خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: قرآن گزرگاہ تاریخ بنی نوع بشر پر جلتا ہوا وہ چراغ جو انسانی زندگی کے تمام پیچ و خم کو قابل دید بنا کر انسان کے ادنی یا اعلی ٰہونے میں مشعل راہ ہے ۔ علم و حکمت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا وہ بحر ذخار کہ علم و دانش کے شناور اس کی گہرائی میں جتنا بھی اترتے چلے جائیں ان کا دامن معرفت کے بیش بہا گوہروں سے اتنا ہی بھرتا چلا جائے ۔

لیکن افسوس! تہجر کے یخ زدہ پہاڑوں کو پگھلانے کے لئے جو کتاب نازل ہوئی تھی آج وہی کتاب تہجر کا شکار ہو کر آواز دے رہی ہے کہ دیکھو کس طرح مجھے ہی میرے ماننے والوں نے خود اپنے ہی وجود میں منجمد کر دیا … میں تو منجمد شدہ پیکروں کو آواز حق کی گرمی سے پگھلا کر اشرف المخلوقات انسان کو کماک کی انتہا پر پہچانے آئی تھی لیکن آج میرا وجود ہی ایک حرف بن کر رہ گیا ہے ۔

علی تاریخ بشریت کی مظلوم ترین شخصیت، اتنی بڑی کائنات میں وہ اکیلا انسان جو صدیا ں گزر جانے کے بعد بھی آج وہیں اکیلا کھڑا ہے جہاں صدیوں پہلے تھا اس انتظار میں کے شاید اسے کچھ وہ لوگ مل جائیں جو اس کے دل میں موجزن دریائے معرفت کے گوہروں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کا ظرف رکھتے ہوں، آج بھی علی تنہا ہے اسی طرح جیسے پہلے تنہا تھا۔ علی کی تنہائی تو کیا دور ہوتی بلکہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جا رہا ہے علی کی تنہائی بڑھتی جا رہی ہے بالکل قرآن کی طرح ۔
علی اور قرآن کتنی یکسانیت ہے دونوں میں؟ سچ کتنی اپنائیت ہے دونوں میں؟ جیسے دونوں کا وجود ایک دوسرے ہی کے لئے ہو دونوں ایک دوسرے کے درد کو سمجھتے ہوں … ایک دوسرے کے درد آشنا ہو مونس و ہم دم ہوں ہم راز و ساتھی ہوں ۔

کتنا عجیب اتفاق ہے امت محمدی کو مالک کی طرف سے دو عظیم عطیے ملے لیکن دونوں مظلوم ، دونوں تنہا ، دونوں درد کے مارے دونوں ستائے ہوئے لیکن آپس میں ہم آہنگ آپس میں ایک جاں دو قالب ہم آہنگ اس جہت سے کہ دونوں کا وجود رشد و ہدایت کی راہ میں مشعل راہ دونوں کا وجود مقدس، دونوں پاکیزہ، دونوں علم و معرفت کے بند ریچوں کو کھولنے والے، دونوں حقیقتوں سے روشناس کرانے والے دونوں صادق، دونوں خالق کے عظیم شاہکار حتی دونوں کا درد ایک دونوں کا غم بھی اس جہت سے ایک ہے کہ دونوں پر ظلم کرنے والے دوسرے نہیں خود ان کے اپنے ہی ماننے والے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو انہیں مقدس سمجھتے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو انکی عظمتوں کا کلمہ پڑھتے ہیں، خود وہی لوگ ہیں جو دونوں کو ہر وقت ورد کرتے نہیں تھکتے۔
 جس طرح آج کروڑوں لوگ اپنی زندگی میں صبح شام قرآن کا ورد کرتے نظر آتے ہیں ، قرآن کا تعویذ گلے میں ڈالے گھومتے ہیں قرآن کی آیتوں سے اپنے روز مرہ کے مسائل کو حل کرتے ہیں قرآن کی شفا بخش آیتوں سے اپنے امراض کو دور کرتے ہیں ،چھوٹی سی دکان سے لیکر بڑے بڑے مالوں تک میں قرآن کی آیات سجی رہتی ہیں کہ ان سے کاروبار میں برکت ہوتی ہے بڑی بڑی فیکٹریوں میں قرآنی آیات سے مزین طغرے سجے نظر آتے ہیں کہ حوادث روزگار اور بلائیں اس عمل سے دور ہوتی ہیں۔
 لیکن کتنے ایسے لوگ ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ قرآن کیوں آیا تھا ؟ اس کا مقصد کیا تھا؟ کتنے لوگوں کو قرآنی معارف سے آشنائی ہے کتنے لوگ اس کے مفاہیم سے واقف ہیں؟ کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ قرآن ان سے کیا کہہ رہا ہے؟ کتنے لوگ …
 اسی طرح علی کی ذات بھی ہے لوگ علی کا تذکرہ کرتے نہیں تھکتے صبح و شام علی علی کرتے ہیں ان کی محفلوں میں علی کا نام ہے ، مجلسوں میں علی کا ذکر ہے تقریبوں میں علی کا چرچا ہے ، نشستوں میں علی علی خلوت کدوں میں علی کا ورد ہے جلوت میں علی ہی علی کی دھوم ہے لیکن ان میں کتنے ہیں وہ لوگ جو یہ جانتے ہیں کہ یہ تاریخ کی عظیم اساطیری شخصیت کن اسرار کی حامل ہے؟ کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ علی کی جن فضیلتوں کا تذکرہ وہ دن بھر کرتے ہیں وہ تمام فضیلتیں تو علی کے فضائل کے سمندر کا ایک قطرہ بھی تو نہیں علی کی ذات تو کچھ اور ہی ہے؟
علی کی ذات کو نہ سمجھنا ایک مسئلہ ہے علی ع کے درد سے ناواقفیت اور بات ہے کیا ہم نے سوچا علی کا درد کیا تھا ؟ علی کو سا غم کھائے جا رہا تھا علی کیوں مار گزیدہ کی طرح تڑپا کرتے تھے؟ علی کی ریش مبارک کیوں آنسووں میں تر ہو جاتی تھی علی نخلستانوں میں جا کر اپنا سا غم بیان کرتے تھے؟ علی کنویں میں منھ ڈال کر کیوں روتے تھے؟ آج جس ضربت نے سر علی کو دوپارہ کر دیا اس پر رونے والے تو بہت مل جائیں گے لیکن وہ زخم زباں جنہوں نے علی کے حساس وجود کو اندر سے کرچی کرچی کر دیا اس پر رونے والا کوئی نہیں ملتا۔ وہ نشتر جو دل علی کے آر پار ہو گئے وہ بہت کم لوگوں کو نظر آتے ہیں ان پر رونے والا ہے؟
 کیا ہمیں علی کے دل کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے والے مصائب نظر آتے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی خود سے سوال کیا کہ آخر وہ سی مصیبت تھی وہ سا جانکاہ غم تھا جسکی وجہ سے راتوں کو علی کنویں میں سر ڈال کر رویا کرتے تھے ،کاش ہم اس راز کو سمجھ پاتے جسے علی اپنے گریہ کے ذریعہ بنی نوع بشر تک منتقل کرنا چاہتے تھے واقعی عاشقان علی کو جہاں علی کی مصیبتوں کا غم ہے وہیں ان کا دل یہ سوچ سوچ کر بھی پاش پاش ہونا چاہیے کہ علی ہم سے کیا کہنا چاہتے تھے ؟ وہ سی بات تھی جو علی اپنے چاہنے والوں سے کہنا چاہتے تھے کیا علی اپنے حق کی غصب ہو جانے کی وجہ سے گریہ کناں تھے یا علی کو اپنی شریک حیات فاطمہ زہرا سلام للہ علیھا پر پڑنے والی مصبیتں رلا رہی تھیں اور بعد فاطمہ علی فاطمہ بتول سلام اللہ علیھا کے غموں کو یاد کر کے روتے تھے؟ علی کو اپنی تنہائی کا غم تھا یا علی کو فراق رسول رونے پر مجبور کر رہا تھا ۔ آخر علی کیوں روتے تھے؟ ۔۔۔۔

 


مشخصات

آخرین مطالب این وبلاگ

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها