائی مل گئی۔ اور اس کے بعد روسی سفارتخانے نے انہیں روس میں زندگی بسر کرنے کے لیے دعوت دی۔
بہاء اللہ نے روسی حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے بھائی مرزا یحییٰ کے ساتھ عراق کا رخ کیا۔ بغداد میں بہائیوں کے نزدیک انہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی اور انہوں نے وہاں تبلیغی سلسلہ شروع کیا۔
دوسری طرف بابیوں کے درمیان ’سید علی محمد باب‘ کی موت کے بعد جانشینی پر کافی اختلاف وجود میں آیا اور بہاء اللہ کے مخالفین میں روز بروز اضافہ ہونے لگا، بہاء اللہ کافی ہوشیاری دکھاتے ہوئے اپنے مخالفین کو ایک ایک کر صفحہ ھستی سے مٹانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ناکامی کی صورت میں حکومت عثمانیہ انہیں استنبول چلے جانے کا مشورہ دیا۔
بہاء اللہ اپنے بھائی مرزا یحیی کے ساتھ ۱۸۶۳ میں استنبول کی طرف روانہ ہوئے اور ’ادرنہ‘ علاقے میں ست اختیار کی۔ چار سال یہاں پر رہنے کے بعد دونوں بھائیوں میں شدید اختلاف ہوا، جس کے بعد مرزا یحییٰ کو جزیرہ قبرس میں بھیج دیا گیا اور مرزا حسین علی نوری کو ’حیفا‘ کے نزدیک ’عکا‘ کے علاقے میں منتقل کر دیا گیا۔
اہم بات یہ ہے کہ بہاء اللہ اور ان کے بیٹے عباس افندی (عبد البہاء) ’عکا‘ میں رہنے کے بعد یہودیوں اور برطانوی فوجیوں سے کافی گہرے تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد ان کے بیٹے نے صہیونی ریاست کی تشکیل میں برطانیہ اور یہودی لابی کی کتنی مدد کی اس کا تذکرہ بعد میں کیا جائے گا۔
بہاء اللہ ۷۵ سال کی عمر میں ۱۸۹۲ میں انتقال کر گئے اور ان کے بیٹے عباس افندی یا وہی ’عبد البہاء‘ نے باپ کی جانشینی اختیار کی اور بہائیت کو پھیلانے میں کوئی لمحہ فروگذاشت نہ کیا۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امام زمانہ (عج) کے ظہور کے زمانے کو جن قوموں کی جانب سے بڑا چیلنج ہے ان میں سے ایک قوم یہود ہے۔ یہودیوں کی تاریخ کئی نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے۔ قرآن کریم میں یہودیوں اور بنی اسرائیل کے بارے میں متعدد آیات موجود ہیں جو ان کے کردار و صفات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ بعض آیات میں ان کی ابدی ذلت و خواری اور ہمیشہ کے لیے نابودی کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے۔
موجودہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ عصر ظہور میں دو مراحل میں یہودیوں سے روبرو ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں یہودیوں کو منطقی دلائل کے ذریعے اسلام کی دعوت دیں گے۔ جس کی وجہ سے بعض ایمان لے آئیں گے لیکن بہت سارے عناد، دشمنی اور اپنی نسل پرستی کے تعصب کی وجہ سے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیں گے۔ ایسی صورت میں دوسرے مرحلے میں ان کے ساتھ جنگ کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ظہور امام زمانہ سے متعلق روایات کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال، یہود، سفیانی اور شام کے درمیان ایک خاص رابطہ پایا جاتا ہے۔ امام زمانہ دجال اور سفیانی لشکر کو شکست دے کر شام پر قبضہ کریں گے، اور آخر کار مسجد الاقصیٰ میں داخل ہوں گے کہ جو یہودی قوم کی ذلت و خواری اور شکست کی انتہا ہو گی۔
امام زمانہ اور یہودیوں کو دعوت اسلام
دین اسلام، دین فطرت اور دین عقل و منطق ہے۔ امام زمانہ (عج) بھی دیگر ہادیان برحق؛ انبیاء اور اوصیاء کی طرح سب سے پہلے تمام غیر مسلمانوں منجملہ یہودیوں کو اسلام کی دعوت دیں گے۔ اس حقیقت کی طرف اسلامی کتابوں اور روایتوں میں اشارہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر عبد اللہ بن ب نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ میں نے امام علیہ السلام سے آیت     وله أسلم من فی السماوات و الأرض»  کی تفسیر معلوم کرنا چاہی تو آپ نے فرمایا: ’’یہ آیت ہمارے ’قائم‘ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جب وہ یہودیوں، نصرانیوں، صابئین، مادہ پرستوں اور کرہ ارض کے مشرق و مغرب میں رہنے والے کفار و مشرکین کے خلاف قیام کریں گے اور انہیں اسلام کی دعوت دیں گے۔ جو اسلام قبول کر لے گا اسے نماز و زکات کا حکم دیں گے ۔۔۔‘‘ (عیاشی، محمد بن مسعود، ج۱، ص۱۸۳-۱۸۴)
امام زمانہ صرف دعوت حق پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ بعض احادیث کے مطابق دین خدا اور اپنی حقانیت کے اثبات کے لیے ہر دین کے ماننے والوں کے لیے انہی کے دین سے دلائل پیش کریں گے۔ آئین یہودیت میں مقدس ’تابوت‘ عظیم مقام و منزلت کا حامل ہے۔ خداوند عالم جناب طالوت کی حقانیت کے بارے میں فرماتا ہے: ’’اور ان کے پیغمبر نے ان سے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت کی نشانی یہ ہے کہ یہ تمہارے پاس وہ تابوت لے آئیں گے جس میں پروردگار کی طرف سے سامان س اور آل موسی اور آل ہارون کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی ہے۔ اس تابوت کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس میں تمہارے لیے پروردگار کی نشانی بھی ہے اگر تم صاحب ایمان ہوں‘‘۔ (بقرہ، ۲۴۸)
تاریخ میں ہے کہ بنی اسرائیل میں یہ تابوت جس خاندان کے پاس ہوتا تھا نبوت اسی خاندان کو نصیب ہوتی تھی لہذا یہودیوں کے یہاں اس تابوت کا بہت احترام ہے۔ اسی بنا پر امام زمانہ ظہور کے بعد یہ تابوت لے کر یہودیوں پر حجت تمام کریں گے اور جو آپ پر ایمان نہیں لائیں گے ان کے ساتھ جنگ کر کے ان کا قلع قمع کر دیں گے۔

 


بقلم سید نجیب الحسن زیدی
  دہلی کے حالیہ فسادات میں مسلمانوں کا جو نقصان ہوا اسکی تلافی جلد اور آسانی سے ممکن نہیں ہے،  جس ماں نے اپنا بیٹا کھویا ہے جس بیوہ نے اپنا سہاگ کھویا ہے جس بہن نے اپنا بھائی کھویا ہے اسکے زخم زندگی بھر کے ہو گئے  ،جن کے گھر تباہ ہوئے ہیں ان سے کوئی پوچھے تنکا تنکا اکھٹاکر کے آشیانہ بنانا کتنا کٹھن اور سخت ہوتا ہے  اور اسکے  بعد آشیانہ کو اپنے سامنے دھوں دھوں جلتے دیکھنا کتنا سخت ہوتا ہے  یہ وہی بیان کر سکتا ہے جس نے اپنے گھر کو اپنے سامنے آگ کی لپٹوں میں جلتے دیکھا ہو ،خدا ہی ان لوگوں کو صبر دے جنکا گھر بار لٹا یا جنکے کسی عزیز کو ہمیشہ کے لئے چھین لیا گیا  ،لیکن ایک چیز جس پر ہم سب کو غور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ان دہلی کے فسادات نے ہم سب کو یہ سبق بھی دے دیا کہ ہم خدا کے علاوہ کسی کی ذات پر بھروسہ نہیں کر سکتے ، اسکی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی باز آباد کاری کے ساتھ ہمی جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ اپنی حفاظت ہے  ہمیں اپنی  حفاظت کا انتظام خود  ہی کرنا ہوگا ، اس لئے کہ واضح ہے پولیس جس کے ہاتھ میں ہے اسی کے اشاروں پر کام بھی کرے گی پولیس سے امید لگانا یا کسی حکومتی ادارے سے آس لگانا بے سود ہے حتی  خود اپنے ہی قومی لیڈروں سے بھی امید باندھنا فضول ہے خدا سے ہی لو لگانا ہے اسی سے امید باندھنا ہے اسی پر بھروسہ کرنا  وحدہ لاشریک  کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اب  جو دوسری چیز ہے وہ یہ ہے محکمہ انصاف میں چاہے جتنے بھی حالات خراب ہوں ہمیں اپنی طرف سے پوری کوشش کرنا ہے کہ  پکے ثبوتوں کے ساتھ ان لوگوں کو انصاف کے کٹگھرے میں لا کھڑا کریں جو ان فسادات کے ذمہ دار ہیں ،اگر سب مل جل کر ایک فیصلہ لیں اور فسادات کے اصلی مجرموں کے بارے میں عدالت میں چارج شیٹ داخل کریں تو یقینا یہ ایک مثبت قدم ہوگا ۔
امید کے ہم ان فسادات سے سبق لے کر آگے بڑھیں گے اور ہرگز ان باتوں میں نہیں آئیں گے جنکے ذریعہ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت وقت جو کچھ کر رہی ہے وہ آپ سبھی کے لئے کر رہی ہے آپ سبھی ملک کے باشندے ہو آپ کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا ہم سبھی مذاہب کو ساتھ لیکر چلنے والے ہیں ، اگر یہ باتیں سچ ہوتیں تو یقینا نہ دہلی میں اتنے بھیانک فساد ہوتے اور نہ مسلمانوں پر اتنی کاری ضرب لگتی اور نہ ہی آج ہماری مائیں بہنیں مختلف جگہوں پر دھرنے پر بیٹھی ہوتیں ،
سی بڑی بات تھی پولیس کے لئے دنگائیوں کو لگام دینا جو پولیس چند طلباء کو پکڑنے کے لئے جامعہ ملیہ کے اندر گھس کر آنسو گیس کے گولے داغ سکتی ہے لاٹھی چارج کر سکتی ہے وہ پولیس دنگائیوں کے سامنے بے بس کیونکر ہو جاتی ہے یہ وہ سوال ہے جسکا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اور جواب نہ ہونا ہی یہ بتاتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس مسلمانوں کے قتل عام اور انہیں تباہ کر دینے میں پولیس کے رول کا جواب نہیں ہے ان کے پاس کل یقینا مسلمانوں کی شہریت کے سلب کئے جانے کا بھی جواب نہیں ہوگا ۔لہذا ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ، خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کی باز آباد کاری کے لئے مل جل کر آگے آنے کی ضرورت ہے جنکا سب کچھ ان فسادات کی نذر ہو گیا ، ہم مشکل کشا کے ماننے والے ہیں مشکلوں سے گھرے لوگوں کے ساتھ ہمارا سلوک ہمدردانہ و دلسوزانہ نہ ہوگا تو کس کا ہوگا ، امید کہ ہم سب سے جو بھی بن پڑے گا ان لوگوں کے لئے کریں گے جنہیں ان فسادات میں نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔یقینا اگر ہم خلق خدا کی مدد کریں گے تو خدا ہماری مدد کرے گا انشاء اللہ ۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فرقہ بہائیت کی داستان در حقیقت ’فرقہ بابیہ‘ سے جڑتی ہے۔ فرقہ بابیہ کا آغاز ’سید علی محمد شیرازی‘  سے ہوتا ہے جو ’’باب‘‘ کے نام سے معروف ہوئے۔ یہ شخص پندرہ سال کی عمر میں اپنے ماموں کے ہمراہ ایران کے شہر بوشہر میں تجارت کی غرض سے گیا اور وہاں تجارت کے ساتھ ساتھ اس نے ریاضت کر کے کچھ شعبدہ بازی بھی سیکھ لی۔ بعد از آں بوشہر میں واقع ایک یہودی کمپنی ’’ساسون‘‘ میں نوکری اختیار کی اور اپنی غیرمعمولی صلاحیت کی وجہ سے بہت جلد وہ کمپنی کے اہم افراد کے اندر اثر و رسوخ پیدا کر گئے۔ علی محمد شیرازی نے یہودی کمپنی میں نوکری کے بعد ۱۹ سال کی عمر میں ایک معروف عالم دین ’سید کاظم رشتی‘ کے درس میں شرکت کرنا شروع کر دی اور جب سید کاظم رشتی انتقال کر گئے تو اس نے ان کی جانشینی کا دعویٰ کر دیا۔
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اپنی شعبدہ بازی کے ذریعے لوگوں میں شہرت پانا شروع کی اور  خود کو بارہویں امام کا ’باب‘ ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ جس کی وجہ سے لوگوں میں ’باب‘ کا لقب پا لیا اور اسی بنا پر فرقہ بابیہ وجود میں آیا۔
فرقہ بابیہ کے پیروکاروں اور علی محمد شیرازی کے مریدوں کی تعداد دن بدن بڑھنے لگی اور دھیرے دھیرے ایران کے دیگر شہروں میں اس شخص کے خرافات پھیلنے لگے اور لوگ گمراھی کا شکار ہونے لگے۔ تبریز کے کچھ علماء نے ولیعہد کی موجودگی میں اس کے ساتھ ایک مناظرہ کے دوران اسے شکست سے دوچار کیا جس کے نتیجے میں حکومت نے اسے جیل میں بند کر دیا۔ جیل سے ایک معافی نامہ حکومت کے نام لکھ کر اپنے کاموں سے توبہ کی اور معافی مانگ کا رہائی کا مطالبہ کیا۔
حکومت وقت نے سید علی محمد شیرازی (باب) کو جیل سے رہا کیا مگر رہائی کے کچھ عرصہ بعد دوبارہ اپنے پیروکاروں کے ذریعے پورے ملک میں ایک شورش برپا کر ڈالی۔ جس کے بعد امیر کبیر نے اسے پھانسی دینے کا حکم دے دیا جس کے نتیجے میں ۱۲۶۶ ہجری قمری میں سید علی محمد شیرازی (باب) کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔
علی محمد شیرازی نے اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہیں کیا تھا لیکن کئی لوگوں نے اس کی جانشینی کا دعویٰ کر دیا اس کے اہم ترین دعویداروں میں ’مرزا یحییٰ صبح ازل‘ ، ’شیخ علی ترشیزی عظیم‘ اور ’مرزا حسین علی نوری‘ المعروف ’’بہاء اللہ‘‘ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
بہائیوں کو ’مرزا حسین علی نوری‘ کہ جنہیں ’’بہاء اللہ‘‘ کا لقب دیا گیا کی وجہ سے زیادہ شہرت ملی۔ اور ان کے لقب بہاء اللہ کے نام سے ان کے پیروکاروں کو ’بہائی‘ کہا جانے لگا۔

 

جاری


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائیت اور صہیونیت کے باہمی تعلقات کے موضوع سے متعلق اس سے قبل بھی خیبر نے کچھ مضامین تحریر کئے ہیں اور اس بار ایک علمی شخصیت جناب حجۃ الاسلام و المسلمین محمد رضا حدادپور جہرمی سے گفتگو کا موقع حاصل کیا ہے امید ہے کہ قارئین کو پسند آئے گی:
خیبر: کیا آپ ہمارے قارئین کو فرقہ ضالہ ’بہائیت‘ کے بارے میں آگاہ کریں گے اور خاص طور پر اس حوالے سے کہ بہائیت اور صہیونیت کے درمیان تعلقات کس حد تک ہیں؟
۔ بہائیوں اور صہیونیوں کے درمیان تعلقات کے عنوان سے بس اتنا عرض کر دینا کافی ہے کہ بہائیوں کا اصلی مرکز ’بیت العدل‘ اسرائیل میں واقع ہے اور اسرائیلی حکومت ہر سال اس کے لیے بجٹ منظور کرتی ہے۔ لیکن میں اس حوالے سے اس موضوع پر گفتگو نہیں کرنا چاہوں گا کہ ان کا چونکہ مرکز وہاں ہے لہذا وہ فرقہ گمراہ شدہ ہے بلکہ میں دوسرے زاویہ سے اس موضوع پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔
دنیا میں سب سے بڑا خیانتکار اور شیطان صفت کوئی ملک اگر ہے تو وہ برطانیہ ہے۔ برطانیہ بہت اطمینان سے بغیر شور و واویلا کئے اپنی ثقافتی سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔ جہاں بھی دین و مذہب کی لڑائی اور فرقہ واریت کی بات آتی ہے برطانیہ کا ہاتھ اس کے پیچھے ضرور پوشیدہ ہوتا ہے۔ انگریز ایشیا پر گہرا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے تک پہنچے کہ مسلمانوں کو اندر سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، لہذا انہوں نے اہل سنت میں وہابیت کو جنم دیا اور اہل تشیع میں بہائیت کو۔
بہائیت کو پہچاننے کے لیے ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ یک، ہم علمی اور ی پہلو سے گفتگو کریں، دوسرا ہم علاقے کا گہرا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ بہائیت کے جال میں لوگ پھنسے ہیں۔ عام طور پر لوگ اس موضوع پر علمی گفتگو کرتے ہیں اور میدانی گفتگو کی طرف توجہ نہیں کرتے ہم یہاں پر اس حوالے سے گفتگو کرنا چاہیں گے۔
میدانی اعتبار سے بہائیت کے موضوع پر گفتگو کرنے سے پہلے ہم چار موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کی طرف توجہ کرنا بہت ضروری ہے:
ایک۔ بہائی سکیورٹی اور سالمیت کے اعتبار سے بہت حساس ہیں اور انٹیلیجنس میں ان کا گہرا اثر و رسوخ ہے۔ میں اس سے زیادہ اس مسئلہ کو زیر بحث نہیں لاؤں گا، صرف اتنا عرض کروں گا کہ بہائیت تنہا ایسا فرقہ ہے جس کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کا فتویٰ ہے کہ وہ نجس ہیں اور ان کے ساتھ خرید و فروخت درست نہیں ہے۔
دو۔ دوسرا مسئلہ اقتصادی اور معاشی مسئلہ ہے۔ کوئی بہائی مالی اعتبار سے کبھی مشکل میں گرفتار نہیں ملے گا۔ ان کے یہاں فقیر لفظ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے شاپنگ مال اور سپر مارکیٹوں کے مالک بہائی ہیں۔ وہ اپنی کمیونٹی میں کسی کو اقتصادی اعتبار سے کمزور نہیں ہونے دیتے بلکہ دوسروں کو بھی پیسے سے خرید لیتے ہیں۔
تین۔ بہائیوں کے لیے سچائی بہت اہمیت کی حامل ہے، کوئی بھی بہائی کبھی اپنے بہائی ہونے کا انکار نہیں کرے گا۔
چار۔ بہائی بیت العدل سے بتائی جانے والی تعلیمات کے بہت پابند ہیں، خیال رہے کہ ان کا مرکز بیت العدل آنلائن اور چوبیس گھنٹے بہائیوں کے لیے تعلیمی پروگرام نشر کرتا ہے اور یہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جو آنلائن تعلیم حاصل نہیں کر سکتے وہ فیسبوک اور ٹیلیگرام کے ذریعے مرکز سے جڑے رہتے ہیں۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: کسی عربی کے ایک رسالہ  میں ایک کہاوت پڑھی تھی  کہ ایک مصور دیوار پر نقش ونگار بنا رہا تھا اور تصویر میں ایک انسان اور ایک شیر کو اس کیفیت میں دکھا رہا تھا کہ انسان شیر کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ اتنے میں ایک شیر کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے تصویر کو  ایک نظر دیکھا۔ مصور نے تصویر میں شیر کی دلچسپی دیکھ کر اس سے پوچھا سناؤ میاں!  تصویر اچھی لگی؟ شیر نے جواب دیا کہ میاں! اصل بات یہ ہے کہ قلم تمھارے ہاتھ میں ہے۔ جیسے چاہو منظر کشی کرو، ہاں اگر قلم میرے ہاتھ میں ہوتا تو یقیناً تصویر کا منظر اس سے مختلف ہوتا۔ کچھ اسی قسم کی صورت حال کا سامنا عالم اسلام کو آج مغربی میڈیا کے ہاتھوں کرنا پڑ رہا  ہے ۔ ابلاغ کے تمام تر ذرائع پرمغرب کا کنٹرول ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹڈ میڈیا دونوں کے سرچشمے اس کی تحویل میں ہیں۔ متعصب یہودی کا دماغ اورسیکولر عیسائی دنیا کے وسائل اکھٹے ہوچکے ہیں۔
سیکولر لابیاں انسانی معاشرے میں مذہب کی دوبارہ اثراندازی سے خائف ہوکر مذہب کا راستہ روکنے کے لئے ت، معیشت، میڈیا لابنگ اور تحریف و تحریص کے تمام ذرائع استعمال کررہی ہیں اور عیسائی دنیا کے مذہبی لوگ بھی خود کو میڈیا کے آگے سرینڈر کر کے لادینت کا راگ الاپ رہے ہیں ،مغرب کی سیکولر لابیوں کے اعصاب پر یہ خوف سوار ہے کہ انسانی معاشرہ دو  صدیوں میں مذہب سے بغاوت کےتلخ نتائج بھگت کر اب مذہب کی طرف واپسی کے لئے ٹرن لے رہا ہے اور دنیا میں مسلمانوں کے سوا کسی اور قوم کے پاس مذہب کی بنیادی تعلیمات (آسمانی وحی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی تعلیمات وسیرت) اصلی حالت میں موجود ومحفوظ نہیں ہیں۔ اس لئے اسلام منطقی طور دنیا کے مستقبل کی واحد امید بنتا جارہاہے۔ چنانچہ یہودی دماغ اور سیکولر قوتوں کی  صلاحیتیں اور وسائل اب صرف اس مقصد کے لئے صرف ہورہے ہیں کہ اسلام اور اسلامی اصولوں کے علمبردار مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے زور سے نفرت کی ایسی فضا قائم کردی جائے جو اسلام کی طرف انسانی معاشرہ کے متوقع بازگشت میں رکاوٹ بن سکے۔
اسلام اور دیندار مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا اور لابیوں کا سب سے بڑا ہتھیار انسانی حقوق کا نعرہ ہے اور انہیں جھوٹ کا یہ سبق اچھی طرح رٹایا جا رہا ہے  کہ جھوٹ بولو!اور اتنی بار بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں”چنانچہ اسی فلسفہ کے مطابق اسلام کو انسانی حقوق کے مخالف کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے عورتوں،اقلیتوں،اور کمزور طبقات کی دہائی دے کر اسلام کو جبر کے نمائندے کے طور پر  پیش کیا جارہا ہے، دنیا میں اگر میراث و حجاب پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو ہمارے ملک میں طلاق اور جہاد کی باتوں کو ایشو بنا کر گھنٹوں ٹی وی شو ہوتے ہیں جن میں لاحاصل بحث ہوتی ہے جبکہ کوئی ملکی ترقی کی بات نہیں کرتا کہ ملک کہاں تھا اور کہاں جا رہا ہے۔
آج آزادی کے چوتھے ستون میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا جو حال ہے وہ آپ تمام حضرات کے پیش نظر ہے  یہ کہیں مجرم کو منصنف تو کہیں منصف کو مجرم بنا کر پیش کر رہا ہے تو کہیں قاتل کو مقتول اور مقتول کو قاتل ۔  ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عالمی ذرائع ابلاغ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، تو انکا تو شیوہ ہی یہی ہے انکے اپنے مفادات ہیں ان کا  لحاظ نہیں کریں گے تو انہیں بجٹ کی فراہمی سے لیکر دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا  لہذا وہ تو سچ اور جھوٹ کے پالے کو  درہم و دینار کی کھنک کے ساتھ تبدیل کریں گے ہی لیکن  یہ اب ہم پر ہے کہ اپنے تجزیہ کی صلاحیت کو اتنا بڑھائیں کہ میڈیا کی خبروں کے درمیان اصل و نقل پہچان سکیں یہ جان سکیں کہ ذرائع ابلاغ کے پیچھے سی لابی کام کر رہی ہے اور دن بھر چلنے والی بریکنگ نیوز کے پیچھے کیا ت ہے ؟
میڈیا تو خیر میڈیا ہے جب اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی پیسوں پر تل رہاہے تو اوروں کی تو بات ہی کیا  بھول سکتا ہے کہ پچھلے سال کس طرح اقوام متحدہ نے سعودی عرب کو بلیک لیسٹ میں قرار دیا پھر جب یہ دھمکی دی گئی کہ بجٹ کی فراہمی روک دی جائے گی تو اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری نے افسوس کے ساتھ اپنی مجبوری کی دہائی دیتے ہوئے اسے بلیک لیسٹ  سے نکال دیا  اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیسے اور دولت کے بل پر کس طرح حق کو ناحق کیا جا رہا ہے۔
یہ تو دنیا کی  موجودہ  صورت حال ہے جبکہ اس صورت حال سے کہیں بدتر معاملہ ہندوستان کا ہے جہاں وہ سب کچھ تو ہے ہی جو اوپر بیان کیا گیا ،علاوہ از ایں مقامی میڈیا ہر چیز کو زعفرانی رنگ میں دیکھ رہا ہے اور چند گنے چنے منصف صحافیوں اور چند گنے گنے منصف چینلوں کے سوا ہر طرف ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف چوطرفہ زہر اگلا جا رہا ہے ،کہیں اشتعال انگیز تقریریں کرنے میں مشہور بعض مسلم عمائدین کو ٹی وی شو میں سجا کر پیش کیا جا رہاہے تو کہیں میدان ت سے بے خبر سیدھے سادے مولویوں کو ت کے تپتے اکھاڑے میں ہاتھ پیر باندھ کر ماہرین ت، و ی مبصرین کے چبھتے سوالوں کے سامنے چھوڑ دیا جاتا ہے جسکا لازمی نتیجہ عوام میں اس بات کا القاء ہے کہ انکے پاس کہنے کے لئے اب کچھ نہیں ہے، انہیں جو کرنا تھا یہ اپنی تقریبا سات سو سالہ حکومت میں کر چکے اب ہمیں کچھ کرنا ہے اور ہندوستان کو بچانا ہے، ملک کی تخریب ہو چکی اب تعمیر کرنا ہے دوسری طرف سوشل میڈیا پر کھلے عام اور بعض لوکل چین پر ڈھکے چپھے انداز میں مسلمانوں کو ایک خوفناک موجود کی صورت پیش کیا جا رہا ہےاور ان سے مقابلہ کے لئے گہار لگائی جا رہی ہے تاکہ ووٹوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر کے حکومت تک رسائی حاصل ہو سکے ۔
 ایسے میں کیا ضروری نہیں کہ ہم اپنے تشخص کو باقی رکھتے ہوئے  انصاف کی آواز بلند کریں اور کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک اتنا جاگ جائیں کہ وہ کام نہ کریں جو دشمن ہم سے لینا چاہتا ہے اور کم سے کم اسکی سجائی دکان سے سامان نہ خریدیں اور اسکی مصنوعات کی مارکیٹنگ نہ کریں ۔اس دور میں جب کہ میڈیا سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں اسیر ہو کر حق بیانی سے نہ صرف کترا رہا ہے بلکہ کھلم کھلا غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور ملک میں شدت پسندانہ طرز فکر کی ترویج کر رہا ہے ایسے میں ہمارا کمترین وظیفہ یہ ہے کہ اگر خود میڈیا کے ذریعہ نشر ہونے والی خبروں کا تجزیہ نہیں کر سکتے  تو صاحبان فکر و نظر کی طرف  رجوع کریں اور سوشل میڈیا پر کوئی بھی پیغام یا کلپ فارورڈ کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ ہم کہیں دشمن کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہو رہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سی آئی اے کے سابق افیسر ’’فلپ ایم گرالڈی‘‘ کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی سینٹر نے اسرائیل کے عدم استحکام کے بارے میں گفتگو کی جس میں انہوں نے کہا:  میں بیس سال سے CIA کے لیے دھشتگردی سے مقابلے کے شعبے میں کام کر رہا ہوں۔ اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ وہ چار ملکوں عراق، لبنان، شام اور ایران کو کمزور کرنا چاہتا ہے تاکہ اپنی قدرت کا لوہا منوا سکے اور ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم کیسے اس کے ساتھ مقابلہ کریں؟ اس طرح کی کانفرانسوں کا انعقاد بہت اچھا ہے تاکہ ان میں ان مسائل پر غور و خوض کیا جائے۔
اسرائیل اپنا دار الحکومت تبدیل کر کے اپنی کمزوری چھپانا چاہتا ہے، قدس عیسائیوں، یہودیوں اور مسلمانوں سب کا ہے اسے اسرائیل کے لیے ی دار الحکومت میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے۔
خیبر: اسرائیل کے عدم استحکام کا اہم ترین سبب جو اسرائیل کی نابودی کا باعث بنے کیا ہے؟
۔ ہمیں دنیا کو یہ بتانا ہو گاکہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کے خلاف سے کام انجام دیتا ہے انہیں دنیا والوں کے لیے برملا کرنا ہو گا اور جتنا لوگ اسرائیل سے نفرت کریں گے بغیر شک کے اتنا جلدی اسرائیل کی نابودی ممکن ہو گی۔
خیبر: صہیونی ریاست کا اہم ترین چیلنج کیا ہے اور قدس کی غاصب موجودہ حکومت کن مشکلات سے دوچار ہے؟
اسرائیل کی مشکلات بہت زیادہ ہیں انتہا پسندی جو اسرائیل میں پائی جاتی ہے اسرائیل کی ایک اہم مشکل ہے، نیتن یاہو کے بے انتہا مالی گپھلے بھی موجودہ حکومت کی اہم ترین مشکلات میں ایک ہے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مرکز اطلاعات فلسطین کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں لرزہ خیز انکشافات کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی اسپتالوں میں جہاں یہودی مرد و خواتین اور بچوں کا نہ صرف علاج مفت ہوتا ہے بلکہ انہیں گھروں کی دہلیز پر مفت طبی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں لیکن دوسری طرف فلسطینی مریضوں اور ان کے اقارب کوعلاج کے نام پر منظم انداز میں لوٹا جاتا ہے۔
اسرائیلی اخبار ’ہارٹز‘ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل کے چلڈرن اسپتالوں اور زچہ وبچہ مراکز میں لانے والی عرب خواتین کے ساتھ کھلم کھلا امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔
اخباری رپورٹ میں اسرائیل کے چار زچہ وبچہ اسپتالوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جہاں پر فلسطینی عرب خواتین کے ساتھ نسل پرستی کا سلوک کیا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے ھداسا، ھار ہٹزوفیم، سوروکا اور الجلیل شہر میں قائم ’ھعمیک‘ اسپتال یہودیوں کے لیے طبی مراکز اور فلسطینیوں کے لیے لوٹ مار کے مراکز بن چکے ہیں۔
اخباری رپورٹ کے مطابق حال ہی میں چار فلسطینی خواتین نے اسرائیلی اسپتالوں کے خلاف نسل پرستی کا مقدمہ درج کرایا ہے۔ انہوں نے عدالت سے مطالبہ کیا ہے وہ چاروں کو فی کس ۶۰۰۰ ڈالر کے مساوی رقم اسپتالوں سے ہرجانہ دلوائے جو ان کے زچکی کیسز میں مجرمانہ لاپرواہی کے ساتھ نسل پرستی کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اسرائیلی رکن کنیسٹ بزلیل مسوٹیرچ کا کہنا ہے کہ اسپتالوں میں یہودی خواتین اور عرب خواتین مریضوں کے درمیان امتیاز برتنا ضروری ہے۔ ڈھٹائی کا مظاہرہ کرئے اسرائیلی رکن کنیسٹ کا کہنا ہے کہ عرب خواتین کو زیادہ بچے جنم دینے کا حق نہیں۔
دوسری جانب عرب رکن کنیسٹ یوسف جبارین نے اسپتالوں میں عرب اور یہودی خواتین کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی سلوک کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی ہسپتالوں میں فلسطینی عوام کے ساتھ ایسے حال میں امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے عالمی انسانی حقوق ادارے جو دنیا میں انسانی حقوق کو ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اسرائیل میں کھلے عام انسانی حقوق کی پامالی سے آگاہ ہیں مگر زبانوں پر تالے ہیں۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عبرانی زبان کی ویب سائٹ ’وللا‘ نے اپنی ایک تحریر میں لکھا ہے کہ عرب ممالک کی طرف سے مذمتی پالیسی کو ان ممالک کی سرکاری پالیسی نہ سمجھا جائے کیونکہ ان ممالک کی جانب سے صہیونی ریاست کے ساتھ اندر خانہ تعاون جاری ہے۔
ویب سائٹ نے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے یہ بیان جاری کیا گیا کہ فلسطینیوں کے آئینی حقوق کا تحفظ کیا جائے جب کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان امریکا میں یہودی تنظیموں کے رہ نماؤں سے ملاقاتیں کرتے رہے اور انہیں یہ یقین دلاتے رہے کہ فلسطین میں یہودیوں کو اپنا قومی وطن قائم کرنے کا حق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب ممالک اور اسرائیل کےدرمیان تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ اسرائیل اور عرب ممالک کا دشمن ایک ہی ہے۔ ان کا اشارہ ایران کی جانب تھا۔
خفیہ ملاقاتوں کی لیک ہونے والی تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے یہودی رہنماؤں سے ملاقات میں فلسطینی اتھارٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ فلسطینیوں کو صدر ٹرمپ کی امن تجاویز تسلیم کرنا ہوں گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا سے ابو دیس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کا فارمولہ بھی شہزادہ محمد بن سلمان ہی فلسطینی قیادت تک پہنچائے۔
بن سلمان نے شام میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں پر بحرینی وزیرخارجہ کے بیان کا بھی حوالہ دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
عبرانی ویب سائٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات نے غزہ میں اسرائیلی فوج کے تشدد کی مذمت کی مگر دوسری طرف یہی امارات اسرائیلی تاجروں کا اپنے ملک میں استقبال کررہا ہے۔
مصر اور اسرائیل دونوں جزیرہ نما سینا میں داعش کو اپنا مشترکہ دشمن اور ہدف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح غزہ کی پٹی کا محاصرہ جاری رکھنے میں بھی عرب ممالک کی اسرائیل کو اشیرباد حاصل ہے کیونکہ غزہ کا انتظام حماس کے پاس ہے اور عرب ممالک حماس پر ایران نواز تنظیم ہونے کا اام عائد کرتے ہیں۔
خیال رہے کہ فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام ہو یا ارض فلسطین میں اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات ہوں عرب ممالک کی طرف سے ان پر بظاہر مخالفت کا تاثر دیاجاتا ہے۔ فلسطینیوں پرمظالم کی بظاہر مذمت بھی کی جاتی ہے مگر اندر ہی اندر سے عرب ممالک صہیونی ریاست کے معاون اور مدد گار ثابت ہوئے ہیں۔

 

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ؛ یہودی ربی یسرائیل ڈیوڈ ویس(Yisroel Dovid Weiss)  جو عالمی صہیونیت کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی یہودی تنطیم نیٹوری کارٹا (International Neturei Karta) کے فعال رکن ہیں کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے ایک مختصر گفتگو کی جو قارئین کے لیے پیش کی جاتی ہے:
خیبر: صہیونیوں کا اسرائیل کے دار الحکومت کو بیت المقدس منتقل کرنا کس قدر اہمیت کا حامل ہے؟
۔ میں نیٹوری کارٹا تحریک کا ایک دینی رکن ہوں۔ میں یہودیوں کا ربی ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسرائیل ہماری سرگرمیوں میں کوئی مداخلت نہیں رکھتا۔ اور ہم پوری آزادی سے صہیونیزم کے خلاف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ میں یہ کہوں گا کہ صہیونیوں نے بنیادی طور پر ہی یہ غلطی کی ہے کہ انہوں نے اپنے لیے ایک الگ ملک بنایا اور اس کا نام اسرائیل رکھا۔
حتیٰ کہ انہوں نے ہمارے داؤؤد کے ستارے کو بھی ہم سے چھین لیا اور اسے اپنے لیے مخصوص کر لیا اور انہوں نے کوشش کی کہ ہماری آواز کو دبائیں۔ البتہ ان علاقوں میں ہمارے بھی کچھ افراد ہیں جو ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہم حضرت موسی کے دین کے پیروکار ہیں لیکن وہ صہیونیسٹ ہیں۔ یہاں تک کہ میں نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو سے بھی کہا کہ یہ چیز ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے کہ آپ ملک بنائیں اور یہاں تک کہ ہم اپنی دستاویزات اقوام متحدہ میں بھی لے گئے اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے ناجائز وجود کو دنیا والوں کے لئے ثابت کریں۔
خیبر: اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام پر جاری ظلم و تشدد کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
۔ ہم فلسطینی مظلوم عوام کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پوری دنیا کے یہودی جو مذہب یہود اور توریت پر ایمان رکھتے ہیں، وہ اسرائیلی ریاست کے وجود کے سخت خلاف ہیں۔ صیہونی ریاست کا وجود توریت کی تعلیمات کے یکسر منافی اور خدا کے ساتھ بغاوت کے مترادف ہے۔
ظلم تو یہ ہے کہ صیہونی اس سرزمین پر قابض ہوئے جو دراصل مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی آبائی سرزمین ہے اور وہ اس قبضے کے شدید مخالف ہیں۔ میرے پاس ایک تاریخی خط ہے، جو ۱۹۴۷ء میں فلسطین کے چیف ربی نے اقوام متحدہ کو لکھا اور مطالبہ کیا کہ پوری دنیا کی آرتھوڈاکس یہودی کمیونٹی جو ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ہے صیہونی ریاست کے قیام کے سخت خلاف ہے اور یروشلم کو یہودی ریاست میں شامل کرنے کی شدید مخالفت کرتی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ یروشلم کو بین الاقوامی زون قرار دیا جائے، تاکہ وہاں کے باسی آزادی سے اپنے زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن جب فلسطین کے چیف ربی نے دیکھا کہ ان کے مطالبے کو رد کر دیا گیا ہے تو اس دن سے یہودی مذہبی پیشواؤں نے صیہونیت کے خلاف احتجاج شروع کیا جو تاحال جاری ہے اور اسرائیل کے زوال تک جاری رہے گا۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شہید مفتح جن کی شہادت کے دن کو حوزات علمیہ اور یونیورسٹیوں کے درمیان اتحاد کا دن قرار دیا گیا ہے کا شمار ان مجاہد اور انقلابی علماء میں سے ہوتا ہے جنہوں نے امام خمینی (رہ) کی پیروی میں زندگی بھر جبر و استکبار اور ظلم و ستم کے خلاف جنگ کی۔ اور آخر کار دشمنوں اور منافقوں نے ان کی مجاہدت اور ظلم مخالف جد و جہد کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں شہید کر دیا۔
امام خمینی (رہ) کے دیگر ساتھیوں اور شاگردوں کی طرح شہید مفتح کے نزدیک بھی عالم اسلام کے مسائل خصوصا مسئلہ فلسطین انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ رضا شاہ کے دور میں حکومت مخالف اور انقلابی سرگرمیوں کی بنا پر آپ کو جیل میں بند کر دیا گیا تھا اور طرح طرح کی سزائیں دی گئیں تھی لیکن جب جیل سے رہا ہوئے تو نہ صرف اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے بلکہ اپنی جد و جہد میں مزید اضافہ کر دیا۔ لبنان کے وہ شیعہ جو اسرائیل کے حملے کی وجہ سے اپنا سب کچھ کھو چکے تھے اور بھاری نقصان سے دوچار ہوئے تھے ان کے لیے آپ نے امداد جمع کرنا شروع کر دی۔ اور امداد جمع کر کے خود لبنان کا سفر کیا اور اپنے ہاتھوں سے ستم دیدہ افراد کو امداد پہنچائی۔ ۱
اسی طرح فلسطین کے عوام کے لیے ان کا دل بہت جلتا تھا اور ہمیشہ ان مظلوموں کو ظلم و ستم کی چکی سے نکالنے کے لیے کوشش کرتے اور صہیونی مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ۱۹۷۹ میں یوم القدس کے موقع پر جو پہلی قرارداد لکھی گئی وہ شہید مفتح نے لکھی تھی۔ آپ نے اس قرارداد میں جن اہم نکات کی طرف اشارہ کیا وہ درج ذیل ہیں:
۔ ہم ملت فلسطین کے اہداف کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں جو قدس کی آزادی کی راہ میں پیش قدم ہیں اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کے تجربہ سے یہ امید ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف جنگ اگر اسلامی طرز کے مطابق ہو گی تو کامیابی سے دوچار ہو گی۔
۔ ہم فلسطینی مفادات کے خلاف ہر طرح کی قرارداد منجملہ ’کارٹر، سادات اور بیگن‘ نامی قراردادوں کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ ۲
حواشی
۱۔ http://fa.wikishia.net/view/شهید محمد مفتح.
۲۔ http://www.irdc.ir/fa/news/4194.

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بین الاقوامی اخبار رای الیوم کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنی یادداشت بعنوان ان دنوں علاقے کے عرب ملکوں میں امریکی اڈوں پر ایران کی گہری نگرانی کی خبریں منظر عام پر کیوں نہیں آتیں؟”، میں لکھا ہے کہ ایران ہر قیمت پر ایٹمی معاہدے میں نہیں رہے گا اور جنگ کے سائے علاقے پر منڈلارہے ہیں۔
یادداشت کے اہم نکات:
ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے الگ ہونے پر ایران دفاعی رد عمل چھوڑ کر گذشتہ چند روز سے حملے کی پوزیشن میں منتقل ہوا ہے، اور یہ نیا اور پہلے سے منصوبہ بند تزویری قدم ان سات شرطوں میں مجسم ہوا ہے جو انقلاب اسلامی کے قائد اعلی آیت اللہ [امام] خامنہ ای نے ایٹمی معاہدے کی نسبت اپنے ملک کی پابندی کے لئے یورپی ممالک کے سامنے رکھی ہیں۔
ادھر ایرانی افواج کے اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سربراہ جنرل احمد رضا پوردستان نے بھی براہ راست اور اعلانیہ دھمکی دی ہے کہ اگر ایران کو امریکہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا تو چار عرب ممالک ـ یعنی اردن، سعودی عرب، امارات اور قطر ـ میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
ظاہر ہے کہ ایران کے قائد تین یورپی ملکوں، برطانیہ، جرمنی اور فرانس” کو موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ کی علیحدگی پر اپنی غیر جانبداری کا ثبوت دیں لیکن ساتھ ہی وہ اس کھیل کے دورانیے کے تعین کو ان کے سپرد نہیں کرنا چاہتے۔ اسی بنا پر آیت اللہ [امام] خامنہ ای کی طرف سے سات شرطیں متعین ہوئیں جنہیں نائب وزیر خارجہ، عباس عراقچی ویانا کی نشست میں لے گئے۔ یہ نشست گذشتہ جمعرات اور جمعہ کو امریکی پابندیوں کے مقابلے میں ایران کے مفادات کی ضمانت کی فراہمی کے مقصد سے منعقد ہوئی تھی۔
یہاں ہم اہم ترین شرطوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
پہلی شرط یہ ہے کہ ایران کے ساتھ مغربی ممالک اور چین اور روس کا ایٹمی معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی سل کی منظور کردہ قرارداد ۲۲۳۱ کے تحت منعقدہ ہوا ہے اور امریکہ کی اس سے علیحدگی قرارداد کی خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی سل کی طرف سے امریکہ کی مذمت میں ایک قرار داد جاری ہونا چاہئے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ ایران اپنے بیلسٹک میزائلوں کے سلسلے میں کسی قسم کے مذاکرات میں حصہ نہیں لےگا کیونکہ بیلسٹک میزائل ایران کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہیں اور ان کے بارے میں کوئی بھی بات سرخ ل سمجھی جاتی ہے۔
تیسری شرط یہ ہے کہ یورپ کے ساتھ تجارتی لین دین ـ منجملہ بھارت، چین اور جاپان کو ایران کے تیل کی برآمدات، اور متعلقہ بینکاری کے معاملات ـ کے سلسلے میں یورپ کو مکمل ضمانت دینا پڑے گی۔
عطوان مزید لکھتے ہیں:
اگر یورپ اور تین دیگر اصلی ممالک نے مختصر سی مدت میں ـ جو چند ہی ہفتوں پر مشتمل ہوگی ـ معاہدے کی پابندی کا عملی ثبوت نہیں دیا تو ایران بھی اس معاہدے کا پابند نہیں رہے گا اور یہ ملک یورینیم کی اعلی درجے کی افزودگی کا فورا آغاز کرے گا۔
ایران کی یورینیم کی افزودگی کی طرف واپسی امریکہ کے ساتھ تناؤ میں شدت آنے کا سبب بنے گی اور یہ تناؤ ایسے مرحلے میں داخل ہوگا جو علاقے کو جنگ میں دھکیل دے گا اور یہ بالکل واضح ہے کہ ایران امریکہ کے آگے پسپائی اختیار نہیں کرے گا اور شدید پابندیوں کو برداشت نہیں کرے گا، ایسی پابندیاں جو در حقیقت ایران کے اسلامی نظام کے خاتمے کی تمہید کے طور پر وضع کی جارہی ہیں۔
جنرل پوردستان ایران کے عسکری انٹیلجنس کے اہم کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اور ان کا ماتحت ادارہ اردن اور خلیح فارس کی ساحلی ریاستوں میں امریکی اڈوں کی نگرانی پر مامور ہے، اور یہ ادارہ خلیح فارس اور اردن میں امریکی نقل و حرکت کی پوری معلومات رکھتا ہے چنانچہ ان کی دھمکی اس نظریئے کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر امریکہ نے ایران کے خلاف کوئی جارحیت کی تو مذکورہ ممالک میں موجود امریکی اڈے ایران کے ابتدائی جوابی حملوں کا نشانہ ہونگے۔
یہ وہ پیغامات ہیں جو یک جہت طور پر بھی اور الگ الگ بھی، ایران سے مل رہے ہیں، اور ان سب پیغامات کا لب لباب یہ ہے کہ اقتصادی پابندیوں یا اسرائیل کی طرف شام میں ایران کے فوجی اہداف پر امریکی حملوں جیسے اشتعال انگیز اقدامات کے آگے ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے اور ایرانی قیادت ایک خاص روش سے ان اقدامات کا جواب دے گی اور وہ بھی بہت محدود مدت میں اور یہ جوابی اقدامات اپنے بچاؤ اور اپنے مفادات کے تحفظ کے زمرے میں شمار ہونگے۔
شام میں ایران کے فوجی اہداف پر اسرائیلی میزائل حملے تقریبا روز کا معمول بن چکے ہیں، اور تازہ ترین حملے میں حمص میں واقع الضبعہ کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا اور اس موضوع نے نہ صرف ایرانی قیادت کو غضبناک کردیا ہے بلکہ اس کے حلیف روس کے لئے بھی درد سر بن چکا ہے، یہاں تک کہ روس نے حال ہی میں اس کے حوالے سے اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شام کو ایس ۳۰۰ فضائی دفاعی سسٹم کی حوالگی پر زور دیا ہے گوکہ یہ موقف نیم سرکاری ماہرین کے زبانی بیان ہوا ہے۔
گذشتہ منگل کو سعودی عرب کے جنوب میں ابہا ایئرپورٹ کی طرف ڈرون بھجوانا اور اس سے پہلے یمن کے شہر صعدہ سے جیزان پر میزائل حملے بھی ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی نشانیاں ہوسکتی ہیں؛ بےشک حوثی مجاہدین کے پاس اس قسم کے ڈرونز بنانے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے، اور اگر ان کے پاس یہ ڈرون بنانے کی صلاحیت ہو تو اس کی ٹیکنالوجی بھی ایرانی ہے اور اس کی تربیت دینے والا دماغ بھی ایران ہے، خواہ یہ ڈرونز اور وہ میزائل ایرانیوں نے خود نہ ہی بھیجے ہوں۔
ہم نے دیکھا کہ ایک ۳۵۰ ڈالر کی لاگت سے بنے ڈرون نے جنوبی سعودی عرب کے مرکزی ہوائی اڈے کو کس طرح سراسیمگی سے دوچار کردیا اور سعودیوں کو اسے گرانے کے لئے لاکھوں ڈالر دے کر خریدے جانے والے پیٹریاٹ میزائل استعمال کرنا پڑے۔
بےشک امریکہ ایرانی میزائل کی مار سے بہت دور ہے لیکن عرب ممالک ـ بالخصوص خلیج فارس کی عرب ریاستوں ـ میں امریکی فوجی اڈے ایسے ہرگز نہیں ہیں، یہ پیغام بڑا واضح ہے چنانچہ اگر اس جنگ کی پہلی چنگاری اٹھی تو یہ تباہی اور بربادیوں کے لحاظ سے بھی اور طویل المدت ہونے کے لحاظ سے بھی، سابقہ جنگوں سے بالکل مختلف ہوگی۔
یہ بہت افسوسناک امر ہے کہ ہم عرب ممالک میں سے کئی ممالک پہلی بار اسرائیل کے مترادف سمجھے جائیں گے اور اس جنگ سے ہمیں جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑیں گے، اور یہ ہماری مصیبت کا عروج ہے۔
منبع: https://www.farsnews.com/news/13970306001105/

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آرتھر کویسٹلر (Arthur Koestler)  ایک یہودی مصنف اور محقق تھے۔ وہ ۵ ستمبر ۱۹۰۵ کو ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں اشکنازی یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا باپ ’ہنریک‘ ہنگری کا رہنے والا تھا اور ماں آسٹریا کی۔ (۱)
آرتھور نے مختلف ممالک کے سفر کا شوق اور تحقیق و جستجو کا جذبہ رکھنے کی وجہ سے ہسپانوی، انگریزی، جرمن، روسی، عبرانی، اور فرانسیسی زبانوں پر مہارت حاصل کی تاکہ باآسانی مغربی ثقافت اور کلچر کا مطالعہ کر سکیں۔ انہوں نے اسی شوق کی بنا پر اپنے دادا سے ییدیش (۲) زبان بھی سیکھ لی تھی۔
کویسٹلر نے ویانا یونیورسٹی سے علم نفسیات میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد صہیونی طالبعلوں کی ایک تنظیم کے صدر مقرر ہوگئے۔ جوانی میں صہیونیسم کے خیالی اہداف و مقاصد نے ان کے جذبات کو خوب بڑھاوا دیا جس کی وجہ سے وہ فلسطین ہجرت کرنے والے یہودیوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ اور یروشلم اور بعد میں تل ابیب میں ست اختیار کی۔ فلسطین میں زندگی ان کے لیے انتہائی دشوار ہو گئی شدید فقر اور فاقے انہیں گھیر لیا آخر کاروہ فلسطین کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے اور برلن چلے گئے برلن میں انہوں نے صحافت کا کام شروع کیا۔ کویسٹلر کی زندگی ۱۹۳۸ تک مختلف نشیب و فراز سے گزری۔ وہ پہلے جرمنی کی کمیونیسٹ پارٹی کے رکن ہوئے، اور اس دوران انہوں نے یوکرائن اور مشرقی ایشیا سے لے کر باکو اور افغانستان کی سرحدوں تک کی سیر کی اور ماسکو میں سابق سوویت یونین کے رہنماؤں سے کئی ملاقاتیں کی۔ (۳)
اس عرصے میں جو تجربات انہوں نے حاصل کئے تھے ان کے پیش نظر کمیونیسٹوں کی یہودی نما بہشت کو صرف دھوکا اور فراڈ پایا جس کی وجہ سے وہ کمیونیزم کے شدید مخالف ہو گئے، یورپ سے نکل کر لندن چلے گئے اور وہاں سٹالین کے خلاف ’’دن دھاڑے اندھیرا‘‘ ناول تحریر کر کے کمیونیسٹ کا پردہ چاک کیا اور اپنی وافر معلومات جو انہوں سے اس عرصے میں حاصل کی تھیں اور اپنے سلیس قلم کی بدولت لاکھوں لوگوں کو جو شک و تردید میں مبتلا تھے کو کمیونیزم کے جال میں پھنسنے سے بچا لیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا آرتھور کویسٹلر صہیونیزم کے بھی سخت ناقدین اور مخالفین میں سے شمار ہونے لگے اور افسانہ ’’یہودی نسل کا خلوص‘‘ پر تنقید کر کے یہودیوں سے دشمنی مول لی۔ (۴)
کویسٹلر نے اپنی پرنشیب و فراز زندگی کے دوران چند اہم تصانیف بھی تحریر کیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
The Thirteenth Tribe: The Khazar Empire and Its Heritage
The Gladiators
Arrival and Departure
Thieves in the Night
The Age of Longing
The Call Girls
فرانس کے سماجی ماہر، فلاسفر، مورخ اور ی مفسر رائمنڈ آرون (۵) اپنے مقالے ’’آرتھور کویسٹلر اور آدھے دن میں تاریکی‘‘ میں کویسٹلر کو زمانے کی ایک عظیم روشن فکر شخصیت کا نام دیتے ہیں کہ جس نے بیسویں صدی کے ابتدائی حصے میں عالم وجود میں قدم رکھا۔ (۶)
آرتھور کویسٹلر ۱ مارچ ۱۹۸۳ کو لندن میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی موت کے سلسلے میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے بعض کا کہنا ہے کہ وہ کافی عرصہ بیمار رہے اور آخر کار اپنی بیوی کے ہمراہ خود کشی کر گئے لیکن بعض مورخین کہتے ہیں کہ صہیونی اپنے خلاف ان کے محکم دلائل اور ان کی مستند کتابوں کو برداشت نہیں کر سکے لہذا انہوں نے آرتھور کو زہر دے دیا اور یہی زہر ان کی بیماری اور پھر موت کا باعث بنا۔
۱٫    Arthur Koestler, Arrow in the Blue (AIB), Collins with Hamish Hamilton, 1952, p. 21.
۲٫    ایک زبان کا نام ہے جو یہودی اشکنازیوں کے بعض علاقوں میں بولی جاتی تھی.
۳٫ Hamilton, David. (Hamilton) Koestler, Secker & Warburg, London 1982 p. 14.
۴٫ http://teeh.ir/fa/news-details/2517/
۵٫ Raymond Aron
۶٫ https://en.wikipedia.org/wiki/Arthur_Koestler#cite_ref-15

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بہائیوں کے بانیوں کا تعارف
عباس افندی
عبد البہاء (عباس افندی) تہران میں پیدا ہوئے اور ۹ سال کی عمر سے ہی باپ کے ہمراہ جلاوطنی کا شکار رہے اس جلاوطنی کا ایک فائدہ انہیں یہ ہوا کہ وہ مختلف طرح کے تجربات حاصل کرنے کے علاوہ باپ اور چچا کے جھوٹ و فراڈ اور لوگوں کے ساتھ دھوکے بازیاں بھی اچھی طرح سے سیکھ گئے تھے۔ جبکہ انہوں نے اس دوران بڑے بڑے لوگوں سے اچھے تعلقات بھی بنا لیے تھے۔ عباس افندی اپنے باپ کی موقعیت کی وجہ سے اچھے اچھے اساتید سے بھی تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور عصری تعلیم میں بھی اچھی ڈگریاں لے لیں۔
عبد البہاء سلطان عبد الحمید کی حکومت کی سرنگونی کے بعد یورپ اور امریکہ کے سفر پر نکلے اور اس سفر میں وہ مغربی تہذیب کے اس قدر شیدائی ہوئے کہ ہمیشہ اپنی تقریروں میں ان کے گن گاتے تھے۔
عباس افندی ۱۹۲۱ عیسوی میں ایک بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے انتقال پر برطانیہ کے کئی بڑے بڑے عہدیداروں کی طرف سے تعزیتی پیغامات وصول ہوئے۔
انہوں نے اپنی موت سے پہلے اپنے نواسے شوقی افندی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ البتہ بعض کا کہنا ہے کہ یہ کام اس کی ماں کی چالاکی سے انجام پایا ورنہ خود شوقی بہائیت سے زیادہ متاثر نہیں تھا۔
شوقی افندی ربانی
شوقی ربانی جن کا لقب ’’ولی امر اللہ‘‘ تھا ۱۸۹۷ میں پیدا ہوئے شوقی افندی ربانی در حقیقت عبد البہاء کے نواسے تھے۔ انہوں نے عکا میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بیروت یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد برطانیہ کی معروف یونیورسٹی آکسفورڈ میں شفٹ ہو گئے۔ لیکن عبد البہاء کی موت کی وجہ سے اپنے پڑھائی چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اس وجہ سے انہیں اعلی تعلیم کی کوئی ڈگری حاصل نہ ہو سکی۔
عبد البہاء نے شوقی افندی کی نسل سے ۲۴ جانشین پیدا ہونے کی پیش گوئی کی تھی مگر شوقی بے اولاد ہونے کی وجہ سے اس سلسلے کو آگے نہیں بڑھا پائے اور عبد البہاء کی پیش گوئی غلط ثابت ہوئی اور ان کی نسل سے بہائیت کی باگ ڈور سنبھالنے والا کوئی جانشین پیدا نہیں ہوا۔
شوقی افندی کے دور صدارت کے چند اہم واقعات
•    شوقی افندی کے دور صدارت میں بہائیوں کے بھرپور تعاون سے صہیونی ریاست تشکیل پائی جس کے بعد شوقی افندی نے اسرائیل کے صدر سے ملاقات کی اور یہودیوں کے ساتھ اپنے تعلقات باقی رکھنے اور ملک کی ترقی میں ان کا تعاون کرنے کا وعدہ دیا۔
•    شوقی افندی کے دور میں بہائیوں نے دنیا بھر کے ملکوں کے دورے کیے اور جگہ جگہ بہائیوں کے مرکز قائم کر کے بہائیت کی تبلیغ کے مواقع فراہم کئے۔
•    اس کے دور میں بہائیت کے بعض بزرگ مبلغین جیسے ’عبد الحسین تفتی آوارہ‘، ’فضل اللہ صبحی مہتدی‘ اور ’مرزا حسن نیکو بروجردی‘ نے توبہ کر کے اسلام کے دامن میں واپس پناہ لی۔
شوقی افندی آخر کار ۱۹۵۷ میں اس سے قبل کہ ’بیت العدل‘ کی تعمیر کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں لندن میں مشکوک طریقے سے انتقال کر گئے اور وہیں پر دفن کر دئے گئے۔ ۱۹۵۷ کے بعد بہائیت کی رہبریت اور تبلیغ کی ذمہ داری اسرائیل میں واقع بیت العدل کے سپرد کر دی گئی۔

منبع: در جستجوی حقیقت، روزبهانی بروجردی، علیرضا، مرکز مدریت حوزه علمیه قم، چاپ 1388، قم.

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی لابیاں امریکی اور بعض مغربی ممالک کی ی پالیسیوں میں انتہائی اہم اور بنیادی اثر و نفوذ رکھتی ہیں۔ ان لابیوں نے مغربی ممالک میں صہیونی مفادات کے حق میں ی پالیسیاں عمل میں لانے کی بے انتہا کوششیں کی ہیں۔ ایسے حالات میں کہ امریکی، برطانوی، فرانسیسی اور جرمن عوام لیبرالیزم سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پس رہے ہیں صہیونی تنظیمیں ان کے معیشتی سرمایے کو بڑی آسانی کے ساتھ اسرائیل منتقل کرنے میں کوشاں ہیں۔
امریکہ
امریکہ میں صہیونی تنظیمیں بہت سرگرم اور فعال ہیں۔ AIPAC ( American Israel Public Affairs Committee) جیسی اہم تنظمیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں طاقتور ترین صہیونی لابیوں میں شمار ہوتی ہیں۔ بعض عیسائیوں کی جانب سے جاری ان صہیونی تنظیموں کی حمایت در حقیقت صہیونی لابیوں کے امریکہ میں اس گہرے نفوذ کی وجہ سے ہے جو یہ چاہتی ہیں کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو آپس میں جوڑ کر اسلام کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر انہیں جمع کریں۔
’’ماؤنٹ ٹیمپل فاؤنڈیشن‘‘ امریکہ کے عیسائی صہیونیوں کی ایک اور بانفوذ ترین تنظیم ہے جس کا مرکز کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں واقع ہے اور اس کا مقصد ’’قدس‘‘ میں ’’معبد‘‘ کی تعمیر ہے۔ اس تنظیم کا عقیدہ یہ ہے کہ یہودی معبد (ہیکل سلیمان) کی تعمیر ان آخری علامتوں میں سے ایک ہے جس کا مسیح کے ظہور سے پہلے تحقق پانا ضروری ہے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ ہیکل سلیمانی (Temple of Solomon) موجودہ مسجد الاقصیٰ کی جگہ پر تعمیر ہونا چاہیے۔ ان کے اس نقشے میں ’’قدس الاقداس‘‘ کا مقام بھی معین کیا گیا ہے۔
صہیونی عیسائیوں اور یہودیوں کے اس عقیدے کہ مسجد الاقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی جائے کی جڑیں کیبالیسٹی تفکر Kabbalist ideas (یہودی تصوف) میں پائی جاتی ہیں۔ یہودی عیسائی تصوف سحر و جادو سے بھرا پڑا ہے۔ کیبالیسٹ کی اہم ترین کتاب ’’زوھر‘‘ ہے جس میں صرف غیب کی خبریں پائی جاتی ہیں۔ یہودی تصوف نے عیسائی معاشرے کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے آخری زمانے کی غیبی خبریں بیان کی ہیں جس کا حاصل صہیونیزم کی حمایت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
برطانیہ
برطانیہ عرصہ دراز سے یہودیت کا گہوارہ اور یہودیوں کے رشد و نمو کا مناسب پلیٹ فارم رہا ہے۔ برطانوی یہودی اس ملک کی صرف پانچ فیصد آبادی کو تشکیل دیتے ہیں۔ لیکن برطانوی ت میں ان کا گہرا اثر و رسوخ باآسانی اسرائیلی مفادات کو حاصل کر لیتا ہے۔ برطانوی یہودی اس ملک کے ی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں اس قدر سرگرم ہیں کہ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ برطانوی معیشت کی شہ رگ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے۔
برطانیہ کی جانب سے صہیونی غاصب ریاست کی حمایت در حقیقت یہودی تمدار اور سرمایہ دار گھرانوں جیسے روتھسلیڈ فیملی (Rothschild family) کے اس ملک کے ی معیشتی میدان میں گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے رہی ہے۔ ۱۹۲۹ سے ۱۹۴۹ تک کے عرصے میں برطانیہ کے ۳۱ سرمایہ دار تاجروں میں ۲۴ تاجر یہودی تھے۔ برطانوی معیشت میں اثر و رسوخ رکھنے والے یہودی گھرانوں میں سے درج ذیل گھرانوں کا نام لیا جا سکتا ہے: Rothschild family,montefiore, Goldschmidt family, Samuel family, Badington family, sassoon family.
تجزیہ نگاروں کی نظر میں برطانیہ اور اسرائیل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور جب بھی اسرائیل کسی بحران کا شکار ہوتا ہے برطانوی وزیر اعظم اور اس ملک کے دیگر صہیونی تدان اس غاصب ریاست کے تئیں اپنی وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں اور اس کے دفاع میں دوسروں سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر میں ایران، لبنان اور شام کا باہمی مزاحمتی اتحاد، صہیونی ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گا اور برطانیہ، امریکہ اور فرانس کی حمایت صہیونی ریاست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا پائے گی۔
فرانس
فرانس منجملہ ان ممالک میں سے ایک ہے جن کی قابل توجہ آبادی یہودیوں پر مشتمل ہے بلکہ یورپ کے تمام ممالک کی نسبت فرانس میں سب سے زیادہ یہودی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اور فرانس کے اکثر یہودی صہیونیت کی طرف رجحان رکھتے ہیں۔ فرانس اور اسرائیل کے باہمی تعلقات دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت قریبی رہے ہیں۔
۱۹۵۶ میں فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل کی حمایت میں ’’سینا جزائر‘‘ پر حملہ کیا اور ’’نہر سوئز‘‘ کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ فرانس نے اب تک بے شمار فوجی اسلحہ اسرائیل کو فروخت کیا ہے اور ۱۹۵۰ کے بعد ایٹمی ہتھیار بنانے میں اسرائیل کی بے انتہا مدد کی ہے۔ فرانس اور اسرائیل کی ایٹمی سرگرمیاں اس قدر وسیع تھیں کہ ڈیمونا ایٹمی نیوکلر پلانٹ ۱۵۰ فرانسیسی انجینئروں کی مدد سے اسرائیل میں تاسیس کیا گیا۔
جب نکولاس سرکوزی (Nicolas Sarkozy) نے فرانسیسی حکومت کی لگام اپنے ہاتھ میں لی تو اس ملک کے ی حالات میں عظیم تبدیلی آئی۔ سرکوزی نے اسرائیل کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو اس قدر مضبوط بنا دیا کہ شیرون کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے اسرائیل کو ڈیموکریسی کا بہترین نمونہ قرار دیا اور شیرون نے بھی فرانس کو اسرائیل کا بہترین دوست گردانا۔ سرکوزی نے صہیونی لابیوں کے مقابلے میں کہا: ’’میں پوری سچائی سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ ہر گز ان لوگوں سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے‘‘۔ غزہ کی ۲۲ روزہ جنگ اور لبنان کی ۳۳ روزہ جنگ میں سرکوزی نے اسرائیل کی بھرپور حمایت کی اگر چہ ان جنگوں میں اسرائیل کو شدید شکست کا سامنا ہوا۔
جرمنی
بہت سارے جرمن مفکرین اسرائیلی توں کے مخالف ہیں۔ ایک سروے کے مطابق جرمن شہری، اسرائیل کو عالمی صلح کی راہ میں سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اس ملک کی ۵۳ فیصد آبادی جرمنی اور اسرائیل کے تعلقات کے مخالف ہے اور صرف چالیس فیصد ان تعلقات کو ضروری سمجھتے ہیں۔ جرمنی کے وزارت خارجہ کے عہدیداروں نے حالیہ ایام میں جرمنی میں پائی جانے والی اسرائیل مخالف فضا میں اضافہ کی خبر دی۔ لیکن یہ یہودی مخالفت جرمنی میں موجود مسلمان مہاجرین کے سر ڈال دی اور جرمنیوں کو سبکدوش کر دیا۔ اسلاموفوبیا اور ایرانوفوبیا صہیونیزم کی ایک اہم ترین اسٹراٹیجی ہے کہ جو وہ اپنی نشستوں میں ’’ دہشت گردی اور اسلامی بنیاد پرستی کے خلاف بین الاقوامی مہم‘‘ کے عنوان سے پیش کرتے ہیں۔
۱۹۵۳ سے اب تک جرمنی نے ۳۵ ارب ڈالر صہیونی ریاست کو عطیہ دیے ہیں۔ جرمنی کی موجودہ چانسلر ’’انجیلا میرکل‘‘ نے جرمنی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کو اعلیٰ ترین سطح تک پہنچا دیا ہے یہاں تک کہ انجیلا میرکل نے جنوری ۲۰۰۸ میں یہ اعلان کیا تھا کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں اسرائیل کے قیام کی ۶۰ ویں سالگرہ کے موقع پر مشترکہ جشن منائیں گی۔ اس وقت بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ جرمنی کے صہیونی سربراہوں نے اسرائیل کی ۷۰ ویں سالگرہ کے جشن میں شرکت کر کے اپنے تعلقات کو مزید فروغ دیا۔
منابع:
۱- مسیحیت صهیونیسم و بنیادگرای آمریکا، رضا هلال
۲- لابی صهیونیسم در ایالات متحده آمریکا، محسن اسلامی
۳- یهود، صهیونیسم و اروپا، ضحی ربانی خوارسگانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قدس شریف اور فلسطین پر قبضہ کیے ہوئے چھ دہائیوں سےزیادہ گذر چکی ہیں ۔عرب حکومتوں نے ابتدائی مقابلے اور اقدامات کے بعد اور غاصب اسرائیلی حکومت کے چھ روزہ جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد کہ جس میں مصر شام اور لبنان کے کچھ علاقوں پر صہیونیوں کا قبضہ ہو گیا تھا ،بعض قدامت پرست اور سازشی عرب حکومتوں نے کچھ مواقع پر فلسطین کے مقاصد کے ساتھ بے وفائی شروع کر دی ۔ قدس شریف اور فلسطین کے مقاصد کے سلسلے میں قدامت پرست عرب سربراہوں کی بے توجہی کی وجہ سے فلسطینیوں کا دائرہ حیات تنگ ہو چکا تھا اور صہیونی بھی نئے نئے نقشوں اور منصوبوں کے تحت مسجد الاقصی کے جغرافیے کو تبدیل کرنے کے پراگندہ خواب دیکھ رہے تھے ۔قدس شریف کو یہودی بنانا قدس پر قبضے کو جاری رکھنے کے لیے ایک اہم ترین منصوبہ تھا ۔حقیقت میں مسجد الاقصی کی عمارت کے نیچے سے سرنگ بنانا اور فلسطین نشین علاقوں میں بے رویہ شہروں کی تعمیر وغیرہ کے پیچھے صہیونیوں کے دو بڑے مقاصد ہیں ایک فلسطینیوں کو نکالنا اور دوسرا اسلامی آثار کو مکمل طور پر مٹانا ہیں تا کہ یہ حکومت اس مقدس شہر کو کہ جو بنیادی طور پر فلسطینیوں اور مسلمانوں کا ہے اپنے قبضے میں رکھ سکیں ۔
واقعیت یہ ہے کہ صہیونیوں کی نظر میں قدس شریف ایک بہت اہم جغرافیائی حساسیت کا حامل ہے لہذا یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ صہیونزم کے سربراہ اور پالیسی میکر اپنی جعلی حکومت کی بقاء اور اس کے دوام کو اس مقدس شہر سے منسلک کیے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دہائیوں کے دوران اور خاص کر گذشتہ دو دہائیوں میں صہیونی رہنماوں کی پوری کوشش ہے کہ قدس شریف کو یہودی شہر میں تبدیل کر دیا جائے کہ جس پر اس وقت اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں ۔ اصل میں شہر تعمیر کرنے اور مقبوضہ سر زمینوں کو یہودی سر زمینوں میں تبدیل کرنے کا خاص کر بیت المقدس کے اطراف کی سر زمینوں کو یہودی زمینوں میں تبدیل کرنے کا صہیونیوں کا مقصد قدس شریف کو مکمل طور نابود کرنا اور مقبوضہ زمینوں میں یہودی حکومت کی تشکیل دینا ہے ۔
صہیونیوں کے بوڑھے جنرل ایریل شیرون کو کہ جو عربوں اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی تمام جنگوں میں محاذ پر سب سے آگے رہا ہے اور فلسطینیوں اور مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ اس کا نام ایک طرح سے جڑ گیا ہے شہر قدس اور غصبی سر زمینوں میں شہر بنانے کی ت کا معمار قرار دیا جا سکتا ہے واقعیت یہ ہے کہ مسی علاقے بنانا اور قدس کو یہودی بنانا اور اس کو اسرائیل کے ساتھ ملحق کرنا کہ جو بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے اور فلسطین کے سلسلے پاس کی گئی قراردادوں کی اس سے خلاف ورزی ہوتی ہے، مدتوں پہلے شروع ہو گیا تھا اور اس وقت تیزی کے ساتھ جاری ہے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ سب سے پہلے صہیونی اس مقدس مکان کو یہودیوں کی طرز پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔اس لیے کہ شہر قدس مقدس اور مسلمانوں کے لیے مذہبی اور اسلامی شان کا حامل ہونے کے ساتھ ،یہودیوں کے لیے بھی مختلف پہلووں سے اہمیت کا حامل ہے اس طرح کہ صہیونی رہبر اور خاص کر ان کے انتہا پسند گروہ اسرائیل کی عبری حکومت کی تاسیس اور بقا کو قدس کی اسلامی ماہیت اور شناخت کی نابودی اور قدس کی یہودی طرز پر ساخت کو قرار دیتے ہیں ۔
صہیونی پہلے تو اس شہر کو مذہبی اہمیت کے اعتبار سے دیکھتے ہیں ۔جس زمانے میں دیگر ملکوں جیسے یوگینڈا ، سیبری ، یا اتریش میں دنیا کے یہودیوں کے لیے اسرائیل کی غاصب حکومت کی تاسیس کی بات چلی تو اس کو رد کر دیا گیا اس لیے کہ یہودیوں کی عالمی تنظیم نے محسوس کیا کہ یہودیوں کو کسی ایک ملک میں جمع کرنے کا واحد راستہ صرف مذہبی مسئلہ ہے ۔اسی لیے انہوں نے فلسطین پر اصرار کیا ،نہ اس اعتبار سے کہ وہ فلسطین کی سر زمین کو دوست رکھتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ قدس پر غلبہ حاصل کریں ،چونکہ قدس یہودیوں کے لیے ایک مذہبی محرک ہے ۔اگر چہ صہیونی تحریک کے رہنما اور خود تحریک بے دین اور لا مذہب تھی ،لیکن انہوں نے یہ محسوس کیا کہ یہودیوں کے یکجا کرنے کا واحد راستہ قدس ہے اسی بنا پر انہوں نے طے کیا کہ یہودی حکومت اس ملک میں ایجاد کی جائے ۔یہ ایسی حالت میں تھا کہ برطانیہ کے حیاتی منافع بھی اس مذہبی رجحان کے ساتھ وابستہ تھے ،اس بنا پر مذہبی اور حیاتی منافع کا یکجا ہونا باعث بنا کہ فلسطین صہیونیوں کی نسل پرستی کے منصوبے کا شکار بن جائے ۔
اس بنا پر صہیونیوں کے لیے قدس کی اہمیت کو صہیونی حکومت کے پہلے وزیر اعظم بن گورین کے اس مشہور جملے سے جانا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کا قدس کے بغیر اور قدس کا ھیکل سلیمانی کے بغیر کوئی وجود نہیں ہے اور یہ تینوں ایک دوسرے کے بغیر بے معنی ہیں ۔ اس بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ قدس کس قدر یہودیوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے اور صہیونی بھی اس کی یہودی طرز پر تعمیر کے لیے کس قدر ہاتھ پیر مار رہے ہیں ۔ اور اس کے بارے میں امریکہ میں بھی پروپیگنڈا ہوتا ہے کہ قدس کو اس کے اطراف کی زمینیں غصب کر کے یہودی طرز پر تعمیر کیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گزشتہ سے پیوستہ
فلسطین کا تاریخچہ:
حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت سے ۲۵۰۰ سال قبل، کئی عرب نژاد قبائل جزیرہ نمائے عرب سے بحیرہ روم کے جنوبی ساحلی علاقوں کی طرف کوچ کرگئے۔ ان میں سے کچھ قبائل فلسطین میں ست پذیر ہوئے۔ ان کا پیشہ کاشتکاری اور زراعت سے عبارت تھا اور وہ کنعانی کہلائے اور اسی بنا پر سرزمین فلسطین ارض کنعان کہلائی۔
کچھ عرب قبائل لبنان میں رہائش پذیر ہوئے اور ان کا پیشہ کشتیرانی سے عبارت تھا۔ انہیں فینیقی (Phoenicians) بھی کہا گیا ہے۔
کنعانیوں کا ایک اہم قبیلہ یبوسی” قبیلہ تھا جو بیت المقدس میں رہائش پذیر تھا اسی بنا پر قدیم زمانے میں بیت المقدس کو یبوس بھی کہا جاتا تھا۔
غاصب اسرائیلی ریاست کی تشکیل کا تاریخچہ:
غاصب اسرائیلی ریاست نظری لحاظ سے ایک ماسونی ـ صہیونی” تحریک کا نام ہے اور عملی لحاظ سے ـ بطور خاص مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں ـ استکباری دنیا کا انتظامی مرکز ہے۔ کسی وقت استکباری دنیا کا سرغنہ برطانیہ تھا اور آج امریکہ ہے۔
ایک۔ فلسطینی قوم ـ جو اسلام، عیسائیت اور یہودیت پر مشتمل تھی ـ صدیوں سے اس سرزمین میں قیام پذیر تھی۔ یہاں تک کہ سنہ ۱۰۹۹ع‍میں صلیبی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا اور عیسائیوں نے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
یورپی اور عیسائی مؤرخین کہتے ہیں کہ انھوں نے صرف بیت المقدس کی حدود میں ۶۰۰۰۰ افراد کا قتل عام کیا اور مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ (۶)
فلسطین ۸۸ سال کے عرصے تک صلیبیوں کے زیر تسلط رہا اور انھوں نے اس عرصے میں مسلمانوں کے ساتھ نہایت بےرحمانہ سلوک روا رکھا۔ یہاں تک کہ سنہ ۱۱۸۷ع‍(بمطابق ۵۸۳ہجری) میں صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کو شکست دی اور اور فلسطین بشمول بیت المقدس مسلمانوں کی آغوش میں پلٹ آیا۔
دو۔ سنہ ۱۸۸۰ع‍میں قوم فلسطین کی آبادی پانچ لاکھ تھی جن میں یہودیوں کی تعداد صرف ۲۴۰۰۰ تھی؛ یعنی ۵ فیصد سے بھی کم۔ سنہ ۱۸۹۶ع‍میں ایک آسٹریائی یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl) نے ایک کتاب لکھی اور صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی جس کا نصب العین یہ تھا کہ یہودی کسی ایک سرزمین میں اپنی ریاست قائم کریں”۔
تین – ایک سال بعد، سنہ ۱۸۹۷ع‍میں سوئیٹزلینڈ کے شہر بیسل (Basel) میں صہیونی کانگریس کا اہتمام کیا گیا اور فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافے کے لئے پوری دنیا سے یہودیوں کی فلسطین ہجرت اور ایک اسلامی سرزمین میں یہودی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ منظور کیا گیا۔
اس منصوبے کے تحت ایک سال کے مختصر عرصے میں فلسطین میں (فلسطینی اور غیر فلسطینی) یہودیوں کی آبادی ۵ فیصد سے بڑھ کر ۱۱ فیصد تک پہنچ گئی۔ یعنی فلسطین کی کل آبادی (۷۵۰۰۰۰ افراد میں) یہودیوں کی تعداد ۸۵ ہزار تک پہنچی، البتہ اس دوران بھی مسلمانوں کی نسل کشی رائج تھی۔
چار – پہلی عالمی جنگ کے دوران سنہ ۱۹۱۷ع‍میں انگریز وزیر خارجہ بالفور نے ایک اعلامیئے کے تحت فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام اور اس کی حمایت کی برطانوی پالیسی کا اعلان کیا۔
ایک سال بعد، برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ جمایا اور غیر فلسطینی یہودیوں کی فلسطین ہجرت کا سیلاب امڈ آیا۔ سنہ ۱۹۱۹ع‍سے ۱۹۲۳ع‍کے چار سالہ عرصے میں ۳۵ ہزار غیر فلسطینی یہودی فلسطین میں آ بسے۔
برطانوی حکومت نے ۱۹۳۲ سے ۱۹۳۵ع‍کے عرصے میں ایک لاکھ پینتالیس ہزار یہودیوں کو برطانیہ اور برطانیہ کی نوآبادیوں سے فلسطین منتقل کیا اور ۱۰ہزار یہودی بلا اجازت اور غیر قانونی طور پر فلسطین میں آ ٹپکے۔ یوں یہودیوں کی آبادی کی شرح ۵ فیصد سے ۳۰ فیصد تک پہنچی۔
پانچ – دوسری عالمی جنگ بہترین بہانہ بن گئی۔ یہ جنگ عیسائیوں کے درمیان تھی لیکن ہٹلر کی کشورگشائی کو یہودکشی کا نام دیا گیا اور جنگ کے اہداف میں تحریف کی گئی حالانکہ اس جنگ میں سات کروڑ انسان مارے گئے تھے لیکن یورپی قوانین میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اس جنگ کے حوالے سے صرف یہودی ہالکین کو موضوع سخن بنائیں؛ اور جہاں خدا اور انبیاء الہی حتی کہ عیسی علیہ السلام کی توہین کو بیان کی آزادی کے تحت جائز قرار دیا جاتا ہے، قرار دیا گیا کہ کسی کو بھی یہ حق اور اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیقات میں اس قانون کو چیلنج کرے اور یہودیوں کے ہالکین کی تعداد کو ساٹھ لاکھ سے کم گردانے اور اس قانون کا نام ہالوکاسٹ” کا قانون رکھا گیا۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ یہودی ہلاک شدگان کی تعداد اتنی ہی تھی تو یہ تعداد جنگ کے مجموعی مقتولین میں ۱۰ فیصد سے بھی کم تھے اور اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ مقرر کیا گیا کہ یہودی ہلاک شدگان کا تاوان جرمنوں کے جائے فلسطینی مسلمانوں سے وصول کیا جائے!! اور مسلمانان عالم ان ہی یورپیوں اور امریکیوں کو انسانی تہذیب کا نقیب قرار دیتے رہے۔
چھ – سنہ ۱۹۴۵ع‍میں برطانیہ نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ مل کر ایک لاکھ یہودیوں کو امریکہ اور یورپ سے فلسطین بھجوایا اور ۱۹۴۷ع‍میں فلسطین کی کل آبادی اٹھارہ لاکھ سرسٹھ ہزار تک پہنچی جس میں یہودیوں کی آبادی چھ لاکھ پندرہ ہزار (یعنی ۳۲٫۹ فیصد) تھی جبکہ مسلمانوں کی آبادی دس لاکھ نوے ہزار (یعنی ۵۸٫۴ فیصد) تھی جبکہ اس آبادی میں ایک لاکھ پچاس ہزار (یعنی ۷٫۸ فیصد) کے لگ بھگ عیسائی شامل تھے۔
سات – سنہ ۱۹۴۸ع‍نے ـ جس نے یہودی ریاست کے لئے مناسب ماحول فراہم کرلیا تھا ـ فلسطین سے انخلاء کا اعلان کیا اور یہودی پناہ گزینوں نے اس سرزمین کو غصب کرلیا۔ جس طرح کہ بعد کے برسوں میں امریکیوں اور انگریزوں نے بظاہر افغانستان اور عراق سے انخلاء کا اعلان کیا اور چند قومی دہشت گردوں کو اپنے متبادل کے طور پر ان ملکوں پر مسلط کیا۔ یہودی پناہ گزینوں نے بلا روک ٹوک کے فلسطینیوں کا قتل عام کیا اور انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ یہاں تک کہ ڈیوڈ بن گورین نے تل ابیب میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا۔
غاصب اسرائیلی ریاست کے اعلان کے بعد فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں شدت آئی اور زیادہ شدت سے انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور یہ سلسلہ آج [۲۰۱۸ع‍] میں بھی جاری ہے۔
نکتہ: تو جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے، اسرائیل کی صہیونی ـ یہودی ریاست کا قوم بنی اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ جو فلسطینی تھے ـ جس قوم سے بھی تعلق رکھتے تھے ـ ان کی اکثریت نے اسلامی قبول کیا اور کچھ لوگ عیسائی اور ایک چھوٹی اقلیت یہودی رہے۔
۔ کردوں کے لئے ایک الگ سرزمین اور غاصب اسرائیل کی طرح، امریکہ، برطانیہ اور یہودی ریاست کی حمایت سے کردی ریاست ـ جو درحقیقت دہشت گردوں اور شرپسندوں کی سرزمین ہوگی ـ کے قیام کے بہانے القاعدہ، داعش، النصرہ اور ان جیسے دہشت گرد اور خونخوار ٹولوں کی پرورش کی روش، بالکل غاصب اسرائیلی ریاست کی مانند ہے۔
ابتداء میں شیطانی استکباری طاقتوں نے اعلان کیا کہ مشرق وسطی کے جدید نقشے میں، بہت سے ملکوں کو تقسیم ہونا چاہئے، بعدازاں اعلان کیا کہ کردوں کے لئے ایک خودمختار کردی ریاست کا قیام عمل میں آنا چاہئے۔، بعدازاں مغربی طاقتوں نے دہشت گرد ٹولوں کو تشکیل دیا، انہیں تربیت دی اور اسلحہ فراہم کیا۔ مغرب اور یہودی ریاست نے ان کی حمایت کی اور مسلمانوں کے قتل عام کے سلسلے میں نفرت انگیز مناظر تخلیق کئے تا کہ مسلمانوں کا قتل عام ہو، انہیں خوفزدہ کیا جائے اور اپنا گھر بار اور وطن چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں اور مسلمانوں کا وسیع قتل عام کرایا۔
اس بار البتہ دہشت گردوں نے اپنے ادارے کا نام دولۃ الاسلامیہ” رکھا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ لوگ یہودی ریاست کے لئے کام کررہے ہیں اور پھر دنیا بھر کے انسان اسلام اور اس کے نام اور دولت اسلامی سے خوفزدہ ہوجائیں اور اسلامو فوبیا کو فروغ ملے۔ لیکن اس کے باوجود وہ یہ بھی اقرار کرتے ہیں کہ سترہ ہزار داعشیوں میں بارہ ہزار غیر ملکی بھی شامل ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق یورپ سے ہے۔
یورپ نے ایک طرف سے داعش اور اس جیسے خونخوار اور نسل کش ٹولوں کو پروان چڑھایا، مسلح کیا، حربی آلات سے لیس کیا اور عراق اور شام کا چوری کا تیل خرید کر انہیں صاحب ثروت بنایا اور اپنے ملکوں سے رضاکارانہ طور پر داعش اور دوسرے ٹولوں میں شامل ہونے کو سفر اور شمولیت کا امکان فراہم کیا اور اپنے حلیف ملک ترکی کو انہیں شام میں اور عراق میں بھجوانے کا ٹاسک دیا اور اب انھوں نے اعلان کیا ہے کہ یورپی دہشت گردوں کو ندامت اور توبہ کا حق حاصل نہیں ہے تا کہ وہ علاقے کے مسلم ممالک کے اندر رہ کر لڑیں۔
امریکہ نے بھی دہشت گردوں کے ساتھ نوراکشتی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے اپنی افواج کو ان ممالک میں متعین کرے اور ان ممالک کی تقسیم میں براہ راست کردار ادا کرسکے۔
امریکہ کا سرکاری اعلان یہ کہ داعش اور اس جیسے دہشت گردوں کو کم از کم ۲۰ سال کے عرصے تک زندہ اور سرگرم رکھا جائے گا۔ گوکہ بظاہر ان کا کہنا ہے کہ ان ٹولوں کا خاتمہ ۲۰ سال تک ممکن نہیں ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۔ آلبرائٹ ، ص۲۳۶؛ ڈانئیل ـ ریپس ، ص۱۴ـ ۱۵؛ اسمارٹ، ص۳۸۴ـ۳۸۵۔۔۔
۲۔ قرآن سمیت اسلامی منابع و مآخذ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے اسماعیل اور اسحاق علیہما السلام تھے۔
٭۔ سورہ، مائدہ، آیات ۲۴ تا ۲۶۔
۳۔ بیک، ص۲۸ـ ۴۸؛ اسمارٹ، ص۲۹۱؛ د۔ جوڈائیکا، ج۸۔
۴۔ د۔ جوڈائیکا ، ج۸، کالم ۵۹۳ ـ۵۹۹۔
۵۔ عہد قدیم، پیدائش ، باب ۳۲: ۲۷ـ ۲۸۔۔۔ یہودیوں کی تحریف شدہ کتاب میں آیا ہے کہ یعقوب(ع) پیغمبری کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا اور بندگان خدا پر غلبہ پانے کے بعد اسرائیل کہلائے۔
۶۔ گستاولی بون، تاریخ تمدن اسلام و عرب، ص۴۰۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ’’اسرائیل کی مقدس دہشت گردی‘‘ لیویا روخارچ نامی ایک یہودی و اسرائیلی خاتون کے ذریعہ صفحہ قرطاس پر سامنے آنے والی ایسی کتاب [۱] ہے جو ۱۹۸۰ میں منظر عام پر آئی اور اس کتاب پر مقدمہ معروف امریکن یہودی نوام چومسکی [۲] نے لکھا ہے ۔
یہ کتاب۱۹۳۳ ۔ ۱۹۴۸) تک یہود ایجینسی کے ی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کا عہدہ رکھنے والے موشے شارٹ[۳] کی ڈائری اور انکی جانب سے لکھے جانے والے نوٹس پر مشتمل ہے جو کہ بعد میں صہیونی حکومت کے سب سے پہلے وزیر خارجہ ہوئے جسکا دورانیہ ۱۹۴۸۔سے ۱۹۵۶ ء رہا اور اسکے بعد ۱۹۵۴ سے ۱۹۵۵ تک اسرائیل کے وزیر اعظم کے طور پر انہوں نے اپنا کام کیا ۔موشے شارٹ کی ہر روز کی ڈائری کو سب سے پہلے ان کے بیٹے نے ۱۹۷۹ میں مقبوضہ فلسطین میں شائع کیا تھا ۔
مصنفہ لیویا روخارچ ،موشے شارٹ کی وزارت عظمی کے دوران وزیر داخلہ کے عہدہ پر رہنے والے اسرائیل راکاخ کی بیٹی ہیں۔
موشے شارٹ کی منظر عام پر آنے والی ڈائری جو کہ عبری میں نشر ہوئی تھی اسرائیل میں کسی کی توجہ کو اپنی طرف مبذول نہ کر سکی البتہ لیویا روخارچ کے قلم سے انگریزی زبان میں جب یہی کتاب مارکیٹ میں آئی تو بین الاقوامی سطح پر چوطرفہ طور پراس کی پذیرائی ہوئی ۔
مصنفہ روخارچ ۱۹۷۰ کی دہائی میں اٹلی کی طرف ہجرت کر گئیں، اور انہوں نے اپنے تشخص کو مخفی رکھا اور اپنی نام نشانی کو پوشیدہ رکھتے ہوئے انہوں نے فلسطین سے متعلق ایک اطالوی شہری کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے اپنی زندگی گزاری ۔
۱۹۸۰ ء میں روخارچ نے صہیونی حکومت کی شدید دھمکیوں کے باوجود امریکہ میں اس کتاب کو منتشر کیا، اور پھر ٹھیک ۵ سال بعد ۱۹۸۵ء میں روخارچ کی لاش روم کے ایک ہوٹل میں ملی ۔
اس کتاب کا اہداء ان فلسطینیوں کے نام ہے جو اسرائیل کے مظالم اور اس کی خبیث دہشت گردانہ کاروائیوں کا شکار ہوئے ہیں ۔مصنفہ روخارچ اپنے اہداییہ میں لکھتی ہیں :’’ دہشت گردانہ کاروائیوں اور ٹرریزم اور انتقام کو اسرائیلی معاشرہ میں ایک نئی قدر حتی تقدس کی حد تک سراہا جاتا ہے ‘‘۔ ۱۹۸۶ میں’’ اسرائیل کی مقدس دہشت گردی‘‘ کا تیسرا ایڈیشن بھی شایع ہو گیا ۔
اس کتاب میں سب سے پہلے ٹرریزم کی تعریف کرتے ہوئے اسکے مفہوم کی وضاحت کی گئی ہے اس کے بعد صہیونی حکومت کے فکری اور اعتقادی پس منظر کو اسی مفہوم کے تحت پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے نیز اس کے تاریخی سابقہ کا جائزہ بھی لیا گیا ہے ۔اسکے بعد صہیونی حکومت کی دہشت گردانہ کاروائیوں کے طریقہ کار اور اس کے انواع و اقسام پر روشنی ڈالی گئی ہے اور اختتام میں فلسطین میں موجود صہیونیوں کے فاشسٹی و دہشت گردانہ نظریات کے حامل گروہوں کو اسرائیل کے وجود سے قبل و بعد دونوں ہی مراحل میں متعارف کرایا گیا ہے ۔
اس کتاب میں چامسکی نے اپنے مقدمہ میں بہت ہی عمدہ و نفیس مطالب کو بیان کیا ہے من جملہ ان میں ایک بات یہ ہے کہ روخارچ نے اپنے مقدمہ میں دو صہیونی اسلوبوں mythical پر مشتمل مفروضوں اور ایک احساس کا نام لیا ہے اور ان اسلوبوں اور ایک احساس کے مجموعہ کو صہیونیوں نے، فلسطینیوں کی سرکوبی، ان پر تشدد، قتل، جیل میں ڈالنے ، دربدر کر دینے، انکے گھروں کو ویران کرنے، اور مقبوضہ فلسطین سے خود کو پیچھے نہ ہٹنے دینے کی دستاویز بنایا ہوا ہے ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے صہیونی حکومت نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے اور اٹھا رہی ہے ۔
 
ان صہیونی مفرضوں کو حسب ذیل انداز میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
الف: مفروضہ تحفظ وامنیت : مفروضہ تحفظ و امنیت یا اس بات کا توہم کہ فلسطین میں موجود یہودیوں کا وجود دائمی خطرات کے سایہ میں ہے جوکہ بہت ہی سنگین ہیں ۔
ب : عربوں کا ڈر اور انکا خوف اور انکی دھمکیاں ؛ عربوں کی دھمکیوں، انکے خوف و ڈر کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ صہیونیوں نے پروپیگنڈہ کے ذریعہ اپنی مظلومیت کو اس کے بل پر پیش کیا ہے اور پیش کر رہے ہیں۔
ج: روخارچ نے حساس انداز میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ وہ چیز ہے جسے صہیونیوں نے اعراب کے خوف و ہراس کو اپنے لوگوں کے دلوں میں بٹھانے کے لئے مصنوعی انداز میں پیش کیا ہے ، اس ڈر و خوف کی فضا کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ لوگوں کو یہ باور کرایا جا سکے اور انہیں اس بات کی تلقین کی جا سکے کہ اسرائیلی معاشرہ بہت بری طرح چو طرفہ طور پر گھرا ہوا ہے اور محاصرہ میں ہے ۔
حوالہ جات
[۱] ۔ Livia Rokach, Israel”s Sacred Terrorism, A Study Based on Moshe Sharett’s Personal Diary and Other Documents, USA: AAUG Press, 1980
[۲] ۔ اَورام ناؤم چومسکی (عبرانی: אברם נועם חומסקי) (پیدائش ۷ دسمبر ۱۹۲۸) ایک یہودی امریکی ماہر لسانیات ، فلسفی ، مؤرخ ، ی مصنف، اور لیکچرار ہیں۔ ان کے نام کا اولین حصہ اَورام دراصل ابراہیم کا عبرانی متبادل ہے۔ وہ مشہور زمانہ میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی شعبہ لسانیات میں پروفیسر رہے اور اس ادارے میں پچھلے ۵۰ سالوں سے کام کیا۔ چومسکی کو لسانیات میں جینیریٹو گرامر کے اصول اور بیسویں صدی کے لسانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے کام سے کمپیوٹرسائنس ، ریاضی اور نفسیات کے شعبے میں ترقی ہوئی۔ چومسکی کی خاص وجہ شہرت ان کی امریکی خارجہ پالیسی اور سرمایہ دارانہ نظام پر تنقید رہی ہے۔ وہ ۱۰۰ سے زیادہ کتابوں کے مصنف رہے ہیں۔ انکی ایک کتاب دنیا کس طرح کام کرتی ہے نے بڑی شہرت پائی۔
[۳] ۔ Moshe Sharett, Yoman Ishi [Personal Diary], edited by Yaqov Sharett, Tel Aviv: Ma”ariv, 1979.

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مصری صدر جمہوریہ، انور السادات پہلے عرب حکمران تھے جنہوں نے جنگ رمضان” کے عنوان شہرت پانے والی ۱۹۷۳ کی جنگ کے بعد، اسرائیل کے ساتھ سازباز کا راستہ اپنایا اور یہودی ریاست کو تسلیم کیا اور کیمپ ڈیویڈ نامی سازباز کی قرارداد منعقد کرکے جعلی ریاست کا مقابلہ کرنے اور فلسطین کی آزادی کے سلسلے میں عربی امت کی ناامیدی کے اسباب فراہم کئے۔
حضرت امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّه) نے فلسطینی کاز اور امت اسلامی کے ساتھ اس خیانت و غداری کی بارہا مذمت فرمائی اور انورالسادات کی صلح کے سلسلے میں فرمایا:
میں سنجیدگی کے ساتھ انور السادات کے اقدامات کی مذمت کرتا ہوں، سادات نے اسرائیل کے ساتھ صلح کی سازش قبول کرکے حقیقتاً امریکہ کی استعماری حکومت سے اپنی وابستگی کو مزید آشکار کردیا اور مصری قوم کو چاہئے کہ اس غدار کو اپنے ملک سے دور کردے اور امریکہ اور صہیونیت سے اپنے ملک کی وابستگی کے دھبے کو اپنے ملک کے ماتھے سے مٹا دے”۔
بے شک؛ ایران کے اسلامی انقلاب نے نہ صرف فلسطینی عوام کے اسلامی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ عالم اسلام کی بیداری اور ہوشیاری میں بھی اس کا کردار ناقابل انکار ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب اسلام پسندی، استکبار کے خلاف جدوجہد اور اسلامی اقوام کے درمیان اسلامی حکومتوں کے قیام کے حوالے سے ایک مثالی نمونے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ مغربی کیمپ اور غیر جمہوری عرب ممالک کے سربراہان کے لئے ایک سنجیدہ چیلنج بن چکا ہے۔ وہ بخوبی اس حقیقت کا ادراک کرچکے ہیں کہ اتنے وسائل اور امکانات کے ہوتے ہوئے، عالم اسلام کی بیداری، مغربی دنیا اور غیر جمہوری عرب حکومتوں کے سربراہوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ انقلاب اسلامی دینی تعلیمات کی طرف بازگشت، اپنی قوتوں پر بھروسہ کرنے، فلسطینی مجاہدین کی طرف سے اسلامی نظام کو نمونۂ عمل قرار دیئے جانے، دشمنوں کے خلاف جہاد کے لئے مسجد کو کمان کا اصل مرکز قرار دینے، اسلام کی بنیاد پر وحدت و یکجہتی اور جہادی تنظیموں کے قیام کے حوالے سے ملت فلسطین پر گہرے اثرات مرتب کرچکا ہے یہاں تک کہ انتفاضہ تحریک اسلامی انقلاب سے ملت فلسطین کی اثر پذیری کا ثمرہ ہے۔
فلسطینی بحران کا انتظام طویل عرصے تک عرب حکومتوں اور فلسطینی چھاپہ مار تنظیموں کے زعماء کے ہاتھ میں رہا لیکن وہ جاری قواعد میں کوئی تبدیلی نہ لا سکے۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد، امام خمینی کی ہدایات اور راہنمائیوں کی روشنی میں ـ جو مسئلہ فلسطین کو اسلامی مزاحمت اور اسرائیل کے ساتھ سازباز سے اجتناب کے دریچے سے دیکھتے تھے ـ اس مسئلے میں عظیم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
لبنان میں حزب اللہ کی کامیابی امام خمینی کے تفکرات کے مرہون منت ہے۔ سید مقاومت، سید حسن نصراللہ کے مطابق لبنان میں شروع اور متحرک ہونے والی مزاحمت کی بنیاد اور اساس، اپنی گہرائیوں، اپنی قوت، فعالیت اور سنجیدگی کے لحاظ سے امام خمینی کی طرف ہی پلٹتی ہے اور سنہ ۲۰۰۰ میں صہیونی ریاست کی لبنان سے غیر مشروط پسپائی، صہیونی ریاست پر ان کی اہم ترین کامیابی تھی جو کہ اسلام پسندوں کے ہاتھوں حاصل ہوئی۔
سنہ ۲۰۰۵ میں غزہ کی پٹی سے یہودی ریاست کی پسپائی بھی فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے مرہون منت ہے جس نے اپنے اگلے مرحلے میں انتخابات میں کامیاب ہوکر فلسطینی حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ اور انقلابی مشروعیت کے ساتھ انتخابی مشروعیت کو بھی حاصل کرچکے۔
یہ تمام تر عظیم تبدیلیاں امام خمینی کے افکار کے مرہون منت ہیں جنہوں نے انقلاب اسلامی اور جدوجہد کو فلسطین کی آزادی کی بنیاد قرار دیا اور علاقے میں اسلامی مزاحمت کو فروغ دیا۔
تحریک جہاد اسلامی کے شہید قائد ڈاکٹر فتحی شقاقی نے ایران کے اسلامی انقلاب اور فلسطینی جدوجہد پر اس کے اثرات کے بارے میں کہا ہے: کوئی بھی چیز امام خمینی (قُدِّسَ سِرُّہ) کے انقلاب کی طرح ملت فلسطین کو متحرک نہ کرسکی، اور ان کے جذبات کو نہ ابھار سکی اور فلسطینی ملت کے دلوں میں امید کو زندہ نہ کرسکی۔ انقلاب اسلامی کے بعد ہم جاگ اٹھے اور سمجھ گئے کہ امریکہ اور اسرائیل کو بھی شکست دی جاسکتی ہے، ہم سمجھ گئے کہ دین اسلام کی تعلیمات کی رو سے معجزہ رقم کرسکتے ہیں اور اسی بنا پر فلسطین میں ہماری مجاہد قوم اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور امام خمینی کو تاریخ اسلام کے زندہ جاوید قائد سمجھتے ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیکل وار اس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں ظاہری ہتھیاروں کے استعمال کے بجائے ایسے جراثیم استعمال کیے جاتے ہیں جو تیزی کے ساتھ ایک شخص سے دوسرے شخص کی طرف بڑھ سکتے ہوں، ہوا کے ذریعے پھیل سکتے ہوں، سانس کے ذریعے پھیل سکتے ہوں یا ایک دوسرے کو چھونے کے ذریعے۔ گزشتہ دور سے دشمن ایک دوسرے کے خلاف جنگ کا یہ طریقہ استعمال کرتے آئے ہیں اور اس کی مثالیں کثرت سے تاریخ میں موجود ہیں۔ عصر حاضر میں پھیلی یا پھیلائی گئی اس بیماری کے بارے میں بھی یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ بھی انسانیت کے دشمنوں کی جانب سے ایک قسم کی حیاتیاتی جنگ ہے۔ اس حوالے سے حوزہ علمیہ قم کے معروف استاد حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی طائب نے اپنے فقہ کے درس کے دوران ایک تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے جس کو مختلف حصوں میں قارئین کے لیے پیش کرنے کی کوشش کریں گے؛
کتاب و سنت کی روشنی میں کسی بھی چیز کے حکم کو معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ہم اس چیز کے بارے میں مکمل طور پر آشنائی حاصل کر لیں۔ اگر ہم جنگ کے احکام معلوم کرنا چاہیں، جہاد اور دفاع کے احکامات معلوم کرنا چاہیں تو ضروری ہے کہ پہلے دشمن کی جانب سے کئے جانے والے حملوں کی قسموں کو پہچانیں پھر ان کا مقابلہ کرنے کے راستوں کو جان سکتے ہیں اور اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔
جہاد کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں؛ ابتدائی جہاد اور دفاعی جہاد۔
ابتدائی جہاد کفار و مشرکین کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام کی دعوت دینا اور عدالت برقرار کرنا کے معنی میں ہے جس میں جنگ کے آغاز گر مسلمان ہوتے ہیں اور مقصد کفر کا خاتمہ اور دین الہی کی گسترش ہوتی ہے، یہ جہاد اہل تشیع کے نزدیک امام معصوم کے عصر غیبت میں منتفی ہے چونکہ ابتدائی جہاد کے لیے نبی یا امام معصوم کا حکم ضروری ہے۔
لیکن دفاعی جہاد مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کے لیے ہر دور میں موجود ہے اور ہر انسان پر فرض ہے۔ دشمن کے حملے کے مقابلے میں اپنے جان و مال اور اپنے دین و وطن کی حفاظت کرنا ایسا مسئلہ ہے جو عقلی اعتبار سے ثابت ہے اور آیات و روایات میں اس کی تصدیق کی گئی ہے۔
لیکن دفاعی جہاد کرنے سے پہلے دشمن کے حملوں کو پہچانا ضروری ہے کہ دشمن کتنے طریقے سے ہمارے اوپر حملہ ور ہو سکتا ہے۔ بطور کلی اگر دیکھا جائے تو دشمن نے ابھی تک چار طرح کی جنگیں کی ہیں؛
۱۔ ہتھیاروں کی جنگ؛ ہتھیاروں کی جنگ ہر دور میں متعارف ہے اور زمانہ قدیم سے آج تک جتنی جنگیں ہوئی ہیں وہ مختلف قسم کے ہتھیاروں سے ہی لڑی گئی ہیں صرف فرق یہ ہے کہ قدیم زمانے کی جنگوں میں استعمال ہونے والے ہتھیار تیر و کمان تھے لیکن آج میزائل اور ایٹم بم ہے۔ گزشتہ دور کی جنگوں میں دونوں فریقوں کو آپس میں لڑنے کے لیے میدان جنگ کا رخ کرنا پڑتا تھا لیکن آج گھر بیٹھے بیٹھے شہروں کے شہر برباد کیے جا سکتے ہیں۔
لہذا ہتھیاروں کی جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ملک کو اتنے ہی قوی ہتھیار بنانے پڑتے ہیں جتنے اس کے دشمن کے پاس ہیں اور یہ چیز متعارف ہے اور اسلام بھی اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے دفاع کے لیے وہ ایسے ہتھیار بنا اور استعمال کر سکتا ہے جن سے دشمن کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے لیکن ایسے ہتھیار بنانے اور ان کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا جن سے اجتماعی قتل و بربادی ہو اور بے گناہ لوگ مارے جائیں۔

جاری

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: دوسری عالمی جنگ کے بعد سنہ ۱۹۴۷ میں برطانیہ اگلے سال (۱۹۴۸ میں) فلسطین سے اپنے انخلا اور فلسطین کا انتظام اقوام متحدہ کے سپرد کرنے کا اعلان کیا۔ ۲۹ نومبر سنہ ۱۹۴۷ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قراداد کے تحت فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور اس سرزمین کے ۴۳ فیصد حصے کو عربوں اور ۵۶ فیصد حصے کو یہودیوں کے حوالے کیا اور بیت المقدس کو بین الاقوامی عملداری میں دیا گیا۔
مورخہ ۱۵ مئی کو فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی مدت اختتام پذیر ہوئی تو فلسطین کے تمام ادارے نیست و نابود ہوچکے تھے اور انگریزوں کے انخلاء سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کے لئے کوئی بھی ادارہ موجود نہیں تھا۔ یہودیوں نے ـ جو اقوام متحدہ کے تقسیم کردہ علاقوں پر مسلط ہوچکے تھے ـ ایک عبوری حکومتی سل تشکیل دی جو ۳۸ اراکین پر مشتمل تھی اور اس سل نے ایک تیرہ رکنی کابینہ کا انتخاب عمل میں لایا۔ اسی دن ڈیوڈ بن گورین نے ـ جو بعد میں وزیر اعظم بنا ـ وزارت دفاع کا قلمدان سنبھال لیا اور کابینہ کے قیام کا اعلان کیا۔
اس اقدام کے چند ہی گھنٹے بعد امریکہ اور سووویت روس نے اس ریاست کو تسلیم کیا۔ اور یہودی ایجنسی نے اسرائیلی ریاست کی تشکیل کے اعلامیے کے ضمن میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۱۸۱ کو یہودی عوام کی طرف سے خودمختار ریاست کی تشکیل کا حق تسلیم کئے جانے کا اظہار قرار دیا۔
اس اعلامیے میں البتہ اسرائیل کے لئے کوئی سرحد متعین نہیں کی گئی تھی لیکن یہودی ایجنسی نے امریکی صدر ٹرومین کے نام اپنے پیغام میں انہیں اسرائیل کے باضابطہ تسلیم کرنے کی ترغیب دلاتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی کا اعلامیہ ان سرحدوں تک محدود ہے جن کا تعین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کی منظور کردہ قرارداد میں ہوا تھا۔ قرارداد نمبر ۱۸۱ کے ساتھ ساتھ، یہودی ایجنسی نے فلسطین کے سلسلے میں اپنے دعوے کے ضمن میں مقدرات کے فیصلے اور فلسطین پر قدیم یہودی مالکیت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور مختلف ملکوں اور اقوام میں سے ہجرت کرنے والے یہودیوں کو قدیم عبرانیوں کا جانشین قرار دیا۔
اسی دن، بوقت شام، مصر، شام، اردن اور لبنان نے نوظہور اسرائیلی ریاست کے خلاف اعلان جنگ کیا اور یہ عرب ـ اسرائیل کی پہلی خونریز جنگ تھی۔
اسرائیل کے قیام کے اعلامیے میں فلسطینی عوام ـ جو ۹۷ فیصد سرزمینوں کے مالک تھے ـ کو غیر یہودی معاشروں” کے تحت سرے سے نظر انداز کیا گیا تھا جس کے باعث پوری دنیا کے یہودی غیر قانونی طور پر فلسطین کی طرف آنا شروع ہوئے اور امریکی صدر ولسن نے بھی اس غیرقانونی ہجرت کی حمایت کا اعلان کیا۔ دوسری طرف سے فلسطین کے خون بھرے واقعات کی وجہ سے عالمی رائے عامہ میں نفرت کی لہر دوڑ گئی اور یہودیوں کی نوزائیدہ ریاست کو شدید تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکہ میں مقیم صہیونی یہودیوں نے بھی اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرکے یہودی ریاست کی تشکیل پر زور دیا۔ فلسطینیوں پر تشدد اور ان کے آزار و اذیت کے باعث صہیونیوں کے خلاف عالمی غیظ و غضب میں شدت آئی اورانھوں نے اقوام متحدہ سے احتجاج کیا۔ قبل ازیں ـ یعنی ۲۹ نومبر ۱۹۴۷ کو ـ امریکہ اور سوویت روس نے اپنے ایک غیر معمولی اور نادر مفاہمت نامے کے تحت فلسطینی سرزمین کی دو عرب اور یہودی حصوں میں تقسیم کے منصوبے پر عملدرآمد کیا اور اقوام متحدہ سے کہا کہ اس منصوبے کو منظور کرلے؛ جس نے عالم اسلام میں غصے اور نفرت کی لہر دوڑا دی اور سابق سوویت روس اور صہیونیوں کے خلاف بیت المقدس، یافا، حیفا اور فلسطین کے کئی دوسرے شہروں اور کئی اسلامی ممالک میں خونی مظاہرے ہوئے۔
مورخہ ۸ دسمبر ۱۹۴۷ کو عرب لیگ نے ایک نشست میں اقوام متحدہ کے خائنانہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے یہودی صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ فیصلے کئے۔ سنہ ۱۹۴۸ میں مصری طیاروں نے ابتداء میں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کو بمباری کا نشانہ بنایا اور لبنان کی بکتر بند یونٹوں نے شمال سے، شام اور اردن نے مشرق اور مصر نے مغرب سے فلسطین کی طرف عزیمت کی۔
ابتدائی دنوں میں اردن کی افواج نے بیت المقدس کے ایک بڑے حصے کو یہودی قبضے سے آزاد کرایا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی سل نے دیکھا کہ جنگ یہودی غاصبوں کے نقصان میں ہے، تو اس نے ۲ جون ۱۹۴۸ کو ـ جبکہ جنگ کے آغاز سے ۱۹ دن گذر رہے تھے ـ جنگ بندی کی اپیل کی۔ یہودیوں نے اس جنگ بندی سے فائدہ اٹھایا اور امریکہ اور چیلواکیہ کی مدد سے اپنے فوجی دستوں کو کیل کانٹے سے لیس کیا اور اسی سال ماہ ستمبر میں ـ یعنی صرف تین ماہ بعد ـ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا اور فلسطین کے اندر ہاگانا” یا یہودی حملہ آور اور دفاعی فوج” نے علاقہ عکا” پر حملہ کیا جہاں حیفا اور دوسرے عرب علاقوں کے ہزاروں عربوں نے پناہ لی تھی اوران پر زبردست فائرنگ کی۔ اور بعدازاں ہاگانہ کے ساتویں بریگیڈ نے گھمسان کی لڑائی کے بعد شہر ناصرہ” پر قبضہ کرلیا اور مصر کی طرف پیشقدمی کا آغاز کیا۔
دوسری جنگ میں عرب افواج مشترکہ کمان اور ہماہنگی نہ ہونے کے باعث استقامت نہ دکھا سکے جس کے نتیجے میں اسلامی سرزمینوں کا ۶۰۰۰ کلومیٹر کا رقبہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا اور یہ جنگ اقوام متحدہ کی مداخلت سے اختتام پذیر ہوئی۔
بہار ۱۹۴۹ میں اسرائیل نے مصر، لبنان، ماورائے اردن اور شام کے ساتھ الگ الگ مذاکرات کرکے اختتام جنگ کے مفاہمت ناموں پر دستخط کئے۔ لیکن یہ مفاہمت نامے بھی دیرپا ثابت نہ ہوئے اور اسرائیلی ریاست کے حملے وقتا فوقتا جاری رہے۔ اسی سال غاصب یہودی ریاست نے فلسطین کے ۴۰۰ شہروں اور دیہاتوں کو ویراں کردیا اور ویرانوں پر مصنوعی جنگل کاری کا اہتمام کیا۔
چنانچہ اس جنگ میں ۱۰ لاکھ فلسطینی بےگھر ہوکر عرب ممالک میں پناہ گزین ہوئے اور فریقین کے ہزاروں سپاہی ہلاک اور زخمی ہوئے اور یہودی فلسطین کے ۷۸ فیصد حصے پر مسلط ہوئے۔ دوسری طرف سے دنیا بھر سے یہودیوں کی فلسطین آمد میں اضافہ ہوا اور یہ سلسلہ ۱۹۵۱ میں اپنے عروج کو پہنچا۔
جنگ اور فلسطینیوں کے قتل اور ان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں نیز اپنی آبائی سرزمینوں سے ان کے مسلسل فرار کے نتیجے میں فلسطینی پناہ گزینوں کا مسئلہ معرض وجود میں آیا اور یہ مسئلہ ۱۹۶۷ کی ۶ روزہ عرب ـ اسرائیل جنگ کا سبب بنا۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: سنہ ۱۸۹۸ع‍ میں آسٹریا میں یہودی صحافی و مصنف تھیوڈور ہرٹزل” نے یہودی ریاست” کے زیر عنوان ایک کتاب شائع کی۔ اس نے اس کتاب میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے حق میں دلائل دیئے اور صہیونی تحریک کا خیرمقدم کرنے کے لئے مغربی رائے عامہ کو ایک فکری ماحول فراہم کیا۔ چونکہ یہودیوں کو جرمنی میں سب سے زیادہ ی اثر و رسوخ حاصل اور سرگرمیوں کا ماحول فراہم تھا لہذا ہرٹزل نے ابتداء میں جرمنی کے توسط سے ـ یہودیوں کے فلسطین میں بسانے کے سلسلے میں ـ عثمانی سلطان کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی لیکن بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مسلمانوں کے اعلان جہاد سمیت متعدد اسباب و عوامل کی بنا پر ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی چنانچہ یہودیوں نے برطانیہ کے دامن میں پناہ لی۔
یہودی عمائدین نے برطانیہ کے نمائندے سائکس کے ساتھ مذاکرات میں، انہیں یقین دلایا کہ لیگ آف نیشنز” میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی یا پروٹیکٹوریٹ ہونے کی حمایت کریں گے اور فرانس یا کسی بھی دوسرے ملک کو اسے اپنے زیر سرپرستی لانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری طرف سے انھوں نے سائکس کو تمام تر مراعاتیں دینے کا وعدہ کیا اور عہد کیا کہ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو اتحادیوں کے حق میں اور جرمنی کے خلاف، مداخلت پر آمادہ کریں گے۔ ان اقدامات سے درحقیقت ۲ نومبر ۱۹۱۷ کے بالفور اعلامیئے کے لئے امکان فراہم کیا گیا۔ برطانیہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ بالفور نے لارڈ لوچرڈ کے نام اپنے ایک خط میں ایک قومی یہودی وطن کی تشکیل کی خوشخبری دی۔ یہ خط اعلامیۂ بالفور کے عنوان سے مشہور ہوا۔ اعلامیئے میں کہا گیا تھا:
فلسطین میں یہودی قومی وطن کی تشکیل کے بابت حکومت برطانیہ کے اشتیاقِ خاص کے پیش نظر، یہ حکومت اس ہدف کے حصول اور اس کے لئے وسائل کی فراہمی کے لئے کوشش کرے گی”۔
اعلامیۂ بالفور کی اشاعت کے بعد، برطانوی افواج نے ۹ دسمبر ۱۹۱۷ کو بیت المقدس پر قبضہ کیا اور خزان سنہ ۱۹۱۸ تک تمام عثمانی افواج کو فلسطین میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا اور پوری سرزمین فلسطین پر قبضہ کیا۔ ۱۹۱۹ میں فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے مندوبین کی موجودگی میں سان ریمو” کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں فلسطین کے حالات کا جامع جائزہ لینے کے بعد فیصلہ ہوا کہ مذکورہ ممالک فلسطین پر برطانیہ کی سرپرستی کی حمایت کرتے ہیں۔
مورخہ ۲۴ جولائی ۱۹۲۲ کو لیگ آف نیشنز سل میں فلسطین کے برطانیہ کے زیر سرپرستی ملک کے قانون کو باضابطہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ برطانیہ کی حمایت کے تحت، عربوں کی مخالفت کے باوجود، یہودیوں کی فلسطین میں ہجرت کے سلسلے کی رفتار میں ـ جو کئی سال پیشتر شروع ہوچکا تھا ـ اضافہ ہوا۔ ادھر ہٹلر کی یہود مخالف پالیسیوں کی وجہ سے بھی فلسطین آنے والے یہودی مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ ۱۹۴۶ میں فلسطین کی مجموعی آبادی انیس لاکھ بہتر ہزار پانچ سو پچاس تھی جن میں چھ لاکھ آٹھ ہزار یہودی پناہ گزین شامل تھے، جبکہ ۱۹۱۸ میں فلسطین میں یہودی مہاجرین کی تعداد ۵۶۰۰۰ سے زیادہ نہ تھی۔ فلسطین میں آ بسنے والے یہودی مہاجرین کی زیادہ تر تعداد کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے تھا۔
فلسطین میں یہودی آبادی میں اضافے اور علاقے میں ان کی ت قوت بڑھ جانے کی بنا پر عربوں نے برطانیہ پر دباؤ بڑھا دیا کہ وہ یہودیوں کی حمایت نہ کرے۔ اس اثناء میں یہودیوں نے فلسطین میں ایک خودمختار لشکر اور ایک خفیہ فوج بنام ہاگانا” تیار کی تھی۔ اس خفیہ فوج کی ذمہ داری مخالفین پر قاتلانہ حملے کرنا اور عرب آبادی کے خلاف جنگ کرنا تھی۔
برطانیہ نے عرب آبادیوں کو خاموش کرنے اور ان کی بغاوت کا سدباب کرنے کی غرض سے ۱۹۳۹ میں کتابِ سفید” شائع کرکے اعلان کیا کہ یہودیوں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ فلسطین میں ایک قومی مرکز قائم کریں، لیکن انہیں خودمختار حکومت قائم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس اعلامیے نے یہودیوں میں غیظ و غضب کی لہر دوڑا دی اور انھوں نے انگریزوں کی رائے کے برعکس، اپنے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا؛ تا ہم اسی زمانے میں دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا اور فلسطین کا مسئلہ جنگ کی خبروں تلے دب کر رہ گیا۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اقوام اور ملتوں اور معاشروں کو پہچاننا ہو تو سب سے پہلے ان کے ظہور کے تاریخچے کا گہرا مطالعہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
یہود کے تاریخی مآخذ نیز مغربی مآخذ نے بنی اسرائیل کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام؛
۲۔ حضرت یعقوب علیہ السلام جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا؛ جن کا البتہ موجودہ اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی ذریت سے ہیں اور آج کے انسانی معاشروں کے تمام افراد ان ہی افراد کی اولاد میں سے ہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر طوفان کے مہلکے سے چھوٹ گئے تھے۔ یہ تاریخچہ اس مضمون میں اختصار کے ساتھ چند حصوں میں بیان کیا جاتا ہے:
قوم بنی‌اسرائیل:
الف۔ تاریخی مستندات کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں واقع اور’’کلدانیان‘‘ نامی شہر میں پیدا ہوئے۔ دجلہ اور فرات کے درمیان واقع بابل” میں ست پذیر تھے، نمرود کے ساتھ مقابلہ کیا، بتوں کو توڑ دیا، آگ میں پھینکے گئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ اور پھر اپنے خاندان اور قبیلے کے ہمراہ عراق ہی کے شہر حران” ہجرت کرگئے۔ اس علاقے کو ـ جو آج عراق کہلاتا ہے ـ رافدین کہا جاتا تھا اور عبری قوم کے کچھ لوگ بھی اس شہر میں ست پذیر تھے۔ بعدازاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے فلسطین، حجاز اور مصر کی طرف ہجرت کی۔ (۱)
ب۔ مغربی اور یہودی مآخذ کے مطابق، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے (۲): اسحاق اور یعقوب، اور یعقوب کا دوسرا نام اسرائیل تھا۔ وہ کنعان میں ست پذیر ہوئے، لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات، مصر میں ان کی وزارت عظمی، کنعان میں قحط سالی وغیرہ کے بعد وہ اپنی قوم کے ہمراہ مصر چلے گئے اور یہ قوم حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے تک مصر میں رہی۔
۔ ان کی قوم کو فرعونیوں نے آزار و اذیت کا نشانہ بنایا گیا، اور وہ موسی علیہ السلام کی قیادت میں مصر سے نکل کے کنعان کی طرف روانہ ہوئے۔ جیسا کہ قرآن میں کریم میں بیان ہوا ہے: انھوں نے کہا اے موسیٰ !ہم ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے، جب تک کہ وہ اس میں ہیں لہذا بس آپ جائیے اور آپ کا پروردگار اور دونوں لڑ لیجئے۔ ہم یہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ موسیٰ نے کہا پروردگار!میں قابو نہیں رکھتا مگر اپنے اوپر اور اپنے بھائی پر، لہذا تو ہی فیصلہ کردے ہمارے درمیان اور اس بد اعمال جماعت کے درمیان۔ ارشاد ہوا کہ پھر اب وہ ان پر چالیس برس کے لیے حرام ہے، وہ جنگل میں سرگردان پھرتے رہیں گے تو تمہیں ان بداعمال لوگوں پر افسوس نہ ہونا چاہئے”۔
یعنی یہ کہ موسی علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے انہیں ہدایت کی کہ سرزمین فلسطین میں داخل ہوجاؤ، لیکن انھوں نے منع کیا جس کے نتیجے میں وہ ۴۰ سال تک صحرائے سینا میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتے رہے اور بھٹکتے رہے اور ان کی کئی نسلیں وہیں ختم ہوئیں۔ اور نئی نسلیں ظہور پذیر ہوئیں۔
۔ حضرت موسی علیہ السلام کی رحلت کے بعد اور یوشع بن نون کی جانشینی کے دوران، کنعان تدریجی انداز سے فتح ہوا۔ (۳)– بعدازاں بادشاہی کا دور شروع ہوا، طالوت اور داؤود اور پھر سلیمان علیہم السلام اس دور کے طاقتور بادشاہ تھے۔ لیکن اسباط (یعنی فرزندان یعقوب میں سے ہر ایک سے معرض وجود میں آنے والے قبائل) کے درمیان اختلافات نے زور پکڑ لیا اور بادشاہی تقسیم ہوگئی۔ شمالی حصے میں اسرائیلی بادشاہت دس سبطوں پر حکمرانی کررہی تھی۔ اور بنیامین اور یہودا کی اولادوں نے جنوبی فلسطین میں چھوٹی سی بادشاہت تشکیل دی۔
۔ بُختُ النصر (نبوکدنصر) نے حملہ کرکے اسرائیلی بادشاہت پر قبضہ کیا اور ہیکل والی عبادتگاہ منہدم ہوئی اور قوم بنی اسرائیل کو بابل لےجایا گیا۔ سنہ ۵۳۸ قبل از مسیح میں ایران طاقتور ہوا تو کوروش نے بابل کو فتح کیا اور حکم دیا کہ یہودیوں کو اپنی سرزمین میں لوٹایا جائے اور ان پر مہربانیاں کیں اور ان کو اپنی حمایت کے تحت قرار دیا۔ انھوں نے یروشلم کی عبادتگاہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا، لیکن فلسطین پلٹنے کے بعد اسباط کے درمیان اختلاف حل نہیں ہوا اور وہ دوبارہ اپنی خودمختاری حاصل نہ کرسکے۔ یہ قوم ایران کے بعد بالترتیب یونانیوں، بطلیمیسیوں (Ptolemaic Dynasty)، سلوکیوں (Seleucid Empire) اور رومیوں کے زیر تسلط رہے۔ حتی کہ آخرکار سنہ ۷۰ عیسوی میں ـ جب یروشلم میں ہیکل ثانی بھی منہدم ہوا ـ بنی اسرائیلی حکومت انتشار اور شکست و ریخت سے دوچار ہوئی۔ سنہ ۳۹۵ع‍میں سلطنت روم تقسیم ہوئی تو فلسطین مشرقی روم یا بازنطین کا صوبہ ٹہرا جہاں عیسائیوں کی ست تھی۔
۔ یہ قوم حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت کے بعد شہر ناصرہ میں یہودی اور عیسائی ادیان میں تقسیم ہوئی اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثت کے بعد ان کی اکثریت نے اسلام قبول کیا۔
نکتہ – لیکن، یہودی تواریخ کہتی ہیں کہ اسرائیل کا نام حضرت یعقوب کو اس لئے دیا گیا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے کے ساتھ جنگ میں معجزانہ طور پر غالب آگئے تھے!:
” ان سے کہا: تمہارا نام کیا ہے؟”، کہا: یعقوب”۔ اس نے کہا کہ تمہارا نام بعدازیں یعؔقوب نہیں بلکہ تمہارا نام اِسرائیل ہوگا کیونکہ تُو نے خُدا اور انسان کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالِب ہُوا”۔ (۵)

جاری

 


بقلم نجیب الحسن زیدی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج بین الاقوامی سطح پر ہم سب جس بڑی پرشانی سے جوجھ رہے ہیں وہ کرونا وائرس ہے ، ساری دنیا میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے چین کے بعد سب سے زیادہ اس وائرس کی زد میں آنے والا ملک پہلے تو اٹلی تھا، یورپ کے حالات میں کم برے نہیں تھے  امریکہ کی تو بات ہی الگ ہے دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ تباہی اس وائرس نے  امریکہ میں مچائی ہوئی ہے با این ہمہ عجیب بات یہ ہے کہ منظم طور پر اسلامی جمہوریہ  ایران کو  اس بیماری سے متاثر ہونے ہونے والے ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جہاں پر گویا دنیا میں سب سے زیادہ اموات ہو رہی ہوں جبکہ ایسا نہیں ہے، اور مختلف تجزیہ کار اس بات کو بیان کر رہے ہیں جو صورت حال امریکہ و یورپ کی ہے اس وقت اتنی بدتر صورت حال کہیں نہیں ہے ،انسانی معاشرہ کا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر سب کو مل جل کر آگے بڑھنا چاہیے اور اس سے مقابلہ کرنا چاہیے لیکن افسوس کہ ایسی صورت میں بھی کچھ لوگ ت کر رہے ہیں ، اور عجیب بات یہ ہے کہ اتنی خطرناک وبا کے ہوتے ہوئے دنیا کی تسلط پسندانہ عزائم رکھنے والی طاقت  نہ صرف اپنی ٹکنالوجی اور اپنی طاقت کو اس بیماری سے روکنے پر صرف نہیں کر رہی ہے بلکہ انسانی بنیادوں پر جہاں جہاں اس نے پابندی لگائی ہوئی ہے ان ممالک میں دوائی و میڈیکل سے متعلق سازوسامان کی ارسال و ترسیل کے کام کو بھی نہیں ہونے دے رہی ہے، اسی بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کا نعرہ لگانے والی بڑی طاقتوں کو کس قدر انسانیت کی فکر ہے، اگر انہیں انسانیت کی فکر ہوتی تو کیا یہ عراق کی سرزمین پردنیا میں موجودہ افراتفری کے باوجود الحشد الشعبی کے ٹھکانوں پر  بمباری کرتے؟ اگر انہیں انسانیت کی فکر ہوتی تو کیا کربلا کے زیر تعمیر ائر پورٹ کو نشانہ بناتے، یا پھر انکی کوشش ہوتی کہ اپنے وسائل کو انسانیت کے تحفظ کی راہ میں استعمال کریں ۔
اور کیوں نہ ہو مختلف تجزیہ کار اس خدشہ کا مسلسل اظہار کرتے رہے ہیں کہ یہ ایک بائیولوجیکل جنگ ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی طاقت نے چین کی ابھرتی معیشت کو روکنے کے لئے چھیڑا ہے، یہ اور بات ہے کہ دوسروں کے لئے گھڑہا کھودنے والا زیادہ دیر محفوظ نہیں رہتا اور اپنے کھودے گھڑے میں خود ہی گرتا ہے جو کہ آج ہو رہا ہے اور جتنی ہا ہا کار امریکہ میں مچی ہے کہیں یہ صورت حال نہیں ہے ، جہاں تک اس وائرس کے پیچھے امریکہ کے ہاتھ کی بات ہے تو اگر بات صرف  دنیا کے سپر پاور کے مخالفین کی جانب سے ہوتی تو یہ یقینا کہا جا سکتا تھا کہ بلا وجہ کے ازلی عناد کی وجہ سے کچھ لوگ مخالفت میں یہ بات کر رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ نہیں ہے چنانچہ ایک امریکی مصنف ’کیون بیرٹ‘ کے تجزیہ پر اگر غور کریں تو انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یقینا یہ کرونا وائرس محض ایک بلا یا بیماری نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک تخریبی ت کارفرما ہے ، چنانچہ اس تجزیہ کے کچھ اہم نکات کو ہم آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔
۱۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ چین کے ی اہلکاروں نے واضح طور پر اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس وائرس کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے  جسکے بعد  امریکہ میں مختلف خفیہ میٹنگیں ہوئی ہیں جنکی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آ سکی ہے،کیااس بات کا احتمال نہیں ہے کہ امریکی مقتدرہ سے ہٹ کر اسکی بعض خفیہ ایجنسیوں نے من مانے طریقے سے اس وائرس کو چین سے مقابلہ کے لئے وہان میں پھیلا دیا ہو  اور اگر حقیقت میں بھی ایسا ہی ہو تو یہ واضح طور پر تیسری عالمی جنگ کی آہٹ ہے ۔
۲۔ آپ اگر غور کریں تو پائیں گے کہ امریکہ اور چین کے درمیان کی تجارت ٹھپ ہو گئی ہے  چین و امریکہ کی معیشتی مراکز کو الگ الگ کیا جا رہا ہے ، اور اس بات میں بھی کوئی دورائے نہیں ہے کہ اٹلی میں موجود چینی بندرگاہوں کو واضح طور پر نشانہ بنایا گیا ہے اور اٹلی کو چین کے ایک بڑے پروجیکٹ  بیلٹ اینڈ روڈ کے لئے مجرم قرار دے کر اسے اسکے کئے کی سزا دی گئی ہے ،
۳۔  جہاں تک ایران کی بات ہے تو ایرانی قیادت  کی فرنٹ لائن کو نشانہ بنایا گیا ہے  جبکہ ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب سے وابستہ عہدہ داروں اور دیگر انقلابی اداروں کی جانب سے پہلے ہی اس بات کا اندیشہ ظاہر کر دیا گیا ہے کہ ایران میں بری طرح اس وائرس کا پھیلنا ایک بایولوجیکل جنگ کا حصہ ہو سکتا ہے ۔
یہ وہ باتیں ہیں جو ہم نہیں بلکہ امریکہ ہی کے ایک تجزیہ کار و مصنف نے بیان کی ہیں ،کیا ان باتوں کے پیش نظر یہ مقام غور نہیں ہے کہ ہم جس مصیبت میں پھنسے ہیں ، وہ مصیبت دنیا کی اس بڑی طاقت کی جانب سے ایجاد کی ہوئی ہے جس نے اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لئے پوری دنیا کو ایک کھلونا بنا دیا ہے ۔
اگر چین کے بڑھتے عالمی رسوخ اور اسکی تیز رفتار ترقی کرتی معیشت کو دیکھا جائے  اور اس بات پر غور کیا جائے کہ دنیا کی بڑی طاقت اس سے مقابلہ کے لئے کیا کر سکتی تھی تو ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں  کس طرح وہان شہر میں امریکی فوجی مشقیں ہوئیں اور پھر امریکی فوج جیسے ہی واپس پہنچی وہان شہر میں ہر طرف کرونا وائرس نے ہا ہاکار مچا دی ۔
اس موجودہ وائرس کی وجہ کوئی بھی ہو  فی الحال ہم سب کو مل کر اسکا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور اپنے ملک میں اس بات کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ وائرس پر جلد از جلد کنڑول ہو یہ ہم سب کی قومی اور شرعی ذمہ داری ہے ۔
     

 

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: امریکہ میں حکومتی عہدیداروں کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے یہودیوں کی طرف سے لابیاں تشکیل دینا اس ملک میں رائج امور کا حصہ ہے۔ امریکی حکومت پر صہیونی لابیوں کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ ہے کہ امریکی حکومت میں یہودیوں کو پوشیدہ حکمران سمجھا جا سکتا ہے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اسی حوالے سے امریکی حکومتی نظام میں صہیونیت کے نفوذ کے موضوع پر ڈاکٹر مجید صفاتاج سے گفتگو کی ہے۔

خیبر: امریکی حکومت پر صہیونی اثر و رسوخ اور اس ملک کے حکمراں طبقے میں صہیونی لابیوں کی تشکیل کے حوالے سے آپ کا کیا نظریہ ہے؟
۔ امریکی حکومت کے تنظیمی ڈھانچے نے ابتدا سے ہی بہت سارے بااثر افراد اور گروپوں کی پالیسیوں کے اثرات قبول کرنے کی راہ ہموار کر رکھی ہے، اس ملک میں مفاد پرست گروہ منتخب نمائندوں اور ایگزیکٹو برانچ کے ممبروں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ امریکہ میں ہمیشہ سے ہی دو جماعتیں؛ ڈیموکریٹک اور ریپبلکن رہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ہر ایک ایکزیکیٹو پاور اور ی اقتدار استعمال کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ لہذا، صہیونیوں کے لئے ہمیشہ ریاستہائے متحدہ امریکہ پر حکمرانی کرنے اور امریکی خارجہ پالیسیوں میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا موقع فراہم رہا ہے۔
اس سلسلے میں، یہودی لابی اور صیہونی گروپوں نے ہر مرحلے اور ہر دور میں صیہونی منصوبوں کی حمایت کرنے کے لئے اپنی خواھش کے مطابق امریکی حکومتیں قائم کیں۔ اصولی طور پر، ریاستہائے متحدہ میں اقتدار میں آنے والی مختلف حکومتوں میں بااثر یہودی جماعتیں ہمیشہ سے شامل تھیں جو امریکی حکومت سے وابستہ تمام تنظیموں، اداروں ، معیشتوں اورحتیٰ فوجی امور میں کلیدی اور حساس عہدوں پر موجود تھیں۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے وائٹ ہاؤس کے فیصلہ سازی کے ان مراکز میں بھی کام کیا جو امریکی حکومت کے پالسیوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
یوں تو امریکی حکومت میں یہودیوں کا اثر و رسوخ ہمیشہ سے تھا مگر ۱۹ویں صدی عیسوی کے بعد تو امریکہ کی خارجہ پالیسی تقریبا یہودیوں کے ہی اختیار میں چلی گئی۔
ریاستہائے متحدہ کے صدور اپنی حکومت میں یہودیوں کی موجودگی کے بارے میں مختلف رائے رکھتے تھے اور ہیں۔ کچھ حکومت میں یہودیوں کی موجودگی کی مخالفت کرتے تھے ، جبکہ دوسرے یہودیوں میں سے اپنے نائبوں اور مشیروں کا انتخاب کرتے تھے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ صدور جو یہودیوں مشیروں کو انتخاب بھی کرتے تھے وہ صہیونی لابیوں کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا تھا۔

در حقیقت، امریکی صدر ’روزویلٹ‘ کے دور حکومت میں اس وقت صہیونی لابی کا گہرا اثر و رسوخ شروع ہوا جب ۱۹۱۲ میں اسرائیل کی تشکیل کے لیے بالفور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے امریکی صدر کی تصدیق درکار تھی۔ کیونکہ اگر امریکہ کی حمایت حاصل نہ ہوتی تو برطانیہ کی حکومت کبھی بھی بالفور اعلامیہ کو منظور کروانے میں کامیاب نہ ہوتی۔  
پہلی جنگ عظیم کے دوران، وائٹ ہاؤس میں یہودیوں کا ایک مضبوط دباؤ گروپ سامنے آیا، جو امریکہ کا سب سے طاقتور یہودی گروپ تھا۔  یہ گروپ فلسطین میں یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے برطانوی اور امریکی حکومت کی حمایت حاصل کرنے میں موثر ثابت ہوا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں صہیونی اثر و رسوخ اس حد تک بڑھ گیا کہ ان کی حمایت کے بغیر کسی صدر کا انتخاب یا اس کی بقا ناممکن نظر آنے لگی۔

جاری
https://chat.whatsapp.com/HiMcVN8LrmFEjqVx12pmen

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہودی اور ابلیس کی خصوصیات اور صفات نیز ان کا راستہ ایک جیسا ہے اور یہ ہمیشہ ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں اور ان کے اہداف ایک جیسے ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے کئی مرتبہ حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ ابلیس کی دشمنی کا تذکرہ کرنے کے بعد بنی اسرائیل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ کتنے عظیم گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں گویا آغاز عالم سے ہی بنی اسرائیل کی طینت اس کا سرچشمہ ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُواْ التَّوْرَاةَ وَالإِنجِیلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَیهِم مِّن رَّبِّهِمْ لأکَلُواْ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ وَکَثِیرٌ مِّنْهُمْ سَاء مَا یَعْمَلُونَ؛ اور اگر وہ توریت اور انجیل اور اس کو جو ان کے پاس ان کے پروردگار کی طرف سے اترا تھا ٹھیک طرح قائم رکھتے تو وہ کھاتے پیتے اپنے اوپر سے اور اپنے پیروں کے نیچے سے ان میں سے بس ایک گروہ تو اعتدال پر ہے اور زیادہ ان میں سے بڑا برا کردار رکھتے ہیں”۔ (سورہ مائدہ، ۶۶)
کچھ نمونے:
۱۔ حسد
ابلیس نے آدم(ع) کے ساتھ اور بنی آدم کے ساتھ حسد برتا اور حسد ابلیس کی وجۂ شہرت ہے۔ یہاں تک کہ حسد کی بنا پر اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور راندۂ درگاہ ہوگیا لیکن کبھی بھی آدم کو سجدہ نہیں کیا۔ یہودی البتہ ابلیس سے زیادہ حاسد ہیں۔ کیونکہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے اپنے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ حسد کیا اور کہہ ڈالا:
اقْتُلُواْ یُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضاً یَخْلُ لَکُمْ وَجْهُ أَبِیکُمْ وَتَکُونُواْ مِن بَعْدِهِ قَوْماً صَالِحِینَ؛ قتل کر دو یوسف کو یا کسی اور سر زمین پر لے جا کر ڈال دو کہ تمہارے باپ کی توجہ تمہاری طرف ہو جائے اور تم اس کے بعد پھر نیک لوگ ہو جانا”۔
(سورہ یوسف، آیت ۹)
۲۔ غرور اور خودغرضی
ابلیس نے اللہ کی بارگاہ میں گستاخانہ انداز سے اپنی آواز بلند کردی اور غرور، خودغرضی اور نسل پرستی کی بنا پر کہا:
قَالَ مَا مَنَعَکَ أَلاَّ تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُکَ قَالَ أَنَاْ خَیْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِی مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِینٍ؛ ارشاد ہوا کیا امر تجھے مانع ہوا جو تو سجدہ نہ کرے باوجودیکہ میں نے تجھے حکم دیا۔ اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے”۔
(سورہ اعراف، آیت ۱۲)
یہودی بھی نسل پرستی اور کبر و غرور کی بنا پر چلا چلا کر کہتے تھے کہ ہم اللہ کی برگزیدہ قوم ہیں:
وَقَالَتِ الْیَهُودُ وَالنَّصَارَى نَحْنُ أَبْنَاء اللّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُم بِذُنُوبِکُم بَلْ أَنتُم بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ؛ اور یہودیوں اور عیسائیوں کا قول ہے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ کہو کہ پھر وہ تمہیں تمہارے گناہوں کی سزا کیوں دیتا ہے بلکہ تم بھی اس کے مخلوقات میں سے کچھ انسان ہو”۔
(سورہ مائدہ، آیت ۱۸)
۳۔ زمین میں فساد پھیلانا
ابلیس کا کام اصولا روئے زمین پر فساد اور برائی پھیلانا ہے؛ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ وَمَن یَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَإِنَّهُ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَاء وَالْمُنکَرِ؛ اے ایمان لانے والو! شیطان کے قدم بقدم نہ چلو اور جو شیطان کے قدم بقدم چلے گا تو وہ بلاشبہ شرمناک کام اور برائی ہی کے لئے کہتا ہے”۔ (سورہ نور، آیت ۲۱)
خداوند متعال قرآن کریم میں یہودیوں کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
الَّذِینَ یَنقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مِیثَاقِهِ وَیَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِی الأَرْضِ أُولَـئِکَ هُمُ الْخَاسِرُونَ؛ جو اللہ سے کیے ہوئے معاہدے کو اس کے استحکام کے بعد توڑ دیتے ہیں اور جس رشتہ کے ملائے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، اسے وہ کاٹ ڈالتے ہیں اور دنیا میں خرابی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو گھاٹے میں رہنے والے ہیں”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۲۷)
۴۔ انسانیت کے دشمن
خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے ابلیس بنی آدم کا شدید ترین دشمن ہے اور انسانوں کو حکم دیتا ہے کہ ابلیس کو اپنا دائمی ابدی دشمن سمجھیں اور قرار دیں، اور ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّ الشَّیْطَآنَ لَکُمَا عَدُوٌّ مُّبِینٌ؛ بلاشبہ شیطان تم دونوں کا کھلا ہوا دشمن ہے”۔ (سورہ اعراف، آیت ۲۲)
ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطَانُ أَن یُوقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِی الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَن ذِکْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ؛ شیطان تو بس یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے میں مبتلا کرکے تمہارے درمیان کینہ و عداوت ڈالتا رہے اور تمہیں یاد خدا اور نماز سے باز رکھے تو کیا اب تم باز آؤ گے؟ (سورہ مائدہ، آیت ۹۱)
نیز ارشاد ہوتا ہے:
إِنَّ الشَّیْطَانَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوّاً؛ یہ حقیقت ہے کہ شیطان تمہارا دشمن ہے تو اسے دشمن سمجھو۔
اب مؤمنین کے ساتھ دشمنی کے بارے میں قرآن کریم کیا ارشاد دیکھتے ہیں:
لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُواْ الْیَهُودَ؛ یقینا آپ سخت ترین دشمن مسلمانوں کا پاؤ گے یہودیوں کو”۔ (سورہ مائدہ، ۸۲)
۵۔ اللہ تعالی کا انتباہ: ان کی پیروی نہ کرو
خداوند متعال نے مؤمنین کو خبردار کیا ہے کہ شیطان کی پیروی نہ کریں اور ان کے ساتھ دوستی سے اجتناب کریں:
وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّهُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِین؛ اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو، یقینا وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے”۔
(سورہ بقرہ، آیت۱۶۸ و آیت ۲۰۸؛ سورہ انعام، آیت ۱۴۲؛ سورہ نور، آیت ۲۱)
نیز اللہ تعالی مؤمنوں کو یہود اور نصاری کے ساتھ دوستی سے بھی خبردار فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے کہ ان کی دوستوں اور پیروکاروں میں شامل نہ ہوں:
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِیَاء بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّهُم مِّنکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ؛ اے ایمان لانے والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جس نے تم میں سے ان سے دوستی کی تو وہ ان ہی میں سے ہے۔ یقینا اللہ ظالموں کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا۔ (سورہ مائدہ، آیت ۵۱)
۶۔ خیانت، غداری اور عہد شکنی
عہدشکنی شیطان کی فطرت میں شامل ہے؛ وہ عہد و پیمان کو نظر انداز کرتا ہے جیسا کہ یہودی نیز عیسائی بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور معاصر تاریخ میں یہود و نصاری کی عہدشکنیوں کی داستانیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔
شیطان کی عہدشکنانہ خصلت کے بارے میں ارشاد ربانی ہے:
وَقَالَ الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الأَمْرُ إِنَّ اللّهَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّکُمْ فَأَخْلَفْتُکُمْ؛ اور شیطان کہے گا اس وقت کہ جب جو ہوتا ہے وہ ہو جائے گا کہ بے شبہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا؛ اور میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ خلافی کی”۔
(سورہ ابراہیم، آیت ۲۲)
آج کے زمانے کے یہودی ـ بطور خاص ی یہودی ـ صہیونیت اور ماسونیت کے پیروکار اور شیطان پرستانہ عقائد کے حامل ہیں۔ یہودی بھی ابتدائے تاریخ سے عہد شکن رہے ہیں اور وعدہ خلافی کرتے ہیں بالکل شیطان کی طرح، جو ان کے وجود میں مجسم ہوچکا ہے؛ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاء ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْاْ بِهِ ثَمَناً قَلِیلاً فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُونَ؛ اور جب کہ اللہ نے ان سے جنہیں کتاب دی گئی تھی، عہدوپیمان لیا تھا کہ تم اسے ضرور لوگوں کے لیے واضح طور پر پیش کرتے رہو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں تو انھوں نے اسے اپنے پس پشت ڈال دیا اور اس کے عوض میں ذرا سی قیمت وصول کر لی تو کیا بری بات ہے وہ معاملت جو انھوں نے کی ہے”۔
(سورہ آل عمران، آیت ۱۸۷)
نیز قرآن کریم نے یہودیوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
أَوَکُلَّمَا عَاهَدُواْ عَهْداً نَّبَذَهُ فَرِیقٌ مِّنْهُم بَلْ أَکْثَرُهُمْ لاَ یُؤْمِنُونَ؛ اور یہ (یہودی) جب بھی کوئی عہد کریں گے تو ان میں سے ایک جماعت اسے پس پشت ضرور ڈال دے گی بلکہ زیادہ ایسے ہی ہوں گے جو ایمان نہ لائیں گے”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۰۰)
۷۔ ابلیس اور یہودی مؤمنوں کو کفر سے دوچار کرتے ہیں
شیطان کی آرزو ہے اور اس کو توقع ہے کہ مؤمنوں کو کافر کردے، لہذا راہ حق اور آزادی اور کامیابی و فلاح کے راستے میں گھات لگا کر بیٹھتا ہے جس طرح کے راہزن اور ڈاکو قافلوں اور مسافروں کی راہ میں گھات لگا کر بیٹھتے ہیں؛ چنانچہ شیطان اللہ سے عرض کرتا ہے:
قَالَ فَبِمَا أَغْوَیْتَنِی لأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیمَ ٭ ثُمَّ لآتِیَنَّهُم مِّن بَیْنِ أَیْدِیهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَیْمَانِهِمْ وَعَن شَمَآئِلِهِمْ؛ اس نے کہا تو جیسا تو نے مجھے گمراہ قرار دیا ہے، اب میں ضرور بیٹھوں گا ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر ٭ پھر میں آؤں گا ان کی طرف ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے اور تو ان میں سے زیادہ کو شکر گزار نہیں پائے گا”۔ (سورہ اعراف، آیات ۱۶-۱۷)
معاصر تاریخ میں گناہ اور برائی اور فساد اور اخلاقی تباہی کے تمام بڑے اڈے اور آج کل کے زمانے میں گناہ کی ترویج کے تمام وسائل اور شیطان پرستی کے فروغ کا پورا انتظام نیز اسلامو فوبیا کے تمام منصوبے یہودیوں کے کنٹرول میں ہیں۔ قرآن کریم بنی اسرائیل کے دلوں میں چھپی ہوئی سازشوں اور بدنیتیوں کو برملا کرتا ہے اور ان کے مکر و فریب کے پردوں کو چاک کرتا ہے، ان مسلمانوں کی گمراہی کی شدید یہودی خواہشوں کو بےنقاب کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہودیوں کا ارادہ، خواہش اور منصوبہ ہے کہ تم مرتد ہوجاؤ اور اسلام کو ترک کرو، وہ بھی ایسے وقت میں کہ وہ جان چکے ہیں کہ مؤمنین برحق ہیں؛ ارشاد فرماتا ہے:
وَدَّ کَثِیرٌ مِّنْ أَهْلِ الْکِتَابِ لَوْ یَرُدُّونَکُم مِّن بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّاراً حَسَداً مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ؛ بہت سے اہل کتاب کی دلی خواہش یہ ہے کہ کسی طرح ایمان کے بعد پھر دوبارہ تم لوگوں کو کافر بنا لیں صرف حسد کی وجہ سے جو ان کے نفوس میں ہے۔ باوجود یکہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے”۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۰۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق انقلاب اسلامی کا مسئلہ اور حریت پسندی کے عالمی تفکر میں اس کا اثر و نفوذ اس انقلاب کے خلاف بہت بھاری تشہیری اور ابلاغی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور اس کے نتیجے میں اس کے خلاف مختلف عناصر سے مرکب شدید اور ہمہ جہت لڑائی کا آغاز کیا جا چکا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اسے شکست سے دوچار کیا جاسکے۔
علاقے پر انقلاب اسلامی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ہم سابق سوویت روس کے زوال کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ سوویت روس کے زوال کا اصل سبب ایران نہ ہو لیکن اس کے زوال کے اسباب میں سے ایک ضرور ہے۔
یہودی ریاست کا ایک اعلی افسر جنرل افرایم سنہ (Efraim Sneh – אפרים סנה‎) اپنی کتاب ۲۰۰۰ کے بعد کا اسرائیل” میں ایک مکتب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو یہودی ریاست کے سامنے رکاوٹ بنا ہوا ہے اور وہ اس مکتب کو خمینی ازم” کا مکتب کہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انقلاب کے بعد مراجع تقلید حکومت کے ساتھ متحد ہوئے اور اسرائیل کی نابودی” کا نعرہ زور پکڑ گیا اور خمینی ازم کا تفکر ـ جو دین اور دینی حکومت پر استوار تفکر ہے ـ معرض وجود میں آیا۔
ایران نے اسرائیل مخالف عرب ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا اور ایران ـ عرب اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ اقدام علاقے میں امریکہ کی مداخلت اور عراق کی حمایت کرکے ایران پر حملے سے علاقے کے توازن بگڑنے کا باعث بنا، اس طریقے سے کہ عربوں کو واحد دشمن” نظر آیا اور وہ مشترکہ دشمن ایران کے سوا کوئی نہ تھا۔
اسرائیل کی حیات کے لئے بحرانوں کو جنم دینا
ایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ میں صرف چند ممالک نے ایران کی حمایت کی، جبکہ علاقے کے زیادہ تر ممالک نے ایران کے خلاف تلواریں سونت لیں اور اپنی پوری قوت عراق کے پلڑے میں ڈال دی اور اس کو مالی اور جانی امداد سمیت بڑی مقدار میں اسلحہ فراہم کیا اور اب صورت حال یہ ہے کہ عراق کو داعش کے ساتھ لڑائی میں جھونک دیا گیا ہے لیکن وہی عرب ممالک اب عراق کی مدد کو نہیں آئے۔
اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ جو بھی چیز انقلاب اسلامی کی نشوونما کے آگے رکاوٹ وہ یہودی ریاست کی نشوونما کا سبب ہوگی۔ عرب ممالک امریکہ کی گود میں بیٹھ کر یہودی ریاست کی چاپلوسانہ خدمت میں مصروف ہیں اور کافی حد تک خمینی ازم کی پیشرفت روکنے میں مؤثر واقع ہوئے اور اس کا نتیجہ یہودی ریاست کی پیشرفت کی صورت میں برآمد ہوا۔
آٹھ سالہ جنگ کے بعد یہودی ریاست اور اس کے حامی ممالک ایران کے ہاں جوہری بم بننے سے خائف تھے۔ چنانچہ امریکہ نے امریکہ، یورپ اور ایشیا میں جمہوری محاذ قائم کرنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش بارآور ثابت نہیں ہوئی اور ایران میں جوہری بم بننے کا امکان بڑھ گیا، جس کی وجہ سے مغرب اور یہودی ریاست کی فکرمندی میں اضافہ ہوا اور اسی بنا پر ایران کے خلاف سازشوں میں بھی زبردست آصافہ ہوا۔
اپنی پیراسائٹ نوعیت کی حیات کے بچاؤ کے لئے یہودی ریاست کی ایک کوشش یہ تھی کہ ایران کو عالمی مالیاتی اداروں سے کسی قسم کا قرضہ نہ مل سکے تا کہ اسے اقتصادی گھٹن سے دوچار کیا جائے اور یہی مسئلہ ایران کے راستے کا پتھر رہے۔
بہرحال جس چیز نے مغرب کو تشویش میں مبتلا کیا وہ یہ ہے کہ ان کی ان تمام تر کوششوں اور سازشوں کے باوجود خمینی ازم کی آئیڈیالوجی نے علاقے میں نشوونما پائی جس کا نتیجہ اگلے عشروں میں اسرائیل کی نابودی اور زوال کی صورت میں برآمد ہوگا۔
مغرب کی جانب سے اس آئیڈیالوجی کی راہ میں رکاوٹ ڈلنے کے لئے ایران دشمن محاذ اور خمینی ازم کے فلسفے کے مخالف محاذ کا قیام تھا جو اہم ترین مغربی کوشش تھی۔ یہودی ریاست کو سنہ ۲۰۰۰ کے بعد ایسے ایران کا سامنا کرنا پڑا جس کا مقابلہ کرنے کا واحد اسلحہ ایٹم بم” اور دہشت گرد ٹولوں” سے عبارت تھا۔ لیکن امریکہ اپنے حلیفوں کا اعتماد حاصل کرکے ایران کے خلاف دھمکیوں پر اتر آیا تا کہ یہ ملک اپنے موقف سے پسپا ہوجائے۔
یہودی ریاست کی طفیلی زندگی (Parasitic Life)
سوویت روس کے خاتمے اور ایران کے شمال میں وسائل، معدنیات اور اچھی خاصی دولت کے مالک متعدد اسلامی ممالک کے معرض وجود میں آنے کے بعد مغرب اور یہودی ریاست کی لالچی آنکھیں ان ممالک کے دوہنے پر مرکوز ہوئیں۔ کیونکہ یہودی ریاست اپنی بقاء ہی طفیلیت میں دیکھتی ہے جبکہ خمینی ازم کا تفکر خود اعتمادی اور اپنے اوپر بھروسے پر استوار ہے اور یہ تفکر علاقے میں بہت زیادہ کامیاب رہا اور کافی حد تک یہودیوں کے ہاتھوں ان ممالک کے استحصال کی راہ میں رکاوٹ بنا۔
انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور بڑی طاقتوں اور مغرب کے خلاف جدوجہد کا تفکر ـ یا خمینی ازم کا تفکر ـ علاقے میں مغرب اور اس کے حلیفوں کے خلاف ایک یلغار کے معرض وجود میں آنے کا باعث بنا جو مغرب اور یہودی ریاست کے لئے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ مغرب نے اس تفکر کو ایران تک ہی نہیں بلکہ جماران تک محدود کرنے کی کوشش کی اور آٹھ سالہ جنگ مسلط کی، ایران پر ہمہ جہت پابندیاں لگا دیں، ایران کے خلاف عربی محاذ قائم کیا، پڑوسی ممالک میں دہشت گردی کو فروغ دیا، منافقین (یا نام نہاد مجاہدین خلق) کے ذریعے نظام اسلام کے مؤثر راہنماؤں کو قتل کرایا جو اس تفکر کو دنیا بھر میں فروغ دے سکتے تھے۔
مغرب اور مستکبرین کا کام ہی کمزوروں کا استحصال ہے اور ایران بھی کسی زمانے میں کمزور ممالک کے زمرے میں آتا تھا لیکن انقلاب اسلامی کے بعد اس دلدل سے نکل آیا؛ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مغربی استکبار و استعمار کس طرح عرب ممالک کو ڈیری گایوں کی طرح دوہ رہا ہے۔ اکثر مغربی سرمایہ دار یہودی اور صہیونی ہیں اور وہ سب ایک چیز کے درپے ہیں: یہودی ریاست کو طاقتور بنانا اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کو ممکن بنانا۔
وہ یہودی مفکرین جو اپنے ذرائع ابلاغ میں ایران کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں دینی آئیڈیالوجی کا حامل ایران، جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران سے زیادہ خطرناک ہے۔ چنانچہ وہ ایرانی عوام کے دینی افکار کے آگے تنازعات اور شکوک و شبہات کھڑے کرتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ کس قسم کی فکر ہے جس نے علاقے ہی کو نہیں پوری دنیا میں نزاع کھڑا کیا ہے اور دنیا بھر کو چیلنج کررہا ہے؟
جی ہاں یہ فکر خمینی کبیر کی فکر ہے جس نے ایک دنیا کو اپنے کلام سے بدل کر ڈالا، استکبار مخالف فکر، بڑی طاقتوں کو چیلنج کرنے والی فکر، اور ان ممالک کے خلاف جنگ کی فکر جو صرف اپنے لئے حق حیات کے قائل ہیں اور دوسرے انسانوں کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی ہماری بھیڑیں ہیں اور باقی لوگ واجب القتل!!!
خمینی ازم کا تفکر
امام خمینی کا مکتب یا خمینی ازم نہیں چاہتا کہ صہیونیت طاقتور بنے وہ اس کے خلاف لڑتا ہے کیونکہ اس مکتب کے دانشور جانتے ہیں کہ اگر اسرائیل اور یہودی ریاست طفیلیت پر مبنی حیات کے ہوتے ہوئے علاقائی طاقت میں بدل جائے تو اس کا سب سے پہلا ہدف یہ ہوگا کہ اس کا کوئی ہمسر اور کوئی رقیب نہ رہے جبکہ اس کا سب سے پہلا اور بڑا دشمن ایران ہے اور دشمن نمبر ۲ عرب برادریاں ہیں لیکن عرب ممالک کے حکمران پوری حماقت میں علاقے کے اس طفیلی وجود کے جال میں پھنس چکے ہیں۔
بقلم: حیدر
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: اسرائیل کے قیام کے بعد جہاں دنیا بھر سے بہت سارے یہودیوں نے مقبوضہ فلسطین کا رخ کیا وہاں ہندوستان سے بھی ہجرت کرنے والے یہودیوں کی تعداد تقریبا ۲۵۰۰۰ بتائی جاتی ہے۔
یہ تعداد اگر چہ ہندوستان کی آبادی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہودی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد اچھی خاصی ہے اس تعداد کے اسرائیل ہجرت کرنے سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو ایک نیا رخ ملا۔
یہودی قومیں
ہندوستان کے یہودی تین قوموں پر مشتمل تھے:
الف: بنی اسرائیل؛ اس قوم کے کچھ گھرانے یروشلم میں ہیکل سلیمانی کے مسمار کئے جانے کے بعد ہندوستان ہجرت کر گئے تھے اور بمبئی اور اس کے اطراف و اکناف میں ست پذیر ہوئے تھے۔
ب؛ کوچینی؛ یہودیوں کی یہ قوم گزشتہ صدیوں میں ’’مالابر سواحل‘‘ سے ہجرت کر کے جنوبی ہندوستان میں گئی تھی۔
ج؛ بغدادی؛ انیسویں صدی کے اواخر میں یہ قوم بغداد، ایران اور افغانستان سے ہندوستان گئی اور اس بے کلکتہ اور بمبئی میں رہائش اختیار کی۔
صہیونی تنظیمیں
ہندوستان میں رہنے والے یہودی معاشرے میں صہیونیزم نے اپنے مراکز اور تنظیمیں قائم کیں جن میں سے بعض کی صہیونی ریاست براہ راست حمایت کرتی ہے۔ یہ تنظمیں ہندوستان اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی بحالی بھی موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ تنظیمیں درج ذیل ہیں:
بمبئی صہیونی ایسوسیشن (Bomboy zioneSt Association)
کلکتہ صہیونی ایسوسیشن ((Calcutta Zionest Association
یونائیٹڈ اسرائیل اپیل (united Israel appeal)
یونائیٹڈ اسرائیل اپیل کمیٹی (united Israel AppealCommittee)
بنی اا (Bnei aa)
ہابونیم انسٹیٹیوٹ ((Habonim Institute
یہودی ایجنسی برائے مشرقی ہند (Jewish Agency in For East)
ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے عصر حاضر میں فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے میدان میں اسرائیل بھارت کا بہترین معاون ہے اور ہندوستان اسرائیل کا سب سے بڑا تجارتی پاٹنر ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان تعلقات جو ۱۹۹۲ میں اندراگاندھی کے دور حکومت سے خفیہ طور پر اور راجیوگاندھی کے دور میں علانیہ طور پر مضبوط ہوئے مودی سرکار میں عروج پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ ہندوستان گزشتہ دور میں اسرائیل کے ساتھ شدید مخاصمت رکھتا تھا اور تقریبا ۲۵ سے ۳۰ سال تک وہ اسرائیل کو پاکستان کے تناظر سے دیکھ رہا تھا اگر چہ بہت سارے بھارتی حکمران اسرائیل کے ساتھ مشترکہ ی پالیسی رکھتے تھے۔ ان دو ملکوں کے درمیان گزشتہ دور میں پائے جانے والے مخاصمانہ رویہ کی اصلی وجہ انگریزوں کا کردار تھا کہ ہندوستان کی آزادی اور ہند و پاک کی تقسیم کے بعد بھارتی انتہا پسند اسرائیل کو دوسرا پاکستان سمجھتے تھے کہ اسرائیل بھی پاکستان کی طرح بظاہر مذہبی بنیاد پر وجود میں لایا گیا ہے۔ اور یہی وجہ تھی کہ ہندوستان پاکستان کو بھی اسرائیل کے ہمفکر قرار دیتا تھا! (۱)
راقم الحروف کی نظر میں بھارت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات میں فروغ سے نہ صرف بر صغیر میں مسلمان معاشرے کو کمزور بنایا جائے گا بلکہ قوم پرست ہندو سماج کو مزید تقویت ملے گی اور ممکن ہے مستقبل میں بر صغیر کے مسلمانوں کا وہی حال ہو جو اس وقت غزہ کے مسلمانوں کا ہے۔
یہودیوں کی فوق الذکر تنظیمیں ایک طرف سے بمبئی میں اسرائیلی قونصلٹ کی مکمل حمایت کے تحت ان دو ملکوں کے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہیں تو دوسری طرف میڈیا پر قبضہ جما کر کوشش کر رہی ہیں ابلاغیاتی فضا میں ان تعلقات کو عام سی بات بنا کر پیش کیا جائے(۲)
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بسنے والے بعض ہندوستانی بطور دائم ی سرگرمیوں میں مصروف ہیں تاکہ اس ملک میں موجود صہیونی لابیوں کے تعاون سے برصغیر خصوصا بھارت میں اسرائیلی مقاصد کی تکمیل کے لیے امریکہ کا تعاون حاصل کریں۔ ان ی سرگرمیوں کا واضح مصداق ’’آئی پیک‘‘ تنظیم ہے۔ یہ معاشرہ جو بھارتی امریکی معاشرہ معروف ہے آبادی کے لحاظ سے دو ملین سے زیادہ نہیں ہے اور امریکی یہودیوں کی بنسبت اقلیت میں ہے لیکن امریکہ اور ہندوستان میں اپنے گہرے اثر و رسوخ کی وجہ سے بھارت میں اسرائیلی پالیسیوں کو اجرا کروانے میں کامیاب ہوا ہے۔ اس حوالے سے جو دوسرا گروہ سرگرم عمل ہے وہ Confederation of Indian Industries کا گروہ ہے جو امریکہ میں تجارتی سرگرمیوں کے زیر سایہ ی مقاصد کے حصول کے لیے بھی کوشاں رہتا ہے۔
حواشی
۱؛ ہند و اسرائیل تعلقات پر ایک نظر، اسٹیفن کوہن، ص ۱۰،۲۰
۲؛ بھارتی ادیان، ص ۷،۱۰
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ’’میری بیداری :امریکہ میں یہودیوں کے اثر و رسوخ کے سلسلہ سے ان کہیں باتیں ‘‘ ڈیوڈ ارنسٹ ڈوکے David Ernest Duke”،، کے قلم سے سامنے آنے والی کتاب ہے ، امریکی معاشرے کو درون سے دیکھنے والے ایک قوم پرست سفید فام کی جانب سے لکھی جانے والی یہ کتاب ایک ایسا ماخذ ہے جس میں ایک گورے و قوم پرست مصنف کی جانب سے امریکی یہودیوں اور ہلوکاسٹ پر تنقیدی نظر کو پیش کیا گیا ہے ۔
اور اسی زاویہ نظر کے اعتبار سے اسکی اہمیت دو چنداں ہے کہ اسے ایک امریکہ ہی کے معاشرہ میں رہنے والے قوم پرست مصنف نے سپرد قرطاس کیا ہے۔
ڈیوڈ نے اس کتاب کی پہلی فصل میں مختصر طور پر اپنی بیو گرافی کو بیان کیا ہے اور اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ’’ میں شدید طور پر ان لوگوں سے نفرت کرتا ہوں جو اپنی ایک مستقل سوچ نہیں رکھتے اور چلتی ہوا کے پیچھے ہو لیتے ہیں یا اور جیسا دیس ویسا بھیس کے مقولے پر عمل کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر میں اپنے انقلابی عقائد کو پیش کر رہا ہوں جو کل کی دنیا میں ایک تبدیلی کا سبب بنیں گے‘‘
اس کتاب میں آگے چل کر ڈیوڈ نے یہودیوں کی حقیقت کو بیان کیا ہے خاص کر مصنف نے یہودیوں اور کمیونزم کے آپسی روابط کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے، مصنف کا ماننا ہے کہ کمیونزم، نے یہودیت کے پیٹ سے جنم لیا ہے، اور وہ یہودیوں پر ہونے والی تنقید کی صورت حال کے پیش نظر لکھتے ہیں: ’’کوئی بھی اگر یہودیوں کی تاریخ ، یا انکے طرز عمل یا صہیونی ت پر معمولی اور چھوٹی سی بھی تنقید کرتا ہے تو اس پر ایک یلغار ہو جاتی ہے اور یہودی ستیزی کا لیبل اس پر چپکا دیا جاتا ہے، اسے بدنام کر دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف امریکہ کی جانب سے سیاہ فاموں کے سلسلہ سے روا رکھے جانے والے دائمی، نادرست و غیر مناسب طرز عمل پر اگر کوئی تنقید کرتا ہے تو اسے امریکہ مخالف قرار نہیں دیا جاتا ہے، اگر کوئی ہسپانوی عدالت میں عقائد و افکار کی جستجو و تفتیش پر اعتراض کرتا ہے تو اسے عیسائیت یا اسپین کا مخالف قرار نہیں دیا جاتا ہے، ایسے میں سوال یہ ہے کہ یہودیت پر تنقید کو کیوں یہودیوں کے مخالفت کی صف میں لا کھڑا کیا جاتا ہے اور ہر تنقید کو مخالفت کا رنگ کیوں دیا جاتا ہے؟
کتاب کی تیسری فصل میں مصنف دنیا میں موجود یہودیوں کے افکار میں صہیونیت کے نفوذ کو بیان کرتے ہیں اور تورات کے اندر غلط ترجموں اور غلط مصادیق کے بیان کے ذریعہ تورات میں صہیونیوں کی تحریف پر اشارہ کرتے ہیں کہ کس طرح صہیونی فکر عام یہودیوں کے افکار میں تورات کے غلط مصادیق و غلط ترجموں کے ذریعہ اپنی جگہ بنا رہی ہے۔
 
پانچویں فصل میں امریکی ٹی وی چینلوں اور اخباروں بلکہ مجموعی طور پر میڈیا و ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کے تسلط اور انکے قبضے کو بیان کرتے ہوئے مصنف اپنا عقیدہ اس بارے میں یوں بیان کرتے ہیں: ’’ یہودیوں نے سالہا سال تک ہالیوڈ کی فلم صنعت پر اپنا قبضہ جمائے رکھا اور جب ہالی وڈ کی ۱۰ ممتاز شخصیتوں کو اعزاز دیا گیا اور امریکہ کے اس دور کے صدر جمہوریہ کے سامنے جب اعزاز پانے والوں سے سوال ہوا کہ کیا وہ کمیونسٹ طرز فکر کے حامل ہیں تو ان ۱۰ میں سے نو لوگوں نے کہا کہ وہ یہودی ہیں ۔
اسی فصل میں مصنف آگے چل کر کہتے ہیں: ” میں نے جب امریکہ میں شائع ہونے والے مختلف مجلوں اور جرائد و میگزینوں نیز کتابوں کا جائزہ لیا تو مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ یہ سب کے سب یہودی مفادات کے سلسلہ سے سرگرم عمل ہیں اور انہیں کے مفاد کے لئے کام کرتے ہیں، انہیں کی مصلحت و انہیں کے مفاد کے بارے میں سوچتے اور فکر کرتے ہیں جیسے SCHNEIDER شیلڈنر جیسی فلم کے ہدایت کار اسٹیون اسپلبرگ Steven Spielberg جو کہ بالکل صراحت کے ساتھ صہیونی حکومت کی بھرپور تائید و حمایت کرتے ہیں۔
ڈیوڈ کا ماننا ہے کہ غیر اخلاقی و تاریخی فحش فلمیں جنکو کروڑوں لوگ دیکھتے ہیں یہودیوں کی ہدایت کاری میں اور انہیں کے سرمایہ سے سامنے آتی ہیں۔
بعد کی فصلوں میں ڈیوڈ یہودیوں کے امریکی ت میں نفوذ ، سامی رجحان کی مخالفت کی جڑوں، یہودیوں کے اتنظامی امور میں تسلط ، ہلوکاسٹ کے بارے میں تحقیق، اور یہودیت کی سربراہی میں پیچیدہ عجیب و غریب جنگ، جیسے موضوعات کو چھیڑتے ہیں۔
انجام کار کتاب کی آخری فصل میں بہت تفصیل سے یہودیوں کے دیگر اقوام پر برتری کے عقیدہ کی تشریح کرتے ہیں، اور انکی برتری کے عقیدے کے سلسلہ سے دلائل و شواہد کو پیش کرتے ہوئے اسکے اطراف و اکناف پر بحث کرتے ہیں نیز یہودیوں کے اس عقیدہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: طول تاریخ میں ایسے بہت سے گروہ ہیں جنہوں نے گوناگوں نظریات کے حامل ہونے کے باوجود صہیونیت کی فکر پر تنقید کی ہے، یہی وجہ ہے کہ محض فلسطینی مسلمانوں کو یہودیوں اور صہیونیوں کا ناقد و مخالف نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ بعض مغربی دانشورو اسکالرز نے بھی انسانی، نسلی ، قومی اور آئڈیالوجیکل بنیادوں پر صہونی فکر کا تجزیہ کیا ہے اور انکی فعالیت و سرگرمیوں پر تجزیاتی گفتگو کرتے آئے ہیں۔
انہیں مغربی دانشوروں میں صہیونی فکر کے خلاف بولنے والی ایک یہود ستیز شخصیت ڈیوڈ ارنسٹ ڈوکے David Ernest Duke” کی [۱]ہے
ڈیوڈ ارنسٹ ڈوکے کو ایک صہیون مخالف اور ماضی میں ’’کے کے کے۔k.k.k‘‘[۲]کے بلند پایہ رہبروں کے روپ میں جانا جاتا ہے۔
ڈیوڈ نے اوکلاھما [۳]ریاست کے شہر ’’ تاا ‘‘ [۴]میں اس دنیا میں قدم رکھا ، ڈیوڈ کے اجداد و اسلاف جدید امریکہ کے معماروں اور بانیوں میں تھے۔
ڈیوڈ نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یونیورسٹی کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہی اپنی ی سرگرمیوں کا بھی آغاز کر دیا۔
وہ اپنی کتاب ’’میری بیداری: امریکا میں یہودیوں کے سلسلہ سے ان کہی باتوں‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’نوجوانی میں ہی یہ بات میرے گھر والوں کے لئے واضح ہو گئی تھی کہ میں واعظ و مقرر تو بننے سے رہا ،اس لئے کہ میں ایک خاموش اور چپ رہنے والا شخص تھا اور ذرا بھی تقریر کے لئے مناسب نہ تھا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے بھی میری مطالعہ کتب کے سلسلہ میں حوصلہ افزائی کی، میرے والد کا اصرار تھا کہ روز کم سے کم میں ایک گھنٹے کا وقت تو مطالعہ کو دوں، شروع میں تو میں اس سے فرار کرتا رہا لیکن آہستہ آہستہ مطالعہ کی مجھے عادت پڑ گئی اور پھر میں دائم المطالعہ ہو گیا ‘‘
ڈیوڈ ماضی میں سیاہ فاموں اور قوم پرستوں کے سلسلہ سے خاص طور پر نسل پرستی کے سلسلہ سے شدت پسندانہ موقف اختیار کرتے رہے ہیں، لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہجرت، و نسلی بھید بھاو جیسے موضوعات میں انکے شدت پسندانہ رجحان میں لچک پیدا ہوتی گئی، اور شدت پسندانہ نظریات کا پکا رنگ کچا ہوتا چلا گیا جسکی بنیاد پر مختلف النوع و مختلف الفکر لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نصیب ہوئی، اور ہر قسم کے لوگ ان سے جڑنے لگے ۔
ڈیوڈ ’’کے کے کے‘‘ نامی نسل پرست گروہ کے ان نو نازی اولین سربراہوں میں تھے جنہوں نے کلاں اور نازیوں کے مخصوص لباس پہننے پر روک لگائی ، اسی طرح انہوں نے ان تمام روایتی پہنے جانے والے کپڑوں کے پہننے کی میڈیا میں مخالفت کی جو نسلی تعصب کی علامت تھے اور جن سے نفرت پھیلتی تھی ، انہوں نے نفرت آمیز نسلی امتیاز کی ترجمان علامتوں کی کھل کر مخالفت کی، انہوں نے اپنے گروہ کے اراکین سے مطالبہ کیا کہ وہ شدت پسندی کے رویہ کو ترک کر دیں اور ی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔
۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۲ء میں جعلی حکم ناموں اور تحریروں کے ساتھ ٹیکس سے فرار کے لئے اپنی ی جدو جہد کے سلسلہ سے نقلی دستاویزات بنانے کی بنا پر پولس کو مطلوب رہے، اور چونکہ پولس انکے تعاقب میں تھی لہذا انہوں نے اپنا کچھ وقت روس اور کریمہ یوکرائن میں گزارا ان دونوں ہی مقامات پر قیام کے دوران انہوں نے یہودیوں پر اپنے تنقیدی سرگرمیوں کے سلسلہ کو جاری و ساری رکھا ۔
۱۹۸۰ کی دہائی میں ڈیوڈ سفید فاموں کی برتری کا دفاع کرنے والوں کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن چکے تھے ، ۱۹۸۰ میں وہ پہلے تو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب امید وار کے طور پر کھڑے ہوئے ، اسکے بعد چار سال قبل ویلس کارتو کی جانب سے تاسیس پانے والی عوام پارٹی کی جانب سے صدر جمہوریہ کا انتخاب لڑنے کے لئے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے ۔
۱۹۹۱ میں ریاست لویزانہ کے گورنر کے الیکشن میں بھی میدان رقابت میں امید وار کی طور پر انہوں نے اپنی قسمت آزمائی کی اور چونکہ انہیں لگتا تھا کہ سنا کے انتخابات میں انہوں نے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں شاید یہ ی نشیب و فراز اسی خاطر ہوں کہ وہ ہر جگہ ابھرتے نظر آئے ڈیوڈ نے اپنے الیکشن کی رقابت کے سلسلہ سے ہونے والی تشہیری مہم میں ایک مقام پر کہا: ’’یہودی اپنی نجات کے لئے تمام ثقافتوں کی نابودی کے درپے ہیں ‘‘انکا ماننا تھا کہ یہود و غیر یہود ایک قومی جنگ کے کگار پر ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے ’’ ان دو نسلوں اور دو تہذیبوں کے درمیان جدید صدی کے آغاز کے باجود نہائی معرکہ بہت دور نہیں ہے اور ممکن ہے دونوں کے درمیان ایک نہائی ٹکراو پیش آ جائے[۵]‘‘
ڈیوڈ دسمبر ۲۰۶ ء میں ہلوکاسٹ کے سلسلہ سے ہونے والی کانفرنس کے مندوبین میں سے ایک اہم مقرر تھے، انہوں نے اس بین الاقوامی کانفرنس میں کہا تھا جو بھی آج کی دنیا میں ہلوکاسٹ کے بارے میں کچھ کہتا ہے وہ ایک دلیر و شجاع انسان ہے [۶]۔
حواشی :
[۱] ۔ David Ernest Duke ۔ ایک سفید فام قوم پرست امریکن مصنف جو اپنے یہود مخالف نظریات اور یہودی مخالف رجحان کی خاطر مشہور ہیں
[۲] ۔ The Ku Klux Klan (/ˈkuː ˈklʌks ˈklæn, ˈkjuː۔ سفید فاموں کی برتری کا دفاع کرنے والی ایک ، کیتھولک مخالف امریکن تنظیم ، ۱۸۶۶ اور ۱۸۶۹ میں سیاہ فاموں کے امریکہ میں قتل عام میں اس تنظیم کا بڑا ہاتھ رہا ہے ، یہ لوگ مخصوص قسم کا لباس پہنتے اور ایک صلیب کے سامنے کھڑے ہو کر خاص مراسم انجام دیتے اس کے بعد ایک قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ۔ مزید مطالعہ کے لئے رجوع کریں : Drabble, John, The FBI, COINTELPRO-WHITE HATE and the Decline of Ku Klux Klan Organizations in Mississippi, 1964-1971, Journal of Mississippi History, 66:4, (Winter 2004)
[۳] ۔ریاستہائے متحدہ امریکا کی ایک ریاست جو ۱۹۰۷ء میں وفاق امریکا میں شریک ہوئی۔ ایسی ریاست جہاں کپاس، گہیوں دوسرے اناج کا شت کیے جاتے ہیں۔ کانوں سے کوئلہ، سیسہ اور جست نکلتا ہے۔ مویشی پالنا لوگوں کا اہم پیشہ ہے۔ شمال مشرق میں تیل نکلتا ہے اور ریاست کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔یہاں امریکا کے قدیم باشندے ریڈ انڈین بھی آباد ہے۔ ۱۹۶۰ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد پینسٹھ ہزار کے قریب بتائی جاتی رہی ہے
[۴] ۔ Tulsa، ریاست اوکلاما Oklahomaکا دوسرا سب سے بڑا اور امریکہ کا سینتالیسواں بڑا شہر
[۵] ۔ www.splcenter.org/fighting-hate/extremist-files/individual/david-duke
[۶] ۔ KKK’s David Duke Tells Iran Holocaust Conference That Gas Chambers Not Used to Kill Jews, Published December 13, 2006, Fox News
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


گزشتہ سے پیوستہ

آیت اللہ طائب:

۲۔ نفسیاتی جنگ؛ اس جنگ میں کسی ظاہری ہتھیار کا استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ فلموں، ڈراموں، میڈیا، سوشل میڈیا، شبہات اور جھوٹ فراڈ وغیرہ وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جھوٹ و فراڈ کی ایسی فضا بنائی جاتی ہے کہ انسان خود بخود منفعل ہو جاتا ہے اور کسی اقدام کی اس میں توانائی نہیں رہتی۔ فلموں کے ذریعے لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا جاتا ہے اور ان کی سوچ کو چھین کو اپنی سوچ دی جاتی ہے۔ اسے نفسیاتی جنگ کہتے ہیں۔ نفسیاتی جنگ میں دشمن بہت آگے نکل چکا ہے پورا میڈیا دشمن کے پاس ہے، تمام ذرائع ابلاغ دشمن کے قبضے میں ہیں، جو وہ چاہتے ہیں وہ لوگوں تک پہنچ پاتا ہے تو ایسی صورت میں تقریبا نفسیاتی جنگ میں اس وقت دشمن جیت چکا ہے اور ہم مسلمان ہار چکے ہیں۔ اس لیے کہ گھر بیٹھے بیٹھے ہمارے بچوں، جوانوں، عورتوں سب کی فکروں پر دشمن کی سوچ حاوی ہو چکی ہے۔
۳۔  کیمیائی جنگ؛ کیمیائی جنگ سے مراد کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے کی جانے والی جنگ نہیں ہے وہ جنگ ہتھیاروں کی جنگ کے ذمرے میں آ جاتی ہے یہاں پر کیمیائی جنگ سے مراد وہ جنگ ہے جو زہریلے مواد کے ذریعے اپنے دشمن کو پسپا کرنے کے لیے کی جاتی ہے مثال کے طور پر گزشتہ دور میں جس بستی یا گاؤں کے ساتھ جنگ ہوتی تھی اس بستی کے پانی کو زہر آلود کر دیا جاتا تھا، اور آج مثلا اس بستی کی فضا کو زہرآلود کر دیا جاتا ہے۔
۴۔ حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیکل وار؛ کسی بیماری کو کسی علاقے میں پھیلا کر یہ جنگ لڑی جاتی ہے گزشتہ دور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ دشمن اپنے حریف کی کسی بستی میں متعدی بیماری پھیلا دیتا تھا اور جس سے بستی کی بستیاں اجڑ جاتی تھیں۔
تاریخ میں طاعون کی بیماری کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جس کے ذریعے بہت سارے لوگ لقمہ اجل بن جاتے رہے ہیں۔ اسلام سے قبل بھی یہ بیماری موجود تھی اور بعد اسلام بھی حالیہ سالوں تک موجود رہی ہے، ۱۸ ھجری قمری کو دوسرے خلیفہ کے دور حکومت میں شام کے علاقے میں طاعون کی بیماری پھیلی جس کی وجہ سے بہت سارے اصحاب رسول جیسے معاذ بن جبل موت کا شکار ہو گئے۔ ۸۷ ہجری میں بھی عبد اللہ بن زبیر کے دور حکومت میں پھیلی اور کئی بستیوں کو اجاڑ دیا۔
لیکن ہمیشہ یہ سوال رہا ہے کہ کیوں ایسا ہوتا ہے اور اس طرح کی مسری اور متعدی بیماریاں کیسے وجود پاتی ہیں۔ لیکن طول تاریخ میں مسلمانوں کو جس قوم پر شک رہا ہے وہ یہودی قوم ہے۔ چونکہ گزشتہ دور میں بھی اکثر یہ بیماری مسلمان بستیوں یا عیسائی بستیوں میں پھیلتی تھی اور یہودی اس کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ شام میں یہودی بھی ان علاقوں میں زندگی بسر کرتے تھے جہاں طاعون کی بیماری پھیلی تھی مگر یہودی بہت کم اس بیماری کا شکار ہوئے۔ یوریشیا کے علاقے میں یہ بیماری پھیلی لیکن یہودی وہاں صحیح و سالم بچ گئے اسی وجہ سے یہودی ہمیشہ مشکوک نگاہ سے دیکھے جاتے تھے کہ کہیں یہ انہی کی کارستانیاں تو نہیں۔
انیسویں صدی میں اس وائرس کا انکشاف ہوا دوسری جنگ عظیم کے بعد طاعون کے وائرس کو طاقتور ملکوں نے اپنے حریفوں کے مقابلے میں استعمال کرنے کا کام شروع کر دیا۔ جاپان نے طاعون کے وائرس سے تیار کیے بم اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے استعمال کیے۔ لہذا اس طرح کی جنگ کو حیاتیاتی جنگ یا بائیولوجیک وار کہتے ہیں۔

جاری

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: نومبر ۱۹۴۷ کو اقوام متحدہ میں صہیونی لابی نے سرزمین فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان دوحصوں میں تقسیم پر مبنی ایک قرارداد منظور کر دی۔ اس قراردار کی منظوری کے بعد صہیونی عناصر اپنے منحوس پروپیگنڈوں اور شیطانی سازشوں کے ذریعے اس کے باوجود کہ سرزمین فلسطین پر مسلمانوں کی اکثریت رہائش پذیر تھی انہیں ان کی سرزمین سے باہر نکال کر فلسطین کے ایک حصے کے مالک بن بیٹھے۔ اقوام متحدہ کی اس قرارداد نے دو قوموں میں اختلاف پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ وہ صہیونی یہودی جو سرزمین فلسطین کے اس ایک حصے پر قابض ہوئے انہوں نے بجائے اسی پر اکتفا کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا اور اسرائیل کی آزادی کے زیر عنوان جنگ کے لیے قد علم کر دیا اور مسلمانوں پر جارحیت اور بربریت کے ذریعے اسرائیل کے نام سے اپنا ایک ملک بنا کر اس پر اپنی حکومت قائم کر دی اور سرکاری طور پر اسرائیل کی موجودیت کا اعلان کر دیا۔ اس جنگ میں کم سے کم ۳۳ افراد کو قتل کیا گیا اور ۷۵۰ ہزار سے زائد فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو انتہائی بے دردی سے ان کے گھروں سے باہر نکال دیا گیا۔
’’الدوامیہ‘‘( Al-Dawayima ) علاقے کے دردناک حادثات کے حوالے سے ایک اسرائیلی چشم دید گواہ کا کہنا ہے: ’’ وہ(صہیونی) لاٹھیوں سے بچوں کے سر پھوڑتے تھے اور انہیں قتل کر دیتے تھے۔ کوئی ایسا گھرانہ نہیں تھا جس نے شہید نہ دیا ہو۔ ایک سپاہی بڑے فخر سے کہہ رہا تھا کہ اس نے ایک عورت کی عصمت دری کی اور پھر اس کا قتل کر دیا‘‘۔
فلسطین کی ایک عورت اس موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ایک مرد نے اس کی بہن جس کے شکم میں نو مہینے کا بچہ تھا کو انتہائی بے دردی سے مار ڈالا اور اس کے بعد چاقو سے اس کا پیٹ چاک کر دیا‘‘۔
اسرائیلی مورخ ٹام سگف لکھتا ہے: ’’اسرائیل جنگ اور دھشتگردی سے وجود میں آیا اور اس کے وجود سے صرف ظلم و اندھا تعصب ہی ٹپکتا ہے‘‘۔
یہ ہیں انسانی حقوق کے تحفظ کے معنیٰ اور یہ ہے دھشتگردی سے مقابلے کے دعویداروں کا حال اور اقوام متحدہ بھی ایسوں ہی کی حمایت کرتی ہے!!۔
تحریر: Alison Weir
کتاب کا نام: Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ۱۹۶۷ کے بعد صہیونی ریاست کے ہاتھوں مقبوضہ فلسطین میں تمام تاریخی اور ثقافتی آثار چاہے وہ مسلمانوں سے تعلق رکھتے ہوں یا عیسائیوں سے، کی نابودی کا سلسلہ شروع ہو گیا جس کے رد عمل میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دنیا کے حریت پسندوں لوگوں حتی بعض یہودیوں نے بھی اسرائیل کے ان گھنوئنے اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اگر چہ بیت المقدس یا یورشلم انسانی ثقافت میں ایک خاص مقام کا حامل ہے اور اس کی معنوی اور تاریخی اہمیت کسی پر بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے اس ثقافتی شہر پر جارحیت، کسی کے لیے بھی قابل تحمل نہیں ہے۔
فلسطین اتھارٹی واچ ۹ ویں کانفرنس ۱۹۷۱ میں نے عرب سماج کو یہ تجویز پیش کی کہ بیت المقدس کے تاریخی آثار کے امور کے لیے ایک علمی کمیٹی تشکیل دی جائے جو علاقے میں اسرائیل کی بے راہ رویوں کا جائزہ بھی لے اور تاریخی آثار کے تحفظ کے سلسلے میں اسرائیلی عہدیداروں کے جھوٹے دعوؤں کو ثابت بھی کرے۔ عرب سماج نے چھپن(۵۶) اداری مٹینگوں کے بعد اس تجویز کو قبول کیا اور ایک کمیٹی تشکیل دی۔
اس کمیٹی کی منجملہ تحقیقات ’’کشاف البلدان الفلسطینیة‘‘ (فلسطینی شہروں کی رہنمائی) ڈاکٹر اسحاق موسی حسینی کی تالیف ۱۹۷۳ میں اور جامع بیت المقدس۱۹۷۹ میں منظر عام پر آئیں۔
یہاں پر در حقیقت یہ اہم سوال سامنے آتا ہے کہ کیوں سرزمین فلسطین کے تاریخی آثار کو صفحہ ہستی سے مٹایا جائے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟
کیا لوگوں میں ایک ایسی آزاد فکر اور وسعت نظر رکھنے والی ثقافتی تحریک وجود میں نہیں آنا چاہیے جو ان آثار قدیمہ کو ہمیشہ زندہ اور محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہو؟ کیا اصلا فلسطین کے تاریخی آثار کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے کہ نہیں؟ اگر ہماری ذمہ داری ہے تو آپ کی نظر میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ان سوالات کے جوابات قارئین حضرات ذیل میں ارسال کر سکتے ہیں۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عرب اسرائیل کے درمیان ۱۹۴۸، ۱۹۵۶، ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ میں چار جنگیں ہوئیں اور ان تمام جنگوں میں عربوں نے شکست کھائی۔ عربوں کے مقابلے میں فتح کے نتیجے میں یہودی ریاست کو ترغیب ملی اور اس نے نیل تا فرات” کا نعرہ لگایا، اردن، شام، لبنان اور مصر کی مسلم سرزمینوں پر میلی نظریں جمائیں اور عربوں کی وسیع سرزمینوں پر قبضہ کیا جن میں مشرقی بیت المقدس، دریائے اردن کے مغربی کنارہ، شام کے جنوبی علاقے جولان اور مصر کے صحرائے سینا جیسے علاقے شامل تھے؛ لبنان کو کئی بار جارحیت کا نشانہ بنایا اور اس کے کچھ حصوں پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ یہ نامشروع قبضے بھی جاری رہے اور ساتھ ساتھ یہودی ریاست اسرائیل” کی عالمی حمایت بھی جاری رہی جس کی وجہ سے غاصب صہیونی ـ یہودی ریاست ایک باؤلے کتے میں تبدیل ہوا اور اس نے [ایک مکڑی جتنا ہوتے ہوئے مسلمانوں کی کمزوریوں کا صحیح ادراک کرکے] اسلامی ممالک کو ہڑپ کرنے کا ارادہ کیا۔
عرب ممالک کو ناکوں چنے چبوانے کے باوجود اس ریاست کا مکروہ اور خونخوار چہرہ کبھی بھی صہیونیوں کے خلاف فلسطینیوں کے جہاد کا سد باب نہ کرسکا۔ فلسطینی عارف عزالدین قسام نے اسلحہ اٹھایا اور اپنے مریدوں اور اعوان و انصار کے ساتھ یہودیوں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ فتح تحریک صہیونی یہودیوں کے خلاف جنگ کے لئے میدان میں اتری اور ۵۰۰ کی نفری لے کر الکرامہ” نامی کاروائی میں یہودی فوج کے ۱۲۰۰۰ افراد پر مشتمل ڈویژن کو دریائے اردن کے کنارے شکست دی۔
لیکن آج امریکہ، برطانیہ اور یہودی ریاست کی مکاری کے نتیجے میں بعض دنیا پرست عرب حکمران قدس شریف پر قابض صہیونیوں کے خلاف جنگ کے بجائے یہودی ریاست کی حمایت کے لئے میدان میں آئے ہیں اور مذاکرات اور سازباز کو متبادل کے طور پر متعارف کرارہے ہیں اور انھوں نے عملی طور پر خطے میں صہیونی اہداف کے قریب پہنچنے میں اس کی مدد کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت اردن کے سابق بادشاہ شاہ حسین نے فلسطینیوں کا قتل عام کیا [اس وقت کے پاکستانی بریگیڈیئر محمد ضیاء الحق اس قتل عام میں شاہ اردن کی مدد کو آئے تھے]۔ مصر کے سابق صدر انورالسادات نے کیمپ ڈیویڈ معاہدے پر دستخط کرکے یہودی ریاست کو تسلیم کیا اور اس منحوس ریاست کی حمایت کی۔ یاسر عرفات نے بھی میڈرڈ، اوسلو، وائی ریور، واشنگٹن میں یہودی ریاست کے ساتھ سازباز کا سلسلہ آگے بڑھایا اور ۱۹۸۹ میں کیمپ ڈیویڈ ۲ نامی معاہدے پر دستخط کئے۔
۱۹۴۸ سے لے کر آج تک عالم اسلام کو نشیب و فراز کا سامنا رہا ہے اور کوشش ہوتی رہی ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں جہاد کا شعلہ خاموش ہوجائے اور صہیونیوں کے اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
شیعہ علماء غصب فلسطین کے آغاز ہی سے ـ اپنے فکری استقلال، خدائے واحد و احد پر توکل اور عوامی قوت پر بھروسے کی بنا پر ـ اس غیر انسانی اقدام کے سامنے ڈٹ گئے اور غاصب یہودیوں کا س برباد کردیا۔
شیخ محمد حسین بن محمد ابراہیم گیلانی، ناصرالدین شاہ کے دور کے عالم شیخ محمد رضا ہمدانی، نجف کے اعلم عالم دین علامہ کاشف الغطاء، ہبۃ الدین شہرستانی، سید محمد مہدی صدر اور سید محمد مہدی اصفہانی، سید عبدالحسین شرف الدین اور آیت اللہ العظمی سید ابوالحسن اصفہانی جیسے ایران، عراق اور لبنان سمیت عالم تشیع کے بزرگ علمائے دین امریکہ اور برطانیہ کے غیر انسانی اقدامات کے مد مقابل کھڑے ہوگئے اور قابض یہودیوں کے خلاف جہاد کے فتوے دیئے۔
بیسویں صدی عیسوی میں امام خمینی نے بےمثال اور فیصلہ کن انداز سے فلسطین کی نسبت اپنے احساس ذمہ داری اور عزم راسخ کی اساس پر غاصب اور قابل نفرت یہودی ریاست کے مقابلے میں امت مسلمہ کی استقامت اور مزاحمت کو نیا رنگ دیا۔ ماہ مبارک رمضان کے آخری روز جمعہ کو عالمی یوم القدس کا نام دیا اور فلسطین کے ملک اور ملت کے اسلامی تشخص کو تقویت دی اور اسے دنیا کے سامنے آشکار کردیا جبکہ یہ عرب حکمرانوں کی غفلت اور سستی اور دنیا پرستی کے سائے میں فراموشی کے سپرد کیا جارہا تھا۔
اللہ کے اس عبد صالح نے فرمایا: ہم سب کو اٹھ کر اسرائیل کو نابود کرنا چاہئے، اور فلسطین کی بہادر قوم کو اس کی جگہ بٹھا دیں”۔
آپ نے مزید فرمایا: اللہ کی مدد سے اسلام کے پیروکاروں کے مختلف نظریات و آراء اور امت محمد(ص) کی طاقت اور اسلامی ممالک کے وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور پوری دنیا میں حزب اللہ کے مزاحمتی حلقے تشکیل دے کر فلسطین کو صہیونیوں کے چنگل سے آزاد کرانا چاہئے”۔
آپ نے اپنی حکمت عملیوں کا اعلان کرکے مسئلۂ فلسطین کو عالم اسلام اور دنیا بھر کے انصاف پسندوں کے ہاں اول درجے کے مسئلے میں تبدیل کردیا اور اپنی ہوشیاری اور زیرکی سے دنیا بھر کے انصاف پسند عیسائیوں اور صہیونیت مخالف یہودیوں کو بھی غاصب اور جارح یہودی ریاست کے مد مقابل کھڑا کیا۔
امام خامنہ ای نے بھی اپنی قیادت کے دوران، پوری سنجیدگی کے ساتھ، راہ امام خمینی پر گامزن ہوکر، اسرائیل کی نابودی کو فلسطین کے غصب اور قبضے سے چھوٹ جانے اور اس کے امت اسلامی کی آغوش میں پلٹ آنے کا واحد راستہ قرار دیا؛ فلسطین کی آزادی کا پرچم اونچا رکھا اور ایک الہی نگاہ سے مزاحمت کے دائرے کو وسعت دی۔ عالم اسلام جاگ اٹھا اور فلسطین بدستور عالم اسلام کے مسائل میں سرفہرست رہا اور بےتحاشا بین الاقوامی حمایت کے باوجود ـ اسلامی مزاحمت کے طاقتور ہونے کی بنا پر ـ یہودی ریاست کمزور پڑ گئی اور بقاء کے بجائے اس کی فنا کی الٹی گنتی شروع ہوئی۔ اس وقت یہ ریاست فرسودگی اور زوال کے مراحل طے کررہی ہے اور مسلمانوں کی طرف سے اس ناجائز ریاست کی بقاء محال ہوچکی ہے۔
سنہ ۲۰۰۰ میں حزب اللہ لبنان کے آگے پہلی شکست کھا کر یہودی ریاست کی پسپائی کے بعد ۲۰۰۶ میں اسے حزب اللہ کے مجاہدین کے آگے رسواکن شکست کھانا پڑی، ۲۰۰۹ میں ۲۲ روزہ جنگ کے دوران بھی اور بعد کی آٹھ روزہ اور پچاس روزہ جنگوں میں بھی غزہ کے مظلوم اور بہادر عوام نے یہودی ریاست کو تین بار شکست دی اور پلڑا مزاحمت کے حق میں بھاری ہوا؛ جس کے بعد امریکہ اور صہیونی ریاست نے عراق اور شام میں داعش کو منظم کیا اور داعش کی حکومت تک قائم کرائی؛ تا کہ ولایت فقیہ کی حاکمیت اور محاذ مزاحمت کی استقامت کو توڑ سکیں اور توسیع یافتہ اسرائیل کے آگے کی تمام رکاوٹیں دور کرسکیں۔
دوسری طرف سے غزہ میں انتفاضہ کو تقویت ملی، مغربی کنارے کو مسلح کیا گیا، عراق اور شام میں داعش کو شکست کھانا پڑی تو یہودی ریاست مزید سنجیدہ چیلنجوں کا شکار ہوئی؛ یہاں تک کہ اس نے زوال اور فنا کے راستے کو اپنے سامنے پورے وضوح کے ساتھ دیکھ لیا۔
غزہ سے صہیونیوں کے اوپر میزائل حملے شروع ہوئے، شام سے ۶۸ میزائل یہودی ریاست کے نہایت حساس اور خفیہ مراکز اور معلومات حاصل کرکے ان کا تجزیہ کرنے والے اہم ترین اداروں پر داغے گئے جس کی وجہ سے خطے میں جنگ کے قواعد بدل چکے اور اس حملے نے اس سرطانی پھوڑے کو زوال کی اترائی پر قرار دیا اور اس کے زوال اور نابودی کو قریب تر کردیا۔
امام خامنہ ای نے ۱۹ اگست ۱۹۹۱ کو فرمایا: اسرائیل کا انجام نابودی ہے اور اسے نابود ہونا چاہئے۔ کچھ عرصہ قبل تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مشرقی بڑی طاقت (سوویت روس) اس طرح شکست و ریخت کا شکار ہوجائے گی ۔۔۔ جس دن امام خمینی نے میخائل گورباچوف کو لکھا کہ مارکسزم کو اب عجائب گھروں میں تلاش کرنا پڑے گا، تو کچھ لوگ اس کلام کا مذاق اڑا رہے تھے! لیکن ابھی دو یا تین سال ہی گذرے تھے کہ وہ پیشنگوئی عملی صورت میں ظاہر ہوئی”۔
آپ نے ۹ نومبر ۱۹۹۱ کو فرمایا: شک نہیں کرنا چاہئے کہ اسرائیل کے شجرۂ خبیثہ ۔۔۔ کی کوئی بنیاد اور کوئی دوام و بقاء کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا اور بےشک فنا ہوجائے گا”۔
آپ نے ۲۴ اپریل ۲۰۰۱ کو منعقدہ انتفاضۂ فلسطین کی حمایت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں یقین ہے کہ فلسطینی عوام کی جدوجہد کے جاری رہنے اور عالم اسلام کی حمایت کی برکت سے فلسطین اللہ کے فضل سے آزاد ہوجائے گا اور بیت المقدس اور مسجد الاقصی سمیت اس اسلامی سرزمین کے دوسرے علاقے عالم اسلام کی آغوش میں پلٹ آئیں گے”۔
امام خامنہ ای نے ۱۷ مئی ۲۰۱۸ کو فرمایا: فلسطین اللہ تعالی کے اذن سے دشمنوں کے چنگل سے آزاد ہوجائے گا، بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے اور امریکہ اور امریکہ سے بھی بڑے بوڑھے فلسطین کے سلسلے میں حقائق اور سنت الہیہ کے آگے کچھ بھی کرنے پر قادر نہیں ہیں”۔
چنانچہ کوئی شک نہیں ہے کہ سنت الہیہ عملی جامہ پہن کر رہے گی۔ اگرچہ ۱۹۴۸ سے لے کر آج تک، تھیوڈور روزویلٹ سے لے کر بارک اوباما تک تمام امریکی صدور نے یہودی ریاست کی حمایت کی اور آج بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کے ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یہودی ریاست کے لیکوڈی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کا سنجیدہ اتحاد فلسطینی مزاحمت کو چیلنجوں سے دوچار کرچکا ہے، لیکن امریکی سفارتخانے کی بیت المقدس منتقلی نے امت اسلام کے قلوب کو مجروح کردیا، انتفاضہ کو مشتعل کیا، اور اس نئی صورت حال نے واپسی کی تحریک کے آغاز کا سبب فراہم کیا اور اس تحریک کو تازہ خون سے سیراب کیا جارہا ہے اور یوں فلسطین علاقائی اور اسلامی ممالک کی ترجیحات میں شامل ہوچکا ہے۔
یہودی ریاست کو بجا یقین ہے کہ ایران کی میزائل قوت اور شام، لبنان اور غزہ میں تحریک مزاحمت حیفا، تل ابیب اور یہودی نشین شہروں کو سنجیدہ ترین خطرات لاحق ہیں اور آج کی جنگ ۱۹۴۸، ۱۹۵۶، ۱۹۶۷ اور ۱۹۷۳ کی عرب اسرائیل جنگوں سے بالکل مختلف ہے۔ آج اسلامی امت پوری اسرائیلی ریاست کے انہدام کی صلاحیت رکھتی ہے اور اسے فنا اور زوال کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
امام خامنہ ای نے ۱۴ دسمبر ۲۰۱۶ کو فلسطین کی جہاد اسلامی تحریک کے سیکریٹری جنرل رمضان عبداللہ شلح کی ملاقات کے دوران فرمایا: صہیوی ریاست ـ جیسا کہ ہم قبل ازیں کہہ چکے ہیں ـ صہیونیوں کے ساتھ فلسطینیوں اور مسلمانوں کی متحدہ جدوجہد کی شرط پر ـ اگلے ۲۵ برسوں تک باقی نہیں رہے گا”۔
غاصب ریاست آج ـ کل سے کہیں زیادہ ـ اس یقین تک پہنچی ہوئی ہے کہ وہ تیزرفتاری سے نیست و نابودی اور ہلاکت کے گڑھے میں اتر رہی ہے؛ اس وقت اس کا ہاتھ پاؤں مارنا کھرل میں پانی کوٹنے کے مترادف ہے اور نتیجہ اسرائیل نامی جعلی ریاست کی موت کی صورت ہی میں برآمد ہوگا۔
نیتن یاہو اور ٹرمپ نے سن رکھا ہے کہ ۲۰۰۶ کی ۳۳ روزہ جنگ کے درمیانی ایام میں امام خامنہ ای نے فرمایا کہ حزب اللہ اس جنگ میں کامیاب ہوگی، اور کچھ ہی دن ایسا ہی ہوا۔ آپ نے سنہ ۲۰۱۱ میں فرمایا: بشار اسد کی حکومت کو رہنا چاہئے اور یہ حکومت باقی رہے گی”، اور ایسا ہی ہوا۔
صہیونی دوسروں سے زیادہ بہتر یقین کرچکے ہیں کہ اگلے ۲۵ سال تک وہ قصہ پارینہ بن چکے ہونگے، وہ حتی اس یقین تک پہنچ چکے ہیں کہ انقلاب اسلامی کی موجودہ نسل حتی کہ عالم خوار امریکہ کی فنا کو بھی دیکھ لیں گے۔ کاش بعض سادہ اندیش اور سادہ لوح ـ نام نہاد دانشور ـ بھی اس قرآنی وعدے کا یقین کر لیتے کہ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوقاً؛ یقیناً باطل تو مٹنے والا ہی ہے”؛ اور امریکہ اور یہودی ریاست چونکہ باطل ہیں تو ان کو مٹنا ہی ہے؛ یہ اللہ کا وعدہ ہے: وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ؛ چاہے مشرکین کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ؛ چاہے کافر لوگ کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، وَلَوْ کَرِهَ الْمُجْرِمُونَ؛ چاہے جرائم پیشہ لوگ کتنا ہی ناپسند کرتے ہوں”، أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ؛ یقینا اللہ کی جماعت والے، غالب آنے والے ہیں”، فَإِنَّ حِزْبَ اللّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ؛ یقینا اللہ کی جماعت والے، غالب آنے والے ہیں”؛ یہ اللہ کا اٹل وعدہ ہے
لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ وَیَوْمَئِذٍ یَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ٭ بِنَصْرِ اللَّهِ یَنصُرُ مَن یَشَاء وَهُوَ الْعَزِیزُ الرَّحِیمُ ٭ وَعْدَ اللَّهِ لَا یُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ؛ اللہ ہی کے ہاتھ میں معاملہ ہے پہلے بھی اور بعد بھی اور اس دن مؤمنین خوش ہوں گے ٭ اللہ کی مدد سے وہ جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے اور وہ عزت والا ہے، بڑا مہربان ٭ اللہ کا وعدہ ہے، اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا مگر زیادہ تر لوگ جانتے نہیں”۔
مزاحمتی حلقوں کی تشکیل کا حکم امام خمینی نے دیا
ایران، عراق، لبنان، بحرین، شام، پاکستان، مصر، افغانستان، فلسطین، نائجیریا، یمن اور اردن کے عوام اور حتی کہ یورپ اور امریکہ میں امام کے بعض پیروکاروں نے مزاحمت کے دائرے کو وسعت دی تا کہ نیل سے فرات کے یہودی ـ امریکی منصوبے کو خاک میں ملا دیں۔ کہاں ہیں تھیوڈور ہرٹزل، بالفور، روزویلٹ اور ٹرومین؛ آئیں دیکھ لیں اس افسانے کا انجام جس کا آغاز انھوں نے یہودیوں کی فلسطین ہجرت سے کیا، اور پھر اسرائیل کو قائم کیا، آج اسلامی مزاحمت نے جدید صہیونیت کو ناکوں چنے چبوائے ہوئے ہیں اور ی صہیونیت کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا ہے، جو منصوبہ انھوں نے بنایا وہ صہیونی یہودیوں کی نابودی کا باعث بنا ہے اور آج صہیونیت مخالف یہودی اور عیسائی اس نابودی سے وجد کی کیفیت سے گذر رہے ہیں۔
ہرٹزل کے تفکرات سے معرض وجود میں آنے والے طفیلیوں کی موت کی گھڑی قریب آئی ہے اور دنیا اسرائیل کے بغیر کے جغرافیے کی طرف رواں دواں ہے؛ مسلمان طاقتور بنے ہوئے ہیں۔ اسرائیل اسلامی مزاحمتی حلقوں کے آگے قدم جمانے کی ہمت و سکت نہیں رکھتا۔ واپسی کی تحریک کو یقین ہے کہ بےیار و مددگار نہیں ہے اور ایران کی میزائل قوت اس کی حمایت کے لئے کھڑی ہیں۔ محاذ مزاحمت کے علمبردار پا بہ رکاب اور حکم کے منتظر ہیں وہی جنہوں نے شاہ کو نکال باہر کیا، صدام کو شکست کی تلخی چکھا دی، دہشت گردوں کی ناک خاک پر رگڑ لی، منافقین کو فنا کے سپرد کیا، امریکیوں کو ذلت سے آشنا کیا، تو وہ کیا اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو نیست و نابود کرسکیں گے؟ یقینا وہ ایسا ہی کرکے رہیں گے۔
سپاہ قدس میں نمایندہ امام خامنہ ای، حجت الاسلام والمسلمین علی شیرازی
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: طول تاریخ میں ایسے بہت سے گروہ ہیں جنہوں نے گوناگوں نظریات کے حامل ہونے کے باوجود صہیونیت کی فکر پر تنقید کی ہے، یہی وجہ ہے کہ محض فلسطینی مسلمانوں کو یہودیوں اور صہیونیوں کا ناقد و مخالف نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ بعض مغربی دانشورو اسکالرز نے بھی انسانی، نسلی ، قومی اور آئڈیالوجیکل بنیادوں پر صہونی فکر کا تجزیہ کیا ہے اور انکی فعالیت و سرگرمیوں پر تجزیاتی گفتگو کرتے آئے ہیں۔
انہیں مغربی دانشوروں میں صہیونی فکر کے خلاف بولنے والی ایک یہود ستیز شخصیت ڈیوڈ ارنسٹ ڈیوک David Ernest Duke” کی [۱]ہے
ڈیوڈ ارنسٹ ڈیوک کو ایک صہیون مخالف اور ماضی میں ’’کے کے کے۔k.k.k‘‘[۲]کے بلند پایہ رہبروں کے روپ میں جانا جاتا ہے۔
ڈیوڈ نے اوکلاھما [۳]ریاست کے شہر ’’ تاا ‘‘ [۴]میں اس دنیا میں قدم رکھا ، ڈیوڈ کے اجداد و اسلاف جدید امریکہ کے معماروں اور بانیوں میں تھے۔
ڈیوڈ نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یونیورسٹی کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہی اپنی ی سرگرمیوں کا بھی آغاز کر دیا۔
وہ اپنی کتاب ’’میری بیداری: امریکا میں یہودیوں کے سلسلہ سے ان کہی باتوں‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’نوجوانی میں ہی یہ بات میرے گھر والوں کے لئے واضح ہو گئی تھی کہ میں واعظ و مقرر تو بننے سے رہا ،اس لئے کہ میں ایک خاموش اور چپ رہنے والا شخص تھا اور ذرا بھی تقریر کے لئے مناسب نہ تھا چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے بھی میری مطالعہ کتب کے سلسلہ میں حوصلہ افزائی کی، میرے والد کا اصرار تھا کہ روز کم سے کم میں ایک گھنٹے کا وقت تو مطالعہ کو دوں، شروع میں تو میں اس سے فرار کرتا رہا لیکن آہستہ آہستہ مطالعہ کی مجھے عادت پڑ گئی اور پھر میں دائم المطالعہ ہو گیا ‘‘
ڈیوڈ ماضی میں سیاہ فاموں اور قوم پرستوں کے سلسلہ سے خاص طور پر نسل پرستی کے سلسلہ سے شدت پسندانہ موقف اختیار کرتے رہے ہیں، لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ہجرت، و نسلی بھید بھاو جیسے موضوعات میں انکے شدت پسندانہ رجحان میں لچک پیدا ہوتی گئی، اور شدت پسندانہ نظریات کا پکا رنگ کچا ہوتا چلا گیا جسکی بنیاد پر مختلف النوع و مختلف الفکر لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نصیب ہوئی، اور ہر قسم کے لوگ ان سے جڑنے لگے ۔
ڈیوڈ ’’کے کے کے‘‘ نامی نسل پرست گروہ کے ان نو نازی اولین سربراہوں میں تھے جنہوں نے کلاں اور نازیوں کے مخصوص لباس پہننے پر روک لگائی ، اسی طرح انہوں نے ان تمام روایتی پہنے جانے والے کپڑوں کے پہننے کی میڈیا میں مخالفت کی جو نسلی تعصب کی علامت تھے اور جن سے نفرت پھیلتی تھی ، انہوں نے نفرت آمیز نسلی امتیاز کی ترجمان علامتوں کی کھل کر مخالفت کی، انہوں نے اپنے گروہ کے اراکین سے مطالبہ کیا کہ وہ شدت پسندی کے رویہ کو ترک کر دیں اور ی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔
۲۰۰۱ء سے ۲۰۰۲ء میں جعلی حکم ناموں اور تحریروں کے ساتھ ٹیکس سے فرار کے لئے اپنی ی جدو جہد کے سلسلہ سے نقلی دستاویزات بنانے کی بنا پر پولس کو مطلوب رہے، اور چونکہ پولس انکے تعاقب میں تھی لہذا انہوں نے اپنا کچھ وقت روس اور کریمہ یوکرائن میں گزارا ان دونوں ہی مقامات پر قیام کے دوران انہوں نے یہودیوں پر اپنے تنقیدی سرگرمیوں کے سلسلہ کو جاری و ساری رکھا ۔
۱۹۸۰ کی دہائی میں ڈیوڈ سفید فاموں کی برتری کا دفاع کرنے والوں کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن چکے تھے ، ۱۹۸۰ میں وہ پہلے تو ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب امید وار کے طور پر کھڑے ہوئے ، اسکے بعد چار سال قبل ویلس کارتو کی جانب سے تاسیس پانے والی عوام پارٹی کی جانب سے صدر جمہوریہ کا انتخاب لڑنے کے لئے امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے ۔
۱۹۹۱ میں ریاست لویزانہ کے گورنر کے الیکشن میں بھی میدان رقابت میں امید وار کی طور پر انہوں نے اپنی قسمت آزمائی کی اور چونکہ انہیں لگتا تھا کہ سنا کے انتخابات میں انہوں نے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں شاید یہ ی نشیب و فراز اسی خاطر ہوں کہ وہ ہر جگہ ابھرتے نظر آئے ڈیوڈ نے اپنے الیکشن کی رقابت کے سلسلہ سے ہونے والی تشہیری مہم میں ایک مقام پر کہا: ’’یہودی اپنی نجات کے لئے تمام ثقافتوں کی نابودی کے درپے ہیں ‘‘انکا ماننا تھا کہ یہود و غیر یہود ایک قومی جنگ کے کگار پر ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے تھے ’’ ان دو نسلوں اور دو تہذیبوں کے درمیان جدید صدی کے آغاز کے باجود نہائی معرکہ بہت دور نہیں ہے اور ممکن ہے دونوں کے درمیان ایک نہائی ٹکراو پیش آ جائے[۵]‘‘
ڈیوڈ دسمبر ۲۰۶ ء میں ہلوکاسٹ کے سلسلہ سے ہونے والی کانفرنس کے مندوبین میں سے ایک اہم مقرر تھے، انہوں نے اس بین الاقوامی کانفرنس میں کہا تھا جو بھی آج کی دنیا میں ہلوکاسٹ کے بارے میں کچھ کہتا ہے وہ ایک دلیر و شجاع انسان ہے [۶]۔
حواشی :
[۱] ۔ David Ernest Duke ۔ ایک سفید فام قوم پرست امریکن مصنف جو اپنے یہود مخالف نظریات اور یہودی مخالف رجحان کی خاطر مشہور ہیں
[۲] ۔ The Ku Klux Klan (/ˈkuː ˈklʌks ˈklæn, ˈkjuː۔ سفید فاموں کی برتری کا دفاع کرنے والی ایک ، کیتھولک مخالف امریکن تنظیم ، ۱۸۶۶ اور ۱۸۶۹ میں سیاہ فاموں کے امریکہ میں قتل عام میں اس تنظیم کا بڑا ہاتھ رہا ہے ، یہ لوگ مخصوص قسم کا لباس پہنتے اور ایک صلیب کے سامنے کھڑے ہو کر خاص مراسم انجام دیتے اس کے بعد ایک قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع ہو جاتا ۔ مزید مطالعہ کے لئے رجوع کریں : Drabble, John, The FBI, COINTELPRO-WHITE HATE and the Decline of Ku Klux Klan Organizations in Mississippi, 1964-1971, Journal of Mississippi History, 66:4, (Winter 2004)
[۳] ۔ریاستہائے متحدہ امریکا کی ایک ریاست جو ۱۹۰۷ء میں وفاق امریکا میں شریک ہوئی۔ ایسی ریاست جہاں کپاس، گہیوں دوسرے اناج کا شت کیے جاتے ہیں۔ کانوں سے کوئلہ، سیسہ اور جست نکلتا ہے۔ مویشی پالنا لوگوں کا اہم پیشہ ہے۔ شمال مشرق میں تیل نکلتا ہے اور ریاست کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔یہاں امریکا کے قدیم باشندے ریڈ انڈین بھی آباد ہے۔ ۱۹۶۰ء کی مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد پینسٹھ ہزار کے قریب بتائی جاتی رہی ہے
[۴] ۔ Tulsa، ریاست اوکلاما Oklahomaکا دوسرا سب سے بڑا اور امریکہ کا سینتالیسواں بڑا شہر
[۵] ۔ www.splcenter.org/fighting-hate/extremist-files/individual/david-duke
[۶] ۔ KKK’s David Duke Tells Iran Holocaust Conference That Gas Chambers Not Used to Kill Jews, Published December 13, 2006, Fox News
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے شعبے فلسطین اور مزاحمت” کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل میں موجودہ دراڑوں کے جائزے اور اس مسئلے میں غور و فکر کے بموجب اسرائیل اور فلسطین کے شعبے کے محققین اس مسئلے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور جامع تحقیقات کے ذریعے ان دراڑوں کو آشکار کر رہے ہیں اور نظریات کو منصوبہ سازی کے ہمراہ میدان میں عمل میں لا رہے ہیں۔ ڈاکٹر علی رضا سلطان شاہی طویل عرصے سے صہیونیت اور اسرائیل کے سلسلے میں مطالعے اور تحقیق میں مصروف ہیں۔
ذیل کا متن ڈاکٹر سلطان شاہی کے ساتھ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نمائندے کا مکالمہ ہے جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
خیبر: اسرائیل نامی ریاست کی دراڑیں آج کے ایام میں ماضی سے کہیں زیادہ قابل مشاہدہ ہیں؛ اس ریاست میں موجود اہم ترین دراڑوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
سلطان شاہی: میں نے صہیونی ریاست کے وحود کے اندر کی دراڑوں میں زیادہ تر کام اس کی آبادی سے متعلق کیا ہے اور میرا خیال ہے کہ آبادی کا مسئلہ اس ریاست کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ دنیا کے ۱۰۲ ممالک سے اٹھاون لاکھ یہودی مقبوضہ فلسطین میں آن بسے ہیں؛ جب ہم کہتے ہیں کہ ۱۰۲ ممالک سے، یعنی ۱۰۲ مختلف ثقافتی، کرداری، ی، سماجی، مذہبی، قومی اور زبانی خصوصیات، جنہیں ایک ریاست کی عملداری میں اکٹھا کیا گیا ہے۔
یہاں ہجرت کرنے والے اکثر یہودی عبرانی زبان نہیں بول سکتے ہیں بلکہ صرف کچھ لوگ عبرانی میں بات چیت کرسکتے ہیں۔ بطور مثال مقبوضہ فلسطین میں یہودی ریاست کے تحت ایرانی یہودیوں کی تعداد تقریبا دو لاکھ ہے لیکن اس قدر دوسرے یہودیوں سے بیگانہ ہیں کہ ایرانی یہودیوں کی اپنی کتابیں اور اپنے رسالے اور اخبارات ہیں اور اتنا طویل عرصہ گذرنے کے باوجود جبرا بنائی گئی تہذیب میں گھل مل نہیں سکے ہیں۔
البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ریاست میں معمول کے معنوں میں کوئی خاص تہذیب موجود نہیں ہے بلکہ سب یورپی روش اپنائے ہوئے ہیں کیونکہ زیادہ تر یہودی یورپ سے یہاں آ گئے ہیں۔ مشہد کے یہودی صہیونی ریاست میں حتی دوسرے ایرانی یہودیوں سے بھی بیگانے ہیں، چہ جائےکہ وہ اسرائیلی بن جائیں۔ اس وقت نیویارک میں مقیم مشہد کے یہودیوں کی اپنی الگ تنظیم ہے۔
یہ دراڑیں جس قدر کہ زبانی، قومی، ثقافتی اور اعتقادی لحاظ سے زیادہ ہوں، صہیونی معاشرے کی سطح پر اتنی ہی دراڑیں معرض وجود میں آئیں گی۔ اسی بنا پر صہیونی اپنے منصوبوں میں مسائل کا شکار ہوگئے ہیں۔ کیونکہ المختصر: یہاں آبادی کا مسئلہ ہے”؛ جب سے یہودی ریاست بنی ہے، اب تک اسقاط حمل کے ۲۰ لاکھ واقعات سامنے آئے ہیں۔
یہودی ریاست کی آبادی میں اضافے کی شرح بمشکل ۱٪ ہے؛ الٹی ہجرت [اور یہودیوں کی اپنے آبائی ممالک میں واپسی] میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور فلسطین کی طرف یہودیوں کی ہجرت مسلسل کم ہورہی ہے۔ یہودی نوجوانوں میں امریکی اور یورپی طرز زندگی اپنانے کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے یعنی یہ کہ یہودی ریاست میں رہنے کے لئے ان کے ہاں کوئی محرک نہیں ہے۔
یہاں کے مردوں اور عورتوں کو فوج میں جبری خدمت کرنا پڑتی ہے، اس کے باوجود ان کے مردوں اور عورتوں میں جنگ کی طرف رغبت بالکل نہیں پائی جاتی اور آسائش طلبی کا شوق ان کے اوپر مکمل طور پر غالب آچکا ہے۔ یہودی ریاست کی افواج میں نافرمانی کے واقعات بہت زیادہ ہیں۔
ادھر آبادی میں اضافے کا رجحان کم ہونے کے ساتھ ساتھ، فلسطینیوں کی آبادی میں اضافے کی شرح ۴ فیصد تک پہنچ چکی ہے؛ وہ قدس کی آزادی کی آرزو سے لیس ہیں، یہودیوں کے خلاف ہیں اور اس وقت [ملینوں فلسطینیوں کو ملک سے نکال باہر کئے جانے کے باوجود] فلسطینیوں کی آبادی تقریبا یہودی آبادی کے برابر ہے۔
خیبر: کیا مذکورہ فلسطینی آبادی میں آپ نے بیرون ملک مقیم فلسطینی پناہ گزینوں کو شمار نہیں کیا؟
– نہیں! اگر پناہ گزینوں کو بھی فلسطینیوں کی اندرونی آبادی میں شامل کریں تو ان کی آبادی یہودیوں کے دو گنا ہوجائے گی؛ اور یہی یہودی ریاست کے لئے بہت بڑی آفت ہے جس کا وہ اعلانیہ اظہار نہیں کرتے لیکن بہت سے ادارے ہیں جو اس مسئلے کے حل کے درپے ہیں؛ اور وہ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر آبادی میں توازن بحال نہ کرسکیں تو انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خیبر: آبادی کی بنیاد پر اہم دراڑ کے علاوہ کیا فلسطین پر قابض یہودی ریاست میں مزید دراڑیں بھی ہیں؟
– کسی وقت جب یہاں اشکنازی یہودی تھے تو ان میں سے ہر کسی کا اپنا ایک رتبہ ہوتا تھا اور بہتر اقتصادی اور معاشرتی پوزیشن کے ساتھ حساس اور کلیدی مناصب تک رسائی ممکن تھی لیکن ۱۹۷۰ کے عشرے سے ۱۹۸۰ کے عشرے تک ایتھوپیا کے یہودی بھی ہجرت کرکے مقبوضہ فلسطین آگئے اور یوں یہاں بڑی تعداد میں سیاہ فام باشندے بھی آباد ہوئے جس کے نتیجے میں صہیونی ـ یہودی ریاست کے مسائل میں نسلی دراڑ بھی شامل ہوگئی۔
ابتداء میں تو افریقی کوئی خاص توقع نہیں رکھتے تھے لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ فلسطین میں بہت سے طبقے ہیں جو اپنے حقوق کے لئے ہڑتالیں کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں اور سڑکوں کو بند کرتے ہیں تو وہ بھی اپنے حقوق کے لئے سڑکوں پر آئے اور دوسرے یہودیوں کے برابر کے شہری حقوق کا مطالبہ کیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اشکنازی، کالے اور سفارادی یہودیوں کے درمیان کشمکش اور تنازعے کی صورت حال حکمفرما ہے۔
علاوہ ازیں میزبان [مقبوضہ] ملک عرب” اور دروزی” نامی قوم کا ملک ہے جن کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے؛ اور پھر یہاں عرب یہودی” بھی ہیں جو پوچھ رہے ہیں کہ انہیں فوج میں کیوں نہیں جانے دیا جاتا اور انہیں فوج کے فوائد سے مستفید کیوں نہیں ہونے دیا جاتا؟ اب آپ خود اسرائیل نامی جعلی ریاست کے اندر ایک نگاہ ڈالیں اور دیکھ لیں کہ یہودیوں کے درمیان کیا واقعات رونما ہو رہے ہیں اور غیر یہودی، یہودیوں کی نسبت کس طر عمل کررہے ہیں؟
بعض یہودی نوجوان کہتے ہیں کہ اگر یہاں کا حکمران نظام صہیونیت اور قومی یہودی تحریک ہے تو پھر یہودی ریاست کے کنیسے میں ایک عرب اذان کیوں دیتا ہے؟ اس کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ اسی بنا پر دائیں بازو کی یہودی جماعتوں کا خیال ہے کہ اب وہ زمانہ گذر گیا ہے جب ہمارا اپنا آپ دنیا کو دکھانے کا دور گذر چکا ہے، اسی بنا پر انھوں نے کچھ اقدامات کا منصوبہ بنایا ہے کہ کنیسے کو ایسے افراد سے خالی کرایا جائے۔ اپنا آپ لوگوں کو دکھانے کا زمانہ گذر چکا ہے” سے مراد یہ ہے کہ اب وہ وقت گذر گیا ہے کہ ہم دنیا کو بتاتے رہیں کہ اگر ایک غیر یہودی بھی آیا تو کوئی حرج نہیں ہے اور ہم اسے شہریت دے دیں۔
اس وقت فلسطینیوں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے، دوسری طرف سے دروزیوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ادھر ۲۰ لاکھ عرب ۱۹۴۸ کی فلسطینی سرزمین میں ست پذیر ہیں، تو کیا یہودی انہیں دریابرد کریں گے؟ قتل کریں گے؟ نکال باہر کریں گے؟ اصولی طور پر وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہودی ریاست کو مختلف قسم کی بند گلیوں کا سامنا ہے جنہوں نے اسے شکست و ریخت سے دوچار کردیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جیمز پیٹراس(James Petras) امریکہ کی بنگ ہمٹن (Binghamton) یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کے پروفیسر تھے۔ ۱۷ جنوری ۱۹۳۷ میں آپ پیدا ہوئے۔ آپ نے کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پیٹرس نے ی موضوعات میں لاطینی امریکہ، مشرق وسطی، شاہیزم، گلوبلائزیشن اور بائیں سماجی تحریکوں پر خصوصی اور جامع مطالعہ کیا۔ انہوں نے ۶۳ عناوین پر مختلف کتابیں تالیف کیں اور ۲۹ زبانوں میں ان کی کتابوں کا ترجمہ ہوا۔ علاوہ از ایں ان کے ۶۵۰ علمی مقالے مختلف تخصصی جرائد(۱) میں منظر عام پر آئے ہیں جبکہ ۲ ہزار کے قریب غیر تخصصی جرائد(۲) میں چھپے ہیں۔ امریکہ کے معروف پبلیکیشن سینٹروں جیسے روٹلیج (routledge) رنڈم ہاؤس (Random House) اور میک میلن (macmillan) نے پیٹرس کی کتابوں کو شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔(۳)
پیٹراس کے بعض قلمی آثار درج ذیل ہیں:
The Arab Revolt and the Imperialist Counterattack
War Crimes in Gaza and the Zionist Fifth Column in America
Zionism, Militarism and the Decline of US Power
The Power of Israel in the United States
Rulers and Ruled in the US Empire
جیمز پیٹراس قائل ہیں کہ امریکی یہودی اس ملک کی خارجہ پالیسی پر بے حد اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ وہ اپنی کتاب ’’امریکہ میں اسرائیل کی قدرت‘‘ میں اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ امریکہ کے یہودی اگرچہ ۲ فیصد آبادی کو تشکیل دیتے ہیں لیکن ۳۰ فیصد سے زیادہ سرمایہ دار گھرانے یہودیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔(۴) جیمز قائل ہیں کہ یہودی اپنے سرمایہ سے بخوبی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی یہودی امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹیوں کے ۳۵ سے ۶۰ فیصد اخراجات پورا کرتے ہیں۔
۲۰۰۸ میں دئے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے اعلان کیا: تمام امریکی صدور ’’یہودی طاقت‘‘ کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ یہودی عالمی اور انسانی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔
حواشی
[۱]American Sociological Review,British Journal of Sociology,Social Research
[۲]New York Times, The Guardian, The Nation, Christian Science Monitor, Foreign Policy, New Left Review, Partisan Review, Canadian Dimension
[۳]http://petras.lahaine.org/?page_id=4
[۴]http://vista.ir/article/114532
[۵]http://dissidentvoice.org/2008/06/a-disenchanted-james-petras

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: یہ صوبہ ملک کا پائے تخت بھی ہے اب اس کے قدیم وبجدید نام کے دو حصے ہیں، قدیم بیت المقدس کے گرد ۱۵۲۴ ء میں دسویں عثمانی خلیفہ نے دیوار شہر تعمیر کرائی تھی اس قدیم حصہ میں ہی مسجد اقصیٰ اور دوسرے اہم تاریخی مقامات ہیں۔ یہیں پر ایک جگہ ہے کہ جسکے لئے عیسائی کہتے ہیں کہ وہاں زمانۂ قدیم میں وہ عدالت تھی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پھانسی کا حکم سنایا گیا تھا اور یہیں سے وہ اپنے کاندھے پر صلیب لیکر اس مقام کی طرف بڑھے تھے جہاں انہیں سولی دینا طے کیا گیا تھا ، یہ بھی مشہور ہے کہ صلیب اتنی وزنی تھی کہ عدالت سے مقام قتل تک پہنچنے میں حضرت عیسیٰؑ بارہ جگہ تھک کر دم لینے کے لئے ٹہرے تھے۔ قرآن نے اس واقعہ کی تردید نہیں کی لیکن سولی پانے والے کو شبیہ عیسیٰ علیہ السلام قرار دیا ہے ۔
: غزہ فلسطین کا دوسرا صوبہ ہے یہاں حضرت ہاشم جد سرکار ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی قبر ہے اسی جگہ شہر کا بڑا ایئرپورٹ بھی ہے کوزہ گری میں یہ شہر بڑی شہرت رکھتا ہے، خود غزہ صوبے کا پائے تخت بھی ہے، اس کے زیر انتظام حسب ذیل شہر ہیں:
(۱) خان یونس:
جنوب فلسطین کا آخری شہر ہے، یہاں کے کچے خرمے اپنی لطافت و ذائقے میں بہت شہرت رکھتے ہیں ۔
(۲) مجدل:
ریشم سازی اور روئی کی نمایاں کاشت کی وجہ سے جانا جاتا ہے، ویران عسقلان شہر بھی اسی جگہ ہے ۔
(۳)بئر السبع :
زرعی علاقوں پر مشتمل ہے، اس کی مساحت ۱۲۵۷۶ کیلو میٹر مربع پر محیط ہے اس میں بہت ہی زرخیز حصے پائے جاتے ہیں اور پینے کے پانی کا ڈیم بھی بنایا گیا ہے، اگر کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ نصف مساحت فلسطین صرف اسی بئر السبع پر محیط ہے ۔
اللّد
اس صوبے کا مرکز شہر ’’یافا‘‘ ہے صنعت و تجارت والا شہر ہے، یہاں مختلف پھل، سنگترے، مالٹے کثرت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس صوبے کے ہی زیر نگیں مشہور شہر تل ابیب ہے یہاں صرف یہودی ساکن ہیں، اور یہ شہر شدید جنگ کا سماں پیش کرتا رہتا ہے ۔
سامرہ
اس صوبے کا مرکز نابلس ہے، صابن سازی میں اسے خاصی شہرت ہے، شہر جنین، طولکرم، قلقیلیہ، اور عنبتا، اسی صوبے کے اندر واقع ہیں۔
اس صوبہ کے دو شہر پر یہودیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔
الجلیل
ناصرہ اس صوبہ کا پائے تخت ہے، اسی شہر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رہائش تھی، یہاں کے دیرؔ بہت مشہور ہیں ۔
شہر عکا اسی صوبے کا تاریخی شہر ہے جس کے گرد مضبوط چاردیواری اور بڑے بڑے برج ہیں، مسجد’’ جامع الجزار‘‘بھی اسی جگہ ہے جس کی شہرت دور دور تک ہے ۔
اس وقت یہ شہر بہائیوں کامرکز ہے چونکہ قبر مرزا علی باب اسی جگہ ہے ۔
حیفا
اس صوبے کا پائے تخت خود اسی جگہ ہے ، بہت بڑی بندرگاہ ہے ،عراق کی تیل پائپ لائن یہیں پرہے جہاں پر صفائی ہوتی ہے، اسی جگہ سے تیل ساری دنیا میں بھیجا جاتا ہے ۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:  فلسطین اپنی خاص جغرافیائی جائے وقوع، حاصل خیز زمین، اور یہودیوں و مسلمانوں کی مذہبی یادگاروں کی بنیاد پر تاریخ میں ہمیشہ نشیب و فراز کا حامل رہا ہے جناب ابراہیم کی عراق سے سرزمین فلسطین پر ہجرت اور اس کے بعد جناب سلیمان کی یہاں پر عظیم تاریخی حکومت سے لیکر بخت النصر کی حکومت کے زوال کے پس منظر میں جا بجا اس علاقہ میں مختلف قبائل کے درمیان آپسی رسہ کشی کو دیکھا جا سکتا ہے ۔
مسلمانوں کے لئے آج بھی اس لئے فلسطین ایک مقدس جگہ کی صورت کعبہ دل بنا ہوا ہے کہ اس علاقہ سے مسلمانوں کا ایک اٹوٹ مذہبی رشتہ ہے اور صبح قیامت تک یہ رشتہ باقی رہنے والا ہے مسلمانوں کی دو سو سے زائد یادگاریں اسی علاقہ میں ہیں جہاں یہ مقام مسلمانوں کے لئے خاص اہمیت کا حامل ہے وہیں یہودیوں کی مذہبی یادگاروں کی بنا پر ہمیشہ سے یہ علاقہ دونوں مذاہب کی آپسی کشمکش کا سبب رہا ہے۔
فلسطین کی تاریخ پر اجمالی نظر
فلسطین کا قدیم نام کنعان ہے ، جغرافیائی اعتبار سے اسکو عرب ملکوں کے درمیان وہی حیثیت حاصل ہے جو جسم کیلئے قلب کی ہوا کرتی ہے۔
ڈھائی ہزار سال قبل مسیح یعنی آج سے ساڑھے چار ہزار سال پہلے جزیرۂ عرب کے چند قبیلے موجودہ فلسطین میں جاکر آباد ہوئے ، انھیں کو کنعانی کہتے ہیں ، اسی قبیلہ کے کچھ لوگ مدتوں بعد کوہ لبنان کے ساحل میں جاکر آباد ہوگئے جنھیں فینق کہا جانے لگا ۔
کنعانیوں نے کھیتی باڑی اور فینقیوں نے ملاحی کو اپنا ذریعۂ معاش بنایا اپنی حفاظت کیلئے شہر کے باہر چہار دیواری بنائی اور اپنی مذہبی تسکین کیلئے جو دین اختار کیا وہ تقریباً عبرانیوں کی بت پرستی سے ملتا جلتا تھا ۔ان کے بڑے بت کا نام بعل تھا، قرآن حکیم نے اس بت کا تذکرہ فرمایا ہے :
أتدعون بعلاً و تذرون احسن الخالقین
تم لوگ بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین خدا کو چھوڑ چکے ہو ۔
کنعانیوں کے مختلف قبیلے تھے ان میں سے ایک مشہور قبیلہ، یبوس تھا جوشہر قدس کے ارد گرد آباد ہوا اسی مناسبت سے آج بھی بیت المقدس کا ایک نام یبوس ہے ۔قبیلہ یبوس کی قیادت و سروری میں جو شہر اس وقت آباد ہوئے اس کے ناماریحا، بیسان ، شکیم ،نابلس ،مجد اور جازر ہیں۔
شہر اریحا کیلئے زمین شناسوں کا خیال ہے کہ تقریباً سات ہزار سال قبل تعمیر کیا گیا ہے اور دنیا کا سب سے قدیم شہر ہے ۔
ارض کنعان کا نام آخر فلسطین کیسے ہوا ؟
ارض کنعان کا نام بدل کر فلسطین کیسے ہوا اس سلسلہ میں مورخین کا نظریہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کی آمد سے بارہ سو سال قبل پلست نامی ایک شخص مصر سے فرار کر کے ساحل جنوب میں آباد ہو گیا پھر اس کے نام کی مناسبت سے اصل نام بدل کر فلسطین ہوگیا ، اس شخص کے بعد فلسطین نام کی قوم کا ثبوت ’’فراعنہ مصر‘‘ اسکندر مقدومی …….کے زمانے کے پائے جانے والے آثار سے ملتا ہے ۔
مآخذ: فلسطین خونبار, تعارف اور جائزہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عصر حاضر میں صہیونیزم مکڑے کے جال کی طرح پوری دنیا میں پھیل چکی ہے اور حتیٰ ان ملکوں جو عرصہ دراز سے اسرائیل کے ساتھ معرکہ آرائی میں فرنٹ لائن پر تھے میں بھی اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے اس حوالے سے حماس کے سابق رکن اور محقق ڈاکٹر مصطفیٰ یوسف الداوی کے ساتھ ایک گفتگو کی ہے۔ الداوی غزہ پٹی کے رہنے والے ہیں اور تاحال ۹ مرتبہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر جیل جا چکے ہیں۔
سوال؛ اسلامی ممالک میں اسرائیل کس حد تک اپنا اثر و رسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے کیا آپ اس حوالے سے کچھ وضاحت کریں گے۔
۔ اس میں کوئی شک نہیں فلسطین کے غصب ہونے اور صہیونی ریاست کی تشکیل پانے کے ابتدائی ایام سے لے کر آج تک کا یہ پیریڈ اس حکومت کے لیے ایک سنہری پیریڈ تھا۔ اس لیے کہ دشمن یہ احساس کرتا آ رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی راہ میں پائی جانے والی تمام رکاوٹوں کو دھیرے دھیرے ختم کر رہا ہے اور عرب ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات معمول پر آ رہے ہیں اور مزاحمتی محاذ روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
دشمن کو یہ بھی سوچ کر خوشی ہو رہی ہے کہ اب اسے بہت سارے عرب ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو برملا کرنے میں کوئی مشکل درپیش نہیں ہے۔
دوسری جانب عرب ممالک بھی اپنی ی، ثقافتی اور کھیل کود کی سرگرمیوں میں اسرائیل کو شرکت کی دعوت دینے میں کسی شرم و حیا کا احساس نہیں کر رہے ہیں اور اسرائیل کا پرچم عرب ممالک میں دیگر ملکوں کے پرچموں کے ساتھ بلند ہو رہا ہے۔
یہاں تک کہ اسرائیل کا قومی ترانہ بھی عرب ملکوں میں گایا جانے لگا ہے! اسرائیلیوں کا عربی دار الحکومتوں میں والہانہ استقبال ہونے لگا ہے!، اس کے علاوہ اسرائیل تاجروں کا عرب تاجروں کے درمیان بغیر کسی خوف و ہراس کے لین دین شروع ہو چکا ہے۔
البتہ یہ بات یاد رہے کہ یہ تمام طرح کے تعلقات اور روابط سرکاری سطح پر ہیں عرب ملکوں کے عوام ان سے فی الحال بیزار ہیں۔
حکومتیں اور حکمران ہمیشہ سے خیانتوں کا ارتکاب کرتے اور اسلامی اصولوں کو پامال کرتے رہے ہیں۔ صہیونی دشمن اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ عرب قوموں اور اسلامی ملتوں کی جانب سے مزاحمت اور مخالفت اپنی جگہ پر پوری قوت کے ساتھ باقی ہے اور تاحال وہ ان ملتوں کے درمیان اثر و رسوخ پیدا نہیں کر پائے ہیں۔ ابھی تک وہ جس میدان میں کامیاب ہوئے ہیں وہ صرف عرب حکام کے ساتھ تعلقات کو کسی حد تک معمول پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ بھی ان عرب حکمرانوں کے ساتھ جو یہ سوچتے ہیں کہ صہیونی ریاست ان کی دوست ہے اور ان کی حفاظت کے لیے اپنی جان چھکڑنے کو تیار ہے۔

جاری


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ:
مقدمہ
حالیہ برسوں اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان دوستانہ تعلقات ہیں، ہندوستان کی بھرپور کوشش ہے کہ وہ اسرائیل کے اعلی درجے کے دفاعی سسٹم اور فوجی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائے۔ ہندوستان ان ممالک سے رشتہ مضبوط کرنا چاہتا ہے جو جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے آگے ہیں اور چونکہ اسرائیل بھی ایک ترقی یافتہ ریاست کہلاتی ہے اس لیے اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ اور پھر ہندوستان اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ اسرائیل امریکہ کے نزدیک خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ اور اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا درحقیقت امریکہ سے قربت حاصل کرنے کے مترادف ہے۔ دوسری جانب سے اسرائیل بھی ایشیائی ممالک مخصوصا ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کی توسیع کو اپنے خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں سے قرار دیتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہندوستان کو پاکستان کے مقابلے میں زیادہ وزن دار ملک سمجھتا ہے اس لیے کہ پاکستان تنہا اسلامی ملک ہے جو ایٹمی طاقت کا مالک ہے اور اس پر دباؤ رکھنے کے لیے اسرائیل کا ہندوستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا گویا اس کی مجبوری بھی ہے اور پھر پاکستان اور مسلمانوں کو دھشتگرد قرار دے کر اسرائیل آسانی سے ہندوستان کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بن گوریان کی ہندوستان کے بارے میں گفتگو آپ کو یاد ہو گی جس میں انہوں نے کہا تھا: ’’میرے خیال میں ہندوستان وہ بہترین جگہ ہے جہاں سے ہم مسلمانوں کے خلاف کارروائیوں کی بخوبی رہنمائی کر سکتے ہیں‘‘۔ بعض اسرائیلی محققین جیسے ’آبراہام سیگال‘ اور ’ہیری ایسریگ‘ اس بارے میں کہتے ہیں: ہندوستان اسرائیل کے نزدیک ایک عظیم اخروٹ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اسرائیل نے اسے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اب اسے صرف توڑنا باقی ہے‘‘۔ (ابوالحسنی، ۱۳۷۷؛ ۴۴۰)
بھارت اور اسرائیل تعلقات پر تاریخی نظر
اگر چہ ہندوستان نے اسرائیل کو مستقل ریاست کے عنوان سے ۱۹۵۰ میں تسلیم کر لیا لیکن اس نے اسرائیل کے ساتھ ی روابط قائم نہیں کئے۔ ہندوستان میں سرگرم سامراجیت مخالف تنظیمیں اس بات کے آڑے تھیں کہ بھارت اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ ایک طرف سے ہندوستان کے مسلمان فلسطینی عوام کی حمایت کے خواہاں تھے اور دوسری طرف سے عرب ممالک بھی ناوابستہ تحریک کے ذریعے ہندوستان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ اسرائیل کے قریب نہ جائے۔ لیکن ۱۹۶۲ میں بھارت چین جنگ کے بعد ہندوستان کو اپنی دفاعی قوت مضبوط کرنے کے لیے اسرائیل کی فوجی طاقت سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان ۱۹۹۲ تک ی روابط محدود اور خفیہ رہے۔ آخر کار ۱۹۹۲ میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہندوستان نے اپنی نئی اسٹریٹجک پالیسیوں کے تحت ان تعلقات کو ایک نئی جہت دی اور صہیونی ریاست کے ساتھ ی روابطہ کو وسیع اور علنی کر دیا۔ (ملکی، ۱۳۸۹؛ ۴۷)
۱۹۹۲ میں بھارت اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتے ہی غیر معمولی حجم کے دوطرفہ تجارتی اور سکیورٹی معاہدے شروع ہو گئے اور حالیہ دنوں میں یہ روابط سکیورٹی تعاون، سیٹلائٹ سسٹم، پیشرفتہ میزائل، ایٹمی سرگرمیوں اور دیگر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کے معاہدوں کی صورت میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر چہ ہندوستان اور اسرائیل کے سامنے پائے جانے والے خطرات ایک جیسے نہیں ہیں اور ان کا کوئی مشترکہ دشمن نہیں ہے اس کے باوجود دونوں ملک اپنے دفاعی سسٹم کو اپڈیٹ کرنے کی کوشش میں جٹے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے نزدیک اسرائیل جدید دفاعی سسٹم کو اپڈیت کرنے کے لیے ایک قابل بھروسہ ملک ہے اور اسرائیل کے لیے بھی ایشیا میں تزویری اعتبار سے بھارت ایک مستحکم اتحادی شمار ہوتا ہے۔
ہندوستان میں ہندو نسل پرستی کے زور پکڑ جانے اور بھارتیا جنتا پارٹی کے برسر اقتدار آنے سے بھارت و اسرائیل کے درمیان روابط ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ مثال کے طور پر ۱۹۹۱، ۹۲ میں فوجی اور دفاعی تعاون کے حوالے سے تقریبا دو ملکوں کے درمیان لگ بھگ پچاس ملاقاتیں اور معاہدے ہوئے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی معیشتی مشکلات اور اسرائیلی ساخت کے ہتھیاروں کی نامرغوب کیفیت کے باوجود دونوں ملکوں میں بعض فوجی ساز و سامان جیسے ہلکے طیارے، ارجن ٹینک (مرکاوا) پریٹوی میزائل(جریکو ۱)، (جریکو ۲) نیز مشترکہ فوجی تحقیقات اور ٹیکنالوجی کا رد و بدل کیا گیا۔ (کلانتری، ۱۳۸۸؛ ۹)
چنانچہ اگر ہندوستان اور اسرائیل کے گہرے تعلقات اور اس کے ایران و ہند تاریخی روابط پر پڑنے والے اثرات کو مزید گہرائی کی نگاہ سے دیکھا جائے تو درج ذیل تین بنیادی سوالوں کے جوابات دینا ضروری ہوں گے:
۱؛ کیا حقیقت میں اسرائیل اور ہندوستان کے تعلقات تزویری ہیں؟
۲؛ اس حساسیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے جو ایران اور عرب ممالک تل ابیب و نئی دہلی کے روابط کی نسبت رکھتے ہیں ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ تزویری روابط بڑھانے کی وجوہات کیا ہیں؟
۳؛ کیا ہندوستان کا اسرائیل سے اسٹریٹجک روابط بڑھانے کا مقصد امریکہ سے نزدیک ہونا ہے؟
مذکورہ سوالات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان علاقے میں خصوصا چین کے مقابلے میں بڑی طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا اسرائیل اس کے لیے فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کے اعتبار سے بہترین آپشن ہے۔
جاری

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: صہیونی یہودیوں کا اپنے مفاد تک پہنچنے کے لیے ایک طریقہ کار یہ ہے کہ وہ دنیا بھر میں طرح طرح کی انجمنیں اور تنظیمیں تشکیل دیتے ہیں۔ تنظیمیں بنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ خفیہ اور غیر محسوس طریقے سے اپنے مفاد تک پہنچ سکیں اور دنیا میں ان کی نسبت کوئی بدگمانی اور غلط سوچ پیدا نہ ہو۔
یہ تنظیم ۱۹۱۳ میں ہارس۔ ام۔ کالن [۱] کے ذریعے وجود میں آئی۔ ’’پروشیم‘‘ مذہبی بنیاد پرستوں کی تحریک کا ایک حصہ تھا جو فکری طور پر ’’حسیدی فرقے‘‘(ایک یہودی فرقہ جو انتہائی طور مذہبی بنیاد پرست اور قدامت پرست تھا) سے وابستہ تھے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد امریکہ سمیت دیگر ممالک میں صہیونیت کی ترویج کرنا تھا۔ اسی وجہ سے کالن نے ان افراد کو اس تنظیم کا رکن بنایا جنہوں نے صہیونی مقاصد کی حمایت کا بھرپور اعلان کیا اور ان کو پورا کرنے کے لیے مکمل طور پر کوشاں رہنے کا عزم ظاہر کیا۔
پروشیم عملی میدان میں گوریلا فورس کی طرح خفیہ تنظیم تھی جو خفیہ اور پوشیدہ طریقے سے تمداروں پر اپنا ی اثر و رسوخ پیدا کرنے کی غرض سے وجود میں لائی گئی تھی۔ لہذا کبھی بھی یہ تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ کیسے امریکہ کے سابق صدر ویلسن کے قریبی دوست ’’لوئیس برانڈیس‘‘ [۲] (یہودی زادہ) سپریم کورٹ کی سربراہی سنبھالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا کیسے ’’کالن‘‘ پہلی عالمی جنگ کے سلسلے میں اسرائیل حکومت کی تشکیل کی تجویز برطانیہ کے وزیر خارجہ کو دیتے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں ’’بالفور اعلان‘‘ کیا جاتا ہے۔
بطور مثال جب برطانوی حکومت پہلی جنگ عظیم میں گرفتار تھی تو جنگ میں برطانیہ کی کمزوری اور شکست باعث بنی کہ ایک دن میں تقریبا ۶۰ ہزار لوگ مارے گئے۔ صہیونیوں نے اس کمزوری سے فائڈہ اٹھایا اور برطانیہ کی حمایت میں یہودی ریاست وجود میں لانے کے لیے امریکہ پر دباؤ ڈالا۔
دلچسپ یہ ہے کہ یہودی حکومت کی تشکیل کا نظریہ، پروشیم کے بانی کالن نے پیش کیا۔ انہوں نے دسمبر ۱۹۱۵ میں اپنے ایک بانفوذ دوست کے ذریعے اپنی تجویز کو برطانیہ کے وزیر خارجہ تک پہنچایا۔ کالن کی تجویز قبول کئے جانے کے بعد پروشیم تنظیم کے سربراہ’’لوئیس برانڈس‘‘ نے برطانیہ کے یہودیوں اور امریکہ کے صدر کے درمیان تعلقات کا پلیٹ فارم ہموار کرکے امریکی حکومت کو عملی طور پر برطانیہ کی حمایت میں جنگ میں شامل کر دیا۔[۳]
حواشی
[۱] Horacc. M .kallen
[۲] Louis Brandis
[۳] کتاب:  Against our better judgment: the hadden history of how the U.S was used to create Israel.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شہید مرتضیٰ مطہری کی شہادت کے ایام ہیں اس مناسبت سے مسئلہ فلسطین سے متعلق شہید کے کچھ بیانات کو پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:
’’اگر پیغمبر اکرم (ص) زندہ ہوتے تو آج کیا کرتے؟ کس مسئلہ کو اہمیت نہ دیتے؟ واللہ اور باللہ، میں قسم کھاتا ہوں کہ پیغمبر اکرم(ص) اپنی قبر مقدس میں بھی آج یہودیوں سے پریشان ہیں۔ یہ دو دو چار والا مسئلہ ہے۔ اگر کوئی نہیں کہتا تو وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ میں اگر نہ کہوں تو خدا کی قسم گناہ کا مرتکب ہوا ہوں۔ جو بھی خطیب اور واعظ اگر اس مسئلے کے حوالے سے بات نہ کرے وہ گناہ کا مرتکب ہوا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے ماوراء،  فلسطین کی تاریخ کیا ہے؟ فلسطین کا مسئلہ کسی اسلامی مملکت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک قوم و ملت کا مسئلہ ہے وہ قوم و ملت جسے ان کے گھروں سے زبردستی باہر نکالا گیا اور انہیں بے گھر کیا گیا۔
خدا کی قسم ہم اس قضیہ کے مقابلے میں مسئول ہیں۔ خدا کی قسم ہمارے دوش پر ذمہ داری ہے۔ خدا کی قسم ہم غافل ہیں۔ واللہ یہ وہ مسئلہ ہے جس نے آج پیغمبر اکرم(ص) کے دل کو زخمی کیا ہے۔ وہ داستان جس نے حسین بن علی کے دل کو لہو کیا ہے فلسطین کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم اپنی اہمیت کو سمجھنا چاہتے ہیں اگر ہم امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اہمیت دینا چاہتے ہیں تو سوچیں کہ اگر حسین بن علی آج زندہ ہوتے اور خود کہتے میرے لیے عزاداری کریں تو سا نوحہ پڑھنے کے لیے کہتے؟ کیا یہ کہتے کہ کہو ’’ہائے میرا جوان اکبر‘‘ کیا یہ کہتے کہ کہو ’’میری مظلوم زینب الوداع الوداع‘‘؟
اگر امام حسین آج زندہ ہوتے وہ یہ کہتے کہ میرے لیے عزاداری کرو میرے لیے ماتم کرو لیکن تمہارا نوحہ فلسطین ہونا چاہیے تمہارا نعرہ فلسطین ہونا چاہیے، آج کا شمر موشہ دایان ہے، ۱۴ سو سال پہلے والا شمر واصل جہنم ہو گیا آج کے شمر کو پہچانو، آج اس شہر کے در و دیوار فلسطین کے نعروں سے بھرے ہونا چاہیے، ہمارے ذہنوں میں اتنا جھوٹ بھر دیا گیا ہے کہ یہ مسئلہ داخلی مسئلہ ہے عربوں اور اسرائیلیوں کا مسئلہ ہے۔
ہم اسلام اور پیغمبر خدا کے سامنے کیا جواب دیں گے؟ ہم نے مسلمان ہونے کے حوالے سے کیا کیا؟ خدا کی قسم ہمیں اپنے مسلمان ہونے پر شرم آتی ہے، ہمیں اپنے علی بن ابی طالب کا شیعہ کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ آج کے بعد یہ داستان جو ہم علی ابن ابیطالب سے ممبروں پر نقل کرتے ہیں اس کے بعد اس کو نقل کرنا ہمارے لیے حرام ہے، کہ ایک دن علی بن ابی طالب نے سنا کہ دشمن نے اسلامی ممالک پر حملہ کیا ہے فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ دشمنوں نے مسلمانوں کی سرزمین پر حملہ کر کے ان کے مال کو لوٹ لیا ہے ان کے مردوں کو قتل کر دیا ہے اور ان کی عورتوں کو اسیر بنا لیا ہے،  ان کے زیورات چھین لیے ہیں، اس کے بعد فرمایا: فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً مَا کَانَ بِهِ مَلُوماً بَلْ کَانَ بِهِ عِنْدِی جَدِیراً» اگر ایک مسلمان یہ خبر سن کر دق کرے اور مر جائے تو موت اس کے لیے سزاوار ہے۔
کیا ہمیں فلسطینیوں کی مدد نہیں کرنا چاہیے؟ کیا انہیں اپنے جائز انسانی حقوق لینے کا حق نہیں ہے؟ کیا بے گھر فلسطینیوں کو اپنے گھر واپس نہیں جانا چاہیے؟
ہمارے مراجع تقلید جیسے آیت اللہ حکیم نے صریحا فتویٰ دیا ہے کہ جو شخص فلسطین میں مارا جائے وہ شہید ہے گرچہ نمازی نہ ہو، وہ شہید راہ حق ہے۔ لہذا آئیں اپنے گریباں میں جھانک کر دیکھیں کہ ہم ان کے لیے کیا کر رہے ہیں، آج جو بڑی بڑی حکومتیں ہمارے مقابلے میں کھڑی ہیں اور ہماری تقدیر کا فیصلہ کرتی ہیں وہ جانتی ہیں کہ مسلمانوں کے اندر غیرت نہیں ہے۔ امریکہ کو اسی بات نے جری بنایا ہے کہ مسلمان جماعت بے غیرت ہے ۔
کہتے ہیں کہ یہودی پیسے کے لیے مرتے ہیں، وہ پیسے کے علاوہ کچھ نہیں پہچانتے، ان کا خدا بھی پیسہ ہے ان کی زندگی بھی پیسہ ہے ان کی موت و حیات بھی پیسہ ہے یہ ٹھیک ہے اپنی جگہ درست ہے لیکن یہی یہودی اپنے یہودی بھائی پر کروڑوں ڈالر بھی خرچ کرتا ہے لیکن ہم مسلمان اپنے مسلمان بھائی پر کتنا خرچ کرنے کو تیار ہوتے ہیں؟
منبع:
حماسه حسینی، مرتضی مطهری، ج 1، ص 270-280

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین پر استعمار کی نظر اچانک نہیں پڑی بلکہ قلب مملکت اسلامی ہونے کی وجہ سے سینکڑوں سال قبل سے استعمار اپنی پیہم صلیبی جنگوں کا بدلہ لینے کیلئے طرح طرح کی سازش اور ترکیبیں بنا رہا تھا ، کبھی منہ کی کھائی تو کبھی دو چار حربے کامیاب ہوئے ، بیسویں صدی کے آغاز سے چند یہودی ’’ وطن یہود ‘‘کی اپنی دیرینہ آرزو کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سامنے آئے ، حالات نے بھی ساتھ دیا برطانیہ نے دست دوستی بڑھایا،’’ اسلام دشمنی‘‘ کی مشترک فکر کے ساتھ یہودی و عیسائی ہر طرح کے مکر و فریب سے آراستہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔ فلسطین کو غصب کرنے اور تحریک اسرائیل کو آگے بڑھانے میں درج ذیل افراد کو شمار کیا جا سکتا ہے:
ہربرٹ ( Herbert)
یہ شخص پکا یہودی تھا ، برطانیہ نے مقبوضہ فلسطین پراپنی سپاہ کا افسر اعلیٰ ’’Commissioner‘‘بنا کر بھیجا تھا ۔
یہی وہ شخص ہے جس نے برطانیہ پردباؤ ڈالا تھا کہ اس کی (برطانیہ) نگرانی میں فلسطین کے اندر یہودی حکومت قائم کی جائے اور دنیا کے مختلف ملکوں میں پراگندہ تیس چالیس لاکھ یہودیوں کو فلسطین میں بود وباش دی جائے ۔
اسی نے کہا تھا کہ یہودی مملکت کے وجود میں آجانے کے بعدمصر و نہر سوئز کے قریب برطانیہ کے مفاد کی حفاظت ہو سکے گی ۔
اسی نے اُس خفیہ مسودے کو آشکار کیا تھا جسے وزیر خارجۂ برطانیہ بالفور (Balfour)نے تہیہ کیا تھا جس میں فلسطین میں یہودیوں کے بسائے جانے کا منصوبہ طے پایا تھا۔
جنرل ایلن بی
آزادی خواہ عربوں کی حمایت میں امریکہ ، انگلینڈ ، اٹلی اور فرانس نے اپنی اپنی جو فوج بھیجی تھی جنرل ایلن بی اس کا سربراہ تھا اس نے جنرل ایلن بی (Allenby نے اپنی حکمت عملی سے عثمانی اقتدار والے شہروں پر قبضہ کیا ۔
۱۷؍دسمبر ۱۹۱۷ ؁ء کو یہ شخص فاتحانہ طور پر بیت المقدس میں داخل ہوا اور فخریہ کہا ’’میں آخری صلیبی ہوں ‘‘ اس جملہ کا مفہوم یہ تھا کہ بیت المقدس پر قبضہ کیلئے یورپی مسیحیوں نے ۱۰۹۶ ؁ ء میں صلیبی جنگوں کے سلسلے کا آغاز کیا تھا اس کا اختتام اب ہواہے ۔(۱) اس جنرل نے عثمانی اقتدار والے شہروں پر قبضہ کے بعدبرطانیہ ایک خط بھیجا جس میں انقلابی عربوں کی خدمات کو سراہا ہے ، خط کا مضمون اس طرح تھا :
۲۸؍جنوری ۱۹۱۸ ؁ ء :آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ عثمانی حکومت سے جو جنگ لڑی جا رہی تھی وہ ہم نے جیت لی اس کامیابی کا سہرا عربوں پر ہے انہوں نے جی جان سے ہماری مدد کی ۔
جنرل ایلن بی کے اس اعتراف حمایت کے بعد بھی استعمار نے آزادی خواہ عربوں کو آزادی کے بجائے اس وقت سے یہودیوں کی اسارت واذیت کی آماجگاہ بنا دیا ۔
فلسطین پر فتح کے بعد جنرل ایلن بی نے اعلان کیا کہ فلسطین فوج کے کنٹرول میں ہے اس کا نظم و نسق آزادی خواہ عربوں کے بجائے فوج انگلستان انجام دیا کرے گی ۔
ممکن تھا کہ اس اعلان سے عربوں میں بے چینی و بے اطمینانی پیدا ہوں لہٰذا فوراً انگلینڈ و فرانس نے عوام کے ذہنوں کے شک و شبہ کو بر طرف کرنے کیلئے سربراہ فوج کی طرف سے یہ بیانیہ منتشرکیا ۔
انگلستان و فرانس کی مشرق وسطیٰ میں دخل اندازی صرف اس لئے تھی کہ عرب کی مجبور وبیکس قوم کو ترکوں کی غلامی سے رہا کرائیں تاکہ یہ آزادانہ اپنی حکومت تشکیل دے سکیں ۔ انگلستان و فرانس جیسی عادل حکومت ان کی مدد سے قطعاً دریغ نہیں کرے گی ۔ آنے والے دنوں میں بھی انگلستان و فرانس کی عادل حکومت اسی طرح کی آزادی دلاتی رہے گی ۔ اس اعلان نے عربوں کے ذہنوں سے بچے کھچے شبہ کو بھی نکال دیا ۔
ڈاکٹر وائز مین
مانچسٹر یونیورسٹی میں کیمسٹ Chemist کا پروفیسر تھا عقیدے کے اعتبار سے کٹر یہودی تھا، اپنی علمی صلاحیت کی وجہ سے انگلینڈ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔
یہودی حکومت کے قیام کے لئے امریکہ فرانس اور انگلینڈ کے سربراہوں سے بار بار ملاقاتیں کیں ، اور یہودی مملکت کے لئے راستے ہموار کئے ۔
پہلی جنگ عظیم میں اس شخص نے انگریزوں سے کہا تھا کہ اگر وہ جرمنی پر فتح حاصل کرنے کے بعد سر زمین فلسطین پر یہودیوں کا قومی وطن قائم کردیں تو اس جنگ میں یہودیوں کے سارے خزانے ان کے قدموں تلے قربان کر دئے جائیں گے ۔آخر کار ۱۹۱۷ ؁ ء میں انگریزوں سے وعدہ لینے میں کامیاب ہوگیا ، لہٰذا انگریزوں نے وعدہ کرلیا کہ اگر وہ جرمنی پر فتح حاصل کرلیتے ہیں تو وہ فلسطین کو ایک آزاد یہودی وطن بنا دیں گے ،لہٰذا جب کامیابی مل گئی تو انگریزوں نے اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے وہ جال بچھایا جس میں آج تک فلسطین الجھا ہوا ہے اسرائیل کی غصبی حکومت کا یہ شخص پہلا صدر تھا ۔
عربوں نے جس وقت انگلستان کی در پردہ یہود نوازی کو بھانپا تو ان میں یہودیوں کے خلاف بغاوت و غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ، ہر عربی ملک نے فلسطین بچاؤ تحریک میں حصہ لیا اور یہودیوں کا بائکاٹ کیا ، اس بائکاٹ نے ساٹھ فیصد یہودیوں کو بے روزگار بنا دیا ، اس موقع پر ڈاکٹر وائز مین نے یہودیوں کی پیغام دیا کہ تم لوگ اس وقت تاریخ کے نہایت سخت ترین دور سے گذر رہے ہو ، صبر وضبط کا مظاہرہ کرو ۔اس اعلان کے فوراً بعد شر پسند یہودیوں نے برطانیہ سے اپنی جان و مال کی حفاظت کیلئے اسلحوں کا مطالبہ کیا ، بوڑھی برطانیہ نے پانچ ہزار قبضے توپ وتفنگ اور بم فلسطین کے غاصب یہودیوں کو روانہ کیا جسے پانے کے بعد انہوں نے گھنی آبادیوں ، سبزی منڈیوں میں عربوں پر حملے کئے ، انڈوں کی ٹرے اور سبزیوں کی ٹوکروں میں بم رکھے جس کے پھٹنےکے بعد پہلی بار چوہتر (۷۴) فلسطینی جاں بحق اور ایک سو تیس (۱۳۰)زخمی ہوئے ،اس دن سے آج تک بے گناہ عورتوں بچوں بیماروں ، مزدوروں اور طالب علموں کویہود خاک و خون میں آلودہ کر رہے ہیں ۔
بالفور (Balfour)
یہودی ملک کے قیام کیلئے سب سے پہلے اس شخص نے یوگنڈاکا انتخاب کیا تھا ، لیکن یہودیوں نے اس تجویز کو رد کردیا ۔
بالفور پکا یہودی تھا اور یہودی مملکت کو فلسطین میں فوری قائم کرنےکیلئے تحریری مسودہ بھی تیار کیا تھا جس کی عبارت کا مفہوم تھا :جیسا کہ دنیا کی چار بڑی حکومتیں اپنے کو یہودیوں کا طرفدار بتاتی ہیں ، ان پر واضح ہونا چاہئے کہ ہمیں فلسطینیوں کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں ہے ہم خواہ حق پر ہوں یا باطل پر، ہمارے مفاد مقدم رکھنا پڑیں گے ان بڑی حکومتوں کو ہماری آرزؤں ، تمناؤں کا خیال رکھنا چاہئے، ہم سات لاکھ فلسطین کےباشندوں پر ہر حال میں مقدم ہیں۔
ڈاکٹر ہرٹزل (Dr Theodore Hertzel)
ایک عام سا مقالہ نویس تھا رفتہ رفتہ اسی مقالہ نویسی سے لوگوں میں پہچانا جانے لگا ، کچھ دنوں بعد پیرس کے اخبار کا خبر نگار بنایا گیا لیکن اس کو شہرت تمام اس وقت حاصل ہوئی جب فرانس کے اسلحہ خانے کے دریفوس نامی یہودی افسر پر اام تھا کہ اس نے فرانس کے خفیہ اسرار جاپان کو منتقل کر دئے ہیں ، اس خبر کے عام ہوتے ہی فرانسیسیوں میں یہودیوں کے خلاف غم و غصہ بھڑک اٹھا اور انہیں غدار و خائن کے لفظ سے پکارا جانے لگا ، جہاں کہیں یہودی ہوتے ان کو فرانسیسی حقارت ، نفرت ، اور ذلت کی نظر سے دیکھتے ۔
ملکی پیمانے پر اس حقارت کے باوجود یہودی خاموش نہیں بیٹھے بلکہ دس سال تک اس کوشش میں رہے کہ کسی صورت سے مقدمے کی دوبارہ اپیل کا موقع مل جائے ، آخر کار اس سلسلے میں یہودیوں کو کامیابی ملی اور اسناد جاسوسی کو پھر سے کھنگالا گیا اور آخر کار مجرم کو بے خطا ثابت کرا دیا ۔
اس پورے واقعہ کا پیرو یہی اخباری نمائندہ ڈاکٹر ہرٹزل تھا اس نے اپنے ایک یہودی بھائی کو نہیں بچایا تھا بلکہ یہودی برادری کو جس حقارت و نفرت سےفرانس میں دیکھا جا رہا تھا اس سے آزاد کرایا تھا ۔اس مقدمہ کی کامیابی نے ہرٹزل کو یہودیوں کا قائد و رہبر بنا دیا ۔
اسی ہرٹزل نے ترکی کے خلیفہ سلطان عبد الحمید سے کہا تھا کہ اگر وہ سر زمین فلسطین پر یہودی مملکت کے قیام کی اجازت دے دیں تو یہودی ترکی کے تمام قرضوں کو ادا کرنے کیلئے تیار ہیں ، لیکن سلطان نے یہ کہتے ہوئے اس کے مطالبہ کو ٹھکرا دیا کہ جس سر زمین کو ہمارے آباء و اجداد نے خون دیکر حاصل کیا ہے اس کو چنددرہموں کے بدلہ نہیں بیچا جا سکتا ہے۔ہرٹزل نے اپنی کتاب ’’مملکت یہود‘‘ میں یہودیوں کو پیغام دیا :
یہودیو! تم لوگ دنیا میں پراگندہ ہو اسی لئے ان ممالک کی اذیت و ذلت برداشت کررہے ہو اگر تم میں سے کوئی اپنے ملک کی اذیتوں کو برداشت نہیں کر سکتا ہے تو اسے کسی ایسی جگہ ہجرت کرکے پہنچناچاہئے جہاں وہ مستقل اپنا ایک ملک بنا سکے ۔اس شخص نے یہودیوں کے درمیان باہمی رابطہ مضبوط کر نے کےلئے ایک تنظیم بنائی ،تاکہ یہودیوں کی اقتصادی ،ی ،سماجی اطلاع رکھی جا سکے ۔
ہرٹزل نے اپنی دوڑ دھوپ سے یہودی مملکت کے قیام کی راہیں ہموار اور مشکلیں برطرف کرنے کیلئے سالانہ کانفرنس کا انتظام بھی کیا تھا جس میں دنیا بھر کے اعلیٰ یہودی شریک ہوتے اور تسخیر کائنات کے منصوبے بناتے ۔
کانفرنس کی جو بنیاد ہرٹزل نے رکھی تھی آج تک یہودیوں میں جاری ہے۔
مآخذ: فلسطین خونبار تعارف اور جائزہ

 


یہودیوں کے ذریعے بہائیوں کی ترقی
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: استعماری اور سامراجی طاقتیں اٹھارہویں اور انیسویں صدی کی تبدیلیوں کے بعد براہ راست دنیا پر اثرانداز ہونے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ اس وجہ سے بوڑھے سامراج یعنی برطانیہ کو مسلمانوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور ان کے قومی اور مذہبی سرمائے کو لوٹنے کے لیے سوائے مسلمانوں کے درمیان پھوٹ اور اختلاف ڈالنے کے کوئی اور چارہ نہ سوجا۔ لہذا، شیعوں کے درمیان بہائیت اور اہل سنت کے درمیان وہابیت کو جنم دیا گیا۔
اس درمیان یہودی جو ہمیشہ سامراجیت کے شانہ بشانہ حرکت کرتے رہے ہیں ایک مرتبہ پھر بوڑھے سامراج کی مدد کو پہنچے اور انہوں نے مسلمانوں میں ان فرقوں کو ترقی دینے کے لیے اپنی تمام تر قوت کا استعمال کیا۔ فرقہ بابیت جو بہائیت کا پیش خیمہ تھا جدید المسلمان یہودیوں کے ذریعے ایران کے شہر رشت سے شروع ہوا اور اس کے بانی ’مرزا ابراہیم جدید‘ تھے۔
خراسان میں سب سے پہلے جو لوگ فرقہ بابیت کے ساتھ ملحق ہوئے وہ یہودی تھے جو تازہ مسلمان ہوئے تھے ان میں ملا عبد الخالق یزدی معروف ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شخص یہودی علماء میں سے ایک تھا شیخ احمد احسائی کے دور میں مسلمان ہو کر شیخ کے مریدوں میں شامل ہوا تھا۔ شیعوں میں اس نے اپنا اتنا اثر و رسوخ پیدا کر لیا کہ مشہد میں حرم امام رضا علیہ السلام کے ایک صحن میں نماز جماعت کا پیش امام بن گیا اور وہاں اپنی تقریروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ بعض مورخین کے مطابق وہ مشہد کے ممتاز علماء میں شمار ہونے لگا۔
اس سے بھی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ۱۸۳۱ء میں مشہد کے یہودیوں کی تعداد تقریبا ۲ ہزار تھی جبکہ کچھ ہی عرصہ بعد یعنی ۱۸۳۹ میں یہ تعداد بڑھ کر پانچ ہزار ہو گئی اسی دوران یہودی کمپنی ’ساسونی‘ کے قیام کے بعد ’علی محمد باب‘ کی دعوت پر مشہد کے تمام یہودی ایک ساتھ مسلمان ہو گئے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اس جماعت کے مسلمان ہونے کی خبر یہودی دائرۃ المعارف میں ’’خفیہ یہودیوں‘‘ کے باب میں بیان کی گئی ہے نہ کہ مرتد یہودیوں کے حصے میں۔ تازہ مسلمان ہوئے یہودیوں کی یہ جماعت بعد میں دو گروہوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک گروہ بہائیوں کا اور دوسرا صوفیوں کا۔ اور دونوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ اسلام کی جڑوں کو اپنے اپنے حساب سے کاٹیں۔ یہودی محقق ’والٹر فیشل‘ کے بقول یہ جدید المسلمان یہودی در پردہ دین یہود پر باقی تھے۔
اسماعیل رائین نے اپنی کتاب ’بہائیت میں تقسیم‘ میں اس بارے میں لکھا ہے: ’ایران کے اکثر بہائی یا یہودی تھے یا زرتشتی، اس فرقہ میں مسلمانوں کی تعداد اقلیت میں تھی‘۔ البتہ رائین سے پہلے بہائیت کے سابق مبلغ ’’آیتی‘‘ نے اس حقیقت کا پردہ چاک کیا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب کشف الحیل میں یہوں لکھا: ’’یہ مسلمانوں کے لیے ایک خوش خبری ہے کہ بہائی جماعت اہل علم و قلم سے خالی ہو چکی ہے اور اس کی لگام ’حکیم رحیم‘ اور ’اسحاق یہودی‘ جیسوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔‘’
لیکن اس جماعت کے بہائی ہونے کی وجوہات کے بارے میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں اسماعیل رائین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’ہم جانتے ہیں کہ پیسے سے محبت اور سرمایے میں اضافہ کا شوق یہودیوں کی ذات میں رچا بسا ہوا ہے۔ مسلمان ممالک کے یہودی کہ جن میں کی اکثریت مسلمانوں کی دشمن ہے اور جا بجا مسلمانوں کی نسبت اپنی دشمنی کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں، بہت جلد بہائی فرقے میں شامل ہو گئے اور اس طریقے سے انہوں نے مالی مراعات سے فائدہ اٹھایا اور خود کو عکا کے بہائی مرکز سے جوڑ لیا‘۔
بطور خلاصہ مالدار اور معروف یہودی صرف مشہد، گیلان اور مازندران میں ہی موجود نہیں تھے بلکہ ایران کے دیگر شہر جیسے کاشان، ہمدان اور یزد وغیرہ میں بھی کافی تعداد میں تھے جو اس فرقہ ضالہ کے ساتھ ملحق ہو گئے تھے۔
لہذا فرقہ بہائیت مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوا اور نہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے بلکہ اس کے بانی اور اس کو پروان چڑھانے والے یہودی اور سامراجی طاقتیں ہیں۔

ماخذ:

عبدالله شهبازی، ۱۳۹۶/۰۲/۱۸، سایت ادیان، ماله یهودیان و گسترش بابی‌گری و بهایی‌گری»

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: ماہر الحمود کا تعلق لبنان کے علمائے اہل سنت سے ہے، آپ ’بین الاقوامی یونین برائے علمائے مزاحمت‘ کے سربراہ ہیں۔ ماہر الحمود اگر چہ سنی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن علاقائی اور عالمی مسائل کے نسبت ان کی نگاہ حزب اللہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کی نگاہ سے بہت قریب ہے۔ مثال کے طور پر ماہر الحمود نے لبنان میں ’امام خمینی (رہ) اور مسئلہ فلسطین‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں امام خمینی (رہ) کے مختلف ی اور سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور کہا: امام کا موقف ان کے ایمان سے وجود میں آیا نہ زودگزر ت سے، امام اپنے موقف میں مکمل صداقت پر قائم تھے۔ یہی چیز لوگوں میں ان کی مقبولیت اور حتیٰ آپ کی حیات کی بعد بھی آپ کے راستے میں پائیداری اور ثابت قدمی کا باعث بنی۔ ۱ شیخ حمود کی یہ باتیں فلسطین کے مسئلے میں امام خمینی (رہ) اور ایران کے موقف کے ساتھ ہم آہنگی کی واضح نشانی ہیں۔
شیخ حمود مختلف مناستبوں اور کانفرنسوں جیسے فلسطینی علمائے مزاحمت اجلاس، حج کے موسم، یا بالفور اعلانیہ کی برسی وغیرہ کے موقعوں پر مسئلہ فلسطین کے حوالے سے کھل کر گفتگو کرتے یا بیانہ جاری کرتے ہیں اور عالم اسلام کو اسرائیل کے جرائم سے خبردار کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، مسئلہ فلسطین اور صہیونی ریاست ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔
آپ عالمی یوم القدس کے بارے میں کہتے ہیں: ’’ عالمی یوم القدس کا نعرہ جو اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی امام خمینی (رہ) نے بلند کیا تھا دیگر تمام ی نعروں سے مختلف ہے اس شعار اور نعرے نے بین الاقوامی سازشوں اور عرب دباؤ کے مقابلے میں تا حال پائیدادی کا مظاہرہ کیا ہے‘‘ ۲
شیخ اس موقع پر نکالی جانے والی ریلیوں میں لوگوں کے کم شرکت کرنے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: یوم قدس کو موجودہ حالت سے بہتر، وسیع تر اور عالمگیر ہونا چاہیے۔ لیکن بہر حال عالمی بحران کے سایہ میں اسی حد تک بھی اچھا ہے۔ پروپیگنڈہ بہت بڑا ہے اور افسوس کے ساتھ امت مسلمہ کا بدن کمزور ہو چکا ہے۔ امت اسلامیہ سازشوں کو باآسانی قبول کرتی ہے اور آسانی سے انہیں عملی جامہ پہناتی ہے۔‘‘۳
ماہر الحمود کی نگاہ میں کفر کے محاذ کی کامیابی بعض مسلمانوں کی خیانت کی وجہ سے ہوتی رہی ہے۔ وہ اس بارے اور امریکی سفارتخانے کی قدس منتقلی کے بارے میں قائل ہیں: ’’بعض عربوں نے امریکہ کا ساتھ دیا کہ وہ قدس شریف کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت اعلان کرے، اس لیے کہ اسرائیلی گزشتہ ستر سال کے دوران کبھی کسی منصوبے میں کامیاب نہیں ہوئے مگر یہ کہ کسی عربی یا اسلامی ملک نے ان کا ساتھ دیا‘‘۔
اس ظلم مخالف اور حق جو عالم دین کی نظر میں مسئلہ فلسطین کا واحد راہ حل اتحاد مسلمین ہے۔ ان کے بقول: ’’مسئلہ فلسطین اس سے کہیں بڑا ہے کہ اس کا بوجھ ایک قوم، ایک گروہ یا کوئی ایک محاذ تحمل کر سکے مسئلہ فلسطین امت اسلامیہ کا مسئلہ ہے دنیا کے حریت پسندوں کا مسئلہ ہے لہذا ان سب کو متحد ہونا پڑے گا تاکہ اپنے مشترکہ مقصد کو حاصل کر سکیں۔‘‘ ۴
حواشی
۱۔ https://icro.ir/index.aspx?pageid=39368&newsview=652659
۲- https://parstoday.com/fa/middle_east-i137334
۳- https://tn.ai/1116860
۴- https://fa.shafaqna.com/news/402134/

 

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: گولڈا میئیر کے بعد یہودی ریاست کی سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی (Tzipi Livni) بھی ایک ابابیل” تھی۔
زیپی لیونی” ۵ جون ۱۹۵۸ کو مقبوضہ فلسطین کی ایک مہاجر پولینڈی (Polish) گھرانے میں پیدا ہوئی۔ ۲۲ سال کی عمر میں موساد میں بھرتی ہوئی۔ اس نے کچھ عرصہ بعد اعلان کیا کہ اپنے شوہر کی خاطر موساد سے علیحدہ ہوئی ہے۔ اس کا تعلق دائیں بازو کے انتہا پسند یہودی طرز فکر سے ہے۔
لیونی ۱۹۸۰ کے عشرے میں یورپ میں موساد کی جاسوسہ تھی اور اس کا کوڈ نیم اسپارو – (Sparrow چڑیا)” تھا۔ اس نے بھی جنسی تعلقات برقرار کرکے موساد کی ضرورت کی معلومات حاصل کرتی تھی۔ اس کا نشانہ یورپی تدان تھے۔
اس کو موساد بیوٹی (Mossad beauty) کا عنوان بھی دیا گیا ہے۔ زیپی نے ایک انٹرویو میں کہا:
میں جوان بھی تھی اور خوبصورت بھی تھی اور بہت سے سفارتکار بھی اور فرانسیسی بھی میرے قریب آنا چاہتے تھے یہاں تک کہ میں موساد بیوٹی کے نام سے مشہور ہوگئی تھی”۔
لیونی نے حالیہ برسوں میں باضابطہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ اس نے کئی عرب حکام نیز اعلی مذاکرات کار صائب عریقات اور تحریک آزادی فلسطین (PLO) کے اعلی انتظامی اہلکار یاسر عبدربہ سمیت متعدد فلسطینی راہنماؤں کے ساتھ جنسی تعلق برقرار کیا تھا۔
لیونی ۲۰۰۵ میں ایریل شیرون کے دور میں لیکوڈ کے بنیامین نیتن یاہو کے استعفے کے بعد یہودی ریاست کی دوسری خاتون وزیر خارجہ بنی۔
لیونی نے ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ موساد میں اس نے کئی خاص کاروائیوں میں شرکت کی ہے جن میں کئی اہم شخصیات کو گرانا تھا چنانچہ انہیں اس کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات کی بنا پر اپنے مناصب چھوڑنا پڑے اور یوں انہیں موساد کے مفاد میں کام کرنے پر مجبور کیاگیا۔
لیونی نے امریکی مجلے ٹائمز کو بتایا کہ جب وہ موساد میں تھی تو اس نے قطر کے سابق شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نیز سابق وزیر اعظم حمد بن جاسم کے ساتھ جنسی رابطہ قائم کیا تھا۔ اس نے یہودی ریاست کی وزیر خارجہ کے طور پر ان دو قطری حکام کے ساتھ جنسی رابطے کو اپنی وزارت کی بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔
لیونی کا کہنا تھا کہ جنسی تعلق قائم کرنا، موساد میں اس کی پیشہ ورانہ زندگی کا حصہ رہا تھا اور وہ عرب حکام سے اہم ی معلومات حاصل کرنے کے لئے ان سے جنسی رابطہ قائم کرلیا کرتی تھی۔
لیونی کی اگلی رسوائی کا رخ دو فلسطینی راہنماؤں یعنی اعلی فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات اور تحریک آزادی فلسطین (PLO) کے اعلی انتظامی اہلکار یاسر عبدربہ کی جانب مڑ گیا اور انہیں بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ لیونی نے کہا کہ ان دو راہنماؤں کے ساتھ اس کے جنسی تعلق کی ویڈیو بھی موجود ہے۔
لیونی نے بدنام ترین یہودی رابی، رابی ایری شوات (Rabbi Ari Shvat) کے فتوے کے بعد ان رابطوں کا اعتراف کیا۔ جس نے کہا تھا کہ یہودی ریاست کے مفاد میں دشمن کے ساتھ ہم خوابگی حلال ہے!”؛ یہ فتوی اس وقت جاری ہوا جب یہودی ریاست کی فوج نے عورتوں کو باضابطہ ہتھیاراور تشہیری اوزار کے طور پر فوج میں بھرتی کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔
لیونی اہم ترین یہودی تدان ہے جس نے خفیہ معلومات کے حصول کے لئے جنسی تعلقات قائم کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آیت اللہ العظمیٰ علوی گرگانی عالم تشیع کے بزرگ عالم دین اور ان مراجع تقلید میں سے ایک ہیں جنہیں آیت اللہ بروجردی (رہ)، امام خمینی(رہ) اور آیت اللہ خوئی (رہ) کی شاگردی کا شرف حاصل ہے، اپنے اساتید اور دیگر بزرگ علماء کی طرح آپ بھی ہمیشہ عالم اسلام کے مسائل پر خاص توجہ دیتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین عالم اسلام کے ان اہم مسائل میں سے ایک ہے جس نے آج تک تمام امت مسلمہ خصوصا ان افراد کا دل دکھایا ہے جو ملت فلسطین کے تئیں تھوڑا بہت بھی احساس رکھتے ہیں۔ شیعہ علماء کرام تو ان افراد میں سے ہیں جو ہمیشہ عالم اسلام کی مشکلات کو محسوس کرتے اور ان کی چارہ جوئی کے لیے جد و جہد کرتے رہتے ہیں۔ آیت اللہ گرگانی نے بھی مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ہمیشہ جد وجہد کی اور مختلف اوقات میں مختلف مناسبتوں سے اس موضوع پر بیانات جاری کئے:  
مثال کے طور پر آپ نے یوم القدس کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کہا: ماہ مبارک کا آخری جمعہ ہر سال امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی اس الہی آواز کو زندہ کرتا ہے جس پر لبیک کہتے ہوئے مظلومین عالم خصوصا ملت فلسطین کی حمایت میں قدم اٹھایا جا سکتا ہے  وہ سرزمین فلسطین جو صہیونیوں کے ہاتھوں غصب ہوئی، وہ سرزمین جو مسلمانوں کی ایک مقدس ترین جگہ رہی ہے۔ ۱
اس مرجع تقلید نے صہیونیت مخالف بین الاقوامی یوتھ یونین کے ساتھ ہوئی ایک ملاقات میں مسئلہ فلسطین کے حل اور اسرائیلیوں سے نجات کا راستہ اتحاد بین المسلمین قرار دیتے ہوئے فرمایا:
’’اگر تمام امت مسلمہ یک مشت ہو جائے تو اسرائیل نہ صرف فلسطینیوں کے خلاف کچھ کر نہیں پائے گا بلکہ اس کی نابودی بھی قریب ہو جائے گی۔ لیکن اگر مسلمان آپس میں پاش پاش رہیں گے اور ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں بٹائیں گے تو دشمن طاقتور ہو جائے گا۔ اسلامی قوموں کا اتحاد دشمن کی کمزوری اور اس کے ظلم کے خاتمے کا باعث بنے گا‘‘۔ ۲
یہ جان لینا دلچسپ ہو گا کہ آیت اللہ علوی گرگانی عالم اسلام کے ساتھ اسرائیل اور صہیونیزم کی دشمنی کو مسئلہ فلسطین میں منحصر نہیں سمجھتے ہیں۔ بلکہ ان کی نظر میں اسرائیلی کمپنیاں مسلمان ملکوں میں غیر سالم غذاؤوں کے ذریعے مسلمانوں کو مٹانے کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں۔ آپ ایران میں استعمال ہونے والی غیر سالم غذاؤوں کے بارے میں کہتے ہیں:
’’پچاس سال سے ایران میں یہ سلسلہ چل رہا ہے انقلاب سے پہلے ایران میں غیر سالم خوراک کے لیے دشمنوں نے منصوبے بنائے تھے اور انہیں اجرا کیا تھا۔ اس دور میں بھی شہنشاہی حکومت علماء کو کہتی تھی تم لوگ کیوں اس بارے میں بولتے ہو اور کیوں اتنا سخت لیتے ہو؟ یہ کام ان کے تجارتی مفادات کا حصہ تھا جس کے پیچھے اسرائیل تھا اسرائیلی سرمایہ کاروں نے ایران میں اس چیز کا بیج بویا تھا۔ اب بھی ان مسائل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ ہے اور یہ مشکلات وہیں سے جنم لیتی ہیں۔ ۳
حواشی
1 – https://www.mehrnews.com/news/4314866
2- http://qodsna.com/fa/321720
3- https://www.mashreghnews.ir/news/635248

 

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: عام طور پر جب لفظ جاسوس” سامنے آتا ہے تو ذہنوں میں ایک خوفناک یا نقاب پوش مرد ابھر آتا ہے حالانکہ تاریخ میں کم نہ تھیں ایسی عورتیں جنہوں نے خفیہ معلومات منتقل کرکے جنگوں کا رخ موڑ لیا ہے اور ممالک کے مقدرات کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ عورتوں کا جاسوسی کے لئے استعمال دو اہم دلیلوں پر استوار ہے:
۱۔ عورتیں بہت زیادہ حساسیت کا باعث نہیں بنتیں اور لوگ انہیں دیکھ کر بدظن نہیں ہوا کرتے۔ بطور مثال دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں کے ہاتھوں فرانسیسی مردوں کی تلاشی کا امکان عورتوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا تھا۔ اسی بنا پر اس دور میں خاتون جاسوساؤں کی تعداد میں بہت نمایاں اضافہ ہوا۔
۲۔ خواتین اپنی ظاہری جاذبیت اور دلفریبی کی بنا پر مردوں کو بہ آسانی دھوکہ دے سکتی ہے اور انہیں خفیہ معلومات فاش کرنے پر آمادہ کرسکتی ہیں۔
جاسوس عورتیں دو قسم کی ہیں: معمولی جاسوسائیں اور وہ جاسوسائیں جنہیں چڑیوں کا لقب دیا جاتا ہے۔
جاسوس عورتیں ـ جنہیں ابابیلوںswallows” کے نام سے استعمال کیا جاتا ہے ـ ضعیف نفس اور شہوت پرست جنسی حربے بروئے کار لاکر اپنے متعلقہ جاسوسی اداروں کے منصوبے پر عمل کرتی تھیں۔
گولڈا مائیر
گولڈا مائیر (‎(Golda Meir جو ماضی میں یہودی ریاست کی وزیر خارجہ اور وزیر اعظم رہی ہے، کو اسرائیلی ابابیلوں کی بڑی اماں کہا جاتا ہے۔
مائیر ان ہی ابابلیوں میں سے ایک تھی جو روسی سیاح کے طور پر اردن میں داخل ہوئی اور اردن کے فوجی حکام اور اعلی افسروں کی رہائشگاہوں کے قریب قیام پذیر ہوئی؛ کچھ عرصہ بعد اور بہت زیادہ آمد و رفت کے بعد، ان افسروں کے ساتھ دوستی کے رشتے میں منسلک ہوئی اور ان کی خصوصی محافل میں داخل ہوئی۔
گولڈا مائیر نے جسم فروشی کے حربے کے ذریعے یہودی ریاست پر اردن کے حملے کے منصوبے سمیت بہت اہم راز حاصل کئے۔ وہ اسی حربے کے ذریعے اردن کی کچھ فوجی تنصیبات تک میں بھی داخل ہوئی اور وہاں کی نہایت اہم معلومات حاصل کرلیں۔
زیپی لیونی
گولڈا مائیر کے بعد یہودی ریاست کی سابق وزیر خارجہ زیپی لیونی (Tzipi Livni) بھی ایک ابابیل” تھی۔ لیونی ۱۹۸۰ کے عشرے میں یورپ میں موساد کی جاسوسہ تھی اور اس کا کوڈ نیم اسپارو – (Sparrow چڑیا)” تھا۔ اس نے بھی جنسی تعلقات برقرار کرکے موساد کی ضرورت کی معلومات حاصل کرتی تھی۔ اس کا نشانہ یورپی تدان تھے۔ اس کو موساد بیوٹی (Mossad beauty) کا عنوان بھی دیا گیا ہے۔
موساد نے مردخائے وانونو کی گرفتاری کے لئے بھی اسی روش سے فائدہ اٹھایا:
موساد نے اپنی جاسوسی کاروائیوں کی ایک مشہورترین کاروائی ـ جس میں اس نے عورتوں کا آلاتی استعمال (Instrumental use)  کیا ـ مشہور ایٹمی سائنسدان مردخائے وانونو (Mordechai Vanunu جو John Crossman کے نام سے بھی مشہور ہے) کی گرفتاری کے لئے ہونے والی کاروائی تھی۔ اس شخص نے یہودی ریاست کی عسکری ایٹمی سرگرمیوں سے متعلق سرگرمیوں کو برطانیہ جاکر فاش کرتے ہوئے شائع کردیا تھا۔ وانونو موساد کے نشانے پر تھا۔ وہ اسے یورپ سے اغوا کرکے مقبوضہ فلسطین منتقل کرنا چاہتی تھی۔ موساد کے گماشتوں نے اس کو بھی ان ہی ابابیلوں کے ذریعے پھنسا کر گرفتار کیا۔
چیریل بنتوف (Cheryl Bentov) جو چیریل ہنین (Cheryl Hanin) کے نام سے مشہور تھی نے کینڈییا سینڈی (Cindy) کوڈ نیم کے تحت وانونو کے قریب پہنچی اور اس کے اس جال میں پھنسایا جو موساد نے اس کے لئے پھیلایا ہوا تھا، چنانچہ اسے بےہوش اور اغوا کرکے مقبوضہ فلسطین پہنچایا گیا تا کہ یہاں اس کے خلاف کاروائی کی جاسکے۔
اور ہاں یہ حربہ یہودیوں کے درمیان بہت پرانا ہے۔
پہلی عالمی جنگ میں یہودی جاسوسوں کا ایک سیل نیلی (Nili) کے نام سے برطانیہ کی خدمت میں مصروف تھا اور انہیں بظاہر وعدہ دیا گیا تھا کہ ان کی ان خدمات کے بدلے میں جنگ کے بعد انہیں ایک یہودی ریاست بطور تحفہ دے جائے گی۔ سارا ارونسن (Sarah Aaronsohn) ان ہی جاسوسوں میں شامل تھی ـ جو ترک سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئی اور موت کی سزا پانے سے پہلے اعتراف کیا کہ اس کی آخری آرزو یہودی ریاست کا قیام ہے ـ جس کو یہودی اپنی ہیروئن ابابیل کا نام دیتے ہیں۔
یہودیت کے دین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ رابی ایری شوات (Rabbi Ari Shvat) نے تو فتوی دے دیا اور دعوی کیا کہ یہ یہودی دین کا حکم ہے کہ اسرائیل کے امن کے لئے بہت اہم اور حیاتی معلومات کے حصول کے لئے عورتوں کو دہشت گردوں اور دشمنوں کے ساتھ ہم خوابگی” تک کی اجازت ہے اور مغربی اخباروں نے بھی لکھا کہ: Rabbi Ari Shvat declares sleeping with the enemy her” یعنی دشمن کے ساتھ ہم خوابگی حلال ہے!
اس رپورٹ کے مطابق، شوات نے اعلان کیا ہے خاتون ایجنٹوں کے لئے دہشت گردوں (یعنی فلسطین کی آزادی کے لڑنے والے مجاہدین اور دیگر جنگجؤ‎وں نیز مخالفین) کے ساتھ جنسی رابطہ برقرار کرنا جائز ہے تاکہ یہ رابطہ ان کی گرفتار پر منتج ہوجائے۔ اس یہودی رابی کی تحقیقی کاوش بعنوان غیر قانونی رابطہ قومی سلامتی کے سلسلے میں” بیت المقدس کے قریب یہودی آبادکاروں کی بستی گوش عتصیون (Gush Etzion)” سے شائع ہوئی ہے۔
ایک یہودی جاسوسہ یائیل (شایدYeil) کا کہنا ہے کہ: نہ ادائیں جاسوسی کے مشن میں بہترین کردار ادا کرتی ہیں”۔
اس کا کہنا ہے: عورت بعض اوقات جاسوسی مشنز میں مردوں سے بہتر کارکردگی دکھاتی ہے؛ جو مرد ممنوعہ علاقوں میں داخل ہونا چاہے تو اسے کامیابی کے لئے بہت کم مواقع میسر آتے ہیں؛ جبکہ ایک جاذب نظر ہنستی مسکراتی عورت کے لئے کامیابی کے مواقع بہت زیادہ ہیں”۔
موساد کی اعلی خاتون آپریشنل کمانڈر اِفرات Efrat” کہتی ہے: ہم اپنی نسوانیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ کامیابی کے لئے ہر کام جائز ہے”۔
واضح رہے کہ یہودی ادارے موساد کے دنیا بھر کے جاسوسی ادارے بھی اس روش کو بروئے کار لاتے ہیں۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: تاریخی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں بھی بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا تھا البتہ اس میں یہودیوں کا کردار زیادہ واضح نظر آتا ہے اسی موضوع کے حوالے سے خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ نے حجۃ الاسلام ڈاکٹر سید محمد مہدی حسین پور سے گفتگو کی ہے:
خیبر: کیا صدر اسلام میں بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعمال ہوتا تھا؟ اور اس کے استعمال میں یہودیوں کا کیا کردار تھا؟
۔ ابتداء میں ہی یہ بات عرض کر دوں کہ تاریخ میں کچھ ایسے یہودی نظر آتے ہیں جو اپنے حریفوں کے قتل کے لیے کچھ حربے اپناتے تھے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم انہیں انبیاء کے قتل کے ماہرین قرار دیتا ہے۔ لیکن قتل کا طریقہ کیا تھا وہ مختلف حالات و شرائط میں مختلف ہوتا تھا۔
کبھی کبھار یہ قاتلانہ حملہ جنگی ہتھیاروں مثلا تلوار وغیرہ کے ذریعے ہوتا تھا۔ کبھی بائیولوجیکل ہتھیاروں کے ذریعے حملہ کیا جاتا تھا۔ یعنی اپنے دشمن کو زہریلے مادے کے ذریعے مٹایا جاتا تھا۔ یہ چیز اس قدر اہم تھی کہ رسول خدا(ص) کے دور میں بعض لوگوں نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ اس لیے مسلمان نہیں ہو رہے ہیں کہ انہیں یہودیوں کی جانب سے قاتلانہ حملے کا خوف ہے۔
تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ یمن کا ایک یہودی مدینے آیا اور اس نے اسلام قبول کیا، جب اپنے وطن واپس لوٹ کر گیا تو قبیلے کے سردار کے حکم سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے گئے۔ (۱) بہرحال کسی کو صفحہ ہستی سے مٹانا یہودیوں کے نزدیک معمولی کام تھا۔ یہاں تک کہ رسول خدا (ص) سے روایت نقل ہوئی ہے:اگر دو یہودی ایک مسلمان کے ساتھ کہیں تنہائی میں نظر آئیں تو یقینا وہ اس مسلمان کے قتل کا منصوبہ بنائیں گے‘‘۔
امیر المومنین علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’مسلمان چھے طرح کے لوگوں سے امان میں نہیں ہیں ان میں سے ایک یہودی ہیں‘‘۔
بہرحال تاریخ اسلام میں یہودیوں نے اپنے دشمنوں کو مٹانے کے لیے دونوں حربوں یعنی جنگی ہتھیاروں اور بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعال کیا ہے اور دونوں کے ذریعے کبھی انفرادی قتل بھی کیا ہے اور کبھی اجتماعی قتل عام بھی۔
صدر اسلام میں یہودیوں کی جانب سے اجتماعی قتل عام معمولا زہر کے ذریعے انجام پاتا تھا۔ تاریخ میں اس دعوے پر دستاویزات موجود ہیں۔ بعض افراد نے اس دور میں زہر کے ذریعے قتل عام کو بائیولوجیکل وار قرار دیا ہے۔
جیسا کہ بعض مورخین قائل ہیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص) کی شہادت ایک یہودی عورت ’زینب بن حارث‘ کے زہر سے انجام پائی جو مرحب کی بہن تھی اس نے گوسفند کے گوشت میں زہر ملا کر پیغمبر اکرم کو دیا اور یہ زہر جلدی اثر کرنے والا نہیں تھا بلکہ اس نے دھیرے دھیرے اثر کیا اور اسی کی وجہ سے تین سال کے بعد آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ بہت سارے شیعہ اور سنی مورخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
ہم نے ’’دشمن شدید‘‘ کتاب میں مختلف دلائل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ یہودی امیر شام اور بطور کلی بنی امیہ کے ذریعے اسلام میں گہرا اثر و رسوخ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے اور بنی امیہ کے تمام حکمران یہودیوں کے مہرے تھے۔ اسی وجہ سے ان  کی جانب سے اکثر قاتلانہ حملے بائیولوجیکل ہتھیاروں سے انجام پاتے تھے جو در حقیقت یہودیوں کا حربہ تھا۔
امیر شام جب بھی اپنے دشمن کو مٹانے میں ناکام ہوتا تھا تو اپنے دوست ابن اثال جو یہودی تھا کو زہر تیار کرنے کا حکم دیتا تھا اور اس زہر کے ذریعے اپنے حریفوں کا صفایا کرتا تھا۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن گزرگاہ تاریخ بنی نوع بشر پر جلتا ہوا وہ چراغ جو انسانی زندگی کے تمام پیچ و خم کو قابل دید بنا کر انسان کے ادنی یا اعلی ٰہونے میں مشعل راہ ہے ۔ علم و حکمت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا وہ بحر ذخار کہ علم و دانش کے شناور اس کی گہرائی میں جتنا بھی اترتے چلے جائیں ان کا دامن معرفت کے بیش بہا گوہروں سے اتنا ہی بھرتا چلا جائے ۔

لیکن افسوس! تہجر کے یخ زدہ پہاڑوں کو پگھلانے کے لئے جو کتاب نازل ہوئی تھی آج وہی کتاب تہجر کا شکار ہو کر آواز دے رہی ہے کہ دیکھو کس طرح مجھے ہی میرے ماننے والوں نے خود اپنے ہی وجود میں منجمد کر دیا … میں تو منجمد شدہ پیکروں کو آواز حق کی گرمی سے پگھلا کر اشرف المخلوقات انسان کو کماک کی انتہا پر پہچانے آئی تھی لیکن آج میرا وجود ہی ایک حرف بن کر رہ گیا ہے ۔

علی تاریخ بشریت کی مظلوم ترین شخصیت، اتنی بڑی کائنات میں وہ اکیلا انسان جو صدیا ں گزر جانے کے بعد بھی آج وہیں اکیلا کھڑا ہے جہاں صدیوں پہلے تھا اس انتظار میں کے شاید اسے کچھ وہ لوگ مل جائیں جو اس کے دل میں موجزن دریائے معرفت کے گوہروں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کا ظرف رکھتے ہوں، آج بھی علی تنہا ہے اسی طرح جیسے پہلے تنہا تھا۔ علی کی تنہائی تو کیا دور ہوتی بلکہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جا رہا ہے علی کی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے بالکل قرآن کی طرح ۔
علی اور قرآن کتنی یکسانیت ہے دونوں میں؟ سچ کتنی اپنائیت ہے دونوں میں؟ جیسے دونوں کا وجود ایک دوسرے ہی کے لئے ہو دونوں ایک دوسرے کے درد کو سمجھتے ہوں … ایک دوسرے کے درد آشنا ہو مونس و ہم دم ہوں ہم راز و ساتھی ہوں ۔

کتنا عجیب اتفاق ہے امت محمدی کو مالک کی طرف سے دو عظیم عطیے ملے لیکن دونوں مظلوم ، دونوں تنہا ، دونوں درد کے مارے دونوں ستائے ہوئے لیکن آپس میں ہم آہنگ آپس میں ایک جاں دو قالب ہم آہنگ اس جہت سے کہ دونوں کا وجود رشد و ہدایت کی راہ میں مشعل راہ دونوں کا وجود مقدس، دونوں پاکیزہ، دونوں علم و معرفت کے بند ریچوں کو کھولنے والے، دونوں حقیقتوں سے روشناس کرانے والے دونوں صادق، دونوں خالق کے عظیم شاہکار حتی دونوں کا درد ایک دونوں کا غم بھی اس جہت سے ایک ہے کہ دونوں پر ظلم کرنے والے دوسرے نہیں خود ان کے اپنے ہی ماننے والے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو انہیں مقدس سمجھتے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو انکی عظمتوں کا کلمہ پڑھتے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو دونوں کو ہر وقت ورد کرتے نہیں تھکتے۔
 جس طرح آج کروڑوں لوگ اپنی زندگی میں صبح شام قرآن کا ورد کرتے نظر آتے ہیں ، قرآن کا تعویذ گلے میں ڈالے گھومتے ہیں قرآن کی آیتوں سے اپنے روز مرہ کے مسائل کو حل کرتے ہیں قرآن کی شفا بخش آیتوں سے اپنے امراض کو دور کرتے ہیں ،چھوٹی سی دکان سے لیکر بڑے بڑے مالوں تک میں قرآن کی آیات سجی رہتی ہیں کہ ان سے کاروبار میں برکت ہوتی ہے بڑی بڑی فیکٹریوں میں قرآنی آیات سے مزین طغرے سجے نظر آتے ہیں کہ حوادث روزگار اور بلائیں اس عمل سے دور ہوتی ہیں۔
 لیکن کتنے ایسے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ قرآن کیوں آیا تھا ؟ اس کا مقصد کیا تھا؟ کتنے لوگوں کو قرآنی معارف سے آشنائی ہے کتنے لوگ اس کے مفاہیم سے واقف ہیں؟ کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ قرآن ان سے کیا کہہ رہا ہے؟ کتنے لوگ …
 اسی طرح علی کی ذات بھی ہے لوگ علی کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے صبح و شام علی علی کرتے ہیں ان کی محفلوں میں علی کا نام ہے ، مجلسوں میں علی کا ذکر ہے تقریبوں میں علی کا چرچا ہے ، نشستوں میں علی علی خلوت کدوں میں علی کا ورد ہے جلوت میں علی ہی علی کی دھوم ہے لیکن ان میں کتنے ہیں وہ لوگ جو یہ جانتے ہیں کہ یہ تاریخ کی عظیم اساطیری شخصیت کن اسرار کی حامل ہے؟ کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ علی کی جن فضیلتوں کا تذکرہ وہ دن بھر کرتے ہیں وہ تمام فضیلتیں تو علی کے فضائل کے سمندر کا ایک قطرہ بھی تو نہیں علی کی ذات تو کچھ اور ہی ہے؟
علی کی ذات کو نہ سمجھنا ایک مسئلہ ہے علی ع کے درد سے ناواقفیت اور بات ہے کیا ہم نے سوچا علی کا درد کیا تھا ؟ علی کو سا غم کھائے جا رہا تھا علی کیوں مار گزیدہ کی طرح تڑپا کرتے تھے؟ علی کی ریش مبارک کیوں آنسووں میں تر ہو جاتی تھی علی نخلستانوں میں جا کر اپنا سا غم بیان کرتے تھے؟ علی کنویں میں منھ ڈال کر کیوں روتے تھے؟ آج جس ضربت نے سر علی کو دوپارہ کر دیا اس پر رونے والے تو بہت مل جائیں گے لیکن وہ زخم زباں جنہوں نے علی کے حساس وجود کو اندر سے کرچی کرچی کر دیا اس پر رونے والا کوئی نہیں ملتا۔ وہ نشتر جو دل علی کے آر پار ہو گئے وہ بہت کم لوگوں کو نظر آتے ہیں ان پر رونے والا ہے؟
 کیا ہمیں علی کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والے مصائب نظر آتے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی خود سے سوال کیا کہ آخر وہ سی مصیبت تھی وہ سا جانکاہ غم تھا جسکی وجہ سے راتوں کو علی کنویں میں سر ڈال کر رویا کرتے تھے ،کاش ہم اس راز کو سمجھ پاتے جسے علی اپنے گریہ کے ذریعہ بنی نوع بشر تک منتقل کرنا چاہتے تھے واقعی عاشقان علی کو جہاں علی کی مصیبتوں کا غم ہے وہیں ان کا دل یہ سوچ سوچ کر بھی پاش پاش ہونا چاہیے کہ علی ہم سے کیا کہنا چاہتے تھے ؟ وہ سی بات تھی جو علی اپنے چاہنے والوں سے کہنا چاہتے تھے کیا علی اپنے حق کی غصب ہو جانے کی وجہ سے گریہ کناں تھے یا علی کو اپنی شریک حیات فاطمہ زہرا سلام للہ علیھا پر پڑنے والی مصبیتں رلا رہی تھیں اور بعد فاطمہ علی فاطمہ بتول سلام اللہ علیھا کے غموں کو یاد کر کے روتے تھے؟ علی کو اپنی تنہائی کا غم تھا یا علی کو فراق رسول رونے پر مجبور کر رہا تھا ۔ آخر علی کیوں روتے تھے؟ ۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: فلسطین میں صہیونی توں اور سازشوں کے کارآمد نہ ہونے کے حوالے سے رہبر انقلاب کے بیانات میں سے کچھ اقتباسات قارئین کے لیے پیش کئے جاتے ہیں؛
 بقائے فلسطین و نابودی اسرائیل:
•    اب غاصب حکومت کے عمائدین جو ایک اسلامی ملک فلسطین پر قابض ہیں اور ان کے امریکی حامی جو بڑے ہی احمقانہ و ابلہانہ انداز میں ان کی ہمہ جہت حمایت کر رہے ہیں، اس کوشش میں لگ گئے ہیں کہ فلسطین کا نام تاریخ اور عوام کی یادداشت سے پوری طرح مٹا دیں تاکہ عوام کے ذہنوں میں فلسطین نام کی کوئی چیز ہی باقی نہ رہے۔ انیس سو سینتالیس، اڑتالیس میں جب فلسطین پر پوری طرح قبضہ کر لیا گیا اور صیہونی حکومت کی تشکیل عمل میں آ گئی اس وقت سے اب تک وہ یہ کام نہیں کر سکے اور آئندہ بھی عشروں تک وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے۔ وہ فلسطین کا نام مٹانے کی خواہش پوری نہیں کر سکیں گے بلکہ اسی کوشش میں وہ خود ہی صفحہ ہستی اور تاریخ کے اوراق سے ناپید ہو جائیں گے۔ جبکہ فلسطین اور فلسطینی عوام کو جاویدانی ملے گی۔ یہ اس زعم میں ہیں کہ فلسطین اور فلسطینی قوم کو مٹا لے جائیں گے۔ لیکن فلسطینی قوم ہمیشہ باقی رہے گی اور فلسطین بھی باقی رہے گا اور فلسطینی و لبنانی جیالوں کی بلند ہمتی کے نتیجے میں ایک دن پرچم فلسطین بھی لہرائے گا۔

•    صیہونزم اور فلسطین میں غاصب و جعلی صیہونی حکومت کا مقدر فنا ہے۔ فلسطینی عوام کو چاہئے کہ اللہ تعالی سے نصرت و مدد کی دعا کریں اور اس کی ذات پر توکل کریں۔ فلسطینی جوان، لبنانی جوان، تمام عالم اسلام کے جوان اور سبھی دانشور اسی سمت میں آگے بڑھیں۔

•    غاصب و ظالم صیہونیوں کی سمجھ میں یہ بات آ جانا چاہئے کہ لبنان و فلسطین کی زیور ایمان سے آراستہ یہ نوجوان نسل ناقابل تسخیر ہے۔ فلسطینی قوم کے جذبہ ایمانی و قوت صبر پر استوار جہاد کو ی سازباز، فوجی دباؤ، سکیورٹی کی چالوں اور تشہیراتی ہلڑ ہنگاموں سے روکا نہیں جا سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے عظیم الشان ملت ایران کی قوت مزاحمت اور بے مثال استقامت کو ان فرسودہ اور ناکارہ حربوں سے مغلوب نہیں کیا جا سکا جنہیں گزشتہ برسوں کے دوران صیہونیوں اور ان کے حامیوں نے جی بھر کے استعمال کیا ہے۔

 

یقینی مستقبل:
•    فلسطین کی موجودہ صورت اس یقینی انجام اور مستقبل کی نوید دے رہی ہے جس کا وعدہ اللہ تعالی نے صادق و ثابت قدم مجاہدین سے کیا ہے، وہ وعدہ جس کا پورا ہونا یقینی ہے۔ بے رحم و ظالم صیہونی حکومت اور اس کے پس پشت امریکا اور عالمی صیہونزم کو یہ زعم ہے کہ مجرمانہ اقدامات اور غیر انسانی حرکتوں سے ملت فلسطین کو مغلوب کر لے جائیں گے اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیں گے۔ یہ بہت بڑی بھول ہے، اس بھول میں پڑنے والوں کو آگے چل کر بہت بڑی چپت لگنے والی ہے۔

•    فلسطین، فلسطینی قوم کا ہے، جلد یا کچھ دیر میں غاصب حکومت کو سرانجام اس حقیقت کے سامنے سر جھکانا ہوگا۔ اس وقت فلسطین کے مسلمان مجاہدین کے دوش پر یہ عظیم اور تاریخی ذمہ داری ہے۔ انہیں چاہئے کہ حتمی وعدہ الہی پر بھروسہ کریں اور اللہ تعالی کی نصرت و مدد سے آس لگائیں اور اپنی امید و جذبہ ایمانی اور جہاد کے ذریعے اپنی قوم اور اپنے ملک کو اپنا عظیم تحفہ پیش کریں۔ فلسطین کے مسلمانوں کی مزاحمت و استقامت کے جاری رہنے اور عالم اسلام کی جانب سے ان کی بلا وقفہ حمایت کے نتیجے میں فلسطین بفضل الہی ایک دن آزآد ہو جائے گا اور بیت المقدس، مسجد الاقصی اور اس اسلامی سرزمین کا گوشہ گوشہ دوبارہ عالم اسلام کی آغوش میں آ جائے گا۔

منبع: خامنہ ای ڈاٹ آئی آر

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، نابودی کا خوف، ایک اہم چیلنج ہے جو ہمیشہ یہودی قوم اور صہیونی ریاست کو دھمکا رہا ہے۔ موجودہ دور میں سرزمین فلسطین کو غصب اور ستر سال سے زیادہ عرصے سے اس میں جرائم کا ارتکاب، نیز پوری دنیا کے میڈیا پر قبضہ کرنے کے باوجود اس ریاست پر اپنی نابودی کے کالے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
اسی وجہ سے صہیونی ریاست کے حکام کے خصوصی جلسوں میں صرف اپنی بقا پر ہی غور و خوض کیا جاتا ہے۔ یہودی ایجنسی کے ڈائریکٹر بورڈ کے حالیہ جلسے جو ڈائریکٹر بورڈ کے سربراہ ’’ناٹن شارنسکی‘‘ کی موجودگی میں منعقد ہوا اور جلسہ میں انتخابات کے بعد ’’اسحاق ہرٹزوک‘‘ کو ناٹن شارنسکی کا نائب صدر مقرر کیا، میں انہوں نے یہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے فورا بعد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہمیں یہودیوں کو متحد کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس مقام تک پہنچنا ہے کہ ہمیں یقین ہو جائے کہ یہودی نابود نہیں ہوں گے۔ یہودی، یہودی ہے ضروری نہیں ہے کہ وہ کیسا لباس پہنے اور کس پارٹی سے منسلک ہو، ہم سب ایک ہیں۔ (۱)
اسی سلسلے سے صہیونی تنظیم نے ’’قدس میں کتاب مقدس کی اراضی‘‘ کے زیر عنوان ایک سروے کیا جس میں آدھے سے زیادہ صہیونیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی نسبت تشویش کا اظہار کیا۔ (۲)
صہیونی آبادکاروں کے چینل نمبر ۷ کی رپورٹ کے مطابق، یہ سروے ۵۰۰ یہودیوں کے درمیان انجام دیا گیا جن کی عمر ۱۸ سال سے ۶۵ سال کے درمیان تھی سروے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ۴۲ فیصد یہودیوں نے صہیونی ریاست کی مکمل نابودی کی رائے دی جبکہ ۱۰ فیصد نے اسرائیل کی نسبت اظہار تشویش کیا۔ (۴) سروے کی رپورٹ کے مطابق، مذہبی یہودیوں کو زیادہ تر تشویش اس بات سے ہے کہ پوری دنیا صہیونی ریاست سے نفرت کا اظہار کر رہی ہے۔
یہودی قوم ڈرپوک اور بزدل
زوال کے خوف کی ایک وجہ یہودیوں کا ڈرپوک اور بزدل ہونا ہے۔ ان کے اندر یہ صفت اس وجہ سے پائی جاتی ہے چونکہ وہ حد سے زیادہ دنیا سے وابستہ ہیں۔ قرآن کریم کے سورہ آل عمران کی آیت ۱۱۲ میں یہودیوں کی اس صفت کی مذمت کی گئی ہے۔ خداوند عالم اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے: ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ أَیْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الْمَسْکَنَةُ ذَلِکَ بِأَنَّهُمْ کَانُوا یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّهِ وَیَقْتُلُونَ الْأَنْبِیَاءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوا یَعْتَدُونَ، ’’ان پر ذلت کے نشان لگا دئے گئے ہیں یہ جہاں بھی رہیں مگر یہ کہ خدائی عہد یا لوگوں کے معاہدے کی پناہ مل جائے، یہ غضب الہی میں رہیں گے اور ان پر مسکنت کی مار رہے گی۔ یہ اس لیے کہ یہ آیات الہی کا انکار کرتے تھے اور ناحق انبیاء کو قتل کرتے تھے۔ یہ اس لیے کہ یہ نافرمان تھے اور زیادتیاں کیا کرتے تھے‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ یہودی ہمیشہ ذلیل و خوار تھے۔ اگر چہ بسا اوقات انہوں نے دنیا کی معیشت یا ت پر قبضہ جمایا۔ لیکن انسانی وقار، عزت و سربلندی اور امن و س کے اعتبار سے بدترین منزل پر رہے ہیں۔ ( جیسے چور اور ڈاکو جو اگر چہ چوری کر کے، ڈاکہ مار کے عظیم مال و ثروت کے مالک بن جاتے ہیں لیکن انسانی اقدار کے حوالے سے ان کا کوئی مقام و مرتبہ نہیں ہوتا)۔ لہذا ضُرِبَتْ عَلَیْهِمُ الذِّلَّةُ» (۵)
 
صہیونی ریاست کی جڑیں شیطانی افکار میں پیوست
یہودی ریاست کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی بنیادیں شیطانی افکار پر قائم ہیں۔ اس غاصب اور طفل کش ریاست کی جڑیں شیطان کے وجود سے پھوٹتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کبھی بھی قائم و دائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے مقابلے میں اسلامی حکومت ثابت قدم اور استوار ہے۔ اگر چہ دنیا ساری کے ذرائع ابلاغ مشرق سے لے کر مغرب تک اس نظام حکومت کے خلاف عمل پیرا ہیں۔
سینکڑوں مفکر اور ماسٹر مائنڈ روز و شب اس کام پر جٹے ہوئے ہیں کہ کوئی نہ کوئی سازش، کوئی منصوبہ کوئی پراپیگنڈہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جنم دیں اور اسے متزل کرنے کی کوشش کریں لیکن اسلامی نظام کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچا سکتے۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ اس نظام حکومت کا قیام خدا پر ایمان اور توکل کی بنا پر ہے۔ (۶)
صہیونی ریاست اور دنیا کے ظالمین کا زوال اس وجہ سے ہے کہ ان کی بنیاد ظلم، باطل اور شیطانی افکار پر قائم ہے خداأوند عالم نے خود ان کی نابودی کا وعدہ دیا ہے۔ قرآن کریم جب حق و باطل کے تقابل کی منظر کشی کرتا ہے تو یوں فرماتا ہے:
اَنزَلَ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ اَوْدِیَهٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَابِیاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَه اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُهُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا اَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَاءً وَاَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الاْرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللهُ الاْمْثَالَ»؛
’’اس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدر ظرف بہنے لگا اور سیلاب میں جوش کھا کر جھاگ پیدا ہو گیا جسے آگ پر زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لیے پگھلاتے ہیں۔ اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے‘‘۔ (سورہ رعد، ۱۷) (۷)
دینی علماء کی مجاہدت صہیونی ریاست کے زوال کا سبب
صہیونیوں کے خوفزدہ ہونے کی ایک وجہ مشرق وسطیٰ میں مخلص، متدین اور مجاہد علماء کا وجود ہے۔ وہ علماء جو دین کی حقیقت کو پہچانتے ہیں اور دین کو صرف نماز و روزے میں محدود نہیں جانتے ہمیشہ سے باطل طاقتوں کے لئے چیلنج بنے رہے ہیں اور باطل طاقتیں ان کے چہروں میں اپنے زوال کا نقشہ دیکھتی رہی ہیں۔
اس کی ایک مثال رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے یہ الفاظ ہیں جو آپ نے ۸ ستمبر ۲۰۱۵ کو اپنی ایک تقریر کے دوران بیان فرمائے تھے: تم (صہیونیو) آئندہ ۲۵ سال کو نہیں دیکھ پاؤ گے۔ انشاء اللہ آئندہ ۲۵ سال تک اللہ کے فضل و کرم سے صہیونی ریاست نام کی کوئی چیز علاقے میں نہیں ہو گی‘‘۔ آپ کا یہ بیان عالمی ذرائع ابلاغ میں ایسے پھیلا جیسے خشک جنگل میں آگ پھیلتی ہے۔ اس بیان نے صہیونی رژیم کے منحوس وجود پر لرزہ طاری کر دیا۔ اور اس کے بعد سے آج تک وہ صرف اپنی بقا کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں۔ خدا کرے ان کی یہ جد و جہد خاک میں ملے اور طفل کش صہیونی رژیم ہمیشہ کے لیے صفحہ ھستی سے محو ہو جائے۔
حواشی
[۱]۔ https://kheybar.net/?p=6515
[۲] www.masaf.ir/View/Contents/40012
[۳] TNS
[۴] www.isna.ir/news/94050502500/
[۵] تفسیر نور، محسن قرائتی، تهران:مرکز فرهنگى درس‌هایى از قرآن، ۱۳۸۳ش، چاپ یازدهم سوره مبارکه آل‌عمران ذیل آیه‌ی ۱۱۲
[۶] بیانات در دیدار فرمانده و پرسنل نیروی هوایی ارتش ۱۹/۱۱/۱۳۸۸
[۷] پیام قرآن‏، آیت الله العظمى ناصر مکارم شیرازى، دار الکتب الاسلامیه‏، تهران‏، ۱۳۸۶ ه.ش‏، ج۸، ص۱۲۸٫

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، اسرائیلی اخبار نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کا یمن کی جنگ میں کوئی کردار نہیں اور وہ صرف علاقے کے حالات کا جائزہ لینے پر اکتفا کرتا ہے۔
اسرائیل اخبار نے یہ دعویٰ ایسے حال میں کیا ہے کہ ’’باحث‘‘ تحقیقاتی سنٹر نے یمن پر سعودیہ کی سرکردگی میں جاری یلغار میں صہیونی ریاست کے کردار کو مختلف دستاویزات اور قرآئن کے ذریعے ثابت کیا ہے۔
اس مقالے میں تحریر کیا گیا ہے کہ یمن کی جنگ میں صہیونی ریاست کا کردار امکانات کے مرحلے سے گزر چکا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ صہیونی ریاست ۱۹۶۰ کی دہائی سے اب تک یمن میں مداخلت کر رہی ہے۔ برطانوی اور امریکی دستاویزات جو خفیہ ذرائع سے سامنے آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست یمن کی جنگ میں سعودی اتحاد کو اسلحہ فراہم کر رہی ہے۔
صہیونیوں کا یمن کے لیے ایک طویل المدۃ منصوبہ تھا جو کبھی یمن سے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کر کے، کبھی یمن میں اپنے جاسوس چھوڑ کر اور کبھی اپنے آلہ کار سعودیہ کے ذریعے نیابتی جنگ کی صورت میں عملی جامہ پہن رہا ہے۔
یمن کے سکیورٹی ادارے نے صوبہ ذمار سے کچھ عرصہ قبل ۱۷ افراد پر مشتمل ایک جاسوسی ٹولہ گرفتار کیا جس کے افراد کا تعلق صومالیہ اور ایتھوپیا سے تھا۔ اس ٹولے سے ہاتھ لگی سی ڈیوں اور دیگر معلومات سے پتا چلا کہ وہ صہیونی ریاست کی طرف سے اس ملک میں جاسوسی پر مامور تھے سی ڈیوں میں یمن کے مختلف اہم مراکز اور سکیورٹی اداروں کی معلومات ضبط کی ہوئی تھیں۔
اس سے قبل بھی یمنی فورس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا تھا جس کا تعلق اسرائیل سے تھا۔ ۲۰۰۹ میں یمن کی عدالت نے اس ملک کے ایک شہری کو صہیونی ریاست کے لیے جاسوسی کے جرم میں پھانسی کا حکم دیا جبکہ دیگر دو افراد کو جیل میں بند کیا۔
ستمبر ۲۰۱۲ میں ایک اسرائیلی شہری کو یمن سے گرفتار کیا گیا یہ شخص موساد کے لیے کام کیا کرتا تھا اور یمن میں ایک جاسوسی چینل کو چلا رہا تھا۔ اس کے دو نام تھے ایک ’’علی عبد اللہ الحمیمی السیاغی‘‘ اور دوسرا ’’ابراھام درعی‘‘۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ صہیونی جاسوس ہے اور یمن سے بچوں کی اسرائیل اسمگلنگ کرتا ہے۔
یہ بچے اسرائیل میں موساد کے ذریعے ٹریننگ حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد اسرائیل کے لیے کام کرتے ہیں یعنی انہیں یمن یا کسی دوسرے اسلامی ملک میں بھیج دیا جاتا ہے۔ اور وہاں وہ اسلامی حکومتوں اور اداروں میں اپنا نفوذ پیدا کرتے ہیں۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ، مسئلہ قدس کا جائزہ اور سرزمین فلسطین کے ماضی اور حال پر تبصرہ، ان اہم موضوعات میں سے ہیں جن کو ہمیشہ علمی تحریروں اور گفتگوؤں میں مورد بحث قرار پانا چاہیے۔ اس مقصد کے پیش نظر خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے نامہ نگار نے حجت الاسلام و المسلمین سید حسن زنجانی جو فلمنامہ حضرت موسی(ع) کے مشیر ہیں سے مسئلہ قدس پر قرآنی زاویہ نگاہ سے گفتگو کی ہے۔
خیبر: آپ کی نظر میں قرآن کریم مسئلہ قدس اور فلسطین کو کس قدر اہمیت دیتا ہے اور کیا یہ مسئلہ صرف ایک نظریہ کی حد تک ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم؛ تین براعظموں کو آپس میں ملانے والا مغربی ایشیا ہے اور مغربی ایشیا کا قلب عبارت ہے ایک مثلث سے؛ بیت المقدس، مسجد کوفہ اور مسجد الحرام۔ خداوند عالم نے حضرت آدم سے کہا کہ اس مثلث سے ارادہ الہی دنیا میں تحقق پانا چاہیے۔
اس مثلث کی حضرت ابراہیم نے حفاظت کی۔ خداوند عالم نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ دنیا کو یہ بتلائیں کہ پوری دنیا میں ایک نظم برقرار رہنا چاہیے، یہ سا نظم تھا؟ یعنی یہ کہ جس شخص کے لیے ممکن ہو مکہ جائے تاکہ مکہ کو تعمیر کرے۔ سورہ حج میں آیا ہے کہ لوگوں کو اعلان کرو کہ سب مکہ جائیں۔ سب سے پہلے خود حضرت ابراہیم مکہ گئے، اسی وجہ سے حضرت ابراہیم مکہ کی علامت اور نشان قرار پائے۔ مسجد کوفہ میں بھی مقام ابراہیم ایسی جگہ پر ہے کہ جو شخص مسجد کوفہ میں جاتا ہے وہاں دو رکعت نماز ادا کرتا ہے۔
مکہ کو حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے حضرت اسماعیل نے آباد کیا اور بیت المقدس کو انکے دوسرے بیٹے جناب اسحاق نے آباد کیا اور انہیں کی نسل سے بنی اسرائیل کا سلسلہ شروع ہوا۔ مکہ میں بنی اسماعیل بر سر اقتدار آئے اور انہیں کی نسل سے پیغمبر اسلام(ص) تشریف لائے۔ اسلام آنے کے بعد ان دونوں بھائیوں (اسماعیل اور اسحاق) کی آباد کردہ بستیوں کو آپس میں جوڑا گیا، اب بیت المقدس نہ صرف بیت المقدس رہا بلکہ مسلمانوں کا قبلہ قرار پایا۔ اس لیے مسلمانوں کو پہلے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا اس کے بعد حکم ہوا کہ بنی اسماعیل کے قبلے کی طرف نماز ادا کریں یعنی خانہ کعبہ کی طرف۔
 
خیبر: یعنی پیغمبر اکرم ایک مدت تک صرف بیت المقدس کی طرف اپنی نماز ادا کرتے تھے؟
۔ میں یہاں پر ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کروں جو شیعہ سنی کتابوں میں معمولا بیان نہیں ہوتا وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم اپنی پوری زندگی یعنی اس سے قبل کہ انہیں خانہ کعبہ کی طرف نماز ادا کرنے کا حکم ملتا مکہ میں خانہ کعبہ کی مشرقی سمت کھڑے ہوتے تھے تاکہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں کی طرف رخ کر کے ایک ساتھ نماز ادا کریں۔
جتنا عرصہ آپ(ص) مکہ میں تھے اور مدینے ہجرت کے بعد بھی ابتدائی چند مہینے تک آپ اس طریقے سے نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے کہ اگر کوئی آپ کی نیت سے باخبر نہ ہوتا تھا تو یہی سوچتا تھا کہ آپ خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے ہیں۔ امام باقر اور امام صادق علیہما السلام نے اس مسئلے کو یوں واضح کیا ہے کہ پیغمبر اسلام اس طریقہ سے نماز ادا کیا کرتے تھے کہ خانہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں ایک ہی سمت میں واقع ہوتے تھے۔
لہذا بیت المقدس کی اہمیت اس حد تک ہے کہ خداوند عالم نے مسلمانوں کو اس کی طرف رخ موڑ کر نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ اور پھر بنی اسرائیل کے ۴۸ پیغمبر بیت المقدس میں مدفون ہیں۔ جبکہ بنی اسرائیل کا کوئی ایک بھی نبی حجاز میں نہیں ہے۔
یہ مثلث جس کا تذکرہ کیا گیا حضرت ابراہیم سے مخصوص ہے۔ اور ہم حضرت ابراہیم کے وارث ہیں۔ آپ تمام مسلمان اپنے جد حضرت ابراہیم کے وارث ہیں۔ اور یہ روایت تواتر کے ساتھ ہے۔ یعنی حجاز، کوفہ اور بیت المقدس مسلمانوں کا ہے اور اس مثلث کا ایک دائرہ ہے اور وہ دائرہ فردوس ہے؛ فدک اور ام القریٰ۔
آپ پرکار کی ایک نوک کو کعبہ پر رکھیں۔ اور پرکار کی دوسری نوک کو عراق اور فلسطین پر گمائیں تو دریائے نیل سے لے کر بحر ہند، نہر سوئز، باب المندب، جبل الطارق اور ابنائے ہرمز تک کا علاقہ اس دائرے میں سمٹ جائے گا کہ اس دائرے کو ام القریٰ کہتے ہیں، یہ وہ فدک اعظم ہے جو پیغمبر اکرم نے حضرت زہرا (س) کو تحفہ دیا تھا۔ ورنہ فدک صرف ایک باغ نہیں تھا بلکہ ام القریٰ تھا۔
رسول خدا نے فرمایا کہ بیت المقدس اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ قرآن کے سورہ اسراء میں اس کا یوں تذکرہ ہوا ہے: سبحان الذی اسری بعبده لیلا من المسجد الحرام الی مسجد الاقصی».
اس سورہ کے دو نام ہیں ایک اسراء اور دوسرا بنی اسرائیل۔ تاریخ بشریت کی سب سے بڑی جنگ جو اقوام عالم کی تقدیر کو بدل دے گی اس خطے میں ہو گی۔ سورہ بنی اسرائیل کی پہلی سات آیتوں میں مسلمانوں اور بنی اسرائیل کے درمیان اس خطے میں جنگ کا تذکرہ ہے اور دوسری جنگ مسلمانوں کی اسرائیل سے ہے اور اس جنگ کے بعد یہودی اس قدر بکھر جائیں گے کہ مسلمان اگر انہیں ڈھونڈنا بھی چاہیں گے تو نہیں ڈھونڈ پائیں گے۔
بیت المقدس کی فتح، اسلام کی طاقت کا عروج
بیت المقدس کی فتح کے بعد اسلام کی طاقت کو عروج ملے گا۔ پیغمبر اکرم جو ’’قاب قوسین او ادنی‘‘ کی منزل تک خداوند عالم کے قریب ہوئے ان کی معراج کے سفر کا آغاز بیت اللہ الحرام سے بیت المقدس تک ہوا۔
قرآن کریم کے اکثر مقامات پر ’’اہل الکتاب‘‘ کا تذکرہ ہے اس لیے جو مسلمان بھی قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے دیکھتا ہے کہ اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اہل الکتاب ہیں وہ نہیں چاہتے کہ اسلام ترقی کرے۔ قرآن کریم میں اہل کتاب کے علاوہ کسی قوم و ملت کا تذکرہ نہیں۔ لہذا پورا قرآن اس بات کی طرف متوجہ کر رہا ہے کہ بیت المقدس اور یہود کا مسئلہ، عالم اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ہے، و لتجدن اشد الناس عداوه للذین آمنوا الیهود» ۔ یہود کو مومنین کا شدید ترین دشمن پاؤ گے۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: شوقی افندی کے دور میں صہیونی ریاست تشکیل پائی، بہائی جماعت بھی ہر اعتبار سے اس ریاست کی تشکیل کی مکمل حامی تھی۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۷ میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تو شوقی افندی نے اس کمیٹی کو ایک لیٹر لکھ کر صہیونی ریاست کے ساتھ اپنی وابستگی اور مشترکہ مفادات کو یوں بیان کیا:
’’صرف یہودی ہیں کہ جنہیں اس سرزمین ’فلسطین‘ سے اتنی ہی محبت ہے جتنی بہائیوں کو ہے۔ اس لیے کہ یروشلم میں ان کے معبد کے باقیات پائے جاتے ہیں اور قدیمی تاریخ میں یہ شہر مذہبی اور ی اداروں کا مرکز رہا ہے‘‘۔
۱۹۴۸ میں اس ریاست کی تشکیل کے بعد نوروز کے پیغام میں بہائی معاشرے کو مخاطب کرتے ہوئے شوقی افندی نے کہا:
’’ وعدہ الہی کا مصداق، ابنائے خلیل، وارث کلیم، ظاہر اور درخشاں، اسرائیل کی حکومت ارض مقدس میں تشکیل پائی اور اس کے واسطے بہائی مذہب کو رسمیت حاصل ہوئی اور عکا میں بہائی موقوفات کو معاف کیا گیا اور بہائیت کے مرکز کی تعمیر کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اس کے مالیات (ٹیکس) کو معاف کر دیا گیا‘‘۔
شوقی افندی کی بیوی ماکسول اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے:
’’ ۔۔۔ مجھے کہنا چاہیے کہ ہم (بہائیت اور اسرائیل) مستقبل میں ایک زنجیر کے حلقوں کی طرح آپس میں پیوست ہیں‘‘۔
شوقی نے ۹ جنوری ۱۹۵۱ کو بین الاقوامی بہائی تنظیم کی تشکیل کا حکم دیا جو بعد میں ’بیت العدل‘ مرکز  کے نام سے معروف ہوا۔ انہوں نے اس تنظیم کی تین اہم ذمہ داریاں معین کیں: اسرائیلی حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ اچھے روابط رکھنا، ملکی امور میں حکومت کے عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کرنا اور پھر کچھ ذاتی مسائل کے بارے میں وصیت۔
اس بین الاقوامی تنظیم نے ایران میں بہائیوں کی ایک کمیٹی کو بہائیت اور اسرائیل کے تعلقات کے بارے میں لکھا: اسرائیلی حکومت ولی امر اللہ (شوقی افندی) اور بہائی بین الاقوامی تنظیم کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتی ہے اور اس سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ارض مقدس میں بہائیت کو پہچنوانے میں کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بن گورین نے اپنے امریکی دورے میں امریکی بہائیوں کے ساتھ ایک ملاقات میں کہا: ’اسرائیلی حکومت کی تشکیل کے ابتدائی دور سے ہی اس کے بہائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں‘۔

بہائیت کے لیے اسرائیل کی خصوصی خدمات
صہیونی ریاست نے بین الاقوامی سطح پر بہائیت کے لیے خصوصی خدمات کا اہتمام کیا۔ مثال کے طور پر اسرائیل نے مختلف ممالک منجملہ برطانیہ، ایران، کینیڈا، اسٹریلیا، مقبوضہ فلسطین وغیرہ میں بہائیوں کے لیے مراکز تعمیر کئے تاکہ وہ ان میں دائمی طور پر اپنی سرگرمیاں انجام دے سکیں۔
اسرائیل کے نزدیک بہائیوں کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم اور صدر مملکت کے براہ راست ٹیلیفون سے پارلیمنٹ کے پانچ افراد پر مشتمل وزارت ادیان میں ایک خصوصی تنظیم تشکیل دی گئی۔ اور بعد از آن وقت کے وزیر اعظم نے عید رضوان کے موقع پر سرکاری طور پر بہائیوں کے مقدس مقام کا دورہ کیا۔
حواشی
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.

 

 


مبصرین نے پیٹراس کے استعفے اور جنسی رسوائی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا کہ جنرل ڈیوڈ پیٹراس امریکہ کے ی ماحول پر برملا تنقید کرتے تھے، اسرائیل کے اقدامات کو مورد تنقید بناتے تھے اور اسرائیل کے ساتھ امریکہ کے تزویری تعلقات پر سوال اٹھاتے تھے۔
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: جنرل پیٹراس نے ۲۰۱۰ میں امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کے ساتھ امریکی تعلقات مشرق وسطی کے عوام کے درمیان امریکہ مخالف جذبات کو تقویت مل رہی ہے جس کے چند ہی مہینے بعد موساد کے سربراہ مائیر داگان (Aluf Meir Dagan) نے یہودی ریاست کی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: رفتہ رفتہ اسرائیل ایک خزانے اور ذخیرے کے بجائے امریکہ کے سر پر ایک بوجھ میں بدل گیا ہے”۔
علاوہ ازیں امریکی جاسوسی اداروں نے ۸۲ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ بعنوان اسرائیل کے بعد کے مشرق وسطی کے لئے تیاری” (Preparing For A Post Israel Middle East) پیش کی جس میں نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ امریکی مفادات اور صہیونی ریاست کی موجودگی سرے سے دو متضاد مسائل ہیں؛ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو یہودی ریاست کی حمایت کے لئے نہ تو مالی وسائل میسر ہیں اور نہ ہی عوامی حمایت حاصل؛ ہمارے لئے امریکی ٹیکس دہندگان کے تین ہزار ارب ڈالر بلاواسطہ یا بالواسطہ طور پر اسرائیل کے خزانے میں انڈیلنا مزید ممکن نہیں ہے؛ اسرائیل کی مداخلتوں کے خلاف عوامی احتجاجات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے؛ عوام مزید یہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ امریکہ اسرائیل کی ناجائز جنگوں کی مالی اور عسکری پشت پناہی کرے۔
اس موقف کے ساتھ ساتھ، پیٹراس نے امریکہ میں سعودی سفیر پر قاتلانہ حملہ کرکے اس کی ذمہ داری ایران پر ڈالنے سمیت اس ملک میں موساد کی تخریبی کاروائیوں کو طشت از بام کیا۔
لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر حملہ کرکے امریکی سفیر کو قتل کرکے مشہور کیا گیا کہ سفیر قونصلیٹ کی عمارت میں لیبیائی عوام کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ لیکن جنرل پیٹراس نے اس سازش کو بےنقاب کیا اور کہا کہ قونصلیٹ پر حملہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا کام تھا، اور سفیر کو بھی موساد نے ہی قتل کیا تھا اور یہ کہ امریکی سفیر کو قونصلیت کی عمارت میں قتل نہیں کیا گیا بلکہ ان کی گاڑی کو سڑک میں راکٹ حملے کا نشانہ بنایا گیا۔ پیٹراس نے اس واقعے کو موساد اور سی آئی کے درمیان خفیہ جنگ کی نمایاں ترین مثال قرار دیا۔
ان حقائق اور اسناد و شواہد کی بنیاد پر، بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ جنرل پیٹراس کی جنسی رسوائی موساد کی سازش کا نتیجہ تھی جس کے زیر اثر امریکی انتظامیہ کے اندر اسرائیل کے نہایت اہم مخالف کو اپنے اعلی منصب سے ہاتھ دھونا پڑا۔
یہ یہودی موساد سمیت جاسوسی اور خفیہ ایجنسیوں کا خاصہ ہے کہ متعدد ملکی اور غیر ملکی اہم عہدیداروں کے لئے جال بچھاتی ہیں، انہیں رسوا کردیتی ہیں، ان کے شواہد اور ثبوت تیار کرتی ہیں اور پھر انہیں بلیک میل کرکے ان سے معلومات حاصل کرتی ہیں اور اگر ان کی متعلقہ حکومتوں کے مفاد کے خلاف کوئی اقدام کریں تو مذکورہ معلومات برملا کرکے ان کی عزت و آبرو کو فنا کردیتی ہیں اور یوں یا تو انہیں استعفا دینا پڑتا ہے یا پھر انہیں برخاست کیا جاتا ہے۔
ڈیوڈ پیٹراس اسکینڈل سمیت مذکورہ بالا تمام تر اسکینڈ خفیہ ایجنسیوں کی پالیسیوں اور تزویری حکمت عملیوں کا کامل نمونہ فراہم کرتے ہیں اور ان پالیسیوں میں حتی کہ حلیفوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔
یہ درست ہے کہ یہودی ریاست نے ڈیوڈ پیٹراس کو رسوائے سر بازار کردیا لیکن وہ اس حقیقت کو نہیں بدل سکی کہ اس کی خباثت آلود زندگی کے چند ہی دن باقی ہیں اور اب فلسطین میں قائم قابض و غاصب یہودی ریاست کو منہا کرکے نئے مشرق وسطی یا مغربی ایشیا کے نئے نقشے کا تصور ہر کسی کے ذہن میں ابھرنا چاہئے، وہی غاصب ریاست جس کے بچاؤ کے لئے امریکہ عرب ریاستوں کو لوٹ رہا ہے اور عرب ریاستوں نے اپنے مقدرات کو اسی ریاست کے مفادات سے جوڑ رکھا ہے۔ گویا وہ سمجھ رہی ہیں کہ اسرائیل نامی ریاست کی بقاء ان کی بقاء کی ضامن ہے کیونکہ بنی سعود کی حکومت سمیت خلیج فارس کی عرب ریاستوں کا قیام اسرائیل کو تحفظ دینے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا اور اسرائیل کا خاتمہ ان کے فلسفۂ بقاء کے خاتمے کے مترادف ہوگا؛ بہرحال وہ پوری دولت اور طاقت اور امریکی اثر و رسوخ کو استعمال کرکے بھی نوشتہ دیوار کو مٹانے سے عاجز ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: بارک اوباما کے دوسری بار صدر امریکہ منتخب ہونے کے چند ہی روز بعد ایک دھماکہ خیز خبر نے وائٹ ہاؤس کو حیرت میں ڈبو دیا اور وہ یہ کہ سی آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل، جنرل ڈیوڈ پیٹراس (General David Petraeus) نے اخلاقی رسوائی اور اپنی بیوگرافی رائٹر پاولا براڈویل (Paula Broadwell) یا پاولا ڈین کرانز (Paula Dean Kranz) کے ساتھ ناجائز تعلقات اور اپنی بیوی کے ساتھ خیانت کی بنا پر اپنے عہدے سے اسعتفیٰ دیا۔
۴۵ سالہ پاولا براڈویل ڈاکوٹا کی ملٹری یونیورسٹی کی فارغ التحصیل ہے۔ ۲۳ سال کی عمر میں امریکی فوج کے انٹیلی جنس کے شعبے میں سرگرم عمل ہوئی۔ جنرل پیٹراس مشرق وسطی اور شمالی افریقہ میں امریکی افواج کے کمانڈر مقرر ہوئے تو براڈویل (کرانز) سے بھی شناسائی اور رابطوں کا آغاز ہوا۔ (پاولا براڈویل کا اصل خاندانی نام کرانز” ہے اور کرانز امریکی یہودیوں کے درمیان مشہور نام ہے) پیٹراس کا شمار ایک فوجی افسر کی حیثیت سے امریکیوں کے ہر دلعزیز افسروں میں ہوتا ہے۔
عراق اور افغانستان کے خلاف امریکی جنگوں کے دوران پاولا مشرق وسطی میں اعلی امریکی فوجی عہدیدار کے طور پر تعینات تھی اور اسی منصب کی آڑ میں وہ کئی مرتبہ مقبوضہ فلسطین بھی گئی۔ اگرچہ موساد کے ساتھ پاولا کے تعلق کے سلسلے میں کوئی سند و ثبوت موجود نہیں ہے لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ وہ ایک یہودی ہے اور امریکہ میں اعلی یہودی شخصیات کے ساتھ بھی اس کا آنا جانا رہا ہے۔ بدنام زمانہ امریکی یہودی ادارے آیپیک کے ساتھ بھی اس کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اس کے مقبوضہ فلسطین کے دوروں کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی امریکی ذرائع ابلاغ نے اس کے موساد کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں قیاس آرائیاں کی ہیں۔

 

 


خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: مونیکا لیونیسکی (Monica Lewinsky) جرمن یہودی گھرانے میں پیدا ہوئی جس کا باپ نازی جرمنی سے مرکزی امریکی ملک ایل سیلواڈور (El Salvador) اور وہاں سے امریکہ بھاگا تھا۔ اس کا نانا لیٹویائی یہودی تھا جبکہ اس کی نانی کا روسی یہودی تھی۔ وہ وائٹ ہاؤس میں کی خوبصورت یہود زادی زیر تربیت لڑکی تھی۔ اس نے ۱۹۹۴ سے صدر بل کلنٹن کی قربت حاصل کرنا شروع کی تھی اور ان کے بیڈ روم تک پہنچ گئی۔
مونیکا اور کلنٹن کی ٹیلیفونک گفتگو کو ریکارڈ کیا جاتا رہا تھا جس سے معلوم ہوا کہ وہ فلسطین پر قابض یہودی ریاست کے لئے کام کررہی تھی۔ یہ واقعہ ایک اہم موڑ ثابت ہوا کیونکہ ایک طرف سے سی آئی اے کاؤنٹر انٹیلی جنس میں کسی قسم کی غفلت کو مسترد کر رہی تھی اور دوسری طرف سے موساد بھی اس سلسلے میں منظم جاسوسی کو مسترد کر رہی تھی۔ لیکن بعد کے مراحل میں سی آئی اے اور ایف بی آئی کی مشترکہ تحقیقات سے موساد کا کردار واضح ہوا۔
سنہ ۱۹۹۹ میں گورڈن تھامس (Gordon Thomas) کی اہم کتاب جدعون کے جاسوس، موساد کی خفیہ تاریخ” (Gideon’s Spies: The Secret History of the Mossad) شائع ہوئی جس کا ایک بڑا حصہ مونیکا اور موساد کے درمیان رابطے سے مختص کیا گیا تھا۔ مؤلف نے دستیاب دستاویزات اور شواہد کی بنیاد پر بل کلنٹن کو ایک شہوت پرست شخص کے عنوان سے اور مونیکا کو موساد کی جاسوسہ کے عنوان سے متعارف کرایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ مونیکا کو موساد نے بل کلنٹن کے ساتھ جنسی تعلق برقرار کرکے اہم دستاویزات اور ان کے ذاتی مکالمات ریکارڈ کرنے کا مشن سونپا تھا۔
اس رسوائی سے موساد کا مقصد یہ تھا کہ اس اسکینڈل اور ریکارڈ شدہ خفیہ مکالمات کے عوض کلنٹن کو بلیک میل کیا جائے اور انہیں موساد کے کہنہ مشق جاسوس جانتھن پولارڈ (Jonathan Jay Pollard) کی رہائی پر مجبور کیا جائے۔ لیکن کلنٹن کی کوششیں کانگریس کی مخالفت کے باعث ناکام ہوئیں اور عمر قید پانے والے پولارڈ کو رہا نہیں کیا جاسکا۔ جس کے بعد اسکینڈل طشت از بام ہوا۔
کچھ دوسرے ذرائع بھی اس واقعے کو یہودی ریاست اور موساد کی سازش گردانتے ہیں۔ کیونکہ مونیکا نے مشرق وسطی کے امن کے حوالے سے سہ فریقی کانفرنس کے انعقاد کے وقت ہی کلنٹن کے ساتھ جنسی رسوائی کا اعتراف کیا، وہ ایکی ہودی تھی اور پھر کلنٹن نے فلسطین میں نوآبادیوں کی تعمیر کے حوالے سے یہودی ریاست پر دباؤ بڑھا لیا تھا اور اس دباؤ کا خاتمہ یہودی ریاست کے اہم مقاصد میں شامل تھا جس کے لئے کلنٹن کی آبرو بر سر بازار نیلام کی گئی۔
بعد میں ترکی رومے تقویم” نے ساابق امریکی صدر بل کلنٹن کی رسوائی کے سلسلے میں لکھا: کلنٹن اسرائیل کی پالیسیوں کی شدید مخالفت کی بنا پر موساد کے جال میں پھنس گئے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


آخرین مطالب

آخرین ارسال ها

آخرین وبلاگ ها

آخرین جستجو ها