بقلم سید نجیب الحسن زیدی
  دہلی کے حالیہ فسادات میں مسلمانوں کا جو نقصان ہوا اسکی تلافی جلد اور آسانی سے ممکن نہیں ہے،  جس ماں نے اپنا بیٹا کھویا ہے جس بیوہ نے اپنا سہاگ کھویا ہے جس بہن نے اپنا بھائی کھویا ہے اسکے زخم زندگی بھر کے ہو گئے  ،جن کے گھر تباہ ہوئے ہیں ان سے کوئی پوچھے تنکا تنکا اکھٹاکر کے آشیانہ بنانا کتنا کٹھن اور سخت ہوتا ہے  اور اسکے  بعد آشیانہ کو اپنے سامنے دھوں دھوں جلتے دیکھنا کتنا سخت ہوتا ہے  یہ وہی بیان کر سکتا ہے جس نے اپنے گھر کو اپنے سامنے آگ کی لپٹوں میں جلتے دیکھا ہو ،خدا ہی ان لوگوں کو صبر دے جنکا گھر بار لٹا یا جنکے کسی عزیز کو ہمیشہ کے لئے چھین لیا گیا  ،لیکن ایک چیز جس پر ہم سب کو غور کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ان دہلی کے فسادات نے ہم سب کو یہ سبق بھی دے دیا کہ ہم خدا کے علاوہ کسی کی ذات پر بھروسہ نہیں کر سکتے ، اسکی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے اپنی باز آباد کاری کے ساتھ ہمی جس چیز پر توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ اپنی حفاظت ہے  ہمیں اپنی  حفاظت کا انتظام خود  ہی کرنا ہوگا ، اس لئے کہ واضح ہے پولیس جس کے ہاتھ میں ہے اسی کے اشاروں پر کام بھی کرے گی پولیس سے امید لگانا یا کسی حکومتی ادارے سے آس لگانا بے سود ہے حتی  خود اپنے ہی قومی لیڈروں سے بھی امید باندھنا فضول ہے خدا سے ہی لو لگانا ہے اسی سے امید باندھنا ہے اسی پر بھروسہ کرنا  وحدہ لاشریک  کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے اب  جو دوسری چیز ہے وہ یہ ہے محکمہ انصاف میں چاہے جتنے بھی حالات خراب ہوں ہمیں اپنی طرف سے پوری کوشش کرنا ہے کہ  پکے ثبوتوں کے ساتھ ان لوگوں کو انصاف کے کٹگھرے میں لا کھڑا کریں جو ان فسادات کے ذمہ دار ہیں ،اگر سب مل جل کر ایک فیصلہ لیں اور فسادات کے اصلی مجرموں کے بارے میں عدالت میں چارج شیٹ داخل کریں تو یقینا یہ ایک مثبت قدم ہوگا ۔
امید کے ہم ان فسادات سے سبق لے کر آگے بڑھیں گے اور ہرگز ان باتوں میں نہیں آئیں گے جنکے ذریعہ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت وقت جو کچھ کر رہی ہے وہ آپ سبھی کے لئے کر رہی ہے آپ سبھی ملک کے باشندے ہو آپ کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا ہم سبھی مذاہب کو ساتھ لیکر چلنے والے ہیں ، اگر یہ باتیں سچ ہوتیں تو یقینا نہ دہلی میں اتنے بھیانک فساد ہوتے اور نہ مسلمانوں پر اتنی کاری ضرب لگتی اور نہ ہی آج ہماری مائیں بہنیں مختلف جگہوں پر دھرنے پر بیٹھی ہوتیں ،
سی بڑی بات تھی پولیس کے لئے دنگائیوں کو لگام دینا جو پولیس چند طلباء کو پکڑنے کے لئے جامعہ ملیہ کے اندر گھس کر آنسو گیس کے گولے داغ سکتی ہے لاٹھی چارج کر سکتی ہے وہ پولیس دنگائیوں کے سامنے بے بس کیونکر ہو جاتی ہے یہ وہ سوال ہے جسکا جواب کسی کے پاس نہیں ہے اور جواب نہ ہونا ہی یہ بتاتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس مسلمانوں کے قتل عام اور انہیں تباہ کر دینے میں پولیس کے رول کا جواب نہیں ہے ان کے پاس کل یقینا مسلمانوں کی شہریت کے سلب کئے جانے کا بھی جواب نہیں ہوگا ۔لہذا ہم سب کو بہت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ، خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان لوگوں کی باز آباد کاری کے لئے مل جل کر آگے آنے کی ضرورت ہے جنکا سب کچھ ان فسادات کی نذر ہو گیا ، ہم مشکل کشا کے ماننے والے ہیں مشکلوں سے گھرے لوگوں کے ساتھ ہمارا سلوک ہمدردانہ و دلسوزانہ نہ ہوگا تو کس کا ہوگا ، امید کہ ہم سب سے جو بھی بن پڑے گا ان لوگوں کے لئے کریں گے جنہیں ان فسادات میں نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔یقینا اگر ہم خلق خدا کی مدد کریں گے تو خدا ہماری مدد کرے گا انشاء اللہ ۔

 


مشخصات

آخرین مطالب این وبلاگ

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها